اردو
Monday 17th of June 2024
0
نفر 0

شیعیت کو نابودی سے بچانے کیلئے امام جعفر صادق کا اقدام

 

عیسائی مذاہب میں تفرقہ اندازی جو ناسوت اور الاھوت کی پیدوار ہے وہ اتوس پہاڑ پر واقع عیسائی راہبوں کی (بلحاظ مذہب ) خانقاہوں کی حالت کشمکش ہے ۔ 

یونان میں سالونیک نام کی ایک ریاست ہے اور سالونیک کے مشرق میں تین جزیرے ہیں ان میں جو جزیرہ مشرق کی سمت میں ہے اس کا نام کوہ اتوس یا جزیرہ اتوس ہے اس کوہ اتوس پر مختلف مراتب کی خانقاہیں ہیں جن میں پہلے درجے میں بیس ہیں دوسرے میں بارہ ‘ تیسرے میں دو چار اور چوتھے میں دو سو پینسٹھ خانقاہیں ہیں ۔ 

قدیم زمانوں سے یہ کوہ اتوس ان آرتھوڈ کسی عیسائیوں کی پناہ گاہ رہا ہے جو دنیا ترک کرنا اور ساری عمر عبادت میں مشغول رہنا چاہتے تھے ۔ کوہ اتوس کی تمام خانقاہیں آرتھوڈ کسی مذہب کی ہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد جب روس میں بالشویکی حکومت بر سراقتدار آئی تو کوہ آتوس کی خانقاوں کے سارے عطیات کو زبردستی ضبط کر لیا اور مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں یہ خانقاہیں عطیات کی حامل تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی حکومتوں میں تبدیلی آئی اور ان ممالک میں کوہ آتوس کے عطیات بھی قومی ملکیت قرار دے دیئے گئے اور آج کوہ اتوس کے عطیات وہی ہیں جو یونان او ترکی کے یورپی حصے میں ہیں پہلے جنگ عظیم کے بعد یہ وقف شدہ املات روس میں بسنے والے راہبوں کے ہاتھوں سے چلی گئی تھیں ۔ 

پھر بھی ان خانقاہوں کی اتنی آمدن تھی کہ تقریبا پندرہ ہزار راہب اس پر گزر بسر کرتے اور تقریبا پندرہ سو خدمت گزار جو راہبوں کے لباس اور جوتے وغیرہ سیتے ‘ غذا تیار کرتے اور ان کے لباس دھوتے اس آمدن پر گزر بسر کرتے تھے ۔ 

لیکن آج کوہ اتوس کی یہ خانقاہیں ان وسائل سے محروم ہیں اور راہبوں کی تعداد بھی بہت کم ہے کوہ اتوس کیخواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ عورت کا وہاں پر وجود نہیں ہے اور دراصل عورت کوہ اتوس کی خانقاہوں میں گئی ہی نہیں اور کسی بھی دستاویز کی رو سے عورت ‘ جوان ہو یا بوڑھی ‘ ان خانقاہوں میں نہیں جا سکتی اگر کوئی راہب عالم نزاع میں ہو اور اسکی بوڑھی ماں چاہے کہ آخری لمحات میں اپنے بیٹے کو دیکھے تو اسے بھی ہر گز ان خانقاہوں میں جانے کی اجازت نہیں ملتی اور صرف وہ اپنے بیٹے کا تابوت جس میں اس کا جسد خاکی پڑا ہوتا ہے خانقاہ کے باہر دیکھ سکتی ہے ۔ 

دوسری جنگ عظیم تک کوہ اتوس کی خانقاہوں کا برقی رو کے ذریعے روشن ہونا تھا مزید لباس کی حالت یا گھریلو اثاثے اور لباس وغیرہ کے لحاظ سے ) پہلی صدی عیسوی کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد راہبوں کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی وہ تبدیلی ‘ خانقاہوں کا برقی رو کے ذریعے روشن ہونا تھا ۔ 

مزید لباس کی حالت یا گھریلو اثاثے کے لحاظ سے خانقاہوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اگر ان خانقاہوں کے راہب ‘ باہر کی دنیا سے باخبر ہوتے اور اپنے زمانے کے واقعات کی تاریخ رقم کرتے تو آج سب سے حقیقی تاریخ کوہ اتوس کی خانقاہوں میں ملتی ان خانقاہوں کے قیام کو چودہ صدیاں ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک بیرونی دنیا کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب بھی نہیں ملتی اور آج جبکہ ان خانقاہوں کو بجلی کے نظام سے متصل کر دیا گیا ہے پھر بھی ان تمام خانقاہوں میں سے سترہ خانقاہیں ایک ہی فرقے کی ہیں پھر بھی ایک خانقاہ میں تبدیل نہیں ہو سکیں کیونکہ ناسوت اور لاھوت کے لحاظ سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے کوہ اتوس پر دو یونانی خانقاہیں ایسی نہیں ملتیں جن کے راہب عیسی کی بشری ماہیت اور خدائی ماہیت کے بارے میں آپس میں متفق ہوں ۔ 

یہ اختلاف جس طرح کوہ اتوس کی درجہ اول کی خانقاہوں میں پایا جاتا ہے اسی طرح اس پہاڑ کے درجہ دوم کی بارہ خانقاہوں میں بھی پایا جاتا ہے چونکہ چودہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان خانقاہوں کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ نہیں ہے لہذا فرانسیسی ٹیلیویژن کے ۱۹۶۹ء کے معلومات عامہ کے مقابلے میں جن دانشوروں نے شرکت کی وہ کوہ اتوس کے درجہ اول کی پانچ خانقاہوں کے نام بھی نہیں بتا سکے ۔ چہ جائیکہ وہ درجہ اول و دوم کی تمام خانقاہوں کے نام بتاتے ۔ 

کوہ آتوس پر پہلی آرتھوڈ کسی خانقاہ چھٹی صدی عیسوی میں وجود میں آئی یہ ایک یونانی خانقاہ تھی ‘ جن راہبوں نے اسے تعمیر کیا انہوں نے اس خیال سے اس جگہ کو منتخب کیا کہ یہ ایک سنگلاخ پہاڑ تھا جو گہری وادیوں پر مشتمل دریا کے قریب اور آبادیوں سے دور تھا یہ مقام ان لوگوں کے رہنے سہنے کیلئے انتہائی مناسب تھا جو ساری عمر انسانوں سے دور رہنا اور عبادت کے سوا کوئی دوسرا کام نہ کرنا چاہتے ہوں اس کے بعد تمام آرتھوڈ کسی مذاہب کی خانقاہیں اسی کوہ آتوس پر بننی شروع ہوئیں اور درجہ اول کی بیسویں خانقاہ روسی آتھوڈ کسی فرقہ کے راہبوں نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں بنائی آج جبکہ پہلی خانقاہ کو تعمیر ہوئے چودہ صدیاں گزر چکی ہیں ان خانقاہوں میں عیسی کی ناسوتیا ور لاہوتی فطرت کے بارے میں اختلاف جوں کا توں ہے ۔ 

کہا جاتا ہے کہ جس وقت سلطان محمد دوم ملقب بہ فاتح ‘ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو اس شہر کے راہب بجائے اس کے کہ شہر کے دفاع کیلئے اقدامات عمل میں لاتے ‘ عیسی کی ناسوتی اور لاہوتی ماہیت کے بارے میں بحث کر رہے تھے بعض لوگوں نے اس روایت کو مذاق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ قسطنطنیہ کے کلیسا کے راہب شہر پر حملے کے خطرے کو نظر انداز کرکے عیسی کی ناسوتی اور لاہوتی ماہیت کے بارے میں بحث میں مبتلا ہوں لیکن اس روایت کو جھوٹا س لئے قرار نہیں دیا جا سکا کہ آرتھوڈ کسی کلیسا میں عیسی کی لاہوتی اور نا سوتی فطرت کے بارے میں مسلسل بحث ہوتی ہے لہذا یہ بعید نہیں ہے کہ جب سلطان محمد نے چند ماہ کیلئے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تھا تو شہر کے راہب پھر اسی موضوع پر تبادلہ خیالات کر رہے ہوں گے ۔ 

