اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

عالمِ اسلام کی حساس صورتِحال اور عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں

عالمی استکبار (World Arrogance) کا دنیا پر اپنے تسلط کی بقاء کے حوالے سے روز بروز اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ عالمی استکبار سے مراد امریکہ کے زیرِ قیادت دنیا پر حاکم مغربی قوتیں اور مشرقِ وسطیٰ میں ان کا اسٹرٹیجک حلیف صہیونی اسرائیل ہے۔ اس وقت عالمِ اسلام میں مغربی استعمار کا جو غیر معمولی جارحانہ نفوذ ہے وہ اس کے اعتماد کے متزلزل ہونے کے سبب ہی ہے۔ سولہویں صدی میں مغربی تہذیب نشاۃ ثانیہ کے ساتھ دنیا کے نقشے پر بھرپور آب و تاب کے ساتھ ابھری اور اپنی محیرالعقول سائنسی ایجادات کے سبب آناً فاناً چھا گئی۔ لہٰذا مغرب کے غیر معمولی اعتماد اور قوت کی جو تاریخ ہے وہ تقریباً پانچ سو سال پرانی ہے۔ مغربی استعمار کا ظہور برطانیہ کی قیادت میں شروع ہوا تھا اور اس کا عروج امریکہ کی قیادت میں منتہی ہوا چاہتا ہے۔ اس پانچ سو سالہ دور میں دنیا کے دیگر علاقوں اور بالخصوص عالمِ اسلام میں بہت سارے گروہوں اور تحریکوں نے مغربی استعمار کو چیلنج پیش کرنے کی کوشش کی لیکن مغرب نے اپنی حکمتِ عملی سے انھیں ایسی شکست دی کہ یا تو وہ نابود ہوگئیں یا اگر باقی بھی رہیں تو ان میں جان باقی نہیں رہی بلکہ بہتیری تحریکیں شکست خوردگی کے شدید احساس کے زیرِ اثر آکر خود مغربی استعمار کو تقویت پہنچانے کا دانستہ و نادانستہ آلۂ کار بن گئیں۔

مغربی استعمار کو استکبار سے تعبیر دینے کی چند وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اس نے خدا کے مقابلے میں آکر تمام آسمانی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کی اور مادی قدروں کی انسانی معاشروں پر حاکمیت کو یقینی بنایا۔ اگرچہ مغربی استعمار سے پہلے یہ کام دنیا میں دوسرے خدا دشمن گروہ بھی کرتے رہے ہیں لیکن مغرب نے یہ کام بالکل مختلف انداز سے کیا۔ دنیا میں پہلے بھی دھڑلے سے برائیاں ہوتی تھیں لیکن برائیوں کو بہرحال برائیاں ہی سمجھا جاتا تھا۔ مغرب نے ایسے فلسفے کو فروغ دیا جو اچھائی اور برائی، حق و باطل کے حوالے سے رائج پیمانے کو درہم برہم کرکے رکھ دیا بلکہ بالکل الٹ کر رکھ دیا۔ بقول شاعر!

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

چنانچہ پہلے برے کام کرکے لوگوں کو پشیمانی اور ندامت کا احساس ہوتا تھا لیکن مغرب نے جو فلسفہ دیا اس کی روشنی میں بدی ہی نیکی قرار پائی اور ڈھٹائی اور افتخار سے لوگ اپنے اعمالِ بد پر نازاں رہنے لگے: بقول شاعر:

آج کے دور میں تہذیب اپنے حسُن پر ہے نازاں ایسے

اپنے پیروں کی خرابی کا نہ کرکے خیال

بیخودی میں کوئی طاؤس ہو رقصاں جیسے

مغرب کی اس روش کے نتیجے میں عجیب و غریب تحول دیکھنے میں آیا۔ مثلاً خاندانی نظام تباہی سے دوچار ہوا اور مادر پدر آزاد معاشرے کی حوصلہ افزائی ہوئی اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسانوں کے مابین ہم جنسیت پر مبنی ازدواجی بندھن کو مغرب کے حکومتی ایوانوں میں علی الاعلان قانون کے ذریعے مشروعیت (Legitimacy) فراہم کی جارہی ہے۔ مغرب کا یہ طرزِ عمل دراصل الٰہی قدروں سے جنگ کا آئینہ دار ہے اور مغرب کی یہ روش اس وقت سے ہے جب سے یہ تسخیرِ قوانینِ کائنات کے دعوے کے ساتھ منصہ شہود پر ابھرا۔ چنانچہ الٰہی قدروں سے دشمنی ہی کے نتیجے میں اس نے مذاہبِ آسمانی کی تحقیر کی، کمزور لوگوں یعنی مستضعفین پر ظلم کیا اور اپنے پست مادی مفادات کے لئے ان کا مسلسل استحصال کیا۔ اس کی اس ظالمانہ روش کو چیلنج کرنے کے لئے جو تحریکیں اٹھیں ان کے انجام کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

پانچ سو سالہ اپنی طویل تاریخ میں مغرب نے اپنی انسانیت دشمن روش کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ مغرب کی اسی خدا دشمن اور انسان دشمن روش کو استکبار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دنیا نے 1979ء میں ملکِ ایران میں امام خمینی کی الٰہی قیادت میں ایک غیر معمولی انقلاب کا مشاہدہ کیا۔ اس انقلاب کی سب سے منفرد خصوصیت یہ تھی کہ یہ انقلاب دنیا پر مادی قدروں کی حاکمیت کو ختم کرکے الٰہی قدروں کی حاکمیت کو قائم کرنے پر مصر تھا اور اس معاملے میں مغرب کی ایک بھی سننے کا روادار نہیں تھا۔ اسلامی ایران کا آج بھی یہی موقف ہے جو مغربی استعمار کے لئے زبردست پریشانی کا باعث ہے۔

امریکہ کے زیرِ قیادت مغرب نے بہت کوشش کی کہ اس انقلاب کو ابتدا ہی میں اپنے سانچے میں ڈھال لے لیکن اسے اپنے اس ہدف میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ مغرب نے اس انقلاب کو مٹانے کے لئے سفارتی حربو ں سے کام لیا، سازشوں کا سہارا لیا، وحشیانہ دہشت گردی کو وسیلہ بنایا یہاں تک کہ ننگی فوجی جارحیت سے بھی گریز نہیں کیا۔ امام خمینی  اور ان کی انقلابی تحریک نے خدا پر توکل اور اپنی مزاحمت و استقامت کی روش کے نتیجے میں ہر مشکل مرحلے کو کامیابی سے عبور کیا۔ امام  اور ان کے مخلص دوستوں کی الٰہی حکمتِ عملی کے نتیجے میں دشمنوں کو سوائے ذلت و پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ لگا۔ ایران میں اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے بعد امریکہ اور اس کی حلیف قوتیں مایوس ہوگئیں کہ امام کے جیتے جی الٰہی انقلاب کا کچھ بھی نہیں بگاڑا جاسکتا چنانچہ وہ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لئے امام کے بعد کے ادوار کے لئے حکمتِ عملی وضع کرنے کی طرف متوجہ ہوئیں۔

لیکن خدا کے لطف و کرم سے امام خمینی  کے بعد ایران کے انقلاب کو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی صورت میں ایک ایسا رہبرِ فرزانہ نصیب ہوا کہ استعمار کی تمام امیدوں پر پھر سے پانی پھر گیا۔ امام خمینی کے دور میں استعمار نے انقلابِ اسلامی کے لئے جو مشکلیں کھڑی کی تھیں ان میں واقعۂ طبس، گروہِ منافقینِ خلق کی امام  و انقلاب دشمنی، بنی صدر کا پیدا کردہ بحران، پارلیمنٹ کا دھماکوں سے اڑایا جانا اور اس کے نتیجے میں انقلاب کے پہلے اور دوسرے سطح کے قائدین کا صفایا ہوجانا، صدر رجائی اور وزیرِاعظم جواد باہنر کا لقمۂ دہشتگردی بن جانا اور سب سے اہم عراق کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن استعمار نے امام کے دور میں انقلاب دشمنی میں جو موثر ترین چال چلی وہ انقلابِ اسلامی کو شیعوں کا انقلاب قرار دینا تھا۔ مغربی میڈیا نے بڑے شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ایک شیعہ انقلاب ہے جو دراصل سنیوں کے خلاف ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت مغرب نے عالمِ اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے کی بڑی گہری سازش کی۔

صدام حسین کی آٹھ سالہ جنگ کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اس جنگ کو سنیوں اور شیعوں کے مابین جنگ ثابت کیا جائے اور یوں سنی اور شیعہ برادری میں ہمیشہ ہمیش کے لئے دوری اور اجنبیت پیدا کردی جائے۔ مغرب نے اس کام کے لئے صدام کو فرنٹ لائن پر رکھا اور عرب دنیا کے مطلق العنان حکمرانوں کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ عالمِ اسلام میں ایسے گروہوں کی سرپرستی فرمائیں جو شیعہ سنی کے درمیان دشمنی ایجاد کرنے میں کارگر ثابت ہوں۔ چنانچہ عرب کے شاہی حکمرانوں نے جس میں سعودی عرب کے شاہی خاندان آلِ سعود کا رول سب سے زیادہ گھناؤنا ہے صدام کی مالی مدد کے لئے اپنے خزانوں کے دہانے کھول دیئے۔ اس کے علاوہ جمہوریت، روشن فکری اور امن کے علمبردار امریکہ اور مغرب نے قرونِ وسطیٰ کی یادگار عرب شاہی حکومتوں کے تعاون سے عالمِ اسلام میں القاعدہ، طالبان، سپاہِ صحابہ اور جند اللہ جیسی دہشتگرد تنظیموں کو جنم دیا جنھوں نے سنی اسلام کے نام پر اسلام کی ایک وحشیانہ تصویر پیش کی۔ اسلام کی یہ دہشتگردانہ تعبیر مسلمانوں کے درمیان باہمی تفرقہ کو ہوا دینے اور انھیں اپنے مغربی دشمنوں کے مقابلے میں کمزور سے کمزور تر کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوئی۔

امریکہ اور مغرب نے شیعہ سنی اختلاف کو عالمِ اسلام پر اپنے تسلط، اسرائیل کے تحفظ نیز مسلمانوں کے قدرتی ذخائر پر قبضے کے لئے اپنے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار خیال کیا۔ مغرب نے سوؤیت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام ہراسی (Islamophobia) کا فلسفہ گھڑا اور اس کے ذریعے یورپی ممالک اور امریکہ کے اتحادی ممالک کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔ ان سب گھناؤنے حربے کے باوجود مغرب اُس الٰہی انقلاب کو روز افزوں توانا اور مضبوط ہونے سے نہ روک سکا جو 1979ء میں امام خمینیؒ کی قیادت میں رونما ہوا تھا اور جو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی قیادت میں پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ امریکہ اور مغرب نے انقلاب کی ابتدا ہی سے ایران کے خلاف متعدد قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کیں لیکن ایران کی الٰہی قیادت نے ان تمام مشکلات کو مواقع میں تبدیل کیا اور سائنسی اور اقتصادی میدانوں میں غیر معمولی پیشرفت و ترقی کی۔ فوجی لحاظ سے ایران اپنی قدرت کے ایسے نقطے پر پہنچ چکا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کی کوئی جارح قوت اس پر حملے کی جرأت نہیں کرسکتی۔

اس کے علاوہ اسلامی ایران اپنے الٰہی تصورِ جہاں بینی کے نتیجے میں ایسی بصیرت اور قوت سے مالا مال ہے کہ خطے میں حتیٰ کہ دنیا میں کوئی بھی ڈیولپمنٹ ایران کی معاملات پر اثرانداز ہونے کی توانائی سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بعض اہم ممالک میں عوامی اسلامی بیداری کی جو تازہ تحریکیں ابھریں وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی ہی مرہونِ منت ہیں۔ امریکہ ہنوز اس کوشش میں ہے کہ اسلامی بیداری کی ان تحریکوں کا رخ اپنے فائدے میں موڑ لے لیکن کامیابی کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔ جب یہ بیداری کی تحریکیں چل رہی تھیں تو امریکہ نے مصر میں اپنے دیرینہ نوکر حسنی مبارک کو بچانے کے لئے سو جتن کئے لیکن اس کی ایک نہ چلی اور بالآخر اس نا مبارک آمر کو تختِ حکومت سے بے دخل ہونا پڑا جس نے اپنی ناپاک پالیسی سے پورے خطے میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔ بالخصوص فلسطین کی آزادی کی تحریک کے لئے سعودی عرب کی آلِ سعود کی طرح حسنی مبارک بھی انتہائی ضرر رساں ثابت ہوا۔

امریکہ اور مغرب در پردہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حمایت کرتے رہے اور اس ملک کی دولت کو ناجائز طریقے سے لوٹتے رہے۔ مغرب کی یہ مجرمانہ لوٹ مار اس لئے کامیابی سے جاری تھی کہ معمر قذافی جیسا سفاک ڈکٹیٹر ان کے جرم میں معاون و مددگار تھا اور خود اپنے عوام سے خیانت کا مرتکب ہو رہا تھا۔ امریکہ نے یورپی ممالک اور صہیونی اسرائیل کی ملی بھگت سے نیز قطر اور دیگر شاہی عرب حکومتوں کے تعاون سے معمر قذافی کے خلاف ایک ایسا scenario تیار کیا کہ جس کے تحت لیبیا میں القاعدہ کو نفوذ فراہم کرکے قذافی کے خلاف عوامی تحریک کو مغربی ایجنڈے سے ہم آہنگ کیا جاسکے نیز اس کو ایک عالمی مسئلہ بناکر اس تجربے کا اطلاق بعد میں شام پر مزید پیش رفتہ شکل میں کیا جاسکے۔ شام اس وقت مغرب، اسرائیل اور ان دونوں کی اسٹراٹیجک حلیف عرب شاہی آمریتوں کی سازشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ مغربی قوتیں تیونس میں رونما ہونے والے انقلاب کو ناکارہ بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اور وہاں سیاسی بحران پیدا کرکے اسلامی قوتوں کو ایران سے دور کرنے کی فکر میں ہیں۔

بعینہ یہی صورتحال مصر کی ہے جہاں مغرب کی بھرپور کوشش ہے کہ انقلاب کے بعد کی صورتحال میں مصر کسی بھی طور ایران سے قریب نہ ہو پائے نیز مصر کی ریاستی قوت سے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو توانائی حاصل نہ ہوپائے۔ چنانچہ قطر اور ترکی کو تو حماس سے روابط کی اجازت دی لیکن مصر اور حماس کے روابط پر امریکہ اور مغربی قوتیں بہت زیادہ راضی نہیں ہیں البتہ مغربی قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ قطر اور ترکی کی طرح مصر کی نئی حکومت بھی حماس کو دو ریاستی حل کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ مصر اس وقت جن گوناگوں مشکلات سے دوچار ہے اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی آزاد حیثیت کو منوانے، اپنی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے، اپنے سیاسی نظام کو عوام دوست بنانے کے لئے اور اسلامی ثقافت و تہذیب کو اپنے ملک میں پھر سے جلا بخشنے کے لئے ایران سے انتہائی قربت کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کرے بصورتِ دیگر امریکہ اور مغرب و اسرائیل نیز مصر کے پڑوس میں واقع ان قوتوں کے اسٹراٹیجک اتحادی یعنی شاہی عرب آمریتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوکر مصر ایک بار پھر قصر ذلت میں جا گرے۔

یمن میں علی عبداللہ صالح کے جانے کے بعد امریکہ اور مغرب وہاں کچھ نئے انداز سے سازشوں کا جال بُن رہے ہیں اور یمنی عوام کو اپنے انقلابی مطالبات سے منحرف کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی پالیسی سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے سعودی عرب یمن میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے اور وہاں سلفی گروہوں کے قوی نفوذ کو ممکن بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کیونکہ سعودیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ یمن کی لبرل شیعہ تحریک بحرین کی انقلابی تحریک کے ساتھ سعودی عرب کے استحکام کے لئے زبردست خطرہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ یمن کے کٹھ پتلی صدر منصور ہادی نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی قومی مصالحت پر مبنی مذاکرات کا حال ہی میں آغاز کیا ہے جس کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ انتخابات کے لئے راہ ہموارکی جائے اور طویل بحران کے خاتمے کے لئے نیا آئین وضع کیا جائے۔

یہ مذاکرہ دارالحکومت صنعاء میں صدارتی محل میں انجام پایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں یمن کی سیاسی پارٹیوں کے پانچ سو ساٹھ مندوبین شامل ہوئے۔ بہرحال اس مذاکرہ کا جنوبی یمن کے نوجوانوں کی تحریک اور زیدی شیعہ گروہ حوثیوں نے بائیکاٹ کیا۔ یہ دراصل علی عبداللہ صالح کے حامیوں اور مخالفوں کے مابین تفاہم پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس قومی مذاکرے کو سعودی عرب کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے وہابی انتہا پسندوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہا ہے اور حوثیوں نیز دیگر متعدل گروہوں جو سعودیوں کے حامی نہیں کو کمزور کرنے کے لئے اپنے سازشی منصوبوں سے کام لے رہا ہے۔ سعودی عرب کی خطے میں جاری سازشیں ایسی حالت میں ہیں کہ خود سعودی شاہی حکومت بری طرح مائل بہ زوال ہے۔

سعودی شاہی حکومت قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور کی حکومت دکھائی دیتی ہے۔ اس ملک میں ہر طرح کی خرابی موجود ہے۔ جہالت، پسماندگی اور بدعنوانی اس ملک میں تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ مشرقی شیعہ علاقوں میں آلِ سعود کے خلاف تحریک زور و شور سے اور مسلسل جاری ہے۔ ان علاقوں میں کارکنوں کی رہائی اور آیت اللہ باقر نمر و دیگر علماء و رہنماؤں کی رہائی کے لئے عوام کے مطالبات میں شدت آتی جارہی ہے۔ احتجاجی تحریکوں کا دائرہ ریاض تک پھیل گیا ہے۔ سعودی جیلوں میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد قید ہے۔ اگر سعودی حکومت قیدیوں کو رہا بھی کردیتی ہے پھر بھی عوام اپنی تحریک سے دست بردار نہیں ہوں گے اس لئے کہ صورتحال اس کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جو بظاہر لوگوں کو نظر آتی ہے۔ وہاں آگ خاک تلے دبی ہوئی ہے اور یہ اس وقت بری طرح بھڑک اٹھے گی جب حالات اپنے اندر سے ایندھن اگلنے لگیں گے۔ البتہ عوام کے لئے حالات بہت حوصلہ افزا ہیں۔ یہ وقت تمام طبقات اور گروہوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ دین کے زیرِ سایہ ایسی سیاسی تحریک اٹھائیں جو مغرب اور اسرائیل کی غلام جابر اور بدعنوان شاہی حکومت کے خاتمے پر منتج ہو۔

سعودی عرب کی پالیسی ہی کے نتیجے میں اس وقت پاکستان قتل و غارت گری اور ہر نوع کی دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے منظم فوجی و ایٹمی قوت کے حامل ملک کو سعودی نفوذ کے نتیجے میں شدید اقتصادی، سیاسی نیز امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے۔ سعودیوں سے حددرجہ قربت نے اس ملک کو داخلی انتشار سے دوچار کردیا ہے اور یہ ملک سیاسی تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ عوام اور سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ سعودی عرب کی قربت نے اسے جس مشکل میں مبتلا کردیا ہے اس سے نجات پائے بغیر عوام چین و سکون سے ہرگز ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ اس بات کا اعتراف میڈیا میں کھلے عام کئے جانے لگا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا عوامی، سیاسی، فوجی نیز صحافتی حلقوں میں بڑا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا ہے۔

پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور یہ ایران جیسے اپنے مخلص دوست سے ہمکاری کرکے اپنی معاشرت، اپنی سیاست، اپنی ثقافت اور اپنی اقتصاد کو حقیقی اسلامی خطوط پر استوار کرسکتا ہے اور اس طرح وہ ایک منصفانہ سیاسی نظام کے ذریعے جہاں اپنے عوام کو امن و خوشحالی سے ہمکنار کرسکتا ہے وہیں اپنی سیاسی و فوجی توانائی کو نقطۂ عروج عطا کرتے ہوئے اپنے عوام کو دنیا میں وقار و سربلندی سے سرفراز کرسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جب کہ اس کے پاس جوہری قوت موجود ہے۔ ایران کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد اہم شعبوں میں نت نئی ترقیوں کے مواقع حاصل کئے ہیں۔ دنیا کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ ایران نے اسٹیم سیل، نانوٹیکنالوجی، اسپیس ٹیکنالوجی نیز میڈیکل کے شعبوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ پاکستان ایران کا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے بہت جلد ایک پرامن اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

شام مغربی قوتوں کے لئے ایک زبردست خطرہ ہونے کی بنا پر ان کی دشمنانہ سرگرمیوں کا محور قرار پایا ہے۔ اس لئے کہ شام ایران کا ایک اسٹراٹیجک حلیف ہے۔ شام کے پڑوس میں واقع عراق بھی ایران کا اب دوست بن چکا ہے۔ شام سے متصل لبنان میں حزب اللہ جیسی مزاحمتی تنظیم بھی ایران کی انقلابی اسلامی فکر سے غذا اور قوت حاصل کرتی ہے حتیٰ کہ فلسطین کی مزاحمت کو بھی ایران، شام اور حزب اللہ کے تعاون کے سبب توانائی ملی ہے جس کی تازہ مثال غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت ہے کہ جو اسرائیل کو انتہائی مہنگی پڑی اور بہت جلد اسرائیل پسپا ہوکر جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے لئے مغرب اس لئے بضد ہے کہ بشارالاسد نے اسرائیل کے تحفظ کے لئے مغرب کے ساتھ ہمکاری کرنے کی ہر ایک پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا۔ پھر یہ کہ شام مسلسل حزب اللہ اور حماس جیسی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت میں سرگرم اور پیش پیش رہا ہے جس کے سبب مغرب اور اسرائیل شام کے خلاف جوشِ انتقام میں جل رہے ہیں۔

مغرب کے لئے آخری چارۂ کار شام کی سپلائی لائن کو ختم کرنا ہے جو حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کی قوت کا سبب ہے۔ شام میں مغرب مخالف حکومت کے خاتمے سے خطے میں امریکہ نواز نام نہاد مسلم حکمرانوں کے بھی حوصلے بلند ہوں گے کہ جن پر اسلامی بیداری کی تحریکوں کے سبب ایک طرح کا شدید لرزہ طاری ہے۔ ایران کی فوجی قوت کے پیشِ نظر مغربی قوتیں براہِ راست اس سے فوجی تصادم نہیں چاہتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایران دنیا میں اس وقت اپنی دانشمندانہ پالیسی کے سبب بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران نے اس وقت دنیا میں انسانوں کی مشکلات کے حقیقی ذمہ داروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ عالمی برادری ایران کی پالیسی کو عالمی مشکلات کے حل کے لئے سنجیدگی کی نظر سے دیکھنے لگی ہے۔ ایران نے یہ بات بھی دنیا کو باور کرادی ہے کہ فوجی اور اقتصادی قوت کی پشت پر اگر الٰہی فکر نہ ہو تو یہ قوتیں دنیا میں ظلم و فساد بپا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا دنیا مغرب کی استعماری ریشہ دوانیوں کو اب اس تناظر میں دیکھنے لگی ہے۔ ایران نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اپنی زبردست فوجی قوت کے باوجود خطے کے قدرتی ذخائر سے سبھوں کو استفادہ کا وہ موقع فراہم کرتا ہے۔

مغرب نے جس طریقے سے ایران پر عرصۂ دراز سے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں تو ایسی صورتحال میں ایران خلیجِ فارس پر اپنی مکمل فوجی دسترس رکھنے کی بنا پر تیل کے نقل و حمل کو روک سکتا تھا لیکن اس نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اقدام نہیں اٹھایا تاکہ دنیا کسی عالمی بحران کے رونما ہونے سے پہلے مغرب کی استعماری قوتوں کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دے۔ گویا دنیا میں اس وقت ایران اور ایران دشمن قوتوں کے مابین جو کشمکش ہے وہ درحقیقت معنویت و مادیت کے مابین کشمکش ہے۔ مسلمان عوام کو اس حساس موقع پر انتہائی ہوشیاری کا ثبوت دینا چاہیے اور مغرب نواز عرب شاہی منافق آمریتوں کے ورغلانے میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ حق و باطل کے اسناد (Credentials) کو پرکھنے کے لئے رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے دئیے ہوئے پیمانے سے استفادہ کرنا چاہیے کہ اگر کوئی تحریک یا جریان یا پالیسی صہیونی اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے حق میں منتج ہوتی ہے تو لازماً وہ مسلمانوں اور اسلام کے لئے زہر ہے نہ کہ تریاق۔ یہی چیز کسی ملک اور اس کے حکمران پربھی صادق آتی ہے۔

الٰہی بصیرت پر مبنی اس پیمانے سے جن لوگوں نے استفادہ کیا انھوں نے ترکی کی اسرائیل دشمنی کے کھوکھلے دعوؤں کی حقیقت کو کماحقہ بھانپ لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ فلوٹیلا پر اسرائیل کا حملہ محض ایک ڈرامہ ہے جس کا مقصد ترکی کو مسلمانوں کے درمیان اسرائیل دشمن ظاہر کرکے اسے مسلم دنیا کا لیڈر بنانا ہے تاکہ مسلمانوں کی امیدیں ایران سے ہٹ کر ترکی سے وابستہ ہوجائیں اور یوں مغربی قوتیں ترکی کو اسرائیل کے دفاع و تحفظ کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرسکیں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ترکی نے شام کے بشارالاسد حکومت کو گرانے کے لئے مغربی اور عرب قوتوں سے مل کر جو کردار ادا کیا اُس نے اس کی اسرائیل دشمنی کے لبادے کو چاک کرکے رکھ دیا اور اب ترکی کی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد تو ترکی کی منافقت ہر ایک پر اچھی طرح واضح ہوچکی ہے۔ مغرب اپنی نابودی کے قریب پہنچ چکا ہے اور اسلامی بیداری مسلمانوں کو کامیابی کی نوید دے رہی ہے۔ اس چیز کو علامہ اقبالؒ نے اپنی الٰہی فکر کے نتیجے میں بہت پہلے درک کرلیا تھا یہاں آپ کے صرف دو اشعار کا ذکر مسلمانوں کی موجودہ امید افزا صورتحال کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہوگا:

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

دنیا کی دگرگوں صورتحال سے یہ حقیقت روشن تر ہوتی جارہی ہے کہ امام خمینی کا انقلاب جلد ہی امام زمانہ کے جہانی انقلاب سے متصل ہوجائے گا، انشاء اللہ۔


source : http://abna.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment