علیکم السلامپیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں نماز ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھا جاتا رہا ہے حج کے دوران ابھی بھی تمام مسلمان دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اور ہمارے یہاں درحقیقت نماز ظہر اپنے مخصوص وقت پر ادا کی جاتی ہے اور نماز عصر مشترک وقت میں جبکہ اہلسنت کے یہاں دونوں کو مشترک وقت میں ادا کیا جاتا ہے اگر چہ وہ الگ الگ پڑھتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ نماز کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے اور ایک مشترک۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت زوال آفتاب سے اتنا بعد کہ اس میں چار رکعت نماز ادا ہو سکے یہ وقت نماز ظہر سے مخصوص ہے اس میں نماز عصر نہیں پڑھی جا سکتی اور اسی طرح نماز عصر کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے اتنا پہلے ہے کہ اس میں چار رکعت نماز ادا کی جا سکے اس مخصوص وقت میں ظہر نہیں پڑھی جا سکتی اس بیچ کا وقت نماز ظہر و عصر کے لیے مشترک وقت ہے اس میں چاہے ایک ساتھ پڑھیں یا الگ الگ پڑھیں کوئی خاص فرق نہیں کرتا۔ البتہ ظہر سے جتنا قریب ہو وہ ظہر کی فضیلت کا وقت ہے اور عصر سے جتنا قریب ہو وہ عصر کی فضیلت کا وقت ہے۔ ہم نماز ظہر کو اس کے مخصوص وقت میں ادا کرتے ہیں اور عصر کو مشترک وقت میں جبکہ اہلسنت زوال آفتاب کے بہت بعد نماز ظہر ادا کرتے ہیں اور اسی طرح کچھ فاصلے کے بعد عصر ادا کرتے ہیں جبکہ ان کی یہ دونوں نمازیں مشترک وقت میں ہوتی ہیں۔ لہذا نہ جمع کرنے میں کوئی الزام ہے اور نہ الگ الگ پڑھنے میں۔ بلکہ اس سلسلے میں نمازی کو اختیار ہے۔ ہم سہولت کی خاطر جمع کر کے پڑھتے ہیں جبکہ وہ الگ الگ۔ ثواب برابر ہے۔امام حسین (ع) نے ظہر عاشور کو نماز ظہر ادا نہیں کی بلکہ نماز خوف ادا کی۔ آپ کو معلوم ہے کہ جنگ کے دوران نماز ظہر و عصر ساقط ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ دو دو رکعت نماز خوف پڑھی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲
source : www.abna.ir