اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (1)

اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (1)

نشاء اللہ ھم عنقریب اھل بیت(علیہم السلام) کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ فقرے بیان کریں گے اور ان فقروں کو اھل بیت(علیہم السلام) کی زیارت سے اخذ کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ جو زیارتیں اھل بیت(علیہم السلام) سے مروی ھیں وہ ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے مفھوم سے بھری پڑی ھیں۔ زیارت کے متن میں غور و فکر کر کے ھم محبت و بیزاری کے مکمل نظریہ کو ثابت کر سکتے ھیں، لیکن فی الحال یہ ھمارا موضوع نھیںھے اور نہ ھی اس مقالہ میںمحبت و برات کی تحقیق اور ان سے متعلق نظریہ کی تشکیل کی گنجائش ھے، ھم تو یھاں زیارتوں اور اھل بیت(علیہم السلام) کی دوسری حدیثوں سے کچھ ایسے فقرے پیش کرنا چاہتے ھیں جو محبت و عقیدت سے متعلق ھیں۔
مفھوم ولاء

یہ عناصر ولاء کا پھلا عنصر ھے اور جتنی معرفت ھوتی ھے اسی تناسب سے ولاء کی قیمت ھوتی ھے اور انسان جس قدر مفھوم ولاء کو اچھے طریقہ سے سمجھتا ھے اسی لحاظ سے وہ ولاء میں قوی اور راسخ ھوگا۔

زیارت جامعہ میں آیا ھے:

"اُشھِد اللّٰہ و اٴشھد کم اٴنی موٴمن بکم و بما آمنتم بہ، کافر بعدوّکم و بماکفرتم بہ، مستبصر بشاٴنکم، و بضلالة من خالفکم،۔۔۔ موٴمن بسرکم و علانیتکم، و شاھدکم و غائبکم"۔

میں خدا کو گوا ہ قرار دیتا ھوں اور آپ حضرات -اھل بیت(علیہم السلام)-کو گواہ بناتا ھوں کہ میں آپ پر اور ھر اس چیز پر ایمان لایا ھوں کہ جس پر آپ ایمان رکھتے ھیں، میں آپ کے دشمن کا منکر ھوں اور ھر اس چیز کا دشمن ھوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ھے، آپ کی عظمت و شان کا اور آپ کی مخالفت کرنے والے کی گمراھی کی بصیرت رکھنے والا ھوں، آپ کے پوشیدہ و عیاں اور آپ کے حاضر و غائب پر ایمان رکھتا ھوں ۔

ھم اس معرفت پراور اس اپنے اعتماد و ایمان پر خدا اور اھل بیت(علیہم السلام) کو گواہ قرار دیتے ھیں اور اس سلسلہ میں ھمیں قطعاً شک نھیں ھوتا ھے ۔

مندرجہ بالا فقرہ میں ولاء کے دو پھلو ھیں:

ایک مثبت: میں آپ پر اور ھر اس چیز پر ایمان رکھتا ھوں جس پرآپ کا ایمان ھے ۔

دوسرا منفی: وہ ھے بیزاری، میں آپ کے دشمن کا منکر ھوں ا ور ھر اس چیز سے بیزار ھوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ھے، یھاں کفر کے معنی ٹھکرانے اور انکار کرنے کے ھیں تو اس لحاظ سے مذکورہ فقرے کے یہ معنی ھوں گے، میںنے آپ کے دشمنوں کو چھوڑ دیا ھے بلکہ ھر اس چیز کو چھوڑ دیا ھے جس کو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حضرات نے چھوڑ دیا ھے ۔

اس سے پھلے والے جملہ میں اور اس جملہ میں ولاء کی قیمت اثبات و نفی کے ایک ساتھ ھونے میں ھے۔ ایک کو قبول کرنے میں اور دوسرے کو چھوڑنے میں ھے انسان کو اکثر صرف قبول کرنے کی زحمت نھیں دی گئی ھے بلکہ اس کے ساتھ کسی چیز کو چھوڑ نے کی بھی تکلیف دی گئی ھے۔

اور قبول و انکار کو بصیرت و ذھانت کے ساتھ ھونا چاہئے،تقلید کی بنا پر نھیں جیسا کہ لوگ ایک دوسرے کی تقلید کرتے ھیں، مستبصر بشاٴنکم و بضلالة من خالفکم۔

میں آپ(علیہ السلام) کی عظمت و رفعت اورآپ(علیہ السلام) کے مخالف کی ضلالت اور گمراھی کی بصیرت رکھتا ھوں اس جملہ میں درجِ ذیل تین نکات ھیں۔

۱۔ قبول عام ھے: "موٴمن بسرکم و علانیتکم" میں آپ کے پوشیدہ و ظاھر پر ایمان رکھتا ھوں ۔

۲۔ انکار و ترک، اھل بیت(علیہم السلام) کے تمام دشمنوں اور ان کی ٹھکرائی ھوئی تمام چیزوں کو شامل ھے۔ "کافر بعدوکم و بما کفرتم بہ" میں نے آپ کے دشمنوں اور آپ کی ٹھکرائی ھوئی تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا ھے ۔

۳۔ یہ قبول وانکاربصیرت و معرفت ھی سے مکمل ھوتا ھے۔ "مستبصر بشاٴنکم و بضلالة من خالفکم"میں آپ(علیہ السلام)کی عظمت و رفعت کی اور آ پ کے مخالف کی ضلالت کی معرفت و بصیرت رکھتا ھوں ۔
تصدیق

ولاء تصدیق سے جدا نھیںھو سکتی، ولاء کے لئے شک و شبہ سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز نھیں ھے ۔ خدا وند عالم نے راہِ ولاء میں کوئی پیچیدگی نھیں رکھی ھے ۔ بیشک رب کریم نے ولاء کو توحید سے جوڑا ھے اور ولاء کو فرد و امت کا محور قرار دیا ھے، چنانچہ توحید کے بعد اسی کی طرف لوگوں کی رغبت دلائی ھے ؛فرماتا ھے: <إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رُسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا> اور فرماتا ھے: <اٴطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ اٴطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ اٴوْلِیْ الاٴمْرِ مِنْکُم>اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ولاء تک پھنچنے کے راستہ کو واضح ھونا چاہئے تاکہ ولاء کے سلسلہ میں لوگوں کے پاس دلیل و حجت ھو،اسی لئے ولاء تصدیق سے جدا نھیں ھے اور تصدیق یقین سے ھوتی ھے اور یقین دلیل و حجت سے ھوتا ھے ۔

اور زیارت جامعہ میں اھل بیت(علیہم السلام) کو اس طرح مخاطب قرار دیا ھے: "سعد من والاکم، و ھلک من عاداکم، و خاب من جحد کم و ضلّ من فارقکم و فاز من تمسّک بکم، و اٴمن من لجاٴ الیکم و سلم من صدقکم و ھدی من اعتصم بکم"

جو آپ کی ولاء سے سر شار ھوا وہ کامیاب ھو گیا اور جس نے آپ سے عداوت کی وہ ھلاک ھو گیا۔ جس نے آپ(علیہ السلام)کا اور آپ(علیہ السلام)کے حق کا انکار کیا اس نے گھاٹا اٹھایا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ھو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیا اس نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اور جس نے آپ کی طرف پناہ لی وہ امان میں رھا اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ صحیح و سالم رھا اور جو آپ سے وابستہ ھو گیا و ہ ھدایت پا گیا۔
عضوی نسبت

۱۔ ھم ان عناصر سے بحث کریں گے جن سے ولاء وجود میں آتی ھے اس کے لئے ضروری ھے پھلے اس لفظ کے حروف کی وضاحت کی جائے جیسا کہ اس عھد میں ھمارے ادبیات کا شیوہ ھے اور یہ بہت اھم بات ھے معمولی نھیں ھے۔ اجتماعی ربط و ضبط اور رسم و راہ سے ھمارے عھد کا ادب اس لفظ کے معنی کو بیان کرنے سے قاصر ھے کیونکہ ایک طرف تو ھم خط افقی کے نہج سے لوگوں کے درمیان بحث کا اس جیسا رشتہ نھیں پاتے اور دوسری طرف خط عمودی کے اعتبار سے سیاسی قیادت،اور ثقافتی مرجعیت اور طاعت و پیروی ھے جیسے ولاء اوران دونوں خطوں کے لحاظ سے ولا کا تعلق امت سے منفرد ھے:

۱۔ خدا و رسول اور صاحبان امر سے امت کا ربط خط عمودی کے اعتبار سے ھے، جو کہ طاعت، محبت، مدد، خیر خواھی اور اتباع کی صورت میں ظاھر ھوتی ھے اس ربط کااوپر سے سلسلہ شروع ھوتا ھے: جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ھے: <اٴطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ اٴطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ اٴوْلِیْ الاٴمْرِ مِنْکُمْ> اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں سے جولوگ صاحبان امر ھیں ان کی اطاعت کرو اور نیچے کی طرف سیادت و حاکمیت اور اطاعت ھے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ھے: < إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرُ سُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِینَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰاةَ وَ یُوٴتُونَ الزَّکاةَ وَ ھُم رَاکِعُونَ > یہ خط عمودی ھے اس کا سلسلہ او پرسے شروع ھوتا ھے ۔

خط صعودی سے ھماری مراد امت کا اپنے صاحبان امر سے محبت کرنا ھے اور خط نزولی سے مراد صاحبان امر کا امت سے محبت کرنا ھے، اس کے ایک سرے پر حاکمیت اور دوسرے پر رعایہ ھے ۔

۲۔خط افقی، یعنی لوگوں کا اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ اسی کو قرآن مجید نے اختصار کے سا تھ اس طرح بیان کیا ھے "إنما الموٴمنون اخوة" امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے آبہ اور قم والوں کے سامنے اس لفظ کی وضاحت اس طرح فرمائی، "الموٴمن اٴخو الموٴمن لاٴمہ و اٴبیہ"[1]یعنی مومن، مومن کا مادری و پدری بھائی ھے،یہ ایک ایسا لگاؤ اور محبت ھے کہ جس کی مثال دوسری امتوں، اور شریعتوں میں نھیں ملتی ھے۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ھیں: مومنین بھائی بھائی ھیں ان کا خون برابر ھے اور وہ اپنے غیر کے لئے ایک ھیں۔ اگر ان کا چھوٹا کسی کو پناہ دیتا ھے تو سب اس کا خیال رکھتے ھیں۔[2]

امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے منقول ھے کہ "مومن، مومن کا بھائی ھے دونوں ایک بدن کے مانند ھیں کہ اگر بدن کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ھوتی ھے تو اس کا دکھ پورے بدن کو ھوتا ھے ۔ "[3]

امام جعفرصادق(علیہ السلام) مومنوں کو وصیت فرماتے ھیں: ایک دوسرے سے ربط و ضبط رکھو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایک دوسرے پررحم کرو، اور بھائی بھائی بن جاؤ جیسا کہ خدا وند کریم نے تمھیں حکم دیاھے[4]یہ ھے ولاء کا خط افقی۔

اس سے قوی، متین اور مضبوط رشتہ میں دوسری امتوں میںکوئی نظر نھیں آتا ھے ۔ اس وضاحت کے اعتبار سے ولاء عبارت ھے اس عضوی نسبت سے جو کہ ایک رکن کو خاندان سے ھوتی ھے ایک رکن وستون پوری عمارت کو روکے رکھتا ھے بالکل ایسے ھی جیسے سیسہ پلائی ھوئی عمارت،جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ھوا ھے، ایک خاند ان کے افراد کا آپس میں جو رشتہ ھے وہ ایسا ھی ھے جیسے ایک بدن کے اعضاء کا ھوتاھے،یہ اخوت کا رشتہ اس رشتہ سے کھیں مضبوط ھوتا ھے جو ایک خاندان کے افراد کے درمیان ھوتا ھے ۔

اس صورت میں یہ محبت اور لگاؤ ارتباط و علاقہ سے جدا ایک رشتہ ھے جوامت میں داخل ھے جس کو عضوی نسبت سے تعبیر کیا گیا ھے ۔ جیسے فرد کا رشتہ خاندان سے اور عضو کا بند سے ھوتا ھے ۔

اور جب ولاء کا دارومدار خط افقی میں تعاون، ایک دوسرے سے ربط و ضبط، خیر خواھی، نیکی، بھائی چارگی، احسان و مودت، ایک دوسرے کی مدد، ایک دوسرے کی ضمانت اورتکامل وغیرہ پر ھے ۔ تو خط عمودی میں ولا کا دار و مدار، طاعت، تسلیم و محبت، نصرت و پیروی، وابستگی، اتباع، تمسک اور ان سے اور ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے قطع تعلقی اور برات و بیزاری کرنے پر ھے ۔

اس نکتہ کے آخر میں ھم یہ بیان کر دیں کہ، محبت کرنا اور بیزار ھونا کوئی تار یخی قضیہ نھیں ھے کہ جو ھماری سیاسی زندگی اور آج کی تہذیب سے جدا ھو۔

اور امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے ولاء کی جو تعریف کی ھے اس کے لحاظ سے وہ کوئی اعتقادی مسئلہ نھیںھے جس کا ھماری اس سیاست سے کوئی تعلق نھیں ھے جس میں زندگی گزارتے ھیں۔امام کا ارشاد یہ ھے: جتنی اھمیت ھم ولا کو دیتے ھیں اتنی کسی چیز کو نھیں دیتے ھیں۔

ولاء یعنی طاعت، محبت، نسبت،بیزاری، صلح و سلامتی اور جنگ اور ھماری موجودہ سیاسی و اجتماعی موقف ھے۔

جب تک کہ ولاء وبیزاری ھمارے عقائد کو حرکت و عمل کی طرف نہ بڑھائے اور شرعی ولایت کے طول میں سیاسی میدان میں جنگ و صلح میں نمایاں نہ ھواس وقت تک ولاء و بیزاری کی وہ اھمیت نھیں ھوگی جو کہ ھم اھل بیت سے وارد ھونے والی نصوص میں بیان ھوئی ھے ۔

اب ھم انشاء اللہ ولاء سے متعلق ان فقروں کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے جو زیارتوں میں اھل بیت(علیہم السلام) سے نقل ھوئے ھیںیہ زیارات ولاء کے مفھوم سے معمور ھیں۔
برات و بیزاری

ولاء و محبت کا ایک پھلو، برات و بیزاری ھے اور ولاء و برات ایک ھی قضیہ کے دو رخ ھیںاور وہ نسبت ھے اوراور یہ برات قضیہ کی نسبت میں بہت ھی دشوارپھلو ھے اور برات کے بغیر ولاء ناقص ھے، ایک شخص نے امیر المومنین(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ھوں اور آپ کے دشمن سے بھی محبت کرتا ھوں ۔( یھی ناقص ولاء ھے جس کو ھم بیان کر چکے ھیں) امیر المومنین(علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: تو اس صورت میں تم بھینگے ھو( بھینگے کو پوری چیز نظر نھیں آتی ھے) اگر تم اندھے ھو( اس صورت میں برات و بیزار ی کے ساتھ ولاء بھی ختم ھو جاتی ھے) یا تم دیکھتے ھو( تو ولاء و برات جمع ھو جاتی ھیں)۔

زیارت جامعہ میں آیا ھے: میں خدا کو گواہ قرار دیتا ھوں اور آپ حضرات کو گواہ بناتا ھوں کہ آپ پر ایمان لایا اور ھر اس چیز پر ایمان لایا ھوں جس پر آپ کا ایمان ھے، آپ کے دشمن سے بیزار ھوں اور ھر اس چیز سے بیزار ھوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ھے، میں آپ کی عظمت کی اور آپ کے مخالف کی گمراھی کی بصیرت رکھتاھوں، میں آپ کا دوست اور آپ کے دوستوں کا دوست ھوں،میں آپ کے دشمنوں سے بغض رکھنے والا ھوں اور ان کا دشمن ھوں ۔

زیارت عاشورہ میں تو خدا کے دشمنوں سے کھلم کھلا اور شدت کے ساتھ بیزاری کا اظھار ھوا ھے:

"لعن اللّٰہ اٴمة قتلتکم، و لعن اللّٰہ الممھدین لھم بالتمکین لقتالکم برئت الیٰ اللّٰہ و الیکم منھم و من اٴشیاعھم و اٴتباعھم و اٴولیائھم"۔

خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا، خدا لعنت کرے ان لوگوں پر کہ جنھوں نے جنگ کرنے کے لئے زمین ھموار کی، میں خدا کی بارگاہ میں اور آپ کی خدمت جناب میں ان سے، ان کے پیروؤں، ان کا اتباع کرنے والوں اور ان کے دوستوں سے بیزار ھوں ۔

اس زیارت میں صرف خدا کے دشمنوں ھی سے بیزاری کا اظھار نھیں ھوا ھے بلکہ خدا کے دشنوں کی پیروی واتباع کرنے والوں اور ان سے خوش ھونے والوں سے بھی بیزاری ھے اور جس طرح ھم اولیاء خدا کی محبت کے ذریعہ خدا سے قریب ھوئے ھیں اسی طرح ھم خدا کے دشمنوں اور ان کے دوستوں کی دشمنی سے بھی خدا سے قریب ھوتے ھیں۔ زیارت عاشورہ ھی میں ھے:

"انی اتقرب الیٰ اللّٰہ و الیٰ رسولہ بموالاتکم وبالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب وبالبرائة ممن اٴسس اٴساس ذلک و بنیٰ علیہ بنیانہ"

میں آپ کی محبت و دوستی کے ذریعہ خدااور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا تقرب حاصل کرتا ھوں اور ان لوگوں سے کہ جنھوں نے آپ سے قتال و جنگ کی ھے ان سے بیزارھوں اور جس نے اس کی بنیاد رکھی اور پھر اس کی عمارت بنائی اس سے بھی بیزاری کے ساتھ خدا کا تقرب چاہتا ھوں ۔
ولاء اور توحید کا ربط

ولاء توحید ھی کے تحت ھے اس کو ھم پھلے بھی کئی بار بیان کر چکے ھیں،اسلام میں ولاء کی قیمت یہ ھے کہ اس کا سوتا توحید کے چشمہ سے پھوٹتا ھے اور توحید کے طول میں آتی ھے، کسی غیرِ خدا سے کوئی محبت نھیں ھے مگر یہ کہ خدا کے اذن اور اس کے حکم سے کی جا سکتی ھے خدا وند عالم فرماتا ھے: < اٴللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا> خدا ان لوگوں کا دوست ھے جو ایمان لائے ھیں۔ اس کے بعد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا اور صاحبان امر کی ولایت خدا کے حکم سے واجب ھوتی ھے، جس نے خدا سے محبت کی اس نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت کی اور جس نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت کی اس نے صاحبان امر سے محبت کی، واضح رھے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولایت کو خدا کی ولایت سے اور اھل بیت(علیہم السلام) کی ولایت کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولایت سے جدا نھیں کیا جاسکتا ھے۔

خدا وند عالم فرماتا ھے:< إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیمُوْنَ الصَّلاةَ وَ یُوٴتُونَ الزَّکاةَ وَ ھُمْ رَاکِعُوْنَ>[5]

تمھارا ولی صرف خدا، رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور وہ لوگ ھیں جو ایمان لاتے ھیں جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکواة دیتے ھیں۔

روایات سے یہ ثابت ھوتا ھے کہ یہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی شان میں نازل ھوئی ھے اور " یقیمون الصلٰوة و یوٴتون الزکٰوة و ھم راکعون"سے حضرت علی(علیہ السلام)ھی مراد ھیں۔

یہ ولایت، خدا اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان لوگوں کی ھے جو ایمان لائے ھیں اور جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالتِ رکوع میں زکواة دیتے ھیں وھی مسلمانوں کے ولی امر ھیں۔

اس لحاظ سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(علیہم السلام) کی ولایت خدا کی ولایت ھی کی کڑی ھے جیسا کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں کے ولی امر کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت ھی کی کڑی ھے ۔ اور ولایت و طاعت ھی کی طرح محبت بھی ھے۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خدا سے اس لئے محبت کرو کہ اس نے تمھیں اپنی نعمتوں سے سر شار کیا ھے اور مجھ سے خدا کی محبت کی بدولت محبت کرو اور میرے اھل بیت سے میری محبت کے باعث محبت کرو۔ [6]

آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھی کا ارشاد ھے: خدا سے محبت کرو کہ اس نے تمھیں اپنی نعمت سے سرشار کیا ھے اور مجھ سے خدا کی محبت کی وجہ سے محبت کرو اور میرے اھل بیت(علیہم السلام) سے میری محبت کے سبب محبت کرو۔[7]

بنا بر ایں جو شخص خدا سے محبت کرے گا وہ ان حضرات سے بھی محبت کرے گا اور جو خدا کی اطاعت کرے گا وہ ان کی اطاعت کرے گا اور جو خدا سے محبت کرے گا وہ ان سے محبت کرے گا۔

یہ توحیدی میزان کا ایک پلہ اور دوسرا پلہ یہ ھے کہ جو ان سے تولیٰ کرے گا وہ خدا سے تولیٰ کرے گا اور جو ان کی اطاعت کرے گادر حقیقت وہ خدا کی اطاعت کرے گا اور جو ان سے محبت کرے گا وہ در حقیقت خدا سے محبت کرے گا۔ اس طرح یہ دوستی وولاء اور توحید کے پلے برابر ھو جائیں گے۔

اس سلسلہ میں درج ذیل روایتوں کو ملاحظہ فرمائیں جو کہ ترازو کے دوسرے پلے کی طرف اشارہ کرتی ھیں:
زیارت جامعہ میں آیا ھے:

" من والاکم فقد و الي اللّٰہ،و من عاداکم فقد عادی الله"

جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی۔

اسی زیارت میں آیا ھے:

"من اٴطاعکم فقد اٴطاع اللّٰہ و من عصاکم فقد عصی الله"

جس نے آپ کی اطاعت کی در حقیقت اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے آپ کی نافرمانی کی در حقیقت اس نے خدا کی نافرمانی کی۔

اسی زیارت میں آیا ھے:

"من اٴحبکم فقد احب الله و من اٴبغضکم فقد اٴبغض اللّٰہ"

جس نے آپ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔

اور ھم ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعہ خداسے قریب ھوتے ھیں۔ چنانچہ زیارت عاشورہ میں ھے:

" انی اتقرب الیٰ اللّٰہ بموالاتکم و بالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب"

میں آپ کی محبت اور اس شخص سے بیزاری کے ساتھ خدا کاتقرب چاہتا ھوں کہ جس نے آپ(علیہ السلام) سے قتال کیا اور آپ سے جنگ کی۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

"من اٴطاعنی فقد اٴطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ و من عصی علیاً فقد عصانی"۔ [8]

جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی( اسی طرح ) جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

ابن عباس سے مروی ھے کہ انھوں نے کھا: نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی(علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے علی! میں دنیا و آخرت میں سید و سردار ھوں تمھارا دوست میرا دوست ھے اور میرا دوست خدا کا دوست ھے اور تمھارا دشمن میرا دشمن ھے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ھے۔(۲)؟؟/؟؟

اسلام میں تولیٰ اور تبری کے مفھوم کے باریک نکات میں سے یہ بھی ھے کہ ھم ولایت خدا اور ولایت اھل بیت(علیہم السلام) کے درمیان جومحکم توحیدی ربط ھے اسے دقیق طریقہ سے سمجھیں اور دونوں ولایتوں کے درمیان توحیدی توازن کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام میں جو بھی ولایت ھے وہ خد اکی ولایت کے تحت ھی ھوگی ورنہ وہ باطل ھے اور جو بھی اطاعت ھے اسے بھی خدا کی اطاعت ھی کے تحت ھونا چاہئے اور اگر خدا کی طاعت کے تحت نھیں ھے تو وہ باطل ھے اور ھر محبت کو خدا کی محبت کے تحت ھوناچاہئے ورنہ خدا کے میزان میں اس کی کوئی قیمت و حیثیت نھیں ھوگی۔

اس سیاق میں یہ بھی ھے کہ اھل بیت(علیہم السلام) خدا کی طرف راھنمائی کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ھیں اور اس کے امر سے حکم کرنے والے ھیں، اس کے سامنے سراپا تسلیم ھیں اورخداکے راستہ کی طرف ھدایت کرنے والے ھیں۔

یہ قضیہ کا ایک پھلو ھے، اس کا دوسرا حصہ یہ ھے کہ جو شخص خدا کو چاہتا ھے اور اس کے راستہ، اس کی مرضی اور اس کے حکم و حدود کو دوست رکھتا ھے اسے اھل بیت(علیہم السلام) کے راستہ پرچلنا چاہئے اور انکے عمل کو اختیار کرنا چاہئے،اس توحیدی معادلہ کے دونوں اطراف کو ملاحظہ فرمائیں:

زیارت جامعہ میں آیا ھے: الیٰ اللّٰہ تدعون و علیہ تدلون و بہ توٴمنون ولہ تسلمون و باٴمرہ تعملون و الیٰ سبیلہ ترشدون و بقولہ تحکمون۔

آپ اللہ کی طرف بلاتے ھیں اور اسی کی طرف راھنمائی کرتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں اور اسی کے سامنے سراپا تسلیم ھیں اور اسی کے امر کے مطابق عمل کرتے ھیں اور اس کے راستہ کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور اس کے قول کے مطابق حکم دیتے ھیں۔

یہ قضیہ کا ایک سرا ھے اور اس کا دوسرا سرا یہ ھے:

"من اراد اللّٰہ بدء بکم و من وحدہ قبل عنکم و من قصدہ توجہ بکم"

اس کی تاکید ایک بار پھر کردوں کہ ھم ولاء کو خدا کی ولایت کے تحت اسی توحیدی طریقہ سے سمجھ سکتے ھیں، اگر اھل بیت(علیہم السلام)کی ولایت، طاعت اور محبت ولایت خدا کے تحت نھیں ھے تو وہ اھل بیت(علیہم السلام) کی تعلیم اور ان کے قول کے خلاف ھے ۔
سلام و نصیحت

یہ بھی ولاء کے دو رخ ھیں یعنی صاحبان امر کے ساتھ کس طرح پیش آئیں،سلام اس لگاؤ کا سلبی رخ ھے اور نصیحت اس لگاؤ کا ایجابی رخ ھے،اس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں:

صاحبان امر(رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اھل بیت(علیہم السلام))پر سلام بھیجنا جیسا کہ زیارات کی نصوص میں وارد ھوا ھے یہ سلام مقولہ خطاب سے نھیں ھے بلکہ سلام کا تعلق مقولہٴ ارتباط و علاقہ سے ھے اور خطاب کو علاقہ اور ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ھے ۔

صاحبانِ امر پر جو سلام بھیجا جاتا ھے اس کے باریک معنی یہ ھیں کہ ھم انھیں اپنے افعال و اعمال کے ذریعہ اذیت نہ دیں کیونکہ وہ ھمارے اعمال کو دیکھتے ھیں جیساکہ سورہٴ قدر اور دوسری روایات اس کی گواھی دے رھی ھیں۔

ان کے دوستوں کے برے اعمال اور ان کا گناھوں اور معصیتوں میں آلودہ ھونا انھیں تکلیف پھنچاتا ھے اسی طرح ان دو فرشتوں کو رنجیدہ کرتا ھے جو ان کے ساتھ رہتے ھیں اور ان کے دوستوں کے نیک و صالح اعمال انھیں خوش کرتے ھیں،ھم صاحبان امر پر سلام والی بحث کو زیادہ طول نھیں دینا چاہتے ھیں۔

ان پر سلام سے متعلق زیارتیں معمور ھیں، زیارت جامعہ غیر معروفہ میں،کہ جس کو شیخ صدوق ۺ نے( کتاب من لا یحضرہ الفقیہ )میں امام رضا(علیہ السلام) سے نقل کیا ھے، سلاموں کا سلسلہ ھے ھم ان میںسے ایک حصہ یھاں نقل کرتے ھیں:

"السلام علیٰ اٴولیاء اللّٰہ و اٴصفیائہ، السلام علیٰ اٴمناء اللّٰہ و اٴحبّائہ، السلام علیٰ اٴنصار اللّٰہ و خلفائہ، السلام علیٰ محالّ معرفة اللّٰہ، السلام علیٰ مساکن ذکر اللّٰہ، السلام علیٰ مظھري اٴمر اