پہلی بحث : سطحی طر ز تفکّر اور پیام غدیر
دوسری بحث: ولایت کا اعلا ن غدیر سے پہلے
تیسری بحث : اثبات امامت تا رجعت و قیامت
بعض لوگوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں بغیر کسی تحقیق اور تدبّر کے واقعۂ غدیرکے بارے میں لکھا اور کہا کہ ( غدیر کا دن اعلان ولایت کا دن ہے ۔ )
اور اس بات کی اتنی تکرار کی گئی کہ قارئین اور سامعین کے نزدیک یہ بات ایک حقیقت بن گئی اور سب نے اس کو عقیدے کے طور پر قبول کر لیا۔
1 سطحی طرز تفکّر اور پیام غدیر:
واقعاً کیا غدیر کے دن صرف اعلان ولایت کیا گیا؟
مشہور اہل قلم و بیان کے قلم و بیان سے یہی بات ثابت ہوتی ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی جسکے نتیجے میں لوگوں کو واقعۂ غدیر سے صحیح اور حقیقی آگاہی حاصل نہ ہو سکی درست ہے کہ عید غدیر کے دن ( ولایت ِ عترت ) کا اعلان بھی کیا گیا ،لیکن روز غدیر کو صرف ولایت کے اعلان سے ہی مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔
اگر کسی نے کم علمی ، عدم آگاہی یا اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے اس قسم کا دعویٰ کیاہے اور اخباروں رسالوں اور مختلف جرائد میں ایسا لکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ، لیکن اس کے بر طرف کرنے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا غدیر کی حقیقت کو شائستہ اور دلنشین انداز میں بیان کر کے امت مسلمہ کی جان و دل کو پاک کیا جائے ۔
2۔ ولایت کا اعلان غدیر سے پہلے:
روز غدیر رسول اکرم ۖ کے اہم کاموں میں سے ایک کام اعلان ولایت تھا نہ صرف روز غدیر بلکہ آغاز بعثت سے غدیر تک ہمیشہ آپ ۖ حضرت علی ـ کی( ولایت ) اور ( وصایت ) کے بارے میں لوگوں کو بتاتے رہے۔
اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا توفرصت طلب منافقین ا تنا ہاتھ پاؤںنہ مارتے اور پیامبر گرامی ۖ کے قتل کا منصوبہ نہ بناتے،کیونکہ آپ ۖ بارہا مدینہ میں ، اُحُد میں، خیبر میں ، بیعت عقبہ میں، بعثت کے آغاز پر، ہجرت کے دوران،غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر اور کئی حساس موقعوں پر علی ـ کی ولایت کا اعلان کر چکے تھے۔
اپنے بعد کے امام اور حضرت علی ـ کے فرزندوںمیں سے آنے والے دوسرے اماموںکا تعارف ناموں کے ساتھ کروا چکے تھے، مگر کسی کو دکھ نہ ہوا، کچھ منافق چہرے بھی وہاں موجود تھے لیکن انھوں نے کسی قسم کی سازش نہیں کی، کوئی قتل کا منصوبہ نہیں بنایا کیوں ؟ اس لئے کہ صرف اعلان ولایت انکے پوشیدہ مقاصد کے لئے کوئی خطرے والی بات نہیں تھی ،غدیر سے پہلے اعلان ولایت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
١۔ ولایت ِ علی ـ کا اعلان آغاز بعثت میں:
حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت کا اعلان غدیر کے دن پرمنحصر نہیں بلکہ آغاز بعثت کے موقع پر ہو چکا تھا، سیرۂ ابن ہشّام میں ہے کہ بعثت کو ابھی تین سال بھی نہ گذرے تھے کہ خدا وند عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا :
( َنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الَْقْرَبیْنَ )سورۂ شعراء / ٢١٤
( اے رسول تم اپنے قرابت داروں کو عذاب الہی سے ڈراؤ )
اس آیت کے نازل ہو تے ہی پیغمبر ۖ کی اسلام کے لئے مخفیانہ دعوت تمام ہو گئی اور وہ وقت آگیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور قرابت داروں کو اسلام کی دعوت دیں تمام مفسّرین اور مؤرّخین تقریباً بالاتفاق یہ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر ۖ نے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا بیڑہ اٹھا لیا ،اور یہی وجہ تھی کہ آپ ۖ نے حضرت علی ـ کو گوشت اور شیر (دودھ) سے غذا بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ بنی ہاشم کے بڑے لوگوں میں سے چالیس یا پینتالیس لوگوں کو کھانے پر دعوت دیں(١)
دعوت کی تیاریاں ہو گئیں ، سب مہمان مقررہ وقت پر آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ، لیکن کھانے کے بعد ( ابو لہب) کی بیھودہ اور سبک باتوں کی وجہ سے مجلس درہم برہم ہو گئی اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، تمام مدعوّین کھانا کھا کر اور دودھ پی کر واپس چلے گئے۔
حضوراکرم ۖ نے فیصلہ کیا کہ اسکے دوسرے دن ایک اور ضیافت کا انتظام کیا جائے اور ایک بارپھر ان سب لوگوں کو دعوت دی جائے ، رسولِ خدا ۖ کے حکم سے حضرت علی ـ نے ان لوگوں کو دوبارہ کھانے اور آنحضرت ۖ کے کلمات سننے کی دعوت دی سارے مہمان ایک مرتبہ پھر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد جناب رسولِ خدا نے فرمایا:
( جو اپنی اُمّت کا حقیقی اور واقعی راہنما ہوتا ہے وہ کبھی ان سے جھوٹ نہیں بولتا اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ، میں اسکی طرف سے تمہارے لئے اور سارے جہان والوں کے لئے بھیجا گیا ہوں ہا ں اس بات سے آگاہ ہو جاؤ کہ جس طرح سوتے ہو اس ہی طرح مرجاؤگے ، اور جس طرح بیدار؛ ہوتے ہواس ہی طرح قیامت کے دن زندہ ہو جاؤ گے اعمال نیک بجا لانے والوں کو جزائے خیر اور بُرے اعمال و الوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ،نیک اعمال والوں کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنت اور بدکاروں کے لئے ؛ ہمیشہ کے لئے جہنّم تیّا ر ہے میں پورے عرب میں کسی بھی شخص کو نہیں جانتا کہ جو کچھ میں اپنی امّت کے لئے لایا ہوں اس سے بہتر اپنی قوم کے لئے لایا ہو ؛جس میں بھی دنیا وآخرت کی خیر اور بھلائی تھی میں تمہارے لئے لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اسکی وحدانیّت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دوں۔)
اسکے بعد فرمایا :
( وَِنَّ اﷲ َ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیّاً ِلَّا جَعَلَ لَہ مِنْ َھْلِہ َخاً وَ وَزِیْراً وَ وٰارِثاً وَوَصِیََّا َخَلِیْفَةً فی َ ھْلِہ فََ یُّکُمْ یَقُوْمُ فَیُبٰایِعْنی عَلیٰ َنَّہ َخی وَوٰارِثی وَ وَزِیْری وَ وَصِیّ وَیَکُوْنُ مِنّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسی ِلَّا َنَّہُ لَا نَبِی َّبَعْدی)
بتحقیق خدا وند عالم نے کوئی نبی نہیں بھیجا کہ جسکے قریبی رشتہ داروں میں سے اس کے لئے بھائی ، وارث ، جانشین ، اور خلیفہ مقرر نہ کیا ہو پس تم میں سے کون ہے جوسب سے پہلے کھڑا ہو اور اس امر میں میری بیعت کرے اورمیرا بھائی ، وارث ،وصی اوروزیر بنے تو اسکا مقام اور منزلت میری نسبت و ہی ہے جو موسیٰ کی نسبت ہارون کی تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعد کوئی پیامبر نہیں آئے گا ۔) (۲)
آپ ۖ نے اس جملے کو تین بار تکرار فرمایا :ایک اور روایت میں ہے کہ فرمایا :
(فَیُّکُمْ یُوَازِرُنی عَلیٰ ھٰذَاالَْمْرِ؟ وََ نْ یَکُوْنَ َخی وَوَصیّی وَخَلِیْفَتی فِیکُمْ؟)(۳)
( پس تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور یہ کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ ہو گا؟ ) آنحضرت ۖ نے یہ جملہ ارشاد فرمانے کے بعد کچھ دیر توقّف کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ ان لوگوں میں سے کس نے انکی دعوت پر لبّیک کہا اور مثبت جواب دیا؟سب لو گ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی ـ کو دیکھا( جنکا سن اس وقت ١٥سال سے زیادہ نہ تھا۔ ) کہ وہ کھڑے ہوئے اور سکوت کو توڑتے ہوئے
پیغمبر ۖ کی طرف رخ کر کے فرمایا: (اے خدا کے رسول ۖ!میں اس راہ میںآپکی مدد کروں گا ۔)
اسکے بعد وفاداری کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کو جناب ختمی مرتبت ۖ کی طرف بڑھا دیا ، رسولِ خدا ۖ نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛ اور ایک بار آپ ۖ نے اپنی بات دہرائی،پھر حضرت علی ـ کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظہار کیا ،اس بار بھی آپ ۖ نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛تیسری دفعہ بھی حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی کھڑانہ ہوا،اس جماعت میں صرف حضرت امیرُالمؤمنین ـ تھے جو کھڑے ہوئے اور آنحضرت ۖ کے اس مقدّس ہدف کی حمایت اور پشت پناہی کا کھلا اظہار کیا اور فرمایا:
( یا رسول اﷲ ۖ میں اس راہ میں آپکا مدد گار و معاون رہونگا۔ )
آنحضرت ۖ نے اپنا دست مبارک حضرت علی ـ کے دست مبارک پر رکھا اور فرمایا: ''ِنَّ ھٰذ َا َ خی وَ وَ صیّ وَ خَلِیْفَتی عَلَیْکُمْ فَاسْمَعُوْا لَہُ وََطِیْعُوْہُ .''
بے شک یہ علی ـ تمہارے درمیا ن میرا بھائی ،وصی اور جانشین ہے اسکی بات سنو اور اسکی اطاعت کرو، پیغمبر ۖ کے اپنوں نے اس موضوع کو بہت سادہ اور عام سمجھا اور یہاں تک کہ بعض نے تو مذاق اڑا یا اور جناب ابوطالبـ سے کہا آج کے بعداپنے بیٹے علی ـ کی بات غور سے سنو اور اسکی اطاعت کرو۔) لہٰذا ولایت کا اعلان ،رسول اﷲ ۖ کی بعثت کے ٣سال بعداور اسلام رائج ہوتے وقت ہی ہو گیا تھا اور غدیرخُم سے پہلے ہی آنحضرت ۖ کے قرابت داروں اور بزرگانِ قریش کے کانوں تک پہنچ گیا تھا ۔
٢۔ جنگ تبوک کے موقع پر اعلان ولایت : (حدیث ِ منزلت )
٩ ہجری میں آنحضرت ۖ نے تبوک کی طرف لشکر کشی فرمائی ، چونکہ یہ لشکر کشی بہت طولانی تھی اور آپ ۖ کو اسلامی حکومت کے دارُالخلافہ سے بہت دور شام کی سرحدوں تک جانا تھا، اس امر کی ضرورت تھی کہ ایک قدرت مند اور بہادر مرد مدینہ میں آپ ۖ کا جانشین ہو ؛تاکہ حکومت کے مرکزاور صدر مقام پر امن و امان کی فضا بحال رہے اس لئے حضور اکرم ۖ نے بہتر یہ سمجھا کہ حضرت علی ابن ابی طالب ـ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرّر کریں ۔
آپ ۖ کی تبوک کی طرف روانگی کے فوراً بعد ہی منافقوں نے شہر مدینہ میںچر چا شروع کردیا کہ( نعوذباﷲ) رسولِ خدا ۖ حضرت علی ابن ابی طالب ـ سے ناراض ہیں اور اب ان سے محبّت نہیں کرتے ،اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہے، یہ بات حضرت علی ـ پر گراں گذر ی ا ور آپ ـاس کو برداشت نہ کر سکے اس لئے تبوک کے راستے میں پیغمبر ۖ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی :
یا رسول اﷲ ۖ یہ لوگ ایسی ایسی بات کر رہے ہیں حضرت ختمی مرتبت ۖ نے فرمایا :
( َنْتَ مِنِّیْ بمنزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِن مُوْسیٰ ، ِلَّا َنَّہ لا نَبِیَّ بَعْدی )
اے علی ـ! تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے ہارون ـ کی موسیٰ ـکے ساتھ تھی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ )(۴)
یعنی : تمہیں اس لئے مدینہ میں رہنا ہے کہ جب بھی موسیٰ اپنے پروردگار کے امر کی بجاآوری کے لئے جاتے تھے ،تواپنے بھائی کو اپنی جگہ پر بٹھا کرجاتے تھے۔
( وَ قٰالَ مُوسیٰ لَِ خِیْہ ھٰا رُوْنَ ُخْلُفْنی فی قَوْمی وَ َصْلِحْ ولاَ تَتَّبِع سَبیلَ الْمُفْسِدِیْن )(۵)
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : میری اُمّت میں میرے جانشین رہو ، اور انکی اصلاح کرنااور مفسدین کی راہ پر مت چلنا، مذکورہ حدیث میں بھی واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی وصایت و ولایت کا اعلان ہو چکا تو پھر کیا ضرورت تھی کہ اتنے تپتے ہوئے صحرا میں صرف ولایت کے اعلان کے لیے لوگوں کو روکا جائے ۔
٣۔ حضرت علی ـکے رہبر ہونے کا اعلان غدیر سے پہلے:
لفظِ( یعسوب ) کے معنیٰ رئیس ، بزرگ اور ا سلام کے سرپرست کے ہیں ۔(۶)
رسولِ اکرم ۖ نے حضرت علی ـ کے بارے میں کچھ اس طرح ارشا د فرمایا !
( یٰا عَلِیُّ ِنَّکَ سَیِّد ُالْمُسْلِمیْنَ وَیَعْسُوْبُ الْمُؤمِنیْنَ وَِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَ قٰا ئِدُالْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ)(۷)
اے علی ـ ! تم مومنین کے بزرگ اور رہبر ہو اور پرہیز گاروں کے امام ہو اور با ایمان عورتوں کے رہبر ہو ) جناب ِ امیرالمؤمنین نے ارشاد فرمایا :( َنَا یَعْسُوْبُ الْمُؤْ مِنیْنَ وَ الْمٰالُ یَعْسُوْبُ الْفُجَّارِ)ابنِ ابی الحدید امیرالمؤمنین کے کلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتا ہے ! یہ کلمہ خدا کے رسول ۖ نے امام علی ـ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ایک بار '' َنْتَ یَعْسُوْ بُ الدّیْن'' کے لفظوں کے ساتھ اور دوسری بار''َنْتَ یَعْسُوْبُ الْمُؤْمِنیْنَ '' کے لفظوں کے ساتھ، اور ان دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں گویا امیرُالمؤمنین ـ کومؤمنین کا رئیس اور سیّد و سردار قرار دیا ہے (۸) نیز
اپنی شرح کے مقدمہ میں لکھتاہے : اہل حدیث کی روایت میں ایک کلام نقل ہوا ہے جسکے معنیٰ امیرُالمؤمنین کے ہیں،اور وہ یہ ہے کہ فرمایا:
'' َنْتَ یَعْسُوْبُ الدّیْنِ وَالْمٰالُ یَعْسُوْبُ الظُّلْمَةِ .''اے علی ـ !تم دین کے رہبر اور مال گمراہوں کا رہبر ہے ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا :
ہٰذٰا یَعْسُوْبُ الدیْنِ ( یہ علی ـ دین کے رہبر ہیں ) ان دونوں روایتوں کو احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ( مسند) میں اور ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیة الاو لیاء میں نقل کیا ہے ( ۹)
یاد رہے کہ یہ فضائل اور مناقب امام علی ـ کے ساتھ مخصوص ہیںاور منحصر بہ فرد ہیں ،انکی خلافت کے دلائل میں سے ہیںاور واقعۂ غدیر سے پہلے بیان کئے جاچکے ہیں ۔
٤۔حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان :
حدیث اعلان ولایت حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی ایک ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ ـ کی ذات سے مخصوص ،منحصر بہ فرد اور آپ ـ کی خلافت اور امامت کے دلائل میں سے ہے ، ابن عبّاس نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ۖنے حضرت علی ـ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: یا علی ـ ''َنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدیْ وَمُؤْمِنَةٍ .''(۱۰)
آپ میرے بعد ہر مؤمن مرد و زن کے ولی اور رہبر ہیں ) یہ حدیث بھی غدیر خُم کے اہم واقعہ سے پہلے رسولِ اکرم ۖ کی جانب سے صادر ہوئی سب لوگوں نے اسکو سنا بھی تھا اورحفظ بھی کر لیا تھا۔
٥ ۔ پرہیزگا روںکے امام حضرت علی ـ :
رسولِ خدا ۖ سے نقل ہوا ہے کہ
وْحِیَ ِلِیَّ فی ثَلٰاثٍ،َنَّہ سَیَّدُالْمُسْلِمیْنَ وَِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَقٰائِدُ الْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ ) رسولِ خدا ۖ نے فرمایا:
تین بار حضرت علی ـ کے بارے میں مجھ پر وحی نازل ہوئی : علی ـ مسلمانوں کے سردار ، پرہیزگاروں کے امام اور با ایما ن خو اتین کے رہبر ہیں(١۱) اس طرح واضح اور روشن انداز میں ولایت کا اظہار بھی واقعۂ غدیر سے پہلے ہو چکا تھااور کسی سے پوشیدہ نہ تھا ۔
٦۔ علی ـ امیرُالمؤمنین :
ایک اور بہت واضح اور روشن حقیقت یہ ہے کہ رسولِ گرامی اسلام ۖ نے واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت علی بن ابیطالب ـ کو ( امیرُالمؤمنین )کا لقب دیا جوکہ حضرت علی ـ کی امامت اور خلافت کی حکایت کرتا ہے اور یہ لقب آپ ـ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص ہے۔
انس بن مالک :
ا نس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ میں جناب رسولِ خدا ۖ کا خادم تھا ؛ جس رات آنحضرت ۖ کو اُمِّ حبیبہ کے گھرمیں شب بسر کرنا تھی ، میں آنحضرت ۖ کے لئے وضوء کا پانی لے کر آیا تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :''یا َنَسُ یَدْ خُل عَلَیْکَ السّٰاعَة مِن ھٰذاالباب امیرالْمؤمِنیْنَ وَخَیْرالْوَصِیّیْن ، َ قْدَمُ النّٰاسَ سِلْماً وَ َ کْثِرُ ھُمْ عِلْماً و َ رْ جَحُھُم حِلْما''
اے انس ! ابھی اس دروازے سے امیرالمؤمنین و خیر الوصیّین داخل ہونگے؛ جو سب سے پہلے اسلام لائے جنکا علم سب انسانوں سے زیادہ ہے؛ جو حلم ا ور بردباری میں سب لوگوں سے بڑھ کر ہیں)(١۲) انس کہتے ہیں کہ! میں نے کہا کہ خدایا کیا وہ شخص میری قوم میں سے ہے؟ ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ میں نے دیکھا علی بن ابیطالب ـ دروازے سے داخل ہوئے جبکہ رسولِ خدا ۖ وضو کرنے میں مشغول تھے ،آپ ۖ نے وضوکے پانی میں سے کچھ پانی حضرت علی ـ کے چہرۂ مبارک پرڈالا۔
نقل شیخ مفید:
ایک اور روایت میں شیخ مفید بہ سند خود ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں : رسولِ خدا ۖ نے اُمِّ سلمیٰ سے فرمایا :
سْمَعی وَ شْھَد یْ ھٰذا ؛ عَلِیُّ َ میْرُالْمُؤْ مِنیْنَ وَ سَیَّدُ الْوَ صِیّّیْنَ)
( اے امّ سلمیٰ میری بات سنو اور اسکی گواہ رہنا کہ یہ علی]بن ابیطالب ـ[مؤمنوں کا امیراوروصیّوں کا سردار ہے۔ )
نقل ابن ثعلبہ :
شیخ مفید تیسری روایت میں بہ سند خود معاویةبن ثعلبہ سے نقل کرتے ہیںکہ ( ابو ذر سے کہا گیا کہ وصیّت کرو۔
ا بوذرنے کہا:میں نے وصیّت کردی ہے ۔
انہوں نے کہا: کس شخص کو؟
ابوذر نے کہا :امیرُالمؤمنین ـ کو،؟
انہوں نے کہا :کیا عثمان بن عفّان کو؟
ابوذر نے کہا: نہیں امیرُالمؤمنین علی بن ابیطالب ـ کو جنکے دم سے زمین ہے اور جواُمّت کی تربیت کرنے والے ہیں ۔ )
نقل بریدة بن اسلمی :
برید ہ بن خضیب اسلمی کی خبر جو علما ء کے درمیان مشہور ہے بہت سی اسناد کے ساتھ (کہ جنکا ذکر کلام کو طولا نی کرے گا ) بُریدہ کہتا ہے کہ: جناب رسولِ خدا ۖ نے مجھے اور میرے ساتھ ایک جماعت ( ہم لوگ سات افراد تھے ان میں سے منجملہ ابو بکر ،عمر ، طلحہ ، زبیر تھے کو حکم دیا کہ: ''سَلِّمُوا عَلیٰ عَلِیٍّ بَِ مْرَةِ الْمُؤْمِنیْنَ'' علی ـ کو امیر المؤمنین کے کلمہ کے ساتھ سلام کیا کرو) ہم نے پیغمبر ۖکی حیات اور ان کی موجودگی میں ا ن کو یا امیر المومنین کہکر سلام کیا۔(١۳)
نقل عیّاشی:
عیّاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ ایک شخص امام صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:( اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا َمیْرَالْمُؤمِنیْن) امام صادق ـ کھڑے ہوگئے اور فرمایا :یہ نام امیرُالمؤمنین علی ـ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے اور یہ نام خدا وند عالم کا رکھا ہوا ہے ا س نے کہا کہ آپکے امامِ قائم کو کس نام سے پکارا جاتا ہے ؟
ا مام صادق ـ نے فرمایا :
(السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا بَقْیَةَ اﷲ ِ ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یَابنَ رَسُوْل اﷲِ )(١۴)
اور امام باقر ـ نے فُضیل بن یسار سے فرمایا:
( یٰا فُضَیْلُ لَمْ یُسَمَّ بِہٰا وَاﷲ ِ بَعْدَ عَلِیٍّ َمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ ِلا مُفٰتِرٍ کَذّٰابِلیٰ یَوْمَ النّٰاسِ ھٰذٰا )(۱۵)
اے فضیل !خدا کی قسم علی ـکے علاوہ کسی کو بھی اس نام (امیر المؤمنین )سے نہیں پکارا گیا اور اگر کسی کو پکارا گیا تو وہ خائن اور جھوٹا ہے۔ )
واقعۂ غدیر سے قبل حضور اکرم ۖ سے اتنی فراوان اور وسیع روایات و احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ روز غدیر ( ولایت )کے اعلان کے لئے مخصوص نہیں تھا ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور اہم چیز حقیقت کے روپ میںسامنے آئی اوروہ حقیقت حضرت علی ـ کیلئے لوگوں کی بیعت عمومی تھی ،کیونکہ اگر لوگوں کی عمومی بیعت نہ ہو توامام ـ کی قیادت و راہنمائی قابل اجرا اور قابل عمل نہ رہے گی ۔
٧۔اعلان ولایت بوقت نزول وحی:
جب آنحضرت ۖ پر وحی کا نزول ہو رہا تھا تو آپ ۖ کی طرف سے حضرت علی ـ کی امامت اور وصایت کا بھی اعلان ہوا۔ امیرُالمؤمنین ـ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: جب وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان کی گریہ وزاری کی آواز سنی اور پیغمبر ۖ سے اس کی وجہ
پوچھی ؛ جناب رسولِ خدا ۖ نے میرے سوال کے مناسب جواب کے ساتھ میری وصایت اور ولایت کو بھی بیان فرمایا۔)
( وَلَقَدْ کُنْتُ َتَّبِعُہُ أتِّبٰاعَ الْفَصیْلِ َثَرَ ُمِّہ ٭ یَرْفَعُ لی فی کُلِّ یَوْمٍ مِن ْ ِخْلَاقِہ عَلَماً وَ یَْ مُرُنی بِا لِْ قْتِدَائِ بِہ وَ لَقَدْکٰان یُجٰاوِرُ فی کُلِّ سَنَةٍ بِحِرٰائَ فََرٰاہ ُ، وَلٰا یَرٰاہ ُ غَیْری؛ وَلَمْ یَجْمَع بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذ فی الِْ سْلٰامِ غَیْرَرَسُوْلِ اﷲ ِۖ وَخَدیْجَة وَ َنٰا ثٰالِثُہُمٰا َرَیٰ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الرِّسٰالَةِ ، وَ َشُمُّ ریْحَ النُّبُوَّةِ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطٰانِ حیْنَ نَزَل الْوَحْیُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ؛ یٰا رَسُوْلَ اﷲ ِ ۖ مٰا ھٰذِہِ الرَّنَّةُ ؟ فَقٰالَ! ( ھٰذَا الشَّیْطٰانُ قَدْ َیِسَ مِنْ عِبٰادَ تِہ ِنَّکَ تَسْمَعُ مٰا َسْمَعُ،وَتَرَیٰ مٰا َ رَیٰ ، ِلّٰاَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ ،وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْر وَ ِنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ.)) (١۶)
میں ہمیشہ ؛پیغمبرگرامی ۖ کے ساتھ تھا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے، پیغمبر ۖ ہر روز اپنے پسندیدہ اخلاق میں سے ایک نمونہ مجھے دکھاتے اورمجھے اپنی اقتدا کا حکم دیتے تھے ، آپ ۖ سال کے کچھ مہینے غار حرا میں بسرکرتے تھے صرف میں ہی ان سے ملاقات کرتاتھا ،اور میرے علاوہ کوئی بھی ان سے نہیں ملتا ان دنوں کسی مسلمان کے گھر میں را ہ نہ تھی؛ سوائے خانہ رسولِ خدا ۖ کے جنابِ خدیجہ علیہا سلام بھی وہاں ہوتیںاور میں تیسرا شخص ہوتا تھا ، میں نور وحی اور رسالت کو دیکھتا اور بوئے نبوّت کو محسوس کرتا تھا۔
جب آنحضرت ۖ پر وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان رجیم کی آہ و زار ی کی آوازسنی ، جنابِ رسولِ خدا ۖ سے دریافت کیا کہ یہ کس کی آہ و زاری کی آواز ہے ؟ پیغمبرگرامی ۖ نے ارشاد فرمایا :
یہ شیطان ہے جو اپنی عبادت سے نا اُمید ہو گیا ہے ، اور ارشاد فرمایا: یاعلی ـ ! جو کچھ میں سنتا ہوں آپ سنتے ہیں اورجو کچھ میں دیکھتا ہوں آ پ دیکھتے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ آپ نبی نہیں بلکہ آپ میرے وزیر ہیں اور راہ خیر پر ہیں (۱۷)
٨ ۔ حدیث ثقلین :
پیغمبر اسلام ۖ غدیر سے بہت پہلے معروف حدیث (ثقلین )میں بھی حضرت علی ـاور دوسرے َئِمّہ معصومین علیہم السّلام کی امامت کا واضح اعلان کر چکے تھے ، ارشاد فرمایا: '' ِنِّیْ تٰا رِک فیْکُمُ الثِّقَلَیْن کِتٰابَ اﷲ ِ وَ عِتْرَتیْ''(۱۸) میں تمہارے درمیان'' دو گراں قدر' چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ ایک کتاب خدا اور دوسری اپنی عترت ۔)
سوّم ۔ اثبات امامت تا رجعت و قیامت
روز غدیر کے دن کی عظیم تبدیلیوں اور تحوّلات کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ:
١ ۔ غدیر کے دن ؛حضرت علی ـ کی امامت و ولایت کے مکرّر اعلان کے بعد سارے مسلمانوں کی امیرُالمؤمنین ـ کے ہاتھوں پر بیعت نے حقیقت کا روپ دھارا۔
٢۔اس وسیع بیعت کا آغاز حکم خداوندی ، نزول فرشتۂ وحی اور خود رسول خدا ۖ کے بیعت کرنے سے ہوا ؛اوریہ سلسلہ اختتام شب تک جاری رہا ۔
٣۔ اگر لوگوں کی بیعت عمومی نہ ہوتی اور صرف ( اعلان ولایت ) پہ اکتفا کیا جاتا ( جیسا کہ اس سے پہلے آغاز بعثت سے حجّة الوداع تک بارہا اس حقیقت کو بیان کیا گیا اور منافقوں نے کسی قسم کے خطرے کا احساس نہیں کیا اور نہ ہی کوئی خطرناک سازش کی)تو موقع کی تلاش میں رہنے والے منافقین خطرے کا احساس نہ کرتے اور خطرنا ک سازشوں کے جال نہ بُنتے کیونکہ امام ـ کی امامت کے اجراء کی پشت پناہ لوگوں کی آراء اور انکی عمومی بیعت ہوتی ہے ۔
لیکن غدیر کے دن انتہائی تعجب اور بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ ا نہوں نے دیکھا کہ:
(الف) اعلان ولایت
سب سے پہلے رسول خدا ۖ نے حضرت علی ـ کی ولایت کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا :''ثُمَّ مِنْ بَعْدیْ عَلِیّ وَلِیُّکُمْ وَ ِمٰامُکُمْ بَِمْرِ اﷲ ِ رَبِّکُمْ ثُمَّ الِْمٰامَةُ فیْ ذُرِّیَتیْ مِنْ وُلْدِہ ِلیٰ یَوْمٍ تَلْقُوْنَ اﷲ َ وَ رَسُوْلَہ''اب میرے بعد تمہارے امام علی ـ ہیں وہ امام جو خدا کے حکم سے معیّن ہوا ہے ا ور اسکے بعد امامت ؛میرے خاندان میں علی ـ کی اولاد کے ذریعہ تا قیامت جاری رہے گی اس دن تک کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے پیغمبر ۖسے ملاقات کرو گے۔
(ب ) سلسلہ امامت کا اعلان
پھر سلسلۂ امامت کی دوسری گیارہ کڑیوں یعنی خاندان ِ رسالت اور اولادِ علی ـ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:'' مَعٰاشِرَ النّٰاسِ؛ ِنَّہ اٰخِرُ مَقٰامٍ َقُوْمُہُ فیْ ھٰذَا الْمَشْھَدِ؛ فَاسْمَعُوْا وَ َطیْعُوْا وَ أنْقٰادُوْا لَِمْرِاﷲ ِ رَبِّکُمْ؛ فَِنَّ اﷲ َ عَزَّ وجَلَّ ھُوَ رَبُّکُمْ وَ وَلِیُّکُمْ وَ ِلٰھُکُمْ؛ ثُمَّ مِنْ دُ وْنِہ رَسُوْلُہ مُحَمَّد وَلِیُّکُمْ ؛القٰا ئِمُ الْمُخٰاطِبُ لَکُمْ ؛ ثُمَّ مِنْ بَعْدیْ عَلِیّ وَلِیُّکُمْ وَ ِمٰامُکُمْ بَِمْرِ اﷲ ِ رَبِّکُمْ ؛ ثُمَّ الِْمٰامَةُ فیْ ذُرِّیَتی مِنْ وُلْدِہِ ِلی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ ؛یَوْمَ تَلْقُوْنَ اﷲ َ وَ رَسُوْلَہ.''
