جو بہت بڑا اشتباہ اس وہابیوں کو اس موضوع میں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ وہ اولیاء اللہ سے بارگاہ الہی میں شفاعت کی درخواست کا بتوں سے شفاعت کی درخواست سے قیاس کرتے ہیں جبکہ بت بے جان، بے عقل اور بے شعور موجودات ہیں (جن کا خالق خود انسان ہے)۔
حالانکہ ہم قرآن مجید میں متعدد آیات کریمہ میں دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام خدا کی بارگاہ میں گنہگاروں کی شفاعت کرتے رہے ہیں؛ مثال کے طور پر:
1۔ یعقوب علیہ السلام سے بیٹوں کی درخواست شفاعت
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے بھائی کی عظمت اور اپنی خطاؤں سے واقف ہونے کے بعد اپنے بوڑھے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے شفاعت کی درخواست کی اور یعقوب علیہ السلام نے بھی شفاعت کا وعدہ دیا:
"قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ ٭ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"۔ (7)
انھوں نے کہا اے ہمارے والد! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے سفارش کیجئے، یقیناً ہم خطا وار تھے ٭ انھوں نے کہا میں عنقریب تمہارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش کی التجا اور استغفار کروں گا کہ یقیناً وہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان۔
2۔ خدا نے رسول اللہ (ص) سے شفاعت طلب کرنے کا حکم دیا
قرآن مجید نے گنہگاروں کو توبہ کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شفاعت طلب کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے:
"وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيماً"۔ (8)
ترجمہ: اور کاش، جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خود بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