اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

عالم اسلام کے مسائل امت کے اتحاد کے متقاضی

میانمار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس ملک کے مسلمان باشندوں پر جاری مسلسل ظلم و ستم کے نتیجے میں لاکھوں روہنگيا مسلمان بھوک مری ، بیماریوں اور موت کی زد میں ہیں۔ ان حالات کےپیش نظر میانمار کے مسلمان رہنماؤں نے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ سے اپیل کی ہےکہ مسلمانوں کو انتھا پسند بودھوں کے تشدد سے بچانے کے لئے میانمار کے مغربی علاقے میں محافظ امن فوج تعینات کرے۔ مسلمان رہنماؤں نے بودھوں کے ہاتھوں جاری مسلمانوں کے قتل عام کی دوسری لہر کے بعد یہ اپیل کی ہے۔ ادھر اطلاعات ہیں کہ میانمار کے مسلمانوں کی تنظیموں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں بیانات نشر کرکے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ اس بیان پر دس عالمی تنظیموں نے دستخط کئے ہیں اور انہیں متعدد ملکوں میں بھیجا جاچکا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ نے روہنگيا مسلمانوں کو سب سے زیادہ ستم رسیدہ قوم قراردیا ہے۔ واضح رہے اقوام متحدہ کا یہ بیان بذات خود صحیح ہے کہ روہنگيامسلمانوں پر بڑے عرصے سے ظلم وستم ہورہا ہے لیکن کیا اقوام متحدہ اپنے اس بیان سے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کررہی ہے یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے جس پر مسلمانوں کو سوچنا ہوگا۔ یہاں ہم دونوں قوموں کے مسائل کا مقابلہ کرکے فلسطین یا میانمار کے مسلمانوں کے مسائل کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتے بلکہ یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ عالمی ادارے جن پر سامراج کی مضبوط گرفت ہے ان کا کوئي بیان یا اقدام مسلمانوں کی بھلائي میں نہیں ہوتا ہے۔ روہینگيا مسلمانوں کی آج جو حالت ہورہی ہے اس میں اسلامی ملکوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آج امت اسلامی اس قدر اختلافات کا شکار ہے کہ وہ عالم اسلام  کا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ حل نہیں کرسکتی۔ اس امت کا حال کیا ہوگا جس کے مقدس ترین مقامات مکے اور مدینے پر قابض حکمرانوں کا قبلہ وہائٹ ہاوس ہوگا۔ نام نہاد بڑے اسلامی ممالک آج کل نہ صرف امۃ اسلامی کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں بلکہ خود اختلافات اور دشمنی کا بڑا سبب ہیں۔ سعودی عرب نے جسے بیت اللہ الحرام اور مسجد النبی کی خدمت کا داعیہ ہے اس وقت عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے حکام جہاں سے ہر سال موسم حج میں قرآن کریم کے لاکھوں نسخے حجاج کرام کو مفت تقسیم کئے جاتے ہیں کیا اتنا نہیں جانتے کہ قرآن نے ایک مسلمان کے بلاجواز قتل کو ساری انسانیت کا قتل قراردیا ہے۔ سعودی عرب کےبدو حکام تک قرآن کریم کا یہ حکم تو ضرور پہنچا ہی ہوگا یا ان کے درباری ملاؤں نے آل سعود کو اس حکم خداوندی سے مستثنی قراردیا ہے؟  مختلف حلقوں کے مطابق سعودی عرب ہی عراق اور شام میں جاری دہشتگردی کا ذمہ دار ہے۔ اس کےعلاوہ یمن، بحرین اور پاکستان و افغانستان میں وہابیت کے حمایت یافتہ  گروہ ہی دہشتگردی پھیلارہے ہیں۔

سامعین اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہےکہ ملت اسلامی کے سامنے میانمار جیسی صورتحال کیوں آتی ہے؟ کشمیر کا مسئلہ کس وجہ سے سراٹھاتا ہے؟ افغانستان پر دس برسوں سے سامراج اور شیطانی طاقتوں کا قبضہ کس وجہ سے باقی رہتا ہے؟ چیچنیا میں مسلمانوں کے علاقوں کو خاک میں کیوں ملادیا جاتا ہے، بوسنیا اور ہرزگوئينا میں دسیوں ہزار افراد کو تہ تیغ کیوں کیاجاتا ہے؟ پاکستان پر آئے دن ڈرون حملوں میں نہتے اور بے گناہ عوام بالخصوص عورتیں اور بچے کیوں مارے جاتے ہیں، عراق پر امریکی دہشتگردی کے بعد مختلف علاقوں میں ناقص بچے کیوں پیداہونے لگتے ہیں؟ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہرسطح پر امتیاز و تعصب کیوں برتا جاتا ہے؟ افریقہ کے متعدد ملکوں میں دسیوں برسوں سےخانہ جنگي کیوں جاری رہتی ہے،مسلمان ملک سوڈان کے جنوبی حصے کو کیوں الگ کردیا جاتا ہے اور صیہونی حکومت لپک کر اسے اپنی آغوش میں کیوں لے لیتی ہے؟ پاکستان میں ہرگلی کوچے میں کلاشنکوف بردار نوجوان ایک دوسرے کاخون پینے کے لئے کیوں تیار رہتےہیں؟ کیا ہمارے قومی لیڈروں یا مذہبی رہنماؤں اور سیاسی بساط پر چل چلنے والے شاطر کھلاڑیوں کےپاس ان سوالوں کے جواب ہیں یا وہ خود مورد سوال ہیں کہ یہ ساری چیزیں ان ہی کی مرہون منت ہیں؟ آج اسلامی امۃ کا پیکر نازنین زخموں سے چور ہے کیا ہم اپنے مسائل کا ذمہ دار صرف اور صرف دشمن کو قراردے کر اپنا دامن بچاسکتے ہیں؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے، آج کی جوان نسل ہر مسئلے پر سوالیہ نشان لگانے کی عادی ہوچکی ہے اور اپنے ہر مسئلے کے حل کے ساتھ ساتھ اسکی علت کی جویا بھی ہوتی ہے۔ امت اسلامی کے پیکر پرزحم لگانے میں سامراجی دشمن اور صیہونیت کے ساتھ ساتھ خود اسلامی امت کے نام نہاد عناصر بھی شامل ہیں۔اگر نام نہاد اسلامی ممالک کے حکام سامراج کے سامنے سرتسلیم خم نہ  ہوں اور اپنے دین و تہذیب کی اقدار کو پامال نہ کریں تو یقین جانئے یہ صورتحال کبھی پیش نہیں آئے گي۔

مسلمانوں کی پسماندگي اور فکری زوال نیز تہذیبی اضمحلال کا ایک نمونہ جمہوریہ آذربائجان ہے۔ اس ملک میں حکومت اور اسکے جیرہ خوار سراسر اسلام اور ملت کے عقائد اور اپنی تہذیب کے اصولوں کے منافی اقدامات کررہے ہیں۔ سوفیصدی مسلم آبادی کے اس ملک میں  ہمجنس پرستوں کے پریڈ کی منصوبہ بندی اور اس کے لئے مسلمانوں کے پیسے کو پانی کی طرح سامراج کی اباحیت  پسندی کے منصوبوں پر بہانا مسلمان رہنماوں کی بے حسی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟

 سامراج تو ٹہرا امت اسلامی کا دشمن وہ آپ سے کبھی بھی ہمدردی نہیں کرسکتا بلکہ آپ کو نابود کرنے کی فکر میں ہی لگارہتا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت اس کا ایک  منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ اور اس کے چیلے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایران ایٹم بنانے کے درپئے نہیں ہے لیکن وہ چاہتا ہےکہ اسلامی ممالک پسماندہ رہیں اور ترقی نہ کرپائيں اور اگر ایران جیسا انقلابی ملک ترقی کرلے گا تو سامراج اور اس کے چيلوں کے چراغ بچھ جائيں گے۔ میانمار کے مسلمانوں کی حمایت جس قدر اسلامی جمہوریہ ایران نے کی ہے شاید ہی کسی ملک نے کی ہو۔ میانمار، بحرین اور کشمیر جیسے مسائل کے تعلق سے امت کے شعور کو جگانے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلم امۃ عالمی سطح پر جاری اپنے مسائل کو شعوری طور پر سمجھنے لگے گي تو شاید ان مسائل کے حل کرنے کے لئے اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال سکے۔ میانمار کا مسئلہ حل کرنے کےلئے ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلایا جائے اور مسلمان ممالک فوری طور پر متحدہ حکمت عملی اپنا کر روہینگيا مسلمانوں کے حقوق کے احترام کو یقینی بنائيں۔ سامراج اور صیہونیت کی یکہ تازیوں کے زمانے میں اگر امت اسلامی نے متحد ہوکراور سامراج وصیہونیت سے علیحدگي اختیار کرکے انپے مسائل حل کرنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں ہرروز ایک میانمار کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس وقت ہمارا کوئي پرسان حال نہ ہوگا۔ انقلاب اسلامی نے مسلم امۃ کو یہی پیغام دیا ہےکہ اسے اپنا کھویا ہوا تشخص  حاصل کرنا ہوگا کیونکہ یہی اس کی بقا کا ضامن ہے۔ اسلامی ملکوں میں اسلامی بیداری کی تحریک اور سامراج کے پٹھووں کی سرنگوں یہ بتارہی ہے اب امت اسلامی اپنے تشخص کے حصول کی کوشش کررہی ہے اور جب اسے اپنی عظمت رفتہ حاصل ہوجائے گي تو ساری دنیا میں لاالہ الاللہ کا پرچم لہراجائے گا۔      


source : http://urdu.irib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔

 
user comment