اے لوگو ! یہ آخری مقام ہے جہاں میں تمہارے درمیان کھڑے ہو کر بات کر رہا ہوں: تو میری بات سنو ؛ فرمانبرداری کرو اور اپنے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرو حق یہ ہے کہ خدا وند ِبزرگ وبرتر تمہارا پروردگار ، تمہاراسرپرست اور تمہارا معبود ہے ا س کے علاوہ ا س کا رسول محمَّد ۖ جو کھڑاتم سے خطاب کر رہا ہے تمہارا سرپرست ہے اور پھرمیرے بعد علی ـ خدا کے حکم سے تمہارے سرپرست اور امام ہیں اور ا س کے بعد امامت ؛ میری ذرّیت میں علی ـ کی اولاد سے تا قیامت جاری رہے گی اس دن تک کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے رسول سے ملاقات کروگے ۔
( ج ) تا قیامت امامت مسلمین
اسکے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے قیامت تک کے لئے اسلامی حکومت اور اما مت کی نشاندہی کی۔
( د ) حضرت مہدی عج کی امامت کا تعارّف
آخری زمانے کے امام ؛امام مہدی (عجّلَ اﷲ ُ تَعٰالیٰ فَرَجَہُ الشَّریْف) کی حکومت اور امامت کو بیان کیا ۔
( ہ ) خلافت کا دعوے دار غاصب ہے
امامت کے ہر مدّعی اور خاندان رسالت کے علاوہ کسی اور خلافت کے دعوے دار غاصب اور باطل کی پہچان کروائی گئی ( مَلْعُوْن مَلْعُوْن،مَغضُوْب مَغْضُوْب،مَنْ رَدَّ عَلَیَّ قَوْلیْ ھٰذٰا وَلَمْ یُوَافِقْہ ُ َ لاَ ِنَّ جَبْرَئِیْلَ خَبَّرَنیْ عَنِ اﷲ ِ تَعٰالیٰ! بِذٰلِکَ وَیَقُوْلُ!( مَنْ عٰادیٰ عَلِیّاً وَلَمْ یَتَو لَّہ فَعَلَیْہِ لَعْنَتیْ )( فَلْتَنْظُرْ نَفْس مٰا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اﷲ َ نْ تُخٰالِفُوْہُ فَتَزِلَّ قَد َم بَعْدَ ثُبُوْ تِھٰا ِنَّ اﷲ َ خَبیر بِمٰا یَعملونَ) )
ملعون ہے؛ ملعون ہے ؛مغضوب ہے مغضوب ہے؛ وہ شخص جو میری بات کا اس لئے انکار کرے کہ اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہے آگاہ ہو جاؤ! کہ جبرئیل نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی ہے وہ فرماتا ہے : ( جو شخص علی ـ سے دشمنی کرے اور انکی ولایت کو قبول نہ کرے اس پر میری لعنت و غضب ہو ) ( پس ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ قیامت کے لئے کیا لے کر جا رہا ہے ؟) لوگو ! خدا سے ڈرو مبادا تم اسکی مخالفت کربیٹھو یا تمہارے قدم ایمان کی راہ سے ڈگمگا جائیں جو کبھی ایمان کی راہ پر استوار اور ثابت تھے ؛ حق یہ ہے کہ جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا جانتاہے۔)
( و ) عام اعلان ( حکم اعتراف)
پھر امام علی ـ کی بیعت اور دوسرے اماموں پراعتقاد ،یقین اور اعتراف کرنے کے لئے فرمان جاری کیا:
مَعٰاشِرَالنّٰاسِ!ِنَّکُمْ َکْثَرُمِنْ َنْ تُصَافِقُوْنی بِکَفٍ واحِدٍ فی وَقْتٍ وَاحِدٍ قَدْ َمَرَنِیْ اﷲ ُ عَزَّ وَجَلَّ َنْ اٰخُذَ مِنْ َلْسِنَتِکُم الْ ِقْرٰارَ بِمٰا عَقَّد تُ لِعَلِیٍّا اَمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ وَلِمَنْ جٰائَ بَعْدَہُ؛ مِنَ الَْئِمّةِ مِنّیْ وَ مِنْہُ عَلیٰ ماَعَْلمْتُکُمْ َنَّ ذُرِّیَّتیْ مِنْ صُلْبِہ فَقُوْلُوْا بَِجْمَعِکُمْ: نّا سٰامِعُونَ مُطِیْعُوْنَ رٰاضُوْنَ مُنْقٰادُوْنَ لِمٰا بَلَّغْتَ عَنْ رَبِّنٰا ، وَرَبِّک فیْ َمْرِ ِمٰامِنٰا عَلِیٍّ َمیْرِ الْمُؤْمِنیْنَ ـ وَمَنْ وُلِدَتْ مِنْ صُلْبِہ مِنَ الَْئِمَّة نُبٰایِعُکَ عَلیٰ ذٰلِکَ بِقُلُوْبِنٰا، وَ َنْفُسِنٰا و َلْسِنَتِنٰا،وَ َیْدیْنٰا، عَلیٰ ذٰلِکَ نَحْییٰ،وَعَلَیْہِ نَمُوْتُ،وَعَلَیْہِ نَبْعَثُ،وَلاَ نُغَیِّرُ، وَلاَ نُبَدِّلُ،و لانَشُکُّ وَلاَنَجْحَدُ وَلاَنَرْتٰابُ وَلاَنَرْجِعُ عَنِ الْعَھْدِ،و َلاَتَنْقُض الْمیْثٰاقَ وَعَظْتَنٰا بِوَعْظِ اﷲ ِ فیْ عَلِیًّ َمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ،وَالَْئِمَّةِ الَّذیْنَ ذَکَرْتَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ مِنْ وُلْدِہ،بَعْدَہُ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَمَنْ نَصَبَہُ اﷲ بَعْدَھُمٰا فَالْعَھْدُوَالْمیْثٰاقُ لَھُمْ مَْخُوْذمِنّٰا،مِنْ قُلُوْبِنٰا وََنْفُسِنٰا وََلْسِنَتِنٰا وَضَمٰایِرِنٰا وَ َیْدیْنٰا مَنْ َدْرَکَھٰا بِےَدِہ وَ ِلَّا فَقَدْ َقَرَّ بِلِسٰانِہ وَلاَ نَبْتَغیْ بِذٰلِکَ بَدَلاً وَلاَ یَرَی اﷲ ُمِنْ َنْفُسِنٰا حِوَلاً نَحْنُ نُؤَدِّیْ ذٰلِکَ عَنْکَ َالدّٰانیْ وَالْقٰاضی مِنْ َوْلاَدِنٰا و ََحٰالےْنٰا وَ نَشْھَدُ اﷲ َ بِذٰلِکَ وَکَفیٰ بِاﷲ ِشَھیْداً وََنْتَ عَلَیْنٰا بِہ شَھےْد.)
( اے مسلمانوں ! تمہاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ تم لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس تپتے ہوئے صحراء میں میرے ہاتھ پر بیعت کر سکو پس خدا وند عالم کی جانب سے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں سے ولایت علی ـ اور انکے بعد آنے والے اماموںکی امامت ]جو کہ میری اور علی ـ کی اولاد میں سے ہیں [کے بارے میں اقرار لے لوں اورمیں تم لوگوں کو اس بات سے آگاہ کر چکا ہوں میر ے فر زندعلی ـ کے ُصلب سے ہیں ۔
پھر تم سب لوگ کہو کہ: ( یارسول اﷲ ۖ !ہم آپکا فرمان سن رہے ہیں اور اس کو تسلیم کرتے ہیں ،اس پر راضی ہیں ، اور آپکے اِس حکم کی اطاعت کرتے ہیں جو کہ خدا وند عالم کی طرف سے آپ نے ہم تک پہنچایا جو ہمارا رب ہے ، ہم اس پیمان پرجو کہ حضرت علی ـ کی ولایت اور ان کے بیٹوں کی ولایت کے سلسلے میں ہے اپنے جان و دل کے ساتھ اپنی زبان اور ہاتھوں کے ذریعہ آپکی بیعت کرتے ہیں اس بیعت پر زندہ رہیں گے ، مر جائیں گے اور اٹھائے جائیں گے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں گے ، اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں کرتے ، اور اس سے رو گردانی نہیں کریں گے ،اور اس عہد و پیمان کو نہیں توڑیں گے ۔
خدا وند عالم اور آ پ کی اطاعت کرتے ہیں اور علی ؛امیر المؤمنین ـ اورانکے بیٹوں کی اطاعت کریں گے کہ یہ سب ا مّت کے امام ہیں وہ امام جن کا آ پ نے تذکرہ کیا ہے آپکی اولاد میں سے ہیں حضر ت علی ـ کے صلب سے اورامام حسن ـ وامام حسین ـ کے بعد آنے والے ہیں ، حسن و حسین علیہما السلام کے میرے نزدیک مقام کے بارے میں پہلے تمہیںآگاہ کر چکا ہوں ، خدا وند عالم کے نزدیک انکی قدرو منزلت کا تذکرہ کر چکا ہوں اورامانت تم لوگوں کو دے دی یعنی کہہ دیا کہ یہ دو بزر گ ہستیاں جوانان جنّت کی سردار ہیں میرے اور علی ـ کے بعد امّت مسلمہ کے امام ہیں۔
تم سب مل کر کہو! کہ ہم اس حکم میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اے رسول خدا ۖ آپ کی ،حضرت علی ـ کی ، حسنین علیہما السلام کی اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کرتے ہیں کہ جن کی امامت کا آپ نے تذکرہ کیا اور ہم سے عہد و پیمان لیا ہمارے دل و جان ،زبان اور ہاتھ سے بیعت لی جو کہ آپکے قریب تھے یا زبان سے اقرار لیا اس عہد و پیمان میں تبدیلی نہ کریں گے اورخدا وند عالم کواس پر گواہ بناتے ہیں جو گواہی کے لئے کافی ہے اے رسول خدۖ آپ ہمارے اس پیمان پر گواہ ہیںہر مؤمن پیروکار ظاہری یا مخفی ، فرشتگان خدا ، خدا کے بندے اور خدا ان سب لوگوں کا گواہ ہے، پھر رسول گرامی اسلام ۖ نے اپنے اس اہم خطبے کے دوران تمام حاضرین کو علی الاعلان اور واضح طور پر ہوشیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
(مَعٰاشِرَالنَّاسِ!مٰاتَقُوْلُوْنَ فَِ نَّ اﷲ َیَعْلَمُ کُلَّ صَوْتٍ وَخٰافِیَة کُلِّ نَفْس فَمَن اھْتَدیٰ فَلِنَفْسِہِ، وَمَنْ ضَلَّ فَنَّمٰا یَضِلُّ عَلَیْھٰا )و مَن بٰایَعَ فَِنَّمٰا یُبٰایِعُ اﷲ َ یَدُاﷲ ِ فَوْقَ َیْدیْھِمْ)مَعٰاشِرَالنَّاس فَبٰایِعُوْااﷲ َوَبٰایِعُوْنی وَ بَایِعُوْاعَلِیّاً َمیْرَالْمُؤْمِنیْنَ ،وَالْحَسَن وَالْحُسَیْنَ وَ الَْ ئِمَّةَ مِنْھُمْ فیْ الدُّ نْیٰا وَالْآخِرَةِ کَلِمَةً طَیِّبَة بٰاقِیَةًیُہْلِکُ اﷲ ُمَنْ غَدَرَ وَ یَرْحَمَ اﷲ ُ مَنْ وَفیٰ،(فَمَنْ نَکَثَ فَِ نَّمٰا یَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسہ وَمَنْ َ وْفیٰ بِمٰا عٰا ھَدَ عَلَیْہِ اﷲ َ فَسَیُؤْتےْہ ِ َجْراً عَظیْماً)
مَعٰاشِرَ النَّاس! قُوْلُوْا الَّذی قُلْتُ لَکُمْ ، وَ سَلِّمُوْاعَلیٰ عَلِیٍّ ؛بِِمِرْةِ الْمُؤْمِنیْنَ، وَقُوْلُوْا! ( سَمِعْنٰا وََطَعْنٰا غُفْرٰانَکَ رَبَّنٰا وَِلَیْکَ الْمَصیْرُ ) (١۸)
وَقُوْلُوْا(َلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذیْ ھَدٰینٰا لِھٰذَاوَمٰا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَاَنْ ھَدٰانَا اﷲ)(۱۹)
مَعٰا شِرَالنَّاسِ!ِنَّ فَضٰا ئِلَ عَلِیِّ بْنِ َ بیْ طاٰ لِبٍ عِنْدَاﷲ ِعَز وَجَلَّ وَ قَدْ َ نْزَلَھٰا فیْ الْقُرْآن َِ کْثَرُ مِنْ ُ حْصِیَھا فیْ مَقٰامٍ وٰاحِدٍ ، فَمَنْ نْبََکُمْ بِھٰا وَ عَرَفَھٰا فَصَدِّ قُوْہُ مَعٰا شِرَالنَّاسِ ! مَنْ یُطِعِ اﷲ َ وَ رَسُوْلَہُ وَعَلِیّاً وَالَْ ئِمَّةَالَّذ ین ذَکَرْتُھُمْ فَقَدْ فٰازَ فَوْزاً عَظیْماً مَعٰا شِرَالنَّاسِ ! السّٰا بِقُوْنَ ِلیٰ مُبٰا یَعَتِہَ و مُوَالاَتِہ وَالتّسْلیْم علَیْہ بِِ مْرَةِ الْمُؤْ مِنیْنَ ُ وْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰا ئِزُوْنَ فی جَنّٰات النَّعیمِ ۔
( و ) ( اے لوگو ! تم کیا کہتے ہو؟ حق یہ ہے کہ جو آواز بھی تم زبان سے جاری کرتے ہو اور تمہارے دلوں میں جو نیّت بھی ہو خدا وند عالم اس سے آگاہ ہے ؛ بس جس نے ہدایت کا راستہ ا ختیار کیا ؛اس نے اپنے ساتھ نیکی کی اور جو گمراہ ہو گیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ، اور جو اپنے امام کی بیعت کرے گا اسنے اپنے خدا وند برتر کی بیعت کی ؛ کہ اسکی قدرت ساری قدرتوں سے بالا ہے ۔
اے لوگو !خدا وند عالم کی بیعت کرو میری بیعت کرو اور علی ـ امیر المؤمنین کی بیعت کرو، حسن و حسین علیہماالسّلام کی بیعت اور انکے بعد آنے والے ائمّہ علیہِمُ السّلام کی بیعت کرو جو کہ زندہ و جاوید کلمۂ طیّبہ ہیں ،خدا دغا بازکو ہلاک کرتا ہے اور جو ایفایٔ عہد کر ے گا رحمت خدا وندی اسکے شا مل
حال ہو گی، اور جو بھی پیمان شکنی کرے گا،تو وہ اپنے نقصان میں یہ عمل انجام دیگا،اور جس نے وفا کی اسکے لئے اجر عظیم ہے ۔
اے لوگو! جو کچھ میں نے تمہارے لئے کہا ہے اس کو دہراؤ اور علی ـ کو امیرالمؤمنین کہہ کر سلام کیا کرواور کہو : ہم نے سن لیا ہے اور اس امر میں آپکی اطاعت کرتے ہیں ، خدا وندا تجھ سے مغفرت کے طلبگارہیں اور ہمیں تیری طرف لوٹنا ہے۔
اور کہو: ]حمد ہو خدا کی کہ اسنے ولایت علی ـ کی طرف ہماری ہدایت کی ، اگر خدا ہمار ی ر ہنمائی نہ فرماتاتو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔ [
اے لوگو! در حقیقت علی ابن ابی طالب ـ کے فضائل خدا وند منّان کی نظر میںجو اس نے قرآن مجید میں نازل فرمائے ہیں اتنے زیادہ ہیں کہ جنکا ذکرکر ناکسی ایک تقریر میںممکن نہیں،لہٰذا اگر کوئی علی ـ کے فضائل اورانکی قدرو منزلت تمہارے لئے بیان کرے تو اس کی تصدیق کرو اور شک نہ کرو۔
اے لوگو! جس نے خدا ، رسول ۖ ،علی ـ اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کی کہ جن کا ذکرمیں نے کیا تو در حقیقت وہ ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو گیا۔
اے لوگو! وہ لوگ جنہوں نے علی ـ کی بیعت ، ان سے دوستی ،اور امیر المؤمنین کے عنوان سے انکو سلام کرنے میں سبقت حاصل کی تو وہ لوگ؛ بہشت میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔
( ز ) پیغمبر اکرم ۖ اور علی ـ کی بیعت
اس مقام پر رسولِ خدا ۖ نے حضرت علی ـ کے ساتھ بیعت کی اور عمومی بیعت کا فرمان اس طرح صادر فرمایا:' َ لاَ وَِنِّیْ عِنْدَانْقِضٰا ئِ خُطْبَتیْ َ دْعُوْکُمْ ِلیٰ مُصٰافَقَتیْ عَلیٰ بَیْعَتِہ وَالِْ قْرٰارِ بِہ ثُمَّ مُصٰا فَقَتِہ مِنْ بَعْدِیْ اَ لاَ وَ ِ نِّیْ قَدْ بٰا یَعْتُ اﷲ َ وَعَلِیّ قَدْ بٰا یَعْنی وََ نٰا آخِذْ کُم بِالْبَیْعَةِ لَہُ؛ عَنِ اﷲ ِ عَزَّ وَ جَلَّ ! ( ِنَّ الَّذ یْنَ ! یُبٰا یِعُوْنَکَ ِنَّمٰا یُبٰا یِعُوْنَ اﷲ َ یَدُاﷲ ِ فَوْقَ َیْدیْھِمْ فَمَن نَکَثَ فَِنَّمٰایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہ وَمَن َوْفیٰ بِمٰاعٰاھَدَعَلَیْہِ اﷲ َفَسَیُوتیْہ َجْراً عَظیْماً )
