سلفی كس فرقے كو كھتے ھیں؟
كلمہ سلفی ایك بھترین كلمہ ھے جس كو اسلامی فكر میں كافی سراھا گیا ھے، اس كے معنی یہ ھیں كہ گزشتہ بزرگوں كی سیرت پر چلنا، بزرگوں كی اقتداء كرنے پر كتب شیعہ اور سنی میں كافی بحث و گفتگو كی گئی ھے، لھذا كلمۂ سلفی كو بھترین اصطلاحات میں شمار كرنا چاھئے، تمام علماء اور مفكرین اسلام نے گزشتہ بزرگوں كی سیرت پر چلنے كی كافی تاكید فرمائی ھے، لیكن افسوس اس بات كا ھے كہ آج كل سیاست كی زبان میں گروہ سلفی كا اطلاق ان لوگوں پر ھوتا ھے جو احكام اسلامی كو نھایت ھی جمود فكری كے ساتھ فقط ان كے ظواھر پر نظر ركھتے ھوئے كرتے ھیں اور ان باطن پر غور و فكر نھیں كرتے، چنانچہ وہ ھر نئی چیز كے حكم كے لئے ماضی كی طرف پلٹتے ھیں اور كو سنت پیغمبر كے آئینہ میں دیكھتے ھیں، اگر اس میں انھیں حكم ملتا ھے تو وھی حكم دیتے ھیں ورنہ اسے بدعت قرار دیتے ھیں ۔
یھی وجہ ھے كہ ان كے نظریات دنیا میں رونما ھونے والی ترقیوں سے شدید طور پر ٹكرا رھے ھیں، عصر حاضر میں سلفی اسے كھتے ھیں جو ابن تیمیہ اور افكار وھابیت سے متأثر ھوں، وہ ھر نئی چیز اور فكری استقلال كا انكار كرتے ھیں، لھٰذا وہ بھت سے مذاھب اور اسلامی معاشرہ كی تكفیر كرتے ھیں، لھٰذا وہ اپنے اور دوسرے مذاھب اسلامی كے درمیان ایك قسم كا ٹكراؤ پیدا كر رھے ھیں ۔
بنیاد پرستی اور سلفیوں میں كیا رابطہ ھے ؟
ان دونوں كلمہ كو آپس میں نھیں ملانا چاھئے،كیونكہ بنیاد پرستی ( Fundamentalism ) فنڈامنٹالیسم كا ترجمہ ھے، جو تاریخ یورپ میں اس دور میں ایك عجیب معنی میں استعمال كیا گیا ھے ( یعنی شدت پسندی ) وہ اپنے اندر غلط معنی لئے ھوئے ھے، جبكہ بنیاد پرستی اور اصول پرستی كے معنیٰ یہ ھیں كہ اصول اور ضوابط پر ثابت قدم رھنا ۔ لیكن سلفی ایك مثبت اور بھترین كلمہ ھے، جس كے معنی ھیں اصول و ضوابط پر پابندی كے ساتھ ساتھ دنیا میں ھونے والی ترقیوں كو بھی ملحوظ خاطر ركھیں اور ان كے ھمراہ چلتے رھیں، لھٰذا سلفی اور اصول پرستی دونوں كے معنیٰ جدا گانہ ھیں، كیونكہ اصول پرستی كے متعدد معنیٰ كئے گئے ھیں، لھٰذا دونوں كو ایك نگاہ سے نھیں دیكھا جاسكتا ۔
كیا آپ اصول پرستی اور بنیاد پرستی (پابند اصول) كو ایك تصور كر رھے ھیں،
جی ھاں، دونوں میں كیا فرق نھیں ھے، صرف كلمہ كے انتخاب میں فرق ھے، لیكن دونوں كے معنیٰ ایك ھیں اور دونوں مثبت پھلو بھی ركھتے ھیں، البتہ یھاں پر جو اصول پرستی اور بنیاد پرستی كے معنیٰ ھیں وہ (Fundamentalism) فنڈا منٹالیسم سے جدا معنی ركھتا ھے كہ جو مغربی دنیا میں استعمال ھو رھا ھے ۔
بنیاد پرستی یہ ھے كہ اصول و ضوابط كو پائمال نہ كریں اور نہ ھی ان سے تجاوز كریں، یہ ایك مثبت اور بھترین كلمہ ھے، جو كسی خاص طبقہ سے محدود نھیں كیا جاسكتا، لیكن یہ كلمات سے غلط معنی كا تصور صرف اس لئے ھوتا ھے كہ ترجمہ میں بھت زیادہ غور و فكر نھیں كیا جاتا ھے، جس كی بنیاد پر ایك كلمہ كو دوسرے كی جگہ استعمال كردیتے ھیں، جو مترادف كلمات كے بر خلاف فرض كئے جاتے ھیں ( جب كہ ترجمہ كے ذریعہ مترادف كلمہ تصور كرتے ھیں ) ممكن ھے كہ بعض اصطلاحات كو جب لغت اور وضع كے اعتبار سے دیكھیں تو كچھ اور معنیٰ ھوں، لیكن جب وھی اصطلاحات سیاسی دنیا میں دیكھیں تو كچھ اور معنیٰ اپنے دامن لئے ھوں، كیونكہ اھل سیاست اور بعض دینی احزاب ان سے سوء استفادہ كرتے ھیں (مثلا فنڈامنٹالیسم كے معنی (پابند اصول ) كے ھیں، جب اس كا ترجمہ فارسی میں ھوا تو ( بنیاد گرائی) كے معنی ھوئے ( یعنی پابند اصول ) جب كہ فنڈامنٹالیسم كے معنیٰ مغربی دنیا میں مسخ ھوگئے ھیں، لھٰذا دونوں معنیٰ میں مغایرت ھوگئی ھے ۔
سلفیوں كے درمیان مشترك عناصر كیا ھیں ؟
اس وقت ھم ان گروھوں كو سلفی كھتے ھیں جو افغانستان، پاكستان، عراق اور بعض عربی ممالك میں فعالیت انجام دے ھیں، در حقیقت یہ لوگ ابن تیمیہ اور وھابیوں كے افكار كو لے كر چل رھے ھیں، لیكن بعض لوگوں كا خیال ھے كہ سلفیت كی بنیادی سید قطب كی كتابیں ھیں، جو انھوں نے ۱۹۶۰ ء كے میں تحریر كی ھیں ۔
البتہ سید قطب سے پھلے جمال الدین اسد آباد یا ان كے شاگرد شیخ محمد عبدہ كی مصر میں كار كردگی سلفیت ھی كارنگ لئے ھوئے تھی لیكن اس طرح كی سلفیت نھیں تھی جو اس وقت ھے، بلكہ زیادہ تر ان كا مطمح نظر یہ تھا كہ استعماری سامراجی طاقتوں كا مقابلہ كریں، مسلمانوں كو خواب غفلت سے بیدار كریں اور ان میں نئی روح پھونكیں ۔
لیكن شیخ محمد عبدہ كے بعد ایسی فكریں سر زمین مصر سے وجود میں آئیں كہ جن كے نتیجے میں اھل مصر كو كافر اور انور سادات صدر جمھوریہ مصر كو قتل كردیا جاتا ھے ۔
وہ چیزیں جو سلفیوں كے درمیان مشترك ھیں، ان میں سے ایك یہ ھے كہ وہ ھر چیز كے حكم كے لئے زمانہ گزشتہ خصوصاً صدر اسلام كی طرف رجوع كرتے ھیں، اگر اس كا حكم موجود ھوتا ھے تو قبول كرتے ھیں اور اگر موجود نھیں ھوتا ھے تو وہ اجتھاد اور حكمِ عقل كو اس میں دخل نھیں دیتے، چنانچہ ابھی كچھ زمانہ پھلے كسی نے سعودی عربیہ میں یہ سوال كیا تھا كہ مریضوں كی عبادت كے لئے اسپتال میں پھول لیكر جانا كیسا ھے، اس كی شرعی كوئی دلیل ھے ؟ تو ایك سلفی عالم نے یہ جواب دیا كہ ھم نے قرآن، احادیث اور سنت میں بھت تلاش كیا، لیكن اس كا حكم ھمیں نھیں ملا، لھٰذا مریض كی عیادت كے لئے اسپتال میں پھول لے جانا حرام اور بدعت ھے، یہ حكم ایك طرح كی شدت پسندی و جمود فكری كا اظھار كرتا ھے اور تدبر و تفكر كو معطل قرار دیتا ھے، جبكہ قرآن حكیم نے اس كی بھت زیادہ تاكید فرمائی ھے، پس ان لوگوں كا ھر قسم كی اختراع، ایجاد اور تجدد كا انكار كرنا ایك اھم عنصر ھے ۔
تبلیغی اور عقیدتی نقطۂ نظر سے جب ان كی آراء كسی مذھب سے ٹكرا جاتی ھے تو اسے كافر كہہ دیتے ھیں، یھاں تك كی جھاد كے سلسلہ میں اسلام كے حقیقی دشمنوں سے مقابلہ كرنے كے بجائے اسلامی سماج میں زندگی گزارنے والے عام انسانوں سے مقابلہ پر اتر آتے ھیں اور انھیں نھایت ھی بے دردی سے موت كے گھاٹ اتار دیتے ھیں ۔
چنانچہ اس كا نمونہ ھم نے الجزائر میں مشاھدہ كیا ھے كہ جھاں سلفیوں نے بے دفاع اور مظلوم انسانوں كا قتل عام كردیا، اسی طرح عراق اور دوسرے ممالك میں ان كے بدست بے گناھوں كا خون بھایا گیا ھے، صرف اس بنیاد پر كہ وہ ان كے اور جو حكومت ان كا ھدف تھی، اس كے درمیان انھیں مانع پا رھے تھے،لھٰذا ان كے نقطہ نظر سے یہ درست كام ھے كہ ایسے اشخاص سے مبارزہ كیا جاسكتا ھے، وہ اس بات كے بھی منعقد ھیں كہ شرعاً ایسے لوگوں كا قتل كرنا واجب ھے، لھٰذا بری طرح لوگوں كا قتل عام كر رھے ھیں، یھی وجہ ھے كہ وہ سماج میں نفرت كی نگاہ سے دیكھے جاتے ھیں اور لوگوں كے درمیان كوئی مقام پیدا نھیں كر پا رھے ھیں كہ جس كے ذریعہ لوگوں میں انھیں مقبولیت حاصل ھو جائے ۔
شیعہ مذھب سے دشمنی كا رجحان ان كے مشترك عناصر میں سے ھے، البتہ سلفی فقط شیعوں سے ھی دشمنی نھیں كرتے ھیں، بلكہ اپنے علاوہ كسی مذھب كو تسلیم نھیں كرتے، زیادہ تر سلفی اھل سنت كے چار مذاھب ( شافعی، حنفی، مالكی، حنبلی ) میں سے حنبلی فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں، فقہ میں امام احمد ابن حنبل كی پیروی كرتے ھیں اور فكری اعتبار ابن تیمیہ اور جنھوں نے ان گروھوں میں سے عصر حاضر میں ایسے افكر پر زیادہ كام كیا ھے، ان لوگوں كی پیروی كرتے ھیں ۔ یہ لوگ ابن تیمیہ كے مكتب فكر سے زیادہ متأثر ھیں اور ھم جانتے ھیں كہ ابن تیمیہ كی زیادہ تر دشمنی افكار تشیع اور اھل بیت علیھم السلام كی پیروی كرنے والوں سے تھی، چنانچہ وہ شیعوں كو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا تھا، لھٰذا سلفی بھی اسی اندھی تقلید میں شیعوں كو كافر اور خارج از دین جانتے ھیں، جس كی بنیاد پر انھیں نھایت ھی بے دردی سے قتل كرتے ھیں، اس چیز كو ھم نے افغانستان، پاكستان اور عراق میں مشاھدہ كیا ھے ۔
ان كی مذھب شیعہ سے بھت شدید دشمنی ھے اور دوسرے اسلامی مذاھب سے بھی خصومت ركھتے ھیں ان كو بھی بآسانی قبول نھیں كرتے ۔
سعودی عرب اور مغربی حكومتوں نے ۱۹۸۰ء كے میں روس كی فوج سے مقابلہ میں جو كہ افغانستان كو اپنے تصرف میں لئے ھوئے تھی، سلفیوں كو تقویت دی تھی، لیكن كیا وجہ ھے كہ سلفی جماعتیں سعودی اور مغربی حكومت كی مخالف ھوگئیں ؟
سب سے پھلے اس بات كو عرض كردوں كہ سعودی حكومت ۱۵۰ سے ۲۰۰ سال پھلے ایك مفاھمت كے نتیجہ میں وجود میں آئی ھے، جو مفاھمت وھابی تحریك اور آل سعود كی فوج كے درمیان ھوئی تھی جو كہ نجد میں تھی، ان دونوں كے درمیان حكومت برطانیہ نے بھی دخالت كی تھی، جس كے سبب یہ لوگ نجد پر تسلط پیدا كرنے كے لئے حجاز كی طرف آگے بڑھے، چنانچہ وسیع پیمانہ پر قتل و غارتگری كے ذریعہ حجاز كو بھی اپنے تصرف میں لینا چاھتے تھے (جس میں مكہ و مدینہ بھی شامل تھا ) اسی اثناء میں ان كے اور مصر كی فوج كے درمیان جو كہ محمد علی پاشا كی حكومت كے زمانہ میں اس كے بیٹے ابراھیم پاشا كی قیادت میں سعودی عرب روانہ كی گئی تھی ۔ لڑائی ھوگئی، ان جنگوں میں كہ جو خود اھل سنت كے درمیان واقع ھوئی تھی كافی قتل و غارتگری پیش آئی، چنانچہ انھوں نے اس لڑائی كے بعد نجد و حجاز كو بھی اپنے تصرف میں لے لیا اور اس پر قابض ھوگئے، چنانچہ سعودی حكومت اسی توافق كا نتیجہ ھے ۔ لھٰذا وہ كسی بھی صورت میں اس توافق كو پامال نھیں كر سكتی ھے، لیكن عصر حاضر میں سعودی اور پوری دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ھوئی ھیں، اس كے نتیجہ میں وہ طلباء جو سعودی عرب سے فارغ التحصیل ھوكر مغربی دنیا میں تحصیلِ علم كے لئے گئے اور وھاں كی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل كی تو وہ اپنی مملكت میں ایك طرح كی اصلاح كرنا چاھتے ھیں، لھٰذا سعودی حكومت اس مصیبت میں گرفتار ھے تو دوسری طرف سلفیوں سے پریشان ھے، كیونكہ یہ لوگ افغانستان كے واقعہ كے بعد ایك خاص ھدف و مقصد اختیار كئے ھیں ( جو حكومت سعودی كے منافع كے بر خلاف ھے )
جس زمانہ میں افغانستان حكومت روس كے زیر تسلط تھا، سعودی حكومت نے امریكہ كے اشارہ پر، متحدہ عرب امارات كے تعاون اور پاكستانی خفیہ ایجنسیوں كے ذریعہ سلفیوں كو ( ریڈ آرمی ) لال فوج جو افغانستان كو اپنے تصرف میں لئے تھی اس كے مقابل بعنوان جھاد ایك نقطہ پر جمع كردیا تھا، لیكن جب لال فوج كا قبضہ ختم ھوگیا اور وہ پیچھے ھٹنے پر مجبور ھوگئی نیز روس بھی ٹكڑوں میں بٹ گیا، تو سلفی حدیث پیغمبر (ص) كی روشنی میں كہ " كفار كو جزیرۃ العرب میں مستقر نہ ھونے دو اور اگر وہ وھاں پر ساكن ھوں تو انھیں قتل كردو ) لھٰذا جو امریكہ، تیل اور فوجی اڈے یا دیگر مفاد كے بھانے جو سعودی میں مستقر ھے، یہ لوگ اس سے ھی مقابلہ پر اتر آئے، ان میں سر فھرست گروہ القاعدہ كا نام لیا جاسكتا ھے، البتہ بات بھی قابل ذكر ھے كہ مغرب اور اسرائیل كی خفیہ ایجنسیاں ممكن ھے كہ سلفیوں كے شعبہ جھاد میں نفوذ كئے ھوئے ھیں، جو ان كی غیر مستقیم طریقے سے راھنمائی كر رھے ھوں، اس طرح كہ بھت سے ان كے اقدامات اسرائیل كے منافع میں منتھی ھو رھے ھوں اور ھمسایہ ممالك میں تباھی و فساد پھیلا رھے ھوں، اس طرح كے بھت سے مسائل ھیں، جن میں كافی تحقیق و جستجو كرنے كی ضرورت در پیش ھے ۔
بالفاظ دیگر امریكہ، سعودی ۔ متحدہ عرب امارات اور پاكستان كی خفیہ ایجنسیاں، گروہ طالبان كو تشكیل دینے اور پیشاور میں سلفی مدارس كی مدد كرنے كے بعد یہ سب ایسے مشكلات سے دوچار ھوگئے ھیں كہ جو گروہ سلفی انھوں نے روس كی فوج، اور انقلاب اسلامی ایران كے ھمہ گیر افكار سے مقابلہ كے لئے آمادہ كیا تھا، اس كی وسیع پیمانہ پر تبلیغات كے ذریعہ وہ خود ایسے گرداب بلا میں پھنس گئے كہ انھیں كوئی راہ چارہ نظر نھیں آرھی ھے ۔
تكفیری رجحان ( دوسروں كو كافر كھنے كا رجحان ) اور سلفیوں میں كیا فرق ھے ؟
دوسرے اشخاص یا مذاھب یا معاشرہ كے بعض افراد كو كافر قرار دینا سلفیوں كا ھی شیوہ ھے ( لھذا تكفیری رجحان اور سلفیت میں كوئی فرق نھیں ھے ) لیكن ھمارے مذھب میں قرآن اور سنت پیغمبر (ص) كی روشنی میں انسان كچھ شرائط كے ساتھ مرتد كھا جاسكتا ھے، لھٰذا جو مرتد ھوجائے (یعنی دین سے پھر جائے ) تو وہ كافر ھے، اس كے معنی یہ ھرگز نھیں ھیں كہ جو گناہ كبیرہ انجام دے اسے بھی كافر كہہ دیں، كیونكہ ممكن ھے ایك انسان كلمہ شھادتین بھی زبان پر جاری كرتا ھو، نماز بھی پڑھتا ھو اور گناہ كبیرہ یا صغیرہ كا مرتكب بھی ھوتا ھو ۔
لیكن سلفیوں كے یھاں تكفیر كا دائرہ بھت وسیع ھے ۔ لھذا وہ مختلف بھانہ سے دوسرے اشخاص اور اسلامی معاشرہ كو كافر قرار دے دیتے ھیں ۔ جب كہ تمام علماء شیعہ اور اھل سنت معتقد ھیں كہ جو كلمۂ شھادتین زبان پر جاری كرے، وحدانیت پروردگار اور رسالت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا اقرار كرے وہ مسلمان ھے، اس كی جان و مال و عزت و آبرو اور ناموس سب محترم ھیں، البتہ سلفیوں كے یھاں دوسروں كو كافر كھنا عام بات ھے جسے ھم مشاھدہ كرتے رھتے ھیں ۔ یھی وجہ ھے كہ ان میں شیعہ اور سنی كے درمیان نزاع ھوتا رھتا ھے ۔
كیا سلفی جمھوری اسلامی ایران كے قومی امن كو بھی تھدید كر رھے ھیں ؟
ایران كے اھل سنت اور دیگر ھمسایہ ممالك سے روابط " جیسے پاكستان، افغانستان اور عراق " كے حوالہ سے سلفی ایران كو تھدید بھی كر رھے ھیں، جب كہ ایران اور دوسرے ممالك میں شیعہ و سنی صلح و آشتی كے ساتھ زندگی گزار رھے ھیں اور آپس میں ایك دوسرے كو اسلامی اعتبار سے بھائی سمجھ رھے ھیں، لیكن اس وقت ھم جن حالات كا مشاھدہ افغانستان اور عراق میں كر رھے ھیں وہ آج كے بیس و پچیس سال پھلے نہ تھے، البتہ آپس میں علمی مباحثے ھوتے رھتے تھے، اس كا مطلب یہ نھیں تھا كہ ایك دوسرے كو كافر كھیں اور انھیں قتل كریں، لیكن اس وقت كی كیفیت پھلے سے فرق كرتی ھے ۔
یقینا اسلام دینِ اعتدال ھے اور امت اسلامی كو پروردگار نے قرآنِ حكیم میں امت وسط كھا ھے، لھٰذا ھر قسم كے افراط كی خداوند عالم نے مذمّت كی ھے، لیكن سلفی تمام مذاھبِ اسلامی كے لئے ایك ناسور بنے ھوئے ھیں، جو مختلف بھانہ سے برادران اسلامی كا خون بھا رھے ھیں اور انھیں كافر كہہ رھے ھیں، اس كی كوئی حد و حدود بھی نھیں پائی جاتی ھے، چنانچہ یہ ساری چیزیں دشمنان اسلام كے منفعت میں تمام ھو رھی ھیں ۔
ایك اور خطرہ سلفی فكر سے یہ ھے كہ وہ اسلام كے چھرہ كو مغربی دنیا كے سامنے بھت شدید بنا كر پیش كر رھے ھیں، جس كی وجہ سے اھل مغرب مسلمانوں، شدت پسند وغیرہ سے تعبیر كرتے ھیں اور دوسروں كو بھی اس نتیجہ تك پھونچاتے ھیں اور كھتے ھیں كہ اسلام كا مطلب ھے كہ دوسروں كو كافر كھنا، خونریزی برپا كرنا، مساجد، مكانات اور مدارس میں بم گزاری و دھماكہ كرنا، كوچہ و بازار میں لوگوں كا قتل عام كرنا ۔
چنانچہ جو حوادث اس وقت عراق میں رونما ھو رھے ھیں، وہ مسیحی اور مغربی دنیا میں اسلام پر ایك كاری ضرب لگائی جا رھی ھے، ان تمام چیزوں كے علاوہ جو مسلمان جو مغرب كی دنیا میں زندگی گزار رھے ھیں، اس وقت بھت زیادہ مشكلات سے دچار ھو رھے ھیں، چنانچہ دوسرے لوگ انھیں دھشت گرد كھتے ھیں كہ یہ ساری مصیبتیں صرف سلفیت كے طرز تفكر سے رونما ھوئی ھیں، وہ نہ صرف ایران بلكہ دوسرے ممالك كے لئے بھی خطرناك ھیں، البتہ ایران میں نہ سلفی تھے اور نہ ھیں میں نے خود زاھدان میں درس حاصل كیا اور وھیں پلا بڑھا ھوں، وھاں سنی اور شیعہ دونوں موجود ھیں، جو آپس میں برادرانہ زندگی گزار رھے ھیں، مجھے یاد ھے كہ ھم ایك ھفتہ نماز جمعہ شیعہ عالم آیت اللہ كسعوئی كہ اقتداء میں پڑھے تھے تو دوسرے ھفتہ شیعہ اور سنی مولوی عبد العزیز عالم اھل سنت كی اقتداء میں نماز جمعہ بجالاتے تھے، آپس میں كوئی اختلاف ھی نھیں تھا، لیكن ھمارے ملك میں خصوصا بلوچستان میں اس قسم كا ریشہ فكر وجود میں آیا تو وہ ایك دو سال قبل عبد الملك ریگی كے ذریعہ وہ استعمار كا ایجنٹ تھا، كیونكہ استعماری طاقتیں ایسے اشخاص كی پرورش كرتی ھیں، تاكہ ان كے ذریعہ دوسرے ممالك میں فتنہ و فساد برپا كریں، البتہ ھمارے ملك میں بعنوان ھم وطن لوگ برادرانہ زندگی گزار رھے ھیں، اس قسم كی افكار ھمارے ملك میں موجود نھیں تھیں ۔
source : http://www.shiastudies.net