ان دنوں ہم اسوہ حسنہ کی میلاد مبارک منا رہے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی جبکہ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ آپ سترہ ربیع الاول کو اس عالم فانی میں تشریف لائے۔ ان تاریخوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران میں ہفتہ وحدت منایا جاتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی خامنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک تمام زمانوں میں اتحاد کا محور رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ ہر مسلمان آپ کے وجود مقدس سے عشق و محبت رکھتا ہے۔ لہذا آپ کی ذات اقدس مسلمانوں کے جذبات اور عقائد کا محور ہے اور یہی محوریت مسلمانوں کے درمیاں انس و محبت اور اسلامی فرقوں کی نزدیکی کا سبب ہے۔
اب اگر اصولوں میں قربت ہو اور مقاصد ایک جیسے ہوں تو مسلمانوں کی جمعیت عظیم پر اتحاد کے بادل سایہ فگن ہوجائيں گے۔ برادری اور اتحاد مسلمانوں کی فکری اور اعتقادی بنیادوں کی اصلاح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ ہائے کار میں سے ایک ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سات سو چالیس صحابہ کے ساتھ نخیلہ کے مقام پر تھے کہ جبریل امین نازل ہوئے اور فرمایا خدا نے فرشتوں کے درمیاں پیمان اخوت باندھا ہے تو اسی اساس پر آپ (ص) نے بھی اصحاب کے درمیاں عقد اخوت باندھا اور حضرت علی (ع) کو اپنا بھائی قرار دیا۔ یہ پیمان برادری اس قدر مستحکم اور پائیدار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے جنگ احد کے دو شہیدوں عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموح کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گيا تھا۔
جس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آفاقی رسالت کے حامل تھے۔ آپ کو جہالت و ناانصافی کے خاتمے کے لئے بھیجا گيا تھا۔ آج بھی مادہ پرستی کی فریبکاریوں کے زیر سایہ انسان پر ماڈرن جہالت مسلط کر دی گئی ہے، لہذا آج کا انسان بھی معنویت، پاکیزگی، اخلاق و معارف جیسے ہادی اصولوں کا محتاج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دنوں میں سب سے بڑی نیکی انسانیت کو توحید، اخلاق و عدالت سے آشنا کرنا ہے۔ آج ہماری دنیا ایسے نور کی ضرورت محسوس کر رہی ہے، جو تعلیمات وحی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوستی آزادی اور سلامتی کے منادی ہیں، ان کے پیرووں کو چاہیے کہ وہ خود کو باطنی آلودگیوں اور پستیوں سے پاک و صاف کریں، جن سے دنیا میں فساد پھیل چکا ہے، تاکہ صحیح شعور اور دانشمندانہ زندگی گذارنے کے طریقون سے واقف ہوسکیں۔ اگر مسلمان اپنی فردی اور اجتماعی زندگی اور حکومت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام ساری انسانیت تک پہنچادے گا اور خود اسے عزت و عظمت حاصل ہوجائے گی۔ آج مسلمان بیدار ہوچکا ہے اور اس کا رجحان اپنے دین کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اگر مسلمان متحد ہوجائے اور باطنی سطح پر الہی صفات اور انسانی کمالات کا حامل ہوجائے تو نہ صرف خود بلکہ ساری انسانیت کے لئے امید افزا اور منصفانہ پیغام کا حامل ہوجائے گا۔
خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کو ایمانی رشتے میں جوڑ کر قومی، قبائلی اور نسلی امتیازات ختم کر دئیے، اس طرح آپ نے دنیا کے سامنے ایسا دین پیش کیا جو اعلٰی ترین اقدار کا حامل ہے۔ اس دین کو خدا اور اس کے رسول (ص) نے اسلام کے نام سے موسوم سے کیا اور اس کے ماننے والے مسلمان کہلائے۔ توحید ،نبوت، معاد، اسلام کے بنیادی ارکان ہيں اور جو ان ارکان پر باور رکھتا ہے، اسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا ہے کہ اسلام کے کچھ آداب ہیں، جن کا بجالانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے محفوظ رہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنیں۔
ظلم ناقابل معافی گناہوں میں سے ہے۔ دوسروں کےحقوق کی پامالی اور ان کے حقوق پر تجاوز، انسانوں کے جسمانی اور ذہنی سکون اور آسائش کی تباہی، تفرقے اور جدائی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھائی چارے اور ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے جذبوں کو زندہ کیا تھا اور انہیں زندہ رکھنے پر تاکید فرمائی ہے، آپ (ص) فرماتے ہيں مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ستم نہیں کرتا، اسے گالی نہیں دیتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پیمان برادری سے بڑھ کر اس رشتے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت ہے۔ اسلامی روایات میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اپنے برادران دینی کو چھوڑ دیتے ہیں، روایات میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ آمد و رفت بند کر دی ہے تو تم ان کے ساتھ آمد و رفت کرو، اگر تم سے ناطہ توڑ لیا ہے تو تم ناطہ جوڑ لو۔
خیانت اور جھوٹ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے کترانا اتحاد، آپسی محبت اور اسلامی معاشرے کی ترقی میں روکاوٹ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی، اس سے جھوٹ نہیں بولتا، اور اسکی مدد کرنے سے نہیں چوکتا۔ واضح سی بات ہے کہ جھوٹ اور خیانت اعتماد کو زائل کر دیتے ہیں اور اس سے معاشرے میں ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں مسلمان ذلیل و خوار ہوجائے تو دشمن آسانی سے اس پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے اور ان کے ذخائر لوٹ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے، ایک طرف سے اپنے بھائی کے اقدار اور اسکی فضیلتوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہيں اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف سے اس کی برائيوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے بھی خبردار کرتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشی زندگی کی بنیادیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں، نیز ایک دوسرے کی ترقی کے اسباب فراہم کریں۔ آج عالم اسلام کو اس چیز کی نہایت شدید ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ پانی، درخت اور ساری چیزیں اس کے لئے ہیں۔
قارئین، اس حدیث کو شاید ہی کسی نے نہ سنا ہوگا، آپ (ص) فرماتے ہیں جو بھی صبح کرے اور مسلمانوں کے مسائل کی اسے فکر نہ ہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔ دینی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل ایک عام لفظ ہے، کیونکہ اس میں اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے سارے مسائل شامل ہیں۔ لہذا مسلمانوں کے کسی مسئلے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ عزت و سربلندی صرف خدا و رسول اور مومنین سے مخصوص ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ایک سو پینسٹھ میں بھی کہا گيا ہے کہ قدرت صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کرکے اسلام کو عزت اور خود کو سعادتمندی سے ہمکنار کرتے۔ قرآن نے مسلمانون کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی ہے، ارشاد ہوتا ہے، محمد (ص) خدا کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کےساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف سخت اور شدید اور مومین کے ساتھ نرم ہیں، تم انہیں ہمیشہ رکوع و سجود کی حالت میں پاوگئے، جبکہ وہ خدا کی مرضی اور اسکے فضل کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان نمایاں ہیں۔
جس دن سرزمین کعبہ پر نبوت کا سورج طلوع ہوا تھا، کسی کے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ خدا کا یہ سفیر خواب جہالت میں گرفتار انسانیت کو انحطاط ذلت سے نکال کر منزل شرف پر پہنچادے گا۔ محمد امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان، پاکیزگی، کرامت، صداقت و محبت سے انسان کی ہدایت کا بیڑا اٹھایا اور توحید کا نعرہ لگا کر تشنگان حقیقت کے بےجان جسم میں روح معنویت پھونک دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و رہبری سراسر دانشمندی اور درایت کا اعلٰی ترین نمونہ تھی۔ آپ نے مومنین کو آپس میں بھائی بنا کر تفرقہ اور پراکندگی کو اتحاد و دوستی میں تبدیل کر دیا تھا۔ مہاجر و انصار کو آپس میں بھائی بنا کر دلوں کو جاہلیت کے کینے سے پا ک کر دیا۔ پیغمبر رحمت نے برادری اور بھائی چارے کو پائیدار بنانے کے لئے یہ پیغام وحی دیا کہ "سب مل کر خدا کی رسی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔"