( آگاہ ہو جاؤ خطبہ کے بعد ؛ میں تمہیں علی ـ کی بیعت کرنے کی دعوت دونگا ؛ تو انکی بیعت کرو ، انکی امامت کا اعتراف کرو اور انکے بعد آنے والی اماموں کی؛بیعت کرو ۔
آگاہ ہوجاؤ حق یہ ہے کہ میں نے خد ا کی بیعت کی ہے اور علی نے میری بیعت کی ہے ۔ اور میں خدا وند عالم کی طرف سے تم لوگوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کرنے کی دعوت دے رہا ہوں لھذا تم میںجو عھدوپیمان کو توڑے گا تو وہ اپنے نقصان میں پیمان شکنی کرے گا مجھے خدا وند عالم کی طرف سے حکم ہے کہ میں آپ سے حضرت علی ـ کی بیعت لوں اور جو کچھ خدا وند عالم کی طرف سے حضرت علی ـ کی ولایت کے بارے میں نازل ہوا ہے ا سں کا اعتراف کرو۔
(ح ) مرد و زن کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنا
اس کے بعد تمام مسلمانوں (مرد و زن) نے حضرت علی ـ کی بیعت کی اور سب نے ایک ساتھ خاندان رسالت کے بار ہ اماموں کی تاقیامت رہنے والی امامت کا اعتراف کیا، اس وقت رسول ِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا: ( مَعٰاشِرَ النّٰاسِ !ِنِّیْ َدَعُھٰا ِمٰامَةً ،وَ وِرٰاثَةً فِیْ عَقَبیْ ِلی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ؛ وَ قَدْ بَلَّغْتُ مٰاُمِرْتُ بِتَبْلِیْغِہِ،حُجَّةًعَلیٰ کُلِّ حٰا ضِرٍوَغٰائب وَ عَلیٰ کُلِّ اَحَد مِمَّنْ شَھِدَ اَو لَمْ یَشْھَدْ ، وُلِدَ اَو لَمْ یُوْلَدْ؛ فَلْیُبَلِّغِ الْحٰاضِرُالْغٰائِبَ ، وَالْوَالِدُ الْوَلَدَ ِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰامَةِ ،و سَیَجْعَلُوْ نَ ا لِْ مٰا مَةَ بَعْدِ یْ مُلْکَ وَ ا غْتِصٰا باً ،َلاَ لَعَنَ اﷲ الْغٰا صِبیْنَ وَالْمُغْتَصِبیْن َ،وَعِنْدَھٰا سَیَفْرُغُ لَکُمْ َیُّھَا الثَّقَلَان مَنْ یَفْرُ غُ وَ یُرْ سِلُ عَلَیْکُمٰا شُوٰاظ مِنْ نٰا رٍ وَ نُحٰا سُ فَلَا تَنْتَصِرٰانِ :
( اے لوگو ! میں علی ـ کی اور ان کے بیٹوں کی امامت تمہا رے درمیان قیامت تک کے لئے باقی چھوڑکرجا رہا ہوں ، میں نے وہ چیز کہ جسکی تبلیغ پر ممور تھا تم تک پہنچا دی ہے ، میری حجّت ہر انسان کے لئے تمام ہو چکی ہے چاہے وہ حاضرہو یا غائب ، شاہد ہو یا غیر شاہد ،جو ،اب تک متولّد ہوگیاہو یا ابھی تک اس دنیا میں نہ آیا ہو۔
لہٰذا حاضرین کو چاہیے کہ غائبین کے لئے ، والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے تا قیامت علی ـ اور انکے بیٹوں کی امامت کے مسئلے کو بیان کریں کیونکہ کچھ لوگ بہت جلد خلافتِ لٰہی کو بادشاہی میں تبدیل کرکے اسے غصب کرلیں گے۔
آگاہ ہو جاؤ !خداخلافت کے غاصبوں اور انکے طرفداروں پر لعنت کرتا ہے ، بہت جلد جن وانس سے حساب کتاب لے گااور ان میں سے گنہگاروںپر آگ کے شعلے برسائے گا،اور اس وقت تم لوگ کوئی یار ومدد گار نہ پاؤ گے ۔ ) پھر آخر میں ہر اس شخص پر کہ جو امامت عترت کو نظر انداز کرے ، یا خلافت کو غصب کرے، یا پیغمبر ۖ کی عترت کو اُمّت کی قیادت سے دور رکھے سب پر لعنت کی۔ ان سارے اقدامات کے بعد حکومت کے پیاسے منافقوں کے لئے قدرت طلبی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی۔
وہ لوگ جو اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد سیاسی طاقت وقدرت اپنے ہاتھ میں لے لیں گے ؛ واقعہ غدیر(مذکورہ خصوصیات کے ساتھ ) کے بعد کیا کر سکتے تھے ؟یہ درست ہے کہ مسلّحانہ بغاوت کے ذریعے ہر کام ممکن تھا ۔
لیکن دوسروں کے دلوں میں انکا کوئی نفوذ نہیں تھا اور اپنے سیاسی حربوں کو اسلام کا رنگ دے کر پیش نہیں کر سکتے تھے ،منافقوں کی خواہش یہ تھی کہ دین ،خلافت رسول ۖ اور اس کے اندر موجود معنوی کشش کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کریں ، اور ہر قسم کی مخالفانہ تحریک کی سرکوبی کرتے ہوئے ہر اعتراض کا گلا گھونٹ دیں
لیکن واقعۂ غدیر کے تحقق پانے کے بعد یہ لوگ اپنے خفیہ اور نا پاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے اور ا ن کے پاس ا س کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ دنیا کے دوسرے مغرور اورظالم حکمرانوں کی طرح عمل کریں، تاریخ کے فرعونوں اور ظالم بادشاہوں کی طرح قتل و غارت گری ، قید ودھمکیوں کے ذریعے لوگوں کو خاموش ہونے پر مجبور کریں اور اپنے مخالفوں کو راستے سے ہٹادیں غدیر کے دن ''امامت عترت ''جیسی حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد منافقوں کے بڑے بڑے دعوے ریزہ ریزہ ہوگئے اور ان کے چہروں کے جھوٹے نقاب تار تار ہوگئے اور انہیں مجبوراً صفِ اوّل میں یا لوگوں کے اس جم غفیر کے ساتھ آگے بڑھ کر اوراپنے عقیدوں اورخواہشات کے بر خلاف حضرت علی ـ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آپ ـ کی بیعت اور مبارکباد پیش کرناپڑی۔(۲۰)
پس غدیر کے دن صرف ولایت و امامت کا اعلان نہیں ہوا بلکہ حضرت علی ـاور آپ کے فرزندوں میں سے گیارہ دیگر اَئمہ علیہم السلام کی امامت اور رہبری کے لئے مسلمانوں کی ''عمومی بیعت نے ایک تاریخی حقیقت کا روپ اختیار کیا، یہ عمومی بیعت ولایت کے اعلان کے لئے اور ولایت کو مستحکم کرنے کے لیے ممد و معاون ،اور پشت پناہ بنی، اب اسکے بعد حضرت امیر المؤمنین ـ خدا کی طرف سے بھی منصب امامت پر فائز ہوگئے تھے ۔
اور لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی،خدا نے بھی انکو چن لیا تھا اور لوگوں نے بھی منتخب کر لیا تھا ، فرصت طلب منافقوںاور چالبازوں کے لئے کسی عذر اور بہانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ جنگی ہتکنڈوں اور مسلّحانہ کاروائیّوںکے ذریعے اپنے نا پاک اہداف تک پہنچنے کی کوششیں شروع کی اورآخر کار رسولِ خدا ۖ کے بعد فوجی بغاوت کے ذریعے اپنے نا پاک اہداف تک پہنچ گئے ، اگر غدیر کا دن صرف ولایت کے اعلان کے لئے تھا تو پھر جناب رسولِ خدا ۖ نے حضرت علی ـ کی بیعت کیوں کی؟ اور فرمایا:
ناٰ آخِذبِیَدِہ وَمُصْعِدُہُ ِلَیَّ وَشٰآئِل بِعَضُدِہ وَرٰافِعُہُ بِیَدَی وَ مُعَلِّمُکُم َنَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَھٰذٰاعَلِیّمَوْلاَہُ،وَھُوَعَلِیُّ بْن َبِیْ طاٰ لِب ٍَخِی وَ وَصِیِّیْ و مَواْلاَتُہُ مِنَ اﷲ ِعَزَّوَجَلَّ َنْزَلَھٰا عَلَیّ)
اس وقت جسکا ہاتھ پکڑ کر بلند کررہا ہوں( حضرت علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا )اور تم لوگوں کو آگاہ کر رہا ہوں ، حق یہ ہے کہ جس جس کا میں مولیٰ اور سرپرست ہوں اس اس کا یہ علی ـ بھی مولیٰ اور سرپرست ہیں اور وہ علی ـ جو ابو طالب کا بیٹا میرا بھائی اور جا نشین ہے ، اور جسکی سرپرستی کے اعلان کے لئے خدا وند عالم کی طرف سے مجھ پر حکم نازل ہوا ہے، پھر سب مسلمانوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کا حکم دیا جسکا سلسلہ اسکے دوسرے دن تک جاری رہا اگر ہدف فقط ولایت کا اعلان تھا تو آپ ۖ نے دیگر اَئمہ معصومین علیہم السلام کی تا قیامت جاری رہنے والی امامت کا تذکرہ کیوں کیا؟ اور حضرت علی ـ انکی اولاد اور حضرت مہدی ـ کی بیعت کا حکم کیوں صادر فرمایا:؟!
فَُ مِرْتُ َ نْ اٰخُذَ الْبَیْعَةَ مِنْکُمْ وَ الصَّفَقَةَ لَکُمْ بِقَبُوْلِ مٰاجِئْتُ بِہ عَنِ اﷲ عَزَّ وَ جَلَّ فیْ ''عَلِیٍّ'' َمیرِا لْمُؤْمِنےْنَ وا لَْ وْ صِیٰائِ مِنْ بَعْدِ ہ ا لَّذ ےْنَ ھُمْ مِنِّیْ وَ مِنْہُ ِ مٰا مَةً؛ فیْہِم الْمَھْدِیُّ ِلیٰ یَوْمِ یَلْقیَ اﷲ َ الَّذیْ یُقَدِّرُ وَ یَقْضیْ)
پس خدا وند بزرگ و برتر کی طرف سے مجھے حکم ملا کہ علی امیرا لمؤمنین ـکے لئے تم لوگوں سے بیعت لوں اور انکے بعد آنے والے اماموں کے لئے بھی بیعت کرالوں وہ ائمہ جو سارے مجھ سے اور علی ـسے ہیں اور انھیں میں قائم مہدی ـ بھی ہیں جو تا روز قیامت حق سے قضاوت کر یںگے۔)
--------------------------------------------
حوالاجات
(١)۔مجمع البیان ج ٧،ص ٢٦٠، و کامل ابن اثیر ج ٢، ص ٦١، و تفسیر کشّاف ج ٣ ،ص ٣٤١ ، و تفسیر کبیر امام فخر رازی ج ٢٤، ص ٧٣ ١ ، و تاریخ دمشق ج ١، ص ٨٧ ، و الدرالمنثور ج ٥، ص ٩٧ ، کقایة الطالب ص ٢٠٥،
(۲)۔مجمع البیان ، ج ٧ ،ص ٢٠٦ / تفسیر المیزان ، ج ١٥، ص ٣٣٥ / تاریخ دمشق ابن عساکر ، ج ١٩، ص ٦٨ المنا قب فی ذرّیّة ِ اطائب ۔
(۳)۔حیات ِ محمّد ۖ ، ڈاکٹر ھیکل ص ١٠٤ / کامل ابن اثیر ، ج ٢ ،ص ٦٣کفایةالمطالب ، ص ٢٥٠ و تاریخ مشق ج ١، ص ٨٩/ شرح ابن ابی الحدید ، ج ٣ ١ ،ص ٢١١۔
(۴)١۔ معانی الاخبار ،ص٧٤ ، جابر ابن عبداﷲ اور سعد ابن ابی وقّاص سے نقل کیا ہے۔
٢۔ مناقب آل ِ ابن طالب ـ ، ج٣، ص ١٦
٣۔ صحیح بخاری ، ج٥ ،ص ٢٤ ، ( باب مناقب علی )
٤۔ صحیح مسلم ، ج٢، ص٣٦٠ ، ( باب فضائل علی ـ )
٥۔ الغدیر ،ج١ ،ص ١٩٧ ،ج٣، ص١٩٩
٦۔ کتاب احقاق الحق ، ج٢١ ،ص ٢٦ و ٢٧
٧۔ الغدیر ،ج١ ،ص ١٩٧ ، ج٣ ،ص١٩
٨۔َسنی المطالب فی مناقب علی بن ابیطالب ـ : شمس الدین ابوالخیر جزری
٩۔الضوء اللّامع ، ج٩ ،ص ٢٥٦
١٠۔البدر الطالع ،ج٢، ص ٢٩٧
(۵) سورۂ اعراف/١٤٢
(۶)۔ لغت میں ہے کہ ( الیعسوب ؛ الرّئیس الکبیر ، یقال ھو یعسوب قومہ) اصل میں شہد کی مکھیوں کے امیر اور نر کو (یعسوب ) کہتے ہیں، جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں ( الیعسوب ؛ ذَکَرُ النَّحْلِ وَمیرھا ) ۔
(۷)۔بحار الانوار ، ج٣٨ ص ١٢٦ تا ١٦٦ تقریباً ١٠/روایتیں شیعہ اور سنّی سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں ۔
(۸) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ،١٩ص ٢٢٤ حکمت ٣٢٢ کے ذیل میں
(۹)۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج١ص ١٢ : مقدمہ کنز العمال ، حاشیہ مسند احمد
(۱۰)۔ تلخیص مستدرک ، ج٣، ص ٣٤ ١ : ذہبی مسندِ حنبل ، ج١ص ٣٣١ : احمد ابن حنبل
٣۔صحیح ترمذی ، ج٥ص ٦٣٢ (باب مناقب علی بن ابی طالب ـ ) : ترمذی
٤۔کنزالعمال حاشیہ مسند احمد
٥۔ الغدیر ، ج٣ ص ٢١٥تا ٢١٧ : علّامہ امینی
٦۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج٣ ص ٤٦تا٥٢
٧۔مستدرک حاکم ، ج٣ ص ١٣٤
( ١۱ )۔مستدرک صحیحین ،ج٣، ص ١٣٦ و صحیح بخاری ، مختصر کنزالعمال حاشیۂ مسند احمد ،ص ٣٤ و المراجعات ،ص١٥٠
۱۲۔ ارشاد ، ص ٢٠ : شیخ مفید ابن مالک سے نقل کرتے ہیں ۔
(١۳)۔ارشاد ِ شیخ مفید ، ص ٢٠ : شیخ مفید و بحارُالانوار ، ج٣٧ ،ص ٢٩٠ تا ٣٤٠ : علامہ مجلسی ، الغدیر ج٨ ،ص ٨٧۔ ج٦، ص ٠ ٨ : علّامہ امینی و حلیة الا ولیاء ، ج ١، ص ٦٣ : ابو نعیم
(١۴)۔ تفسیر عیّاشی ، ج ١، ص ٢٨٦ ( سورۂ نساء کی آیت /١١٧ کے ذیل میں )
(۱۵)۔بحار الانوار ، ج٣٧، ص ٣١٨
( ١۶)۔ خطبۂ ، ١٩٢ / ١١٩ ، نہج البلاغہ
٭ ( اونٹنی کا بچہ ہمیشہ اسکے ساتھ ہے )یہ ایک ضرب المثل ہے ، جب یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ دو لوگ ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں تو ،اسطرح کہتے تھے۔
( ۱۷) ۔اس خطبے کے اسناد و مدارک اور ( معجم المفہرس ) مؤلّف درج ذیل ہے :
١۔کتاب الیقین ، ص ١٩٦ : سیّد ابن طاؤوس ( متوفیٰ ٦٦٤ ھ )
٢۔فروع کافی ، ج٤، ص ١٩٨ و ١٦٨ / ج١، ص٢١٩ : مرحوم کلینی ( متوفیٰ ٣٢٨ ھ )
٣۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج١، ص ١٥٢ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ٣٨٠ ھ )
٤۔ربیع الابرار ، ج١، ص ١١٣ : زمخشری ( متوفیٰ ٥٣٨ ھ )
٥۔اعلام النبوة ، ص ٩٧ : ماوردی ( متوفیٰ ٤٥٠ ھ )
٦۔بحار الانوار ، ج١٣ ،ص ١٤١ / ج٦٠ ،ص ٢١٤ : مر حوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
٧۔ منہاج البراعة ، ج٢،ص٢٠٦ : ابن راوندی ( متوفیٰ ٥٧٣ ھ )
٨۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ١٨٠ : لکھی گئی ٤٢١ ھ
٩۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ٢١٦ : ابن مؤدّب : لکھی گئی ٤٩٩ ھ
١٠۔دلائل النبوة : بیہقی ( متوفیٰ ٥٦٩ ھ )
١١۔کتاب السّیرة و المغازی : ابن یسار
١٢۔ کتاب خصال ، ج ١، ص ١٦٣ حدیث ١٧١ / ص ٦٥٥ و ٥٠٠ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ٣٨٠ ھ )
١٣۔غرر الحکم ، ج ١،ص٢٩٤ / ج٢ ،ص ١١٠ : مرحوم آمدی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٤۔ بحار الانوار ، ج٦٣، ص ٢١٤ / ج١١٣،ص ١٤١ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
١٥۔ بحار الانوار ، ج١٤،ص ٤٧٧ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
١٦۔ غررالحکم ، ج٤،ص ٤٣٥ /٤٣٨/٤٧٧ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٧۔غررالحکم ، ج٣ ص ٢٠ /٣٩/٣٠٠/٣١١/٣٧٣ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٨۔غررالحکم ، ج٦،ص ٢٧٦ /٢٧٩/٤٣١ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٩۔غررالحکم ، ج٢ ،ص ٢٦٢/٣٤٢ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
٢٠۔غررالحکم ، ج٥ ،ص ١١٩ /١٥٦ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
٢١۔ارشاد ، ج١ ،ص ٣١٥ : شیخ مفید ( متوفیٰ ٤١٣ ھ )
٢٢۔ احتجاج ، ج ١، ص ١٤١ : مرحوم طبرسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
(۱۸)۔ حدیث ثقلین کے اسناد و مدارک :
١۔بحار الانوار ، ج٢٢، ص ٤٧٢ : علّامہ مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
٢۔ کتاب مجالس : شیخ مفید ( متوفیٰ ٤١٣ ھ )
٣۔ صحیح ترمذی ، ج٥ ،ص ٣٢٨ / ج١٣ ص ١٩٩ : محمد بن عیسیٰ ترمذی ( متوفیٰ ٢٧٩ ھ )
٤۔نظم درر السمطین ، ص ٢٣٢ : زرندی حنفی
٥۔ ینابیع المؤدّة ، ص ٣٣/٤٥ : قندوزی حنفی
٦۔ کنزالعمّال ، ج ١، ص ١٥٣ : متّقی ہندی
٧۔ تفسیر ابن کثیر ، ج٤، ص ١١٣ : اسماعیل بن عمر ( متوفیٰ ٧٧٤ ھ )
٨۔ مصابیح السنّة ، ج ١ ،ص ٢٠٦ / ج٢ ،ص ٢٧٩
٩۔ جامع الاصول ، ج ١،ص ١٨٧ : ابن اثیر ( متوفیٰ ٦٠٦ ھ )
١٠۔ معجم الکبیر ، ص١٣٧ : طبرانی ( متوفیٰ ٣٦٠ ھ )
١١۔ فتح الکبیر ، ج ١ ، ص ٥٠٣ / ج ٣ ص ٣٨٥
١٢۔عبقات الانوار ، ج١، ص ٩٤/١١٢/١١٤/١٥١ :
١٣۔ احقاق الحق ، ج٩ : علّامہ قاضی نوراﷲ شوشتری
١٤۔ ارجح المطالب ، ص٣٣٦ :
١٥۔ رفع اللّبس و الشّبہات ، ص١١/١٥ : ادریسی
١٦۔الدرّ المنثور ، ج٤ ،ص ٧/٣٠٦ : سیوطی ( متوفیٰ ٩١١ ھ )
١٧۔ذخائر العقبیٰ ، ص١٦ : محب الدّین طبری ( متوفیٰ ٦٩٤ ھ )
١٨۔ صوا عق المحرّقة ، ص١٤٧/٢٢٦ : ابن حجر ( متوفیٰ ٨٥٢ ھ )
١٩۔ اسد الغابة ، ج٢ ،ص ١٢ : ابن َثیر شافعی ( متوفیٰ ٦٣٠ ھ )
٢٠۔ تفسیر الخازن ، ج ١ ،ص٤ : ٢١ ۔ الجمع بین الصحّاح ( نسخۂ خطّی)
٢٢۔ علم الکتاب ، ص٢٦٤ : سیّد خواجہ حنفی
٢٣۔ مشکاة المصابیح ، ج٣ ،ص ٢٥٨ :
٢٤۔ تیسیر الوصول ، ج١، ص ١٦ : ابن الدیبع
٢٥۔مجمع الزوائد ، ج٩ ،ص ١٦٢ : ہیثمی ( متوفیٰ ٨٠٧ ھ )
٢٦۔جامع الصغیر ، ج١ ،ص ٣٥٣ : سیوطی ( متوفیٰ ٩١١ ھ )
٢٧۔ مفتاح النّجاة ، ص٩ ( نسخۂ خطّی )
٢٨۔ مناقب علی بن ابی طالب ـ ، ص٢٣٤/٢٨١ : ابن المغازلی
٢٩۔ فرائد السّمطین ، ج٢، ص١٤٣ : حموینی ( متوفیٰ ٧٢٢ ھ )
٣٠۔مقتل الحسین ـ ، ج١ ،ص ١٠٤ : خوارزمی ( متوفیٰ ٩٩٣ ھ )
٣١۔طبقات الکبریٰ ، ج٢، ص١٩٤ : ابن سعد ( متوفیٰ ٢٣٠ ھ )
٣٢۔ خصائص امیرُ المؤمنین ـ ، ص٢١ : نسائی ( متوفیٰ ٣٠٣ ھ )
٣٣۔ مسند احمد ، ج٥، ص ١٢٢/١٨٢ : احمد بن حنبل ( متوفیٰ ٢٤١ ھ )
٣٤۔ الغدیر ، ج١ ،ص ٣٠ : علّا مہ امینی
(١۸)۔بقرہ ٢/٢٨٥
(۱۹)۔اعراف٤٣/٧
(۲۰)۔بہت سارے مصنّفوں نے لکھا کہ ابو بکر اور عمر آگے بڑھے اور امام علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرتے ہوئے کہا
بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یٰا َبَا الْحَسَن؛ لَقَدْ َصْبَحْتَ مَوْلٰایََ وَ مَوْلیٰ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ
( آپ پر درود اور سلا م ہو اے ابوالحسن ـ، آپنے اس حالت میںصبح کی ہے کہ میرے امام اور ہر مسلمان مرد اور عورت کے امام ہیں۔)
اسناد و مدارک مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ تاریخ دمشق ، ج ٢ ،ص ٥٤٨/٥٥٠ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ٥٧١ ھ )
٢۔ مناقب خوارزمی ، ص ٩٤ : خوارزمی ( متوفّیٰ ٩٩٣ ھ )
٣۔ مسند احمد ، ج ٤ ،ص ٢٨١ : احمد بن حنبل ( متوفّیٰ ٢٤١ ھ )
٤۔ فصول المہمّة ، ص ٢٤ : شیخ حرّ عاملی
٥۔ الحاوی الفتاوی ، ج ١، ص ١٢٢ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ٩١١ ھ )
٦۔ ذخائر العقبیٰ ، ص ٦٧ : طبری ( متوفّیٰ ٦٩٤ ھ )
٧۔ فضائل الخمسہ ، ج ١ ،ص ٣٥٠ : فیروز آبادی
٨۔ فضائل الصّحابہ ( مخطوط ) : نسائی ( متوفّیٰ ٣٠٣ ھ )
٩۔ تاریخ اسلام ، ج ٢ ،ص ١٩٧ : ذہبی ( متوفّیٰ ٧٤٨ ھ )
١٠۔ علم الکتاب ، ص ١٦١ : خواجہ حنفی
١١۔ دررالسمطین ، ص ١٠٩ : زرندی
١٢۔ ینابیع المؤدّة ، ص ٣٠/٣١/٢٤٩ : قندوزی حنفی ( متوفّیٰ ١٢٧ ھ )
١٣۔ تفسیر فخر رازی ، ج ٣، ص ٦٣ / ج ١٢ ، ص ٥٠ : فخر رازی ( متوفّیٰ ٣١٩ ھ )
١٤۔ تذکرة الخواص ، ص ٢٩ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ٦٥٤ ھ )
١٥۔ مشکاة المصابیح ، ج ٣ ،ص ٢٤٦
١٦۔ عبقات الانوار ، ج ١، ص ٢٨٥ : سید جزائری
١٧۔ فرائد السمطین ، ج ١ ،ص ٧٧ باب ١٣ : حموینی ( متوفّیٰ ٧٢٣ ھ )
١٨۔ الغدیر ، ج ١، ص ٢٧٢ : علّامہ امینی
١٩۔ ریاض النضرة ، ج ٢ ، ص ١٦٩ : طبری ( متوفّیٰ ٦٩٤ ھ )
٢٠۔ کفایة المطالب ، ص ٢٨
٢١ ۔ مناقب ابن جوزی : ابن جوزی ( متوفّیٰ ٧٥١ ھ )
٢٢۔ البدایة والنّہایة ، ج ٥، ص ٢١٢ : ابن کثیر ( متوفّیٰ ٧٧٤ ھ )
٢٣۔ کتاب الخطط ، ص ٢٢٣ : مقریزی
٢٤۔ بدیع المعانی ، ص ٧٥
٢٥۔ کنز العمّال ، ج ٦ ،ص ٣٩٧ : متّقی ہندی
٢٦۔ وفاء الوفاء ، ج ٢ ،ص ١٧٣ : سمہودی ( متوفّیٰ ٩١١ ھ )E
٢٧۔ مناقب ابن مغازلی ، ص ١٨/٢٤ : مغازلی شافعی ( متوفّیٰ ٤٨٣ ھ )
٢٨۔ تاریخ بغداد ، ج ٨ ،ص ٢٩٠ : خطیب بغدادی ( متوفّیٰ ٤٨٤ ھ
٢٩۔ شواہد التّنزیل ، ج ١ ،ص ١٥٨ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ٥١٤ ھ )
٣٠۔ سرّالعالمین ، ص ٢١ : غزالی ( متوفّیٰ ٥٠٥ ھ )
٣١۔ احقاق الحق ، ج ٦ ، ص ٢٥٦ : قاضی نور اﷲ شوشتری
٣٢۔ الصواعق المحرّقہ ، ص ٢٦ : ابن حجر عسقلانی ( متوفّیٰ ٨٥٢ ھ )
٣٣۔ فیض الغدیر ، ج ٦، ص ٢١٨ : حاج شیخ عبّاس قمیّ
٣٤۔ شرح المواہب ، ج ٧، ص ١٣ : زرقانی مالکی
٣٥۔ الفتوحات الاسلامیہ ، ج ٢، ص ٣١٨