غیبت کے زمانہ میں امام مہدی عج کی زندگی اور ان کے وجود کے بارے میں تین صورتیں تصٓورکی جاسکتی ہیں
پہلی صورت :امام مھدی عج زمین پر نہیں ہیں بلکہ کسی اور عالم میں ہیںجو عالم مادی(ہماری دنیا) کے علاوہ ہے
دوسری صورت :امام مھدی کرہ زمین پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن مشیت خداوند متعال کی وجہ سے لوگ امام کے وجود مبارک کو نہیں دیکھ سکتے
تیسری صورت :امام مہدی عج کرہ زمین پر اور لوگوں کےدرمیان زندگی گزار رہے ہیں لوگ بھی امام کو دیکھتے ہیں لیکن پچان نہیں سکتے کہ یہی امام زمانہ عج ہیں
پس دوسری اور تیسری صورت میں فرق یہ ہے کہ دوسری صورت میں غیبت شخص ہے اور تیسری صورت میں غیبت شخصیت ہے وہ چیز جو روایات اور کلمات آئمہ اطہار سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ تیسری صورت ہے یعنی امام زمانہ عج ایک اجنبی کے طورپر زمین پر اورلوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں لوگ امام کودیکھتے ہیں لیکن پہچان نہیں سکتے ۔بعض روایات درج ذیل ہیں
(الف)امام صادق علیہ السلام امام مہدی عج کی غیبت کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے امام زمانہ عج کی حضرت یوسف سے تشبیہ دی ہے فرمایا : صاحب ھذاالامر یتردد بینھم ویمشی فی اسواقھم ویطا فرشھم ولایعرفونہ حتی یاذن اللہ ان یعرفھم نفسہ کمااذن لیوسف
لوگ کیوں منکر ہیں کہ خداوند متعال اپنی حجت کے ساتھ وہی کرے جو یوسف کے ساتھ کیا ؟وہ (حجت خدا )ان کے بازاروں میں حرکت کرتی ہے ان کے فرشوں پر قدم رکھتی ہے لیکن لوگ انہیں پہچانتے نہیں ۔یہانتکہ خداوند متعال ان کو اجازت دے کہ اپنا تعارف کرائیں (کمال الدین ج۲ ص ۱۰)
(ب)امام صادق علیہ السلام ایک اور روایت میں فرماتے ہیں : (اماسنتہ من یوسف فالستریجعل اللہ بینہ وبین الخلق حجابایرونہ ولایعرفونہ )امام مھدی عج کی شباہت حضرت یوسف سے ناشناس رہنے میں ہے یعنی خداوند متعال نے ایسا کام کیا ہے کہ لوگ اس کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتےنہیں ہیں (یعنی جس طرح یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو دیکھ رہے تھے لیکن پہچان نہیں پائے تھے کہ یہی ان کا بھائی ہے ) (کمال الدین ج۲ ص ۱۲۰)
(ج) دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان جو امام زمانہ عج کی زندگی سے کاملا آگاہ تھے ان سے نقل ہوا ہے :
(واللہ ان صاحب ھذاالامرلیحضرالموسم کل سنۃ فیری الناس ویعرفھم ویرونہ ولایعرفونہ ) خدا کی قسم صاحب امر (امام زمانہ عج )ہرسال حج کے اعمال کو انجام دیتے ہیں اس طرح کہ وہ حاجیوں کو دیکھتے ہیں اورحاجی بھی اسے دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ۔(کمال الدین ج۲ ص ۴۴۰)
دعائے ندبہ میں بھی پڑھتے ہیں :بنفسی انت من مغیب لم یخل منا ،بنفسی انت من نازح ما نزح عنا ۔میری زندگی آپ پر قربان آپ وہ غائب ہیں کہ جو ہم سے باہر نہیں ،میں آپ پر قربان ،آپ ایسے دور ہیں کہ ہم سے دور نہیں ۔
امام علی علیہ السلام سے جو روایت امام زمانہ عج کے بارے میں نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ :(۔۔۔ ماشیۃفی طرقھا داخلۃ فی دورھا وقصورھا جوالۃ فی شرق ھذہ الارض وغربھا تسمع الکلام وتسلم علی الجماعۃ تری ولاتری ) یعنی حجت خدا راستوں اورسڑکوں پر گردش کرتی ہے گھروں اورمجلسوں میں تشریف لاتی ہے تمام دنیا میں مشرق سے مغرب تک گھومتی ہے مختلف علاقوں کا نظارہ کرتی ہے لوگوں کی باتوں کو سنتی ہے مجلس میں موجود اشخاص پر سلام کرتی ہے لوگوں کو پہچانتی ہے درحالانکہ خود نہیں پہچانی جاتی ۔(نعمانی ،کتاب الغیبہ ص۱۴۴)
ان روایات سے پتہ چلتا ہےکہ امام ہمیشہ معاشرہ میں رہتے ہیں لوگوں سے ملتے جلتے ہیں بعض لوگوں کے گھروں میں جاتے ہیں لیکن لوگ پہچانتے نہیں ہیں کہ یہی امام زمانہ عج ہیں اور امام ان کاموں کو بطور ناشناس انجام دیتے ہیں لیکن آپ کو محل زندگی اور رہائش شھروں کے اندر نہیں بلکہ بلند وبالا پہاڑوں یا اس جگہ پہ ہے جو لوگوں سے دور ہے ۔جس طرح کہ یہ روایت خود امام مہدی عج سے منقول ہے
امام مھدی عج نے ابن مھزیار سے فرمایا :میرے والد گرامی نے مجھ سے عھد لیا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک جن پر خداوند نے غضب کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے ان کے ساتھ زندگی نہ گزاروں بلکہ بلند وبالا پہاڑوں اور بیابانوں اور بنجر زمینوں پر زندگی گزاروں (بحارالانوار ج۵۲ ص ۱۴۴)
البتہ غیبت کبری ٰ میں کوئی خاص مکان یا جگہ کا ذکر نہیں جہاں ہم یقین سے کہہ سکیں کہ امام زمانہ عج وہاں ہیں البتہ بعض مقامات ایسے ہیں جو امام زمانہ عج سے منسوب ہیں جیسے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کیونکہ امام زمانہ عج ہرسال حج کے اعمال انجام دینے کے لیے تشریف لاتے ہیں دوسرے خاص مقامات جیسے مسجد سھلہ ،مسجد کوفہ ،وادی السلام نجف میں جہاں امام زمانہ عج سے منسوب جگہ ہے ،آئمہ اطہار کے حرم وغیرہ میں بھی امام تشریف لاتے ہیں جیسا کہ بعض روایات اس کی طرف اشارہ ہواہے ۔
بعض ایسی جگہیں ہیں کہ جن کا ذکر دعاوں یا واقعات میں آیا ہے کہ جہاں امام ہمیشہ کے لیے رہ رہے ہیں ان میں سے ایک رضواپہاڑ ہے یہ پہاڑ مدینہ سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر ینبوع یا ینبع شھر کے نزدیک واقع ہےدعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں کہ لیت شعری ،این استقرت بک النوی بل ای ارض تقلک اوثریٰ ابرضوری ٰ اوغیرھا ۔اے کاش جان سکتا کہ کب اور کہاں آپ کے ظہور سے دلوں کو آرام ملے گا کہاں پر آپ کی اقامت ہے کیا کوہ رضوا پر یا کسی اور جگہ پر ۔۔۔) البتہ کہاجاسکتا ہے کہ رضوی پہاڑ پر آپ کی آمدورفت ہو لیکن ہمیشہ کےلیے جگہ کا تعین کرنا مشکل ہے ۔
ماخوذ از کتاب موعودادیان مہدی صاحب الزمان عج مصنف تصورعباس
جزیرہ خضراء :
ایک اورجگہ جو امام زمانہ عج کے مسکن کے حوالے سے مشہور ہےوہ ہے جزیرہ خضراء کی روایت کہ جس کو بحارالانوار میں علامہ مجلسی نے نقل کیا ہے یہ روایت دوداستانوں پر مبنی ہے پہلی داستان کمال الدین ،احمد بن محمد یحیی انباری سے منقول ہے کہ جو بحارالانوار ج۵۳ ،ص۲۱۳ پرنقل ہوئی ہے ۵۴۳ ھجری کی یہ روایت ہے (یعنی آج سے ۹۰۰ سوسال پہلے) یہ حکایت اور داستان نقل ہوئی ہےجبکہ دوسری داستان علی بن فاضل مازندرانی سے سن ۶۹۹ھجری (یعنی تقریبا ۷۰۰ )سال پہلے نقل ہوئی ہے
ان دونوں داستانوں میں کچھ نکات مشترک بھی ہیں مثلا
امام کی اولادکی رہائش دریا کے ایک جزیرے میں ہے
امام کی ابھی بیوی اوربچے ہیں
وہ جزیرہ بہت خوبصورت سرسبز وشاداب ہے کہ جس کی مثال نہیں
اس جزیرہ میں میل جول ،نظم وضبط اپنے عروج پر ہے وغیرہ
ان دونوں داستانوں کے بارے میں اقوال
بعض کہتے ہیں کہ یہ واقعات حقیقی ہیں بعض دوسروں نے قبول کیا ہے
بعض دوسرے محققین اورعلماء نے جیسے شیخ جعفر کاشف الغطاء ،آقابزرگ تہرانی ،علامہ شوشتری ،علامہ سید جعفرمرتضی عاملی ،اورمحمدباقربھبودی وغیرہ کا عقیدہ ہے کہ اس داستان کی کوئی حقیقت نہیں ہے لہذا دونوں داستانوں اورواقعات پر بہت سےاعتراضات کیے ہیں ہم یہاں علیحدہ علیحدہ دونوں داستانوں پر جو اعتراض ہوئے ہیں ان کو بیان کرتے ہیں
(الف)علی بن فاضل مازندرانی سے نقل کی گئی روایت اور داستان
داستان کی سند :
(۱) مرحوم مجلسی جس نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہتے ہیں کہ میں نے اس داستان کو کسی معتبر کتاب میں نہیں دیکھا اس لیے علیحدہ طورپر اس کو ذکر کررہا ہوں (بحارالانوار ج۵۲،ص۱۶۹)
(۲)علی بن فاضل مازندرانی کے ہم عصر علماء میں سے جیسے علامہ حلی اور ابن داوود میں سے کسی نے بھی نہ اس کا نام لیا ہے اور نہ اس داستان کا ذکر کیا ہے اس لحاظ سے اس داستان کی تین صورتیں بنتی ہیں :
(۱)یا ان علماء نے (جیسے علامہ حلی اورابن داوود )نے اس داستان کو جھوٹاسمجھتے ہوئے نقل نہیں کیا
(۲)یا اصلا یہ داستان سنی نہیں تھی
(۳)یا یہ کہ ان کے بعد یہ داستان پیش آئی
ان کتابوں میں سے جن میں اس داستان کو نقل کیا گیاسب سے پہلی کتاب نوراللہ شوشتری کی کتاب مجالس المومنین ہے جو ۱۰۱۹ میں شھیدہوئے درحالانکہ جزیرہ خضراء کی داستان ۶۹۹ ھجری سے مربوط ہے (یعنی مجالس المومنین ۳۰۰ سال بعد لکھی گئی )
داستان کی عبارت پر اشکال
اس داستان میں علی بن فاضل سے ایسے مطالب نقل ہوئے ہیں کہ جو بہت سی ہماری دینی مسلمات کے خلاف ہیں اور روایات اس کے مخالف ہیں مثلا
(۱)داستان جزیرہ خضراء میں ہے کہ فاضل مازندرانی نے ایک شخص سید شمس الدین سے پوچھا :کیوں قرآن کی بعض آیات کے درمیان منطقی ارتباط نہیں ہے ؟سید شمس نے کہا یہ وہ قرآن ہے جو پہلے خلیفہ نے جمع کیا تھااور بعض آیات کو حذف کردیا تھا اس نے امام علی کے قرآن کو قبول نہ کیا جس کی وجہ سے آیات میں منطقی ارتباط نہیں ہے
واضح ہے جو بھی داستان کے اس حصہ کو قبول کرے گویا قرآن کی تحریف کا قائل ہے درحالانکہ شیعہ وسنی کے نزدیک اور اسی طرح اس آیت کے مطابق (انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون )تحقیق ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔قرآن کی اصلا تحریف نہیں ہوئی حالانکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں اصلاتحریف نہیں ہوئی اوریہی آئمہ اطہار کی روایات سے ثابت ہے اوراہل سنت کا الزام بھی بے بنیاد ہےکہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور یہ بات جزیرہ خضراء کی داستان کو باطل کردیتی ہے
اس کے علاوہ خود اسلام کے آغاز سے ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز یہی تھا کہ قرآن کو لکھنا ،حفظ کرنا ،ایک دوسرے کو لکھوانا حتی کہ پیغمبر اکرم ﷺکی زیر نگرانی اتناکام ہو اکہ تحریف کے بارے میں سوچا تک نہیں جاسکتا
(۲)داستان جزیرہ خضراء کی عبارت میں آیا ہےکہ خمس شیعوں پر حلال ہے اور اداکرنا واجب نہیں درحالانکہ تمام مجتہدین کے مشہور قول کے مخالف ہے اور قابل قبول نہیں ہے
(ب)انباری سے نقل کی گئی داستان
جزیرہ خضراء کی وہ داستان جسے احمد بن محمد یحیی انباری نے نقل کی ہے ہرقسمی سنداوراسناد سے خالی ہے اور جس کتاب میں یہ داستان نقل ہوئی ہے وہ کتاب التعازی ہے آقابزرگ تہرانی کہتے ہیں اصل کتاب میں یہ داستان نہیں ہے بلکہ کسی نے خود اس کتاب کے آخر میں اس کا اضافہ کیا ہے پتہ نہیں کہ اس داستان کو کس سے اور کہاں سے نقل کیا ہے اسی طرح جن افراد کے واسطہ سے نقل ہوئی ہے ان کو بھی کوئی نہیں جانتا اور شیعہ رجالی کتابوں میں ان کا نام ذکر نہیں حتی راوی کی پہچان بھی نہیں ہوسکی کہ کون ہے فقط یہ کہا گیا ہےکہ وہ مسیحی تھا
داستان کی عبارت پر تبصرہ
اس داستان میں کچھ ایسے شہروں کا نام ذکر ہوا ہے جو قدیم اور پرانی جغرافیایی کتابوں میں مثلا معجم البلدان ،یاقوت حموئی کی لکھی ہوئی کتاب میں ان کا اصلا ذکر نہیں ہے کہ اس نام کا بھی کوئی شہر ہے جس کتاب میں بہت پسماندہ ترین دیہاتوں کا نام ہو کیسے ممکن ہےکہ ایسا سرسبزوشاداب جزیرے کا نام تک نہ ہو
اسی طرح عبارت میں نقل ہوا ہے کہ امام زمان عج کے فرزند نے یہود اور عیسائیوں سےجزیہ لیا لیکن اہل سنت کے اموال کو ضبط کرلیا یعنی ان کا رویہ اہل سنت کے ساتھ سخت تھا جو قابل قبول نہیں ہے
مثلث برمودا
ایک اور جگہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام زمانہ عج وہاں رہتے ہیں
مثلث برمودا ہے یہ مثلث برمودا براعظم امریکہ کے نزدیک اوقیانوس اطلس کے شمال مغرب میں مختلف چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں (تقریبا ۳۶۰جزیروں میں سے ۲۰جزیرے آباد ہیں )یہ جزیرے برمودا کے نام سے مشہور ہیں برمودا ان جزیروں میں سے سب سے بڑے جزیرہ کا نام ہے (ناجی النجار جزیرہ خضراء ،ص ۶۰اور ۶۱)
مثلث برمودا ایک مثلث شکل کے علاقہ کوکہا جاتا ہے کہ جس کا ایک سرا ،جزیرہ برمودا ہے دوسراسرا فلوریڈا کے شرقی ساحل پر بندرگاہ میامی ہے کہ جو ایالات متحدہ کی مہم ترین بندرگاہوں میں سے ہے اور اس کا تیسرا سرا پورٹوریکوکا دارالخلافہ سن ژوان ہے کہ جو ڈومینیکن ملک کے مشرق میں واقع ہے پس جو کچھ ذکر ہوچکاہے ثابت ہوا کہ ایک جزیرہ جس کا نام برمودا ہے اور ایک علاقہ جو مثلث شکل میں ہے وہ بھی ثابت ہوجاتا ہے اور جغرافیایی نقشے میں اس کا ذکر ہے
تقریبا ۱۹۷۷ میں مختلف اخباروں اور خبروں میں اس جزیرہ کے بارے میں مختلف اور ترسناک خبریں شائع ہوئیں تھیں کہ چند مسافر کشتیوں پر سوار اس جزیرہ کے قریب پہنچے اورہلاک ہوگئے اوریہ علاقہ بہت خطرناک شمار ہوتا ہے
ناجی النجار نامی ایک شخص نے کتاب جزیرہ خضراء کولکھا اوراس میں یہ احتمال دیا کہ شاید یہ مثلث برمودا وہی جزیرہ خضراء ہے جس میں امام زمانہ عج ساکن ہے لہذا اس لیے وہاں کوئی نہیں جاسکتا
لیکن علماء اورمبصرین کے اقوال کو دیکھتے ہوئے اس شخص کا قول قابل قبول نہیں ہے اورکسی نے بھی اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا ہے
کیونکہ پہلی بات یہ کہ یہ ایک احتمال ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے جس یہ ثابت ہو کہ یہی جزیرہ خضراء اورامام کے رہنے کی جگہ ہے
دوسری بات :جب خود جزیرہ خضراء کے بارے میں روایات ضعیف ہیں اور ان کو علماءاورمحققین نے رد کیا ہے تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جزیرہ خضراء ہے
تیسری بات :جو کچھ اس ترسناک خبروں میں بیان کیا گیا ہے وہ اصلاامام مہدی عج کی سیرت ،ان کی رحمت اوران کےلطف وکرم کے خلاف ہے وہ امام عج تو بہت رؤوف ہیں کیسے ہوسکتا ہے کہ چند بھولے ہوئے مسافر وہاں جائیں اورہلاک کردئے جائیں یہ اصلا ناممکن ہے اورامام کی شان کے خلاف ہے
چوتھی بات :مبصرین کا نظریہ اس کے خلاف ہے
مبصرین کا نظریہ ان خوفناک خبروں کے بارے میں
اگر برمودا کے محل وقوع کو دیکھا جائے تو یہ امریکائی جزیرہ ، کوباملک کےنزدیک ہے دوسری طرف کوبا روس کے بھی نزدیک ہے امریکہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ روس کوبا کے ذریعے سازش کرکے امریکہ پر حملہ نہ کردے یا کوبا میں اپنے جاسوسی آلات کو نصب نہ کردے اس لیے کوبا پر نگاہ رکھنا ضروری تھا
اس ہدف کے پیش نظر امریکہ نے جزیرہ برمودا میں اپنے جاسوسی آلات نصب کردئیے تاکہ کوبا پر نظر رکھی جاسکےاوردوسری طرف اس جزیرہ کو محفوظ بنانے کی خاطر کہ یہاں کوئی آنے نہ پائے، چند کشتیاں وہاں بھیج کر نابود کردیا تاکہ ایک ڈر پیدا ہوجائے اورکوئی بھی وہاں جانے کی کوشش نہ کرسکے
اصل ہدف اورمقصد یہ تھا اورپھر امریکیوں کے لیے جو لاکھوں لوگوں پر ایٹم بم گرا کر ہلاک کرسکتے ہیں وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کےلیے چندلوگوں کو ہلاک کیون نہیں کرسکتے تاکہ ان کا ملک روس کے خطرے سے محفوظ رہے
پانچویں بات :یہ کہ پھر اس کے بعد کوئی خبر بھی اس جزیرہ کے بارے میں شایع نہ ہوئی حالانکہ ایسے جزیرہ کے بارے میں خبریں زیادہ ہوتیں، تبصرے اورتحقیق وغیرہ کچھ بھی نہ ہوا جس سے مبصرین کی اوپر والی بات کی تائید ہوتی ہے
source : http://www.ahlulbaytportal.com