یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک کامل و اکمل آفاقی ضابطۂ حیات ہے جس کے اندر بشریت کی ہمہ جہت راہنمائی کی اہلیت و صلاحیت موجود ہے۔ شریعت وہ الٰہی راستہ ہے جو انبیاء و مرسلین نے ایک کامیاب دنیاوی و اخروی زندگی گزارنے کے لیے دکھایا۔ اسلام وہ دین ہے جو حضرت آدمؑ سے لے کر ختمی المرتبت (ص) تک تمام نمائندگان الٰہی کے درمیان نقطۂ وحدت ہے۔ یہ دین فطرت ہے جس میں دنیا کے تمام انسانوں کے جینے کا حق محفوظ ہے۔ سب کے لیے امن، انصاف، شرف و عزت کا پیکر یہ دین انسانوں کو خوشحالی ترقی اور وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہیں دکھاتا ہے۔ سورۃ العصر میں اللہ تعالٰی نے انسانوں کو خسارے سے بچنے کے لیے جو چار اصول بتائے ان میں ایمان، اعمال صالح، حق پرستی اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
قرآن مقدس نے انسانیت کو جو بنیادی پیغام دیا وہ امن و آشتی، رواداری احترام، آدمیت اور انسانی اخوت و بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنے کا پیغام ہے جس کے اندر نفس انسانی کو محترم اور مقدس گردانا گیا اور قتل و مقاتلہ سے منع کیا گیا۔ فساد فی الارض کی سخت ممانعت کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلبۂ دین کے حوالے سے بھی قرآن مقدس میں حکم آیا ہے لیکن اس کے پیرا میٹرز بھی بتائے گئے ہیں۔ جب تک ایک مسلمان کی روح اسلام کے تابع نہیں ہوتی وہ ایک آفاقی غلبہ دین کی حقیقت تک رسائی کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ اسلام کا غلبہ افکار و نظریات کی وہ برتری جسے ہر دور میں اسلام مخالف قوتوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کیا۔ اس غلبے سے مراد قطع بھی یہ نہیں کہ لوگوں کو جبراً حلقہ اسلام میں داخل کیا جائے یا ان پر اسلامی قوانین کو بزور بازو مسلط کیا جائے۔
پاکستان کے تقریباً سبھی مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے اندر شریعت کی بالادستی ہونی چاہیے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ بیرونی مداخلت کا خاتمہ ہونا چاہیے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہزاروں بے قصور شہریوں کے خون سے ہولی کھیل کر ملک میں نفاذ شریعت کا یہ عمل کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے؟ گذشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو کو صرف اس لیے برقرار رکھا گیا کہ ان کا اگلا ہدف اسلام تھا، اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف طبقات پیدا کیے گئے، انتہا پسند، شدت پسند اور روشن خیال کے تصورات اجاگر کئے گئے، چنانچہ آج ان تصورات سے باہر نکل کر ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے سوچنا ہوگا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بندوق کی نوک پر یا طاقت کے بل بوتے پر ہم دین کو غالب نہیں کرسکتے، ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد پوری دنیا کے نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی تھیں۔ امام خمینی نے اس انقلاب کو مسلکوں، فرقوں اور مذہبوں سے آزاد مستضعفین جہان کے انقلاب سے تعبیر کیا تھا جو پرامن جدوجہد کا حامل انقلاب تھا۔ جب عالمی استعماری قوتوں اور استحصالی گروہوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر اس انقلاب کے ثمرات دنیا میں پھیلتے چلے گئے تو ان کی گرفت کمزور ہوجائے گی اور ان کے مادی اقتدار کا سورج غروب ہونے کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گا، چنانچہ اس انقلاب کے ثمرات کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مسلمانوں کے اندر مسلکی فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ سوچ کو جنم دیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ سپاہیں، لشکر، جیش اور بندوق کی نوک پر اسلام کا نفاذ کرنے والی قوتیں معرض وجود میں آئیں۔
عالمی استعماری قوتوں کا دوہرا معیار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایک طرف ان گروہوں کی مدد کی جاتی ہے تو دوسری جانب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ان پر حملے بھی کئے جاتے ہیں، تاکہ ان کے ساتھ ان کا تعلق کسی پر آشکار نہ ہو اور ان انتہا پسند گروہوں کی وجہ سے اسلام کو دنیا میں بدنام کیا جائے اور ان کے ذریعے اسلامی ممالک کے اندر خلفشار پیدا کرکے اپنی مرضی کے کردار سامنے لائے جاسکیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلام میں جبر نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یہ تو اختیاری دین ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دین کا حسن اس کی اعلٰی اخلاقی اقدار کی خوشبو، اس کی انسان دوستی، امن پروری، خدمت خلق اور پوری انسانیت کے لیے محبت بھرے جذبات دنیا کے سامنے رکھے جائیں، تاکہ اسلام کے غلبے سے ڈرنے کی بجائے لوگ اسے خوش آمدید کہیں۔
اسی طرح آخری مسیحا کا تصور جسے مہدی (عج) کے نام سے پکارا جاتا ہے، جن کی آمد کا نظریہ تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ہے، سے انسانوں کو ڈرانے کے بجائے ان کے دلوں میں امام مہدی (عج) کی محبت کے جذبوں کو زندہ کیا جائے۔ آج لفظ مہدی (عج) اگرچہ 'آج ایک اصطلاح یا نام کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، لیکن اس سے قطع نظر اس پر سب کو یقین ہے کہ اس دنیا کی اصلاح کرنے والا آخری مصلح اعظم کائنات کے اندر ظہور پذیر ہوگا، جو اس ظلم سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا۔ انسانوں کے دکھ درد مٹائے گا، مظلوموں محروموں سے شفقت محبت کا مظاہرہ کرے گا اور دین کو اپنی اعلٰی اقدار اور آفاقی فکری برتری کی بنیاد پر غالب کرے گا اور اپنی عالمگیریت کے سائے تلے تمام انسانی طبقوں کو جگہ عطا کرے گا۔ علامہ اقبال نے اسی آفاقی فکری انقلاب کی تائید میں کہا:
دنیا کو ہے اس مہدئ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالمِ افکار
source : http://www.shiastudies.net