دنیاکے سب بڑے بہادر انسان کی داستان جو حاکم وقت ہونے کے باوجود اپنی رعایا کے ظلم کا نشانہ نبا۔
دین الہی کامل ہوچکا تھا، خدا کی طرف سے رضایت کی سند بھی مل چکی تھی، رسول اسلام (ص) کی زندگی کے آخری ایام گذررہے تھے، مگر دولت کے بھوکے اقدار کی فکر میں بے چین تھے، اسلام کی جعلی ٹھیکیدار تخت و تاج کی گھات میں کسی خاص موقع کا انتظار کررہے تھے ـ
جیسے ہی رسول اسلام(ص) کی آنکھیں بند ہوئیں ظلم و استبداد کے کالے بادل دین کی فضا میں منڈلانے لگے اور اسلام کی سرزمین پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگے، خواہشات کے سمندر میں طغیانی پیدا ہوئی، مادیات کے طوفان بڑھے، ظلم و ستم کی سرخ و سیاہ آندھیاں چلنے لگیں اور غاصبانہ حملوں کا سیلاب اسلام کی سرحدوں میں داخل ہوگیا ـ لیکن حضرت علی علیہ السلام زمین پر خدا کی سب سے بہتر مخلوق یعنی حضرت محمد مصطفی (ص) کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے، ماحول بہت پرآشوب ہوچکا تھا، اب حضرت علی علیہ السلام کی مشکلوں کا دور شروع ہوچکاتھا کیونکہ امام علی (ع)کے لئے ایک طرف اسلام کی حفاظت کرنا شرعی فریضہ تھا اور دوسری طرف اپنا حق لینا بھی ضروری تھا آخر کار حضرت علی علیہ السلام کی مصروفیات اور شرافت نفس کے باعث مختلف سازشوں اور منصوبوں کے تحت کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ، اور باطل افکار و نظریات کے پیکر، طلسم ہوش ربا کو اسلام کی حکومت ہاتھ لگ گئی، یکے بعد دیگر آتے رہے اور بیت المال کے ذریعہ دین کو نیست و نابود کرتے رہے، یہاں تک کہ اس سلسلہ کا آخری دور آگیا ـاس زمانے میں بھی اسلامی افق پر بے حد اداسی تھی اسلامی احکام پامال کئے جارہے تھے، ہر طاقتور کمزور کا استحصال کررہاتھا، سکوں کی کھنک ہر روز نئے عقیدوں اور بدعتوں کا پابند بنارہی تھی، دین و ایمان صرف ذہنوں کی چہار دیواری میں محدود تھے، انسان ایک کٹھ پتلی کی طرح صاحبان اقتدار کے اشاروں پر ناچ رہا تھا، عقلیں خریدی جا رہی تھیں، ضمیروں کا کھلے عام سودا ہورہا تھا، فکریں نیلام کی جارہی تھیں، آزاد ضمیر انسانوں کی زبان بندی کے لئے خزانوں کے دہانے کھول دئیے گئے تھے، انعام و اکرام کی بارش اور سیم و زرکی زرق برق نے لوگوں کو سرجھکانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ظلم بازوؤں کی صلابت پر ثقابت کا انحصار تھا، تمام کمزور ناتواں ان کی چکیوں میں پس رہے تھے، اسلام کی امیدیں حسرت ویاس کا مجسمہ بن کر کھڑی تھیں، اعتدال پسند انسانوں کی اشکبار آنکھیں اسلام ظاہری پر گریہ کناں تھیں، روح و دل کی کسک ٹوٹ ٹوٹ کر ماحول پر برس رہی تھی ـ لیکن مولائے کائنات (ع) اپنی حکمت عملی کے ذریعے مذہبی بازیگروں اور دینی سوداگروں کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے ـ مگر اس سکوت میں دین کی ہمدردی، پامردی اور کوہ صفت استقلال اور چٹان صفت استقامت تھی اور اس خاموشی میں دشمنوں کے خلاف احتجاج بھی شامل تھا ـ بہر حال برسوں کی تلاش کے باوجود خلافت کے ہوا خواہوں کو کوئی اچھا خلیفہ نہ مل سکا ـ یکا یک مسلمانوں کی رگ دپئے میں بغاوت کا خون امڈپڑا اور قتل خلیفہ کا شور و غلغلہ سر زمین عرب پر گونجنے لگا ـ
خلیفہ کے قتل ہوتے ہی مسلمانوں کا اک گروہ امام علی (ع) کی بیعت کے لئے ان کے دروازے پر اس طرح ٹوٹ پڑا کہ قریب تھا کہ آپ کے دونوں پیر کے انگوٹھے لوگوں کے پیروں تلے کچل کر رہ جاتے ـ لوگوں کا اصرار بڑھا کہ امام علی (ع) خلافت کے عہدے کو قبول لرلیں مگر شیرخدا نے ان کے مطالبہ کو رد کر دیا اور انکار کرتے رہے اور جواب میں فرمایا مجھے بخشو " خلافت کے سلسلے میں " کسی اور کو تلاش کرو کیونکہ ہم عنقریب ایسے گوناگوں حالات سے دوچار ہونے والے ہیں جس کے مقابل عقل و ہوش برقرار نہیں رہ سکتے مگر پھر بعد میں لوگوں کے مسلسل اصرار اور منت و سماجت پر آپ نے خلافت کو قبول کرلیا تھا اور کیوں قبول کیا تھا ؟ خود آپ نے اس کی وجہ اور اسباب کو یوں بیان کیا " و لکنی آسی ان یلی الامر ھذا الامة سفھائھا و فجارھا فیتخذوا مال اللہ دولا وعبادہ خوفا ً الصالحین ــــ ـ ـ 1 مجھے خوف تھا کہ کہیں اس امت کی باگ ڈور احمقوں اور فاجروں کے ہاتھ نہ لگ جائے جو کہ بیت المال کو آپس میں تقسیم کر ڈالیں گے، خدا کے بندوں کو غلام بنالیں گے، نیکو کاروں سے برسر پیکار اور فاسق سے اتفاق کرلیں گے، بہر حال مولائے کائنات نے سسکتے اور بلکتے ہوئے اسلام کی تباہ حالت کو دیکھ کر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ـ دوبارہ اسلام کا مقدر چمکا، دین کی آرزوئیں مچلنے لگیں، اسلام کے منارہ وجود پر توحید کا جلترنگ گونجنے لگا، حق و صداقت کے جذبات مسلمانوں کی رگوں میں دوڑ نے لگے، اسلام کے گلشن حیات میں عدل اور انصاف کے گل کھلنے لگے، آسمان معرفت پر اصول و فروغ دین نیر تاباں کی طرح چمکنے لگے، گویا پھر سے اسلام کا شباب پلٹ آیا ـ
مگر دوسری طرف مسلمانوں نے گذشتہ برسوں کے دوران کچھ دوسرے ہی معیاروں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنالیاتھا کہ یہ معیار ایک عیش پسند اور غیر اسلامی اقدار سے ہم آہنگ معاشرے کے قالب میں ڈھلا ہوا تھا ـ جس کا سبب پے در پے فتوحات اور حکام کا لوگوں کی دینی تربیت نہ کرنا تھا ـ لیکن حضرت علی علیہ السلام نے ان کی عادتوں کے خلاف اسلامی قانون کے دائرے میں فرقے پرستی، تنگ نظری، عرب کو عجم پر برتری ـ ـ ـ ـ اور رومی و شامی کے درمیان کے اختلافات کو مٹادیا تھا " قسم بالسویہ وعدل فی الرعیة " 2 جب کچھ لوگوں بالخصوص طلحہ و زبیر نے اعتراض کیا کہ عمر کے زمانہ میں اس طرح کی تقسیمیں نہیں ہوتی تھیں تو آپ نے جواب میں فرمایا " و انی حاملکم علی منھج نبیکم افسنة رسول اللہ اولی باالاتباع ام سنة عمر " 3
امام کا یہ فعل سبب بنا کہ کچھ لوگ بیعت شکنی کے مرتکب ہوگئے اور آپ کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے بلکہ اسلام کی راہوں میں مشکل بن کر دیواروں کی طرح حائل ہوگئے ـ اس طرح مشکلوں کی شروعات ہوتی رہی لہذا امام نے فرمایا " اعلموا انہ قد وقع الامر الذی کنت احذرکم ایاہ ان الفتنة کالنار کلما اسعرت ازدادت و انما سأمسک ھذہ الامر ماتمسد ـ ـ ـ ـ " 4 جان لو کہ جس بات سے میں تمہیں روک رہا تھا وہ پیش آچکی ہے ـ بلاشبہ یہ فتنہ آگ کے مانند ہے ٬اس کے شعلے جس قدر بھڑکیں گے اتنا ہی اس کا دامن پھیلتا جائے گامیں اس امر کی نگہبانی اس وقت تک کروں گا جب تک میرے لئے ممکن ہوگا ـ چونکہ ہزاروں قسم کی بدعتیں پھیلا رکھی تھیں جس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا، خلیفہ اول اقرار کرچکے تھے کہ رسول (ص) پر وحی ہوتی تھی لیکن مجھ پر وحی نہیں آتی لہذا میں اجتہاد اور اپنی مصلحتوں سے عمل کروں گا، خلیفہ دوم حسبنا کتاب اللہ کے قائل تھے اور یہ کہہ کر اس دنیا سے گئے تھے کہ جانشین معین نہ کرنا سنت نبی ہے اور جانشین معین کرنا سنت ابوبکر ہے، اسی طرح خلیفہ سوم نے بھی پیغمبر (ص) کے خلاف منی میں نماز تمام پڑھی جس کو لوگوں نے حجت سمجھا اور حد تو یہ ہوگئی تھی کہ احادیث کی جمع آوری پر پابندیاں تھیں ـ جس کے لئے بہانہ تراشا کہ قرآن و احادیث آپس میں مخلوط ہوجائیں گی ـ اور اس کے بدلے وہ لوگ اپنی ذاتی رائے سے اجتہاد، قیاس اور استحسان کرتے تھے ـ خلیفہ دوم نے نماز تراویح کی بنیاد ڈالی تھی ـ لہذا کچھ لوگ نماز تراویح کے لئے امام علی (ع) کے پاس آئے اور آپ کو امام جماعت بنانا چاہا لیکن جب آپ نے ان کو منع کردیا تو سب کے سب وارمضاناہ کی صدائیں بلند کرنے لگے، اس طرح سے مختلف ڈھنگ سے بدعتیں پھیلارکھی تھیں جس کا قلع قمع کرنا بہت ہی مشکل تھا ـ غرض کہ مسلمانوں میں غلط شبہے، ناقص فکریں اور مختلف قسم کی بدعتیں راسخ ہو چکی تھیں اسی لئے حضرت علی (ع) نے ان تمام چیزوں کو داخلی جنگوں کا سبب اصلی مانا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: "ولکنا انما اصبحنا نقاتل اخواننا فی الاسلام علی ما دخل فیہ من لرزیغ والاعو جاج والشبہ و التاویل " 5 اور دوسری طرف معاشرہ بالکل فاسد ہوچکا تھا ـ کیونکہ سابق حکام عیش پرستی اور آرام طلبی میں مگر رہتے تھے ـ لہذا عوام بھی انھیں کے اتباع میں عیش و عشرت اور طرب و نشات میں غرق ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے ایمان کی قدروقیمت اور روح ایمان ان کے دلوں میں ضعیف سے ضعیف تر ہوتی گئی ـ نتیجہ میں اسلامی معاشرہ فتنہ و فساد کے سمندر میں غرق ہونے لگا جس کی اصلاح کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا ـ اسی لئے امام علی علیہ السلام نے اس معاشرہ کو ایک جاہل معاشرہ سے تعبیر کیا ہے "آگاہ ہوجاؤ کہ تم ایسے زمانہ سے گذررہے ہو جس میں حق بولنے والوں کی تعداد کم اور صداقت کی زبان گنگ اور حق کا پیرو کار ذلت کا شکار ہے اور ابنائے روزگار معصیت پروردگار کے خوگر، اور چاپلوسی کے عادی ہوچکے ہیں ـ جوانوں کو دیکھو تو شرم وحیا سے عاری اور بوڑھے خوف خدا سے بے باک ہیں اور جو اپنے کو عالم کہتے ہیں وہ نفاق کے پیکر ہیں " 6 لہذا آپ نے تخت خلافت پر آتے ہی فتنہ و فساد کرنے والے چاپلوس عاملوں اور گماشتوں کو دین مبین اسلام کے مقدس عہدوں سے ہٹا دیا ـ جس کی وجہ سے جاہ وحشم کے لالچ اور درہم و دینار کی تھیلیون نے ان لوگوں کو امام (ع) کے مقابل کھڑا کردیا تھا ـ اور دوسری طرف مخمل کے فرش پر چلنے والے اور پھولوں کی سیج پر سونے والے ظالم و فاسد حکام مادیت میں غرق ہوکر پندرہ بیس سال سے اسلام کو نابود کررہے تھے، جن کو معزول کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا ـ لیکن پھر بھی حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ماقبل خلیفہ کے فاسد العقیدہ کا رندوں کو بصرہ، یمن، مکہ اور مصر سے معزول کردیا جن میں معاویہ ابن ابی سفیان سرفہرست ہے ـ
جب حضرت علی علیہ السلام نے اس کی معزولی کا حکم نامہ بھیجا تو اس نے قتل عثمان ک بہانہ لیکر مسلمانوں کو امام علی (ع) کے خلاف خوب بہکایا اور آپ کو قاتل عثمان ٹھہرایا جس کے نتیجہ میں صفین کا معرکہ دیکھنا پڑا ـ اور ادھر سے زوجہ رسول (ص) حضرت عائشہ نے بھی اپنی دشمنی اور حسد کی آگ بجھانے لے لئے قتل عثمان کا بہانہ لیکر امام علی (ع) کو قاتل ٹھہرایا، جب کہ عثمان کے قتل میں جناب عائشہ کا خود ہاتھ تھاـ کیونکہ حضرت عمر کے زمانے میں ام المومین عائشہ کو بیت المال سے بارہ ہزار درہم ملتے تھے جس کو خلیفہ سوم نے کم کرکے چھ ہزار درہم کردیا تھا اسی لئے جناب عائشہ نے حضرت عثمان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا " اقتلو انعثلاً قتل اللہ نعثلاً " 7
ادھر اس قتل کا ہونا تھا کہ معاویہ نے رو پہلے سکوں کے عوض طلحہ و زبیر کو کوفہ و بصرہ کی گوونری کا لالچ دلا کر خرید لیا اور ان دونوں کو حضرت علی (ع) کے خلاف لڑنے پر آمادہ کر لیا جس نتیجے میں طلحہ و زبیر عمرہ کے بہانہ مکہ معظم میں ام المومنین عائشہ سے جاملے اسی لئے امام (ع) نے فرمایا تھا " واللہ ماارادا العمرة و لکنھا ارادا الغدرة " 8
وہاں پہونچ کر عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ کےمختلف حکام نےمل کر لشکر تیار کیا اور بصرہ پر حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ امام علی (ع) کے گورنر عثمان ابن حنیف کو پچاس آدمیوں کے ساتھ شہید کر ڈالا جس کے نتیجہ میں جنگ جمل سامنے آئی جب طلحہ وزبیر نے عثمان کے خوں بہاکا مطالبہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا تھا کہ ( خون عثمان تمہاری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور ہم سے مطالبہ کرتے ہو؟) اور معاویہ تو پہلے ہی سے اپنے لشکر تیار کررہا تھا، اس نے مولائے کائنات کے خلاف اس قدر لوگوں کو بھڑکایا کہ العیاذ باللہ شامی لشکر امام علی (ع) کو بے نمازی سمجھ رہا تھا، اور پچاس ہزار بوڑھے مرد، عثمان کے خون آلود پیراہن کے نیچے ماتم کررہے تھے ـ معاویہ نے بیت المال سے اتنی زیادہ دولت خرچ کی کہ ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی حضرت علی (ع) کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے نتیجہ میں جنگ صفین رونما ہوئی ـ اس جنگ میں جب معاویہ کے لشکر والوں نے نیزوں پر قرآن بلند کیا تو فریب خوردہ متقی، تقدس، مآب، ناعاقبت اندیش بے سواد خوارج نے حضرت علی (ع) سے بغاوت کردی اور آپ کے کلام پر معاویہ کے بیان ترجیح دینے لگے بلکہ امام علی (ع) پر کفر کا بہتان باندھ کر ان سے توبہ کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ـ
جس کی وجہ سے حضرت علی (ع) آخری ایام میں حکومت علی (ع) تن تنہا دشمنوں کے نرغے میں رہ کر عزم محکم اور ثابت قدمی کے ساتھ دین الہی کا دفاع کرتے رہے لہذا اگر امام علی (ع) کو پہلا مظلوم تاریخ کہا جائےتو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا ـ کیونکہ ہمیشہ مختلف قسم کے نئے نئے دشمن پیدا ہوتے رہے جو ان کی حکومت کی بنیاد اور اسلام کے بارآور اور سرسبز درخت کی جڑوں کو کھوکھلا کئے تو کبھی بنی امیہ نے آپ کے خلاف پرپگنڈے کئے تو کبھی سیاسی حاسدوں اور قبیلوں نے آپ کا راستہ روکا، کبھی بدر واحد کے شکست خوردہ کینہ پروردین کی راہ میں حائل ہرئے تو کبھی ہٹ دھر ضدی مزاج اور نکتہ چینیوں نے سازشیں کیں ـ کبھی بیت المال کے لیڈروں نے اپنے طاقت دکھائی تو کبھی فتنہ گروں نے آپ کے خلاف فتنہ پھیلایا کبھی خائن مسلمانوں نے خیانت کی تو کبھی منافقوں نے منافقت کی، کبھی زوجہ رسول (ص) عائشہ نے آپ کے مقابلہ میں معرکہ آرائی کی تو کبھی معاویہ نے آپ سے رزم آرائی کی، کبھی عائشہ نے آپ کے خلاف و رغلایا تو کبھی طلحہ وزبیر نے بیعت شکنی کی، کبھی خوارج نے آپ سے بغاوت کی تو کبھی فاسد حکام نے فریب دیا ـ اور دوسری طرف حضرت علی (ع) کی عدالت، ان کا عرب و عجم کو ایک نظر سے دیکھنا، رسول (ص) کی منحرف شدہ سنتوں کا نافذ کرنا، اصلاح معاشرہ، فاسد ظالم و حکام کو معزول کرنا، بیت المال کے قابضوں کو باہر نکالنا یہی وہ سب چیزیں تھیں جو امام علی (ع)کے عدل و انصاف پر استوار ہونے والی حکومت حق کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں ـ اور دین اسلام کے راستے میں چٹانوں کی طرح کھڑی ہو گئیں ـ بہر حال کوئی ایک دو مشکلیں نہیں بلکہ سینکڑوں مشکلیں تھیں جو اک باغی لشکر کی شکل میں حضرت علی (ع) کے خلاف کھڑی ہوگئیں تھیں ـ آخر کار معاشرہ اپنی دیرینہ روش سے ہٹ گیا کیونکہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ عوام حکام سے ڈرتی ہے لیکن عصر امیر المومنین (ع) میں حاکم اپنی رعایا سے خائف تھا جس کی طرف حضرت علی (ع) نے ان جملوں میں ارشاد فرمایا " لقد اصبحت الامم تخالف ظلم رعاتھا و اصبحت ظلم رعیتی " 9 گزشتہ امتیں ہمیشہ اپنے حکام ظلم سے خوفزدہ رہتی تھیں لیکن آج میں اپنی رعایا کے ظلم سے خوفزدہ ہوں جب کہ امام علی (ع) دنیا کے سب سے بڑے بہادر انسان تھے جن کے سامنے بڑے بڑے سانتوں کی پنڈلیاں کا نپتی تھیں عرب وعجم کے بڑے بڑے سورما آپ کو دیکھ کر راہ فرار ڈھونڈتے تھے مگر زمانہ کی فتنہ انگیز آندھیوں نے دنیا کا سب بڑا مظلوم بنادیا جیسا کہ آپ نے خطبہ شقشقیہ میں فرمایا ہے کہ میں (وہ کوہ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کاپانی گذرکر نیچے گرجاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مارسکتا (اس کے باوجود ) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکادیا اور اس پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مومن جد و جہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہونچ جاتا ہے ـ مجھے اس اندھیرپر صبر ہی قرین عقل نظر آیا لہذا میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھوں لگے ہوئے تھے اور میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہاتھا ـ
اگر چہ یہ جملے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت سے قبل کے ماحول کی عکاسی کررہے ہیں لیکن امام علی علیہ السلام اپنے خلافت کے دوران بھی بالکل اسی طرح چاروں طرف سے مصیبتوں کے گھراؤ میں شکستہ کمر اور دشمن کے ظلم سے عاجز آکر خون کے آنسو پیتے رہے ـ مگر دین کے حریفوں سے دوچار نہیں ہونے دیا ـ بلکہ ظلم و ستم کے خوفناک معرکہ میں سروتن کی بازی لگائی ہوئے ظلم و استبداد کی خوں آشام آندھیوں سے ٹکراتے رہے وہ طغیان وہ بربریت کے بھر پور حملوں کی زد پر تھے اور انھیں اپنی خوں چکاں پشت پرور کے ہوئے ایک فولادی چٹان کی طرح ایستادہ تھے اور ایک برق تپاں شعلہ جوالہ کا روپ دھارے ہوئے حملہ آوروں پر اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے شیر کی طرح حملے کرتے رہے اور چہار جانب عدل وانصاف کی روشنی بکھیر تے رہے یہاں تک کہ اس چراغ عدالت و ہدایت کو خاموش کردیا گیا مگر وہ چراغ ابد کے لئے اپنی روشنی چھوڑ گیا ـ
1. نہج البلاغہ نامہ ۱۸۳ ـ
2. تاریخ تحلیل اسلام، استاد حسنی، باب خلافت ـ
3. ایضاً ـ
4. مجلہ توحید خصوصی شمارہ ماہ رجب المرجب ـ
5. نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۲ ـ
6. نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۳ ـ
7. تاریخ تحلیلی اسلام، استاد حسنی، باب خلافت ـ
8. ایضا ً
9. ایضاً
source : http://www.sadeqin.com