ان دنوں ہم اسوہ حسنہ کی میلاد مبارک منا رہے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی جبکہ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ آپ سترہ ربیع الاول کو اس عالم فانی میں تشریف لائے۔ ان تاریخوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران میں ہفتہ وحدت منایا جاتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی خامنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک تمام زمانوں میں اتحاد کا محور رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ ہر مسلمان آپ کے وجود مقدس سے عشق و محبت رکھتا ہے۔ لہذا آپ کی ذات اقدس مسلمانوں کے جذبات اور عقائد کا محور ہے اور یہی محوریت مسلمانوں کے درمیاں انس و محبت اور اسلامی فرقوں کی نزدیکی کا سبب ہے۔
اب اگر اصولوں میں قربت ہو اور مقاصد ایک جیسے ہوں تو مسلمانوں کی جمعیت عظیم پر اتحاد کے بادل سایہ فگن ہوجائيں گے۔ برادری اور اتحاد مسلمانوں کی فکری اور اعتقادی بنیادوں کی اصلاح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ ہائے کار میں سے ایک ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سات سو چالیس صحابہ کے ساتھ نخیلہ کے مقام پر تھے کہ جبریل امین نازل ہوئے اور فرمایا خدا نے فرشتوں کے درمیاں پیمان اخوت باندھا ہے تو اسی اساس پر آپ (ص) نے بھی اصحاب کے درمیاں عقد اخوت باندھا اور حضرت علی (ع) کو اپنا بھائی قرار دیا۔ یہ پیمان برادری اس قدر مستحکم اور پائیدار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے جنگ احد کے دو شہیدوں عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموح کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گيا تھا۔
جس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آفاقی رسالت کے حامل تھے۔ آپ کو جہالت و ناانصافی کے خاتمے کے لئے بھیجا گيا تھا۔ آج بھی مادہ پرستی کی فریبکاریوں کے زیر سایہ انسان پر ماڈرن جہالت مسلط کر دی گئی ہے، لہذا آج کا انسان بھی معنویت، پاکیزگی، اخلاق و معارف جیسے ہادی اصولوں کا محتاج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دنوں میں سب سے بڑی نیکی انسانیت کو توحید، اخلاق و عدالت سے آشنا کرنا ہے۔ آج ہماری دنیا ایسے نور کی ضرورت محسوس کر رہی ہے، جو تعلیمات وحی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوستی آزادی اور سلامتی کے منادی ہیں، ان کے پیرووں کو چاہیے کہ وہ خود کو باطنی آلودگیوں اور پستیوں سے پاک و صاف کریں، جن سے دنیا میں فساد پھیل چکا ہے، تاکہ صحیح شعور اور دانشمندانہ زندگی گذارنے کے طریقون سے واقف ہوسکیں۔ اگر مسلمان اپنی فردی اور اجتماعی زندگی اور حکومت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام ساری انسانیت تک پہنچادے گا اور خود اسے عزت و عظمت حاصل ہوجائے گی۔ آج مسلمان بیدار ہوچکا ہے اور اس کا رجحان اپنے دین کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اگر مسلمان متحد ہوجائے اور باطنی سطح پر الہی صفات اور انسانی کمالات کا حامل ہوجائے تو نہ صرف خود بلکہ ساری انسانیت کے لئے امید افزا اور منصفانہ پیغام کا حامل ہوجائے گا۔
خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کو ایمانی رشتے میں جوڑ کر قومی، قبائلی اور نسلی امتیازات ختم کر دئیے، اس طرح آپ نے دنیا کے سامنے ایسا دین پیش کیا جو اعلٰی ترین اقدار کا حامل ہے۔ اس دین کو خدا اور اس کے رسول (ص) نے اسلام کے نام سے موسوم سے کیا اور اس کے ماننے والے مسلمان کہلائے۔ توحید ،نبوت، معاد، اسلام کے بنیادی ارکان ہيں اور جو ان ارکان پر باور رکھتا ہے، اسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا ہے کہ اسلام کے کچھ آداب ہیں، جن کا بجالانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے محفوظ رہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنیں۔
ظلم ناقابل معافی گناہوں میں سے ہے۔ دوسروں کےحقوق کی پامالی اور ان کے حقوق پر تجاوز، انسانوں کے جسمانی اور ذہنی سکون اور آسائش کی تباہی، تفرقے اور جدائی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھائی چارے اور ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے جذبوں کو زندہ کیا تھا اور انہیں زندہ رکھنے پر تاکید فرمائی ہے، آپ (ص) فرماتے ہيں مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ستم نہیں کرتا، اسے گالی نہیں دیتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پیمان برادری سے بڑھ کر اس رشتے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت ہے۔ اسلامی روایات میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اپنے برادران دینی کو چھوڑ دیتے ہیں، روایات میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ آمد و رفت بند کر دی ہے تو تم ان کے ساتھ آمد و رفت کرو، اگر تم سے ناطہ توڑ لیا ہے تو تم ناطہ جوڑ لو۔
خیانت اور جھوٹ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے کترانا اتحاد، آپسی محبت اور اسلامی معاشرے کی ترقی میں روکاوٹ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی، اس سے جھوٹ نہیں بولتا، اور اسکی مدد کرنے سے نہیں چوکتا۔ واضح سی بات ہے کہ جھوٹ اور خیانت اعتماد کو زائل کر دیتے ہیں اور اس سے معاشرے میں ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں مسلمان ذلیل و خوار ہوجائے تو دشمن آسانی سے اس پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے اور ان کے ذخائر لوٹ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے، ایک طرف سے اپنے بھائی کے اقدار اور اسکی فضیلتوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور انہيں اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف سے اس کی برائيوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے بھی خبردار کرتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشی زندگی کی بنیادیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں، نیز ایک دوسرے کی ترقی کے اسباب فراہم کریں۔ آج عالم اسلام کو اس چیز کی نہایت شدید ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ پانی، درخت اور ساری چیزیں اس کے لئے ہیں۔
قارئین، اس حدیث کو شاید ہی کسی نے نہ سنا ہوگا، آپ (ص) فرماتے ہیں جو بھی صبح کرے اور مسلمانوں کے مسائل کی اسے فکر نہ ہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔ دینی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل ایک عام لفظ ہے، کیونکہ اس میں اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے سارے مسائل شامل ہیں۔ لہذا مسلمانوں کے کسی مسئلے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ عزت و سربلندی صرف خدا و رسول اور مومنین سے مخصوص ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ایک سو پینسٹھ میں بھی کہا گيا ہے کہ قدرت صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کرکے اسلام کو عزت اور خود کو سعادتمندی سے ہمکنار کرتے۔ قرآن نے مسلمانون کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی ہے، ارشاد ہوتا ہے، محمد (ص) خدا کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کےساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف سخت اور شدید اور مومین کے ساتھ نرم ہیں، تم انہیں ہمیشہ رکوع و سجود کی حالت میں پاوگئے، جبکہ وہ خدا کی مرضی اور اسکے فضل کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان نمایاں ہیں۔
جس دن سرزمین کعبہ پر نبوت کا سورج طلوع ہوا تھا، کسی کے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ خدا کا یہ سفیر خواب جہالت میں گرفتار انسانیت کو انحطاط ذلت سے نکال کر منزل شرف پر پہنچادے گا۔ محمد امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان، پاکیزگی، کرامت، صداقت و محبت سے انسان کی ہدایت کا بیڑا اٹھایا اور توحید کا نعرہ لگا کر تشنگان حقیقت کے بےجان جسم میں روح معنویت پھونک دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و رہبری سراسر دانشمندی اور درایت کا اعلٰی ترین نمونہ تھی۔ آپ نے مومنین کو آپس میں بھائی بنا کر تفرقہ اور پراکندگی کو اتحاد و دوستی میں تبدیل کر دیا تھا۔ مہاجر و انصار کو آپس میں بھائی بنا کر دلوں کو جاہلیت کے کینے سے پا ک کر دیا۔ پیغمبر رحمت نے برادری اور بھائی چارے کو پائیدار بنانے کے لئے یہ پیغام وحی دیا کہ "سب مل کر خدا کی رسی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔"
source : http://www.shiastudies.net