جو کچھ ہم نے کوہ آتوس کی خانقاہوں کے بارے میں کہا ‘ اس سے ہمارا مقصد عیسائیت میں عیسی کے ناسوت یا لاھوت ہونے کے بارے میں اختلاف کی تائید کرنے کے علاوہ یہ بھی بیان کرنا ہے کہ شیعہ مذہب کو زوال سے بچانے کیلئے جعفر صادق کون سا قدم اٹھایا ؟ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالون میں مسلمانوں میں رھبانیت کی جانب میلان پیدا ہوا ۔ دوسری صدی ہجری کا پہلا نصف اور دوسرا نصف عرصہ وہ زمانہ ہے جس میں مسلمانوں میں بہت سے فرقوں نے جنم لیا اور تیسری صدی تک یہ عمل جاری رہا ۔ دوسری صدی ہجر کے پہلے اور دوسری نصف عرصے میں جنم لینے والے فرقوں کا ایک گروہ رھبانیت کی طرف مائل تھا ان فرقوں کے بانیوں کا عقیدہ تھا کہ آدمی معمول کی زندگی کو ترک کرکے اپنی تمام عمر گوشہ تنہائی میں گزار دے ۔ 

انہوں نے انسان کے فرائض کو مختل اقسام کے اعتکاف میں متعین کر دیا تھا ان میں سے بعض کہتے تھے جب انسان اعتکاف میں بیٹھے تو اسے چاہیے کہ تمام اوقات نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے کیونکہ اسلام میں نماز سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ۔ 

بعض کا عقیدہ تھا کہ روزہ رکھنا نماز سے افضل ہے لہذا جو کوئی اعتکاف میں بیٹھے اسے ساری عمر روزہ سے رہنا چاہیے ۔ 

ان سے ذرا ماڈرن فرقے کے بعض بانیوں کا کہنا تھا کہ انسان جب معتکف ہو جائے تو اسے صرف خداوند تعالی کے بارے میں غورو خوض کرنا چاہیے کیونکہ سب سے افضل عبادت خداوند تعالی کے بارے میں غورو فکر ہے یہ سب فرقے رھبانیت کا شوق دلاتے تھے بلکہ تاکید بھی کرتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے پیروکاروں کے معاش کے بارے میں فکر مند نہ تھا کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ جو لوگ معتکف ہوں گے ان کی معاش کا بندوبست اوقاف کے ذریعے کیا جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسائیت کی خانقاہوں کی مثال ان کے مد نظر تھی ۔ 

جب انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ خانقاہیں اوقاف کی حامل ہیں لہذا ہمارے جو لوگ معتکف ہو جائیں گے ان کیلئے بھی اوقاف سے بندوبست ہو جائے گا شیعہ بھی دوسرے اسلامی فرقوں کی مانند رہبانیت کی طرف مائل ہوئے خصوصا وہ لوگ جن کی فطرت میں رہبانیت ہوتی ہے اور وہ زندگی میں کام کرنا نہیں چاہتے ان کیلئے ترک دنیا کا یہی بہانہ کافی تھای ۔ 

جعفر صادق نے شعیوں اور دوسرے مسلمانوں کی رھبانیت کی شدید مخالفت کی ۔ جعفر صادق علم تھا کہ اگر رھبانیت کا نظریہ شیعہ میں مضبوط ہو گیا تو یہ فرقہ نابود ہو جائے گا خاص طور پر اس زمانے کی بنی امیہ کی حکومتیں بھی شیعوں کی مخالف تھیں اور کبھی تو وہ اپنی مخالفت کا بر ملا اظہار بھی کرتے تھے ایسی صورت میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعوں کی غفلت ان کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتی تھی ۔ 

بنی امیہ چاہتے تھے کہ شیعہ ‘ دنیا کو ترک کرکے معتکف ہو جائیں اس طرح وہ بیرونی دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کر لیں تاکہ باہر سے کوئی ان سے رابطہ نہ رکھے اور وہ تبلیغ کے ذریعے شیعہ مذہب کو نہ پھیلا سکیں ۔ بنی امیہ جانتے تھے کہ شیعہ جب دنیا سے ہاتھ دھو لیں گے اور تمام عمر ایک عبادت گاہ میں گزاریں گے تو کچھ عرصے بعد خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ 

چونکہ خانقاہ ‘ کلیسا کی مانند نہیں ہوتی اس میں کلیسا کی مانند مذہبی تبلیغ کے وسائل بھی مہیا نہیں ہوتے ۔ 

کلیسا مزہبی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے اور کلیسا کے نام پر جہاں کہیں کوئی مرکزی مذہبی تنظیم وجود میں آتی ہے تو اس کا واضح مقصد مزہب کا فروغ ہوتا ہے جو افراد کسی مذہب کے مرکزی انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے ہیں وہ ان رضا کاروں کی مانند ہوتے ہیں جو مزہب کو تقویت پہنچانے اور اس کے فروغ کیلئے جنگ لڑتے ہیں چونکہ جو شخص کسی مقصد کیلئے جدوجہد کرتا ہے اسے اس کا نتیجہ ملتا ہے لہذا یہ لوگ جو مذہب کیلئے جنگ لڑتے ہیں انہیں بھی ان کے مساعی کا پھل ملتا ہے لیکن جو شخص خانقاہ میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے وہ شکست خوردہ ہوتا ہے اور جنگ و جہاد کو ایک طرف رکھ دیتا ہے ۔ 

خانقاہ میں گوشہ نشینی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن یہ بات عیان ہے کہ جو کوئی خانقاہ میں گیا وہ اب مجاہد نہیں رہا وہ جہاد کو ترک کرکے ساری عمر کیلئے ایک ہی ڈھنگ کی زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔ خصوصا شیعوں کو بنی امیہ جن کے خون کے پیاسے تھے ۔ جعفر صادق جانتے تھے کہ اگر اس مذہب کے کچھ لوگوں کو کسی خانقاہ میں عبادت کیلئے معتکف کیا جائے تو یہ مذہب کیلئے ہر گز سود مند نہیں ہو گا اس طرح مذہبی اشاعت رک جائے گی ۔ 

انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اگر شیعوں نے اعتکاف کے مراکز کی جانب رخ کر لیا اور وہاں گوشہ نشین ہو کر اپنی تمام عمر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے میں صرف کرنے لگے تو شیعہ مذہب جسے بنو امیہ کی دشمنی کا سامنا ہے نابود ہو جائے گا اگر بنو امیہ شیعوں کی مخالفت نہ بھی کرتے اور شیعہ آبادیوں سے دور افتادہ علاقوں میں معتکف ہو جاتے تو چونکہ مذہب کی اشاعت و تبلیغ کیلئے کوئی بھی مجاہد باقی نہ رہتا اس لئے یہ مزہب خود بخود ختم ہو جاتا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اعتکاف کی فکر اور خانقہ میں بسر کرنے کا رجحان صرف عیسائیوں میں پیدا ہوا ہے ۔ 

اس سے پہلے دنیا سے ہاتھ دھو کر ساری عمر ایک عبادت گاہ میں گزارنے کا تصور نہیں ملتا ۔ عیسائیت سے پہلے دوسرے مذاہب میں عبادت گاہیں موجود تھیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک میں متعلقہ مذہب کے جاننے والے لوگ بھی رہتے تھے ان عبادت گاہوں کے اوقاف بھی ہوتے تھے جس طرح قدیم مصر میں زرعی جائیدادوں کا بڑا حصہ عبادت گاہ کی ملکیت ہوتا تھا ۔ 

لیکن اس عبادت گاہ میں رہنے والے تارک الدنیا شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ انہیں خدام مذہب کہا جاتا تھا اور دیکھا گیا کہ وہ اپنے مذہب کی طرف داری میں جنگ لڑتے اور قتل ہو جاتے تھے اعتکاف میں بیٹھنے اور دنیا سے ہاتھ دھونے کی فکر دراصل ہندوانہ فکر ہے قدیم ہندوستان میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کے بیٹے جوان ہو جاتے تو وہ باپ اپنے کنبے کی کفالت سے دستبردار ہوتے ہوئے معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر جنگل کی راہ لیتا تھا اور اپنی باقی ماندہ زندگی کو تنہائی میں وہیں گزار کر اس جہاں فانی سے کو کر جاتا تھا ۔ 

یہی سوچ عیسائیت میں داخل ہوئی اور رومی حکومت کے عیسائیوں پر مظالم شاید اس سوچ کو تقویت دینے کا سبب بنے ‘ اس طرح چند عیسائی گروہوں نے اس دنیا سے ہاتھ دھو کر خانقاہوں میں گزر بسر کرنے کی ٹھانی اور بعض کا خیال ہے کہ عیسی کی تعلیمات کا بھی اس میں اثر ہے کیونکہ ان تعلیمات میں اس دنیا سے زیادہ اخروری دنیا کی جانب توجہ دی گئی ہے ۔ اس زمانے میں یعنی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں مسلمانوں نے نہ صر ف رھبانیت کی طرف توجہ دی جس کی جعفر صادق نے سختیس ے مخالفت کی تھی بلکہ عیسائیت کی ایک اور رسم بھی جسے بپتسمہ یا غسل دینا کہا جاتا ہے کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ 

چونکہ مسلمانوں کا اس زمانے میں صرف آرتھوڈ کسی مذہب کے پیروکاروں سے رابطہ تھا جو غسل دینے کی اس رسم کو اس طرح ادا کرتے تھے جس طرح اس مذہب کے پیروکار ادا کرتے تھے یعنی بچے کی پیدائش کی بیسویں اور چالیسویں دن کے درمیانی عرصے میں اسے مسجد لے جا کر ننگا کرکے طشت میں بیٹھا دیتے اور پھر طشت کو پانی سے بھر دیتے تھے ۔ 

پھر بچے کو اس طرح بٹھاتے تھے کہ اس کا چہرہ مشرق کی طرف ہوتا اور ایک مرد اور ایک عورت بچے کے دونوں جانب دائیں اور بائیں ہو جاتے اور مرد کو سوتیلا باپ اور عورت کو سوتیلی ماں قرار دیا جاتا پھر وہ بچے کا نام تجویز کرنا چاہتے اسے زبان پر لاتے جو آدمی مسجد کا متولی ہوتھا وہ جواب دیتا کیونکہ بچہ بولنے سے قاصر ہوتا وہ جواب میں کہا میں ایمان لایا ہوں ‘ دوسری مرتبہ پھر مسجد کا متولی بچے کا نام زبان پر لاتا اور کہتا کیا تو محمد پر ایمان لایا ہے ؟ اس دفعہ سوتیلی ماں جوابا کہتی میں ایمانی لائی ہوں پھر وہی متولی خوشبودار تیل کے چھوٹے سے برتن سے تیل اپنی انگلی پر لگاتا اور بچے کی پیشانی اور دو رخساروں پر ملتا اسی طرح دوبارہ انگلی کو تیل میں ڈبو کر اس کے سینے اور پیٹھ پر ملتا پھر اپنے دو ہاتھوں سے بچے کو پیٹھ سے پکڑ کر اوپر اٹھانے کے بعد پانی میں ڈبوتا اور فورا باہر نکالتا تاکہ پانی اسے ضرر نہ پہنچائے یہ عمل دو مرتبہ دھراتا اس کے بعد وہ سوتیلا باپ اور ماں بچے کو سفید لباس زیب تن کرواتے اور اس طرح بپتسمہ کی یہ رسومات ختم ہو جاتیں ۔ 

اس قسم کی رسومات آرتھوڈ کسی مذہب میں رائج تھیں اور کیتھولک ان رسومات کے دوران لاطینی زبان میں دعائیں پڑھتے اور بچے کو صرف سینے تک پانی میں ڈبوتے جبکہ بچے کی گردن اور سر کو پانی سے باہر رکھتے لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ مسلمانوں کا اس وقت تک کیتھولک فرقے کے ساتھ رابطہ نہ تھا اور صرف آرتھوڈکس سے رابطہ رکھتے تھے اور صاف ظاہر ہے کہ تعمید کی رسومات آرتھوڈکس کی مانند انجام دیتے تھے امام جعفر صادق نے جس طرح رہبانیت کی شدید مخالفت کی اسی طرح بپتسمہ کی بھی مخالفت کی ‘ ہمیں معلوم ہے کہ وہ عیسائیت کی تاریخ سے بخوبی واقف تھے انہیں علم تھا کہ بپتسمہ کی رسم کس طرح عیسائیت میں داخل ہوئی ۔ 

جعفر صادق مسلمانوں سے فرماتے تھے آج آرتھوڈ کسی عیسائیوں کو بھی علم نہیں کہ بپتسمہ کے دوران میں بچے کا رخ مشرق کی طرف کیوں موڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی مذہب شروع میں انطاکیہ میں کافی طاقت پکڑ گیا اور عیسی کے پیروکار اس جگہ بپتسمہ کے دوران بچے کا رخ مشرق کی جانب رکھتے تھے کیونکہ بیت المقدس ‘ انطاکیہ کے مشرق میں واقع ہے آج ایران کے عیسائی بھی بچے کا رخ مشرق کی جانب رکھتے ہیں حالانکہ بیت المقدس ایران کے مغرب میں واقع ہے۔ جعفر صادق شیعوں اور دوسرے اسلامی فرقوں سے فرماتے تھے میں نہیں سمجھتا کہ بپتسمہ کے دوران بچے پر تیل ملنے کی رسم جو عیسائیوں میں رائج ہے دوسری قوموں سے عیسائیت میں داخل ہوئی ہے کیونکہ ہم مسلمانوں میں بھی بعض ایسی رسومات ہیں جو دوسری مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئی ہیں ۔ 

لیکن پیغمبر اسلام نے انہیں اسطرح اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالا ہے کہ وہ اب غیر اسلامی نہیں رہیں البتہ بپتسمہ کی رسم اپنی اس حالت میں جیسا کہ بعض مسلمان اسے انجام دیتے ہیں عیسائی رسم ہے اور ایک مسلمان کو عیسائی مذہب کے قوانین پر عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ اگرچہ قرآن میں عیسی کا کئی مقامات پر احترام کیا گیا ہے لیکن عیسائیت کے قوانین پر عمل کرنا مسلمان کیلئے جائز نہیں ۔ 

بچے کو نہلانا پاکیزگی کیلئے ضروری ہے لیکن عیسائیوں کے طریقے پر نہیں بلکہ میں تمام مسلمانوں کو ایسا کرنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتا ہوں اور جو کوئی میرے منع کرنے کے باوجود اس فعل کی تکرار کرے میں اسے حقیقی مسلمان نہیں سمجھوں گا اگرچہ وہ اصول دین سے منحرف نہیں ہوا ۔ 

لیکن ایک عیسائی رسم کی پیروی سے ظاہر ہے کہ دین اسلام کے بارے میں اس کا عقیدہ پختہ نہیں ہے اور اس کا یہ تکرار مسلمان کے درمیان تفرقہ بازی کا موجب بنے گا جس طرح عیسائیوں کے درمیان تفرقے کا سبب بنا ہے جب امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ کیا آج مسلمانوں کے درمیان اختلاف نہیں پایا جاتا ؟ آپ نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان پیغمبر اسلام کی ماہیت کے بارے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ مسلمانوں کے درمیان پیشوائی کے بارے میں ایک جیسا عقیدہ پایا جاتا ہو ۔ اور عیسائیوں کے بعض فرقے ‘ دوسرے فرقیے کے پیروکاروں کو مرتد اور واجب القتل سمجھتے ہیں جس طرح انطاکیہ کے عیسائی فرقے اور حبشہ کے عیسائی فرقے کا عقیدہ ہے کہ نستوری فرقہ والے مرتد اور واجب القتل ہیں ۔ 

اجو لوگ امام جعفر صادق کے حضور میں درس پڑھتے تھے وہ نستوری فرقہ کے عقیدہ سے بے خبر تھے اور جعفر صادق نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ہمارے پیغمبر کی ہجرت سے ایک سو نوے سال پہلیا ور ۴۲۹ عیسوی میں قسطنطنیہ کے عیسائی اسقف نے جس کا نام نستوریس تھا نے کہا کہ عیسی ماہیت اور فطرت کے لحاظ سے ایک انسان ہے اور اس میں خدائی ماہیت کا ذرا بھی اثر نہیں ہے لیکن خدا اس میں اس طرح رہتا ہے جس طرح ایک مسافر کسی سرائے میں ٹھہراتا ہے یا مومن ‘ کلیسا میں ٹھہرتا ہے یہ نظریہ چند ہی روز میں قسطنطنیہ میں عام ہو گیا اور پھر وہاں سے اطراف کے علاقوں میں پھیل گیا ۔ 

اسکندریہ اور انطاکیہ کے عیسائی فرقے جو عیسی کو انسانی فطرت اور خدائی فطرت کا خمیر سمجھتے تھے نہ صرف یہ کہ انہوں نے نستوریس کے نظریہ کو روکیا بلکہ انہوں نے فتوی دیدیا کہ نستوریس اور اس کے پیروکار مرتد اور واجب القتل ہیں 

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

صحیفہ امام رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بعض کرامات
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
کیا حضرت خدیجہ(ع) کی رسول خدا(ص)سے ازدواج سے پہلے ...
ولایت علی ع قرآن کریم میں
امام کے سپاہی
امیر المومنین کا وہ خطبہ بیان کیجیےجو بغیر الف کے ...
مصحف امام علی علیه السلام کی حقیقت
حضرت زہرا و حضرت مہدي عليہما السلام
امام حسین (ع) کی ولادت

 
user comment