اردو
Sunday 18th of August 2024
0
نفر 0

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطوط

 

مقوقس[94] کے نام خط

مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاهوں او رحکام کو خطوط لکھے او رانھیں اسلام کی طرف دعوت دی،حاطب بن ابی بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کی طرف یہ خط دے کرروانہ کیا۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

من: محمد بن عبداللّٰہ

الی: المقوقس عظیم القبط

سلام علی من اتبع الھدیٰ ،اما بعد:"فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔

اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم

القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم" ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون"۔

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے ۔

از ۔۔۔محمد بن عبد اللہ

بطرف۔۔۔قبطیوں کے مقوقس بزرگ ۔ حق کے پیروکاروں پر سلام هو۔

میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ هوں گے ۔۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں"۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سفیر مصر کی طرف روانہ هوا، اسے اطلاع ملی کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ھے لہٰذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد ورفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا او رمقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا ، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رھا، پھر کہنے لگا:"اگر واقعاً محمدخدا کا بھیجا هوا ھے تو اس کے مخالفین اسے اس کی پیدائش کی جگہ سے باھر نکالنے میں کیوں کامیاب هوئے او روہ مجبور هوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین او ربد دعا کیوں نھیںکی تاکہ وہ نابود هو جاتے؟"

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد نے جواباً کھا:

"حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھی ان کی حقانیت کی گواھی دیتے ھیں، بنی اسرائیل نے جب ان کے قتل کی سازش کی توآپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نھیں کی تاکہ خدا انھیں ھلاک کردیتا؟

یہ منطق سن کر مقو قس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا :

"احسنت انت حکیم من عند حکیم "

"آفرین ھے ،تم سمجھ دار هو اور ایک صاحب حکمت کی طرف سے آئے هو "

حاطب نے پھر گفتگو شروع کی اور کھا :

"آپ سے پھلے ایک شخص (یعنی فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں میں اپنی خدائی کا سودا بیچتا رھا ،بآلاخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کی زندگی آپ کے لئے باعث عبرت هو لیکن آپ کوشش کریں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے"۔

"پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ھمیں ایک پاکیزہ دین کی طرف دعوت دی ھے ، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کی او ران کے مقابل صف آراء هوئے، یهودی بھی کینہ پروری سے ان کے مقابلے میں آکھڑے هوئے او راسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ھیں ۔ "

مجھے اپنی جان کی قسم جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی بشارت دی تھی اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے ، ھم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کی دعوت دی تھی ،جوقوم پیغمبرحق کی دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کی پیروی کرے ،میں نے محمد کی دعوت آپ کی سرزمین تک پہنچادی ھے، مناسب یھی ھے کہ آپ او رمصری قوم یہ دعوت قبول کر لے"۔

حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ھی میں ٹھھرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب حاصل کرے ،چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا او رخواہش کی کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے۔

حاطب نے کھا:

"محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھمیں خدانے یکتا ئی پرستش کی دعوت دیتے ھیں او رحکم دیتے ھیں کہ لوگ روزوشب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبی رابطہ پیدا کریں او رنماز پڑھیں ،پیمان پورے کریں ،خون او رمردار کھانے سے اجتناب کریں"۔

علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی بعض خصوصیات بھی بیان کیں۔

مقوقس کہنے لگا:

"یہ تو بڑی اچھی نشانیاں ھیں۔ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظهور کریں گے جو انبیاء علیھم السلام کی سرزمین ھے،اب مجھ پر واضح هوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث هوئے ھیں"۔

اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربی زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے:

بخدمت : محمد بن عبد اللہ ۔

منجانب: قبطیوں کے بزرگ مقوقس ۔

"آپ پر سلام هو،میںنے آپ کاخط پڑھا ،آپ کے مقصد سے باخبر هوااو رآپ کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ظهور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطہٴ شام سے مبعوث هوگا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا هوں"۔

پھر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کی طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کی خدمت میں بھیجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا۔

"آپ پر سلام هو"

تاریخ میں ھے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے بھیجے ، تاریخ اسلام میں ان کی تفصیلات موجود ھیں،ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیما ر هونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیگر ہدیئے قبول فرمایائے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا او رفرمایا:"ھم ایسے لوگ ھیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نھیں کھاتے او رسیر هونے سے پھلے کھانے سے ھاتھ روک لیتے ھیں، یھی چیز ھماری صحت و سلامتی کے لئے کافی ھے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طبیب کی وھاں موجودگی کو درست نہ سمجھتے هوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہٰذا آپ نھیںچاہتے تھے کہ اپنی او رمسلمانوں کی جان کا معاملہ اس کے سپرد کردیں۔

مقوقس نے جو سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے او رخط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ اس نے آپ کی دعوت کو باطن میں قبول کرلیا تھا یا کم از کم اسلام کی طر ف مائل هوگیا تھا لیکن اس بناء پرکہ اس کی حیثیت او روقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاھری طو رپراس نے اسلام کی طرف اپنی رغبت کا اظھار نہ کیا ۔

قیصر روم کے نام خط

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

من: محمد بن عبداللّٰہ

الی: ھرقل عظیم الرّوم

سلام علی من اتبع الھدیٰ

اما بعد:فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔

اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم" ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون"۔

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے۔

منجانب: محمدبن عبد اللہ ۔

بطرف: ھرقل بادشاہ روم۔

"اس پر سلام ھے جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو اریسوں کا گناہ بھی تیری گردن پر هوگا۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں"۔

قیصر کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام پہنچانے کے لئے "دحیہ کلبی" مامور هوا سفیرپیغمبر عازم روم هوا۔

قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پھلے اسے معلوم هوا کہ قیصربیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ھے، لہٰذا اس نے بصریٰ کے گور نر حادث بن ابی شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاھراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اجازت دے رکھی تھی کہ دحیہ وہ خط حاکم بصریٰ کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات هوئی لیکن ملاقات سے قبل شاھی دربار کے کارکنوں نے کھا:

"تمھیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمھاری پرواہ نھیں کرے گا "

دحیہ ایک سمجھدار آدمی تھا کہنے لگا :

"میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا هوں ۔ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کی طرف سے آیا هوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم هونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسی کی عبادت نھیں هونی چاھیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ھے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں"۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد کی قوی منطق سے وہ بہت حیران هوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کھا:

"تمھیں چاہئے کہ خط بادشاہ کی مخصوص میز پر رکھ کر چلے جاؤ، اس میز پر رکھے هوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نھیں اٹھا سکتا"۔

دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو"بسم اللہ" سے شروع هوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا۔

"حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نھیں دیکھا "

اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال هوا کہ هو سکتا ھے خط لکھنے والا وھی نبی هو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ھے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف هو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا هوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقی حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانھیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :

کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکی رشتہ دار ھے ؟

ابو سفیان نے کھا :

میںاور محمد ایک ھی خاندان سے ھیں او رھم چوتھی پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ھیں۔

پھرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے۔ دونوں میں یوں گفتگو هوئی"

قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران هوا ھے؟

ابوسفیان: نھیں ۔

قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پھلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟

ابوسفیان: ھاں محمد راست گو او رسچا انسان ھے۔

قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ھے اور کونسا موافق؟

ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ھیں، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ھیں۔

قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھی ھے؟

ابوسفیان: نھیں۔

قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رھے ھیں ؟

ابوسفیان:ھاں ۔

اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کھا:

"اگر یہ باتیں سچی ھیں تو پھر یقینا وہ پیغمبر موعود ھیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظهور هوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے هوگا، میں تیار هوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پاؤں دھووٴں ،میں پیش گوئی کرتا هوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی"۔

پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت او رتعلق کا اظھار کیا۔

یہ بات جاذب نظر ھے کہ جس وقت پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پهونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظھار ایمان کیا یھاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پھلے ان کی آزمائش کی جائے، جب اس کی فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ھے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کھا کہ میں تو تمھیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس چلے جاؤ۔

جنگ ذات السلاسل

ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سرزمین "یابس"میں جمع ھیں، اور انهوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ھے کہ جب تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم او رعلی علیہ السلام کو قتل نہ کرلیں او رمسلمانوں کی جماعت کو منتشر نہ کردیں آرام سے نھیں بیٹھیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سرکردگی میں ان کی جانب روانہ کیا لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس آئے۔

آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو مھاجرین وانصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ هوئے او ررات بھر میں سارا سفر طے کر کے صبح دم دشمن کو اپنے محاصرہ میںلے لیا، پھلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا، جب انهوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ھی تھی کہ ان پر حملہ کردیا اور انھیں درھم برھم کر کے رکھ دیا،ان میں سے کچھ لوگوں کو قتل کیا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا او ربکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔

سورہٴ "والعادیات"نازل هوئی حالانکہ ابھی سربازان اسلام مدینہ کی طرف لو ٹ کر نھیں آئے تھے ،پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن نماز صبح کے لئے آئے تو اس سورہٴ کی نماز میں تلاوت کی،نمازکے بعد صحابہ نے عرض کیا، یہ تو ایسا سورہٴ ھے جسے ھم نے آج تک سنا نھیں ھے۔ آپ نے فرمایا: ھاں! علی علیہ السلام دشمنوں پر فتح یاب هوئے ھیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لاکر مجھے بشارت دی ھے۔ کچھ دن کے بعد علی علیہ السلام غنائم او رقیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد هوئے۔[95]

-----------------

[94] "مقوقس"(بہ ضم میم وبہ فتحہ ھردو "قاف")"ھرقل "بادشاہ روم کی طرف سے مصر کا والی تھا۔

[95] بعض کا نظریہ یہ ھے کہ یہ واقعہ اس سورہ کے واضح مصادیق میں سے ایک ھے،یہ اس کا شان نزول نھیں ھے۔

 

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زیارت رسول خدا اسلامی فرقوں کی نظر میں
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
معصومین علیہم السلام کی چالیس حدیثیں والدین کے ...
علی ولی اللہ
عزت امام حسین (ع) کی نگاہ میں
پندرہ رمضان نواسہ رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ ...
پیغمبر اسلام کے کلام میں مومن اور منافق کی پہچان ...
فاطمہ زہرا(س) زمین کو آسمان سے متصل کرنے کا ذریعہ ...
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطوط
حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment