پروردگار عالم نے سورہ قلم ميں رسول اکرم (ص) کي ذات والا صفات کے مختلف پہلوئوں منجملہ آپ (ص) کے اخلاق کو بيان کرنے کے لئے ايک مقدس شئے يعني قلم کي قسم کھائي ہے، وہ قلم جو علم و دانش کي ترويج اور انساني تمدن و ثقافت کے کمال کا وسيلہ ہے، وہي قلم جس کي نوک سے جاري ہونے والے رشحات نے صفحات تاريخ پر علم و دانش اور تہذيب و تمدن کے نقوش کندہ کئے ہيں۔ آپ (ص) کي اخلاقي شخصيت کي تعريف و تمجيد کے لئے رب العزت نے آپ (ص)کے متعدد اوصاف کريمہ ميں صفت ''عظيم'' کا انتخاب کيا اور فرمايا:
{و انک لعلي خلق عظيم} (سورہ قلم، آيت4)
''اور آپ بلند ترين اخلاق کے درجہ پر ہيں۔''
شيخ طوسي زوجہ حضور اکرم (ص) سے روايت کرتے ہيں:
اخلاق پيغمبر وہي ہے جو سورہ مومنون کي پہلي دس آيتوں ميں بيان ہوا ہے: نماز ميں خشوع، لغو باتوں سے پرہيز، زکات کي ادائيگي، عفت وپاکدامني، وعدہ وفائي، امانتداري اور نماز کي پابندي۔
اس روايت کو نقل کرنے کے بعد شيخ فرماتے ہيں: خداوند کريم جس کي توصيف ''خلق عظيم'' کہہ کر کرے پھر اس سے بڑھ کرکوئي مدح و ستائش نہيں ہوسکتي۔
(التبيان في تفسير القرآن، شيخ طوسي، تحقيق احمد حبيب قصير العاملي، 7510، بيروت)
اہل سنت کي کتابوں ميں يہ روايت اس طرح بيان ہوئي ہے:
''ايک شخص نے زوجہ رسول (ص)سے آنحضرت کے اخلاق کے بارے ميں دريافت کيا تو انہوں نے جواب ميں کہا: کيا تم نے قرآن پڑھا ہے۔ اس نے کہا: جي ہاں! کہا: ''قرآن ہي تو اخلاق پيغمبر(ص) ہے۔''
(صحيح مسلم، نووي بيروت، دار الکتب الولي، 1407ھ، 7461)
خلق عظيم کي بلندي اس وقت آشکار ہوکر سامنے آتي ہے جب اس بات پر توجہ دي جائے کہ جس خدا نے نبي ?کے اخلاق و کردار کو عظيم کي صفت سے متصف کيا ہے اس خدا نے پوري دنيا کو حقير گردانا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے: {قل متاع الدنيا قليل} (سورہ نسائ، آيت77)
''کہہ ديجئے کہ دنيا کا سرمايہ بہت تھوڑا ہے۔''
البتہ واضح رہے کہ اسي تھوڑے سے سرمايہ کے لئے ارشاد ہوتا ہے:
{و ان تعدوا نعمة اللہ لا تحصوھا} (سورہ? ابراہيم، آيت34)
''اگر تم اس کي نعمتوں کو شمار کرنا چاہوگے تو ہرگز شمار نہيں کرسکتے۔''
اب ذرا سوچئے کہ جب انسان ان دنيوي نعمتوں کو شمار نہيں کرسکتا جو خدا کي نظر ميں حقير و قليل ہيں تو اخلاق و کردار پيغمبر اکرم (ص) کي عظمت کو کيسے درک کرسکتا ہے جسے خود خدا نے صفت ''عظيم'' سے متصف فرمايا ہے! ايک مفسر قرآن فرماتے ہيں کہ اللہ تبارک و تعالي نے حضرت محمد (ص) کے علاوہ کسي نبي کے لئے ''خلق عظيم'' کي تعبير استعمال نہيں کي ہے۔ (تفسير الکاشف)
پھر وہ لکھتے ہيں: اس آيہ مبارکہ کا ہي نچوڑ حضور اکرم (ص) کے اس فرمان ميں موجود ہے جس ميں آپ نے فرمايا: ''ميرے پروردگار نے ہي ميري پرورش کي اور ميري بہترين تربيت فرمائي۔'' يعني پروردگار عالم نے آپ (ص) کے اخلاق و کردار کو آپ کے مقصد خلقت کے مطابق قرار ديا ہے۔ (وہي حوالہ)
source : http://www.tebyan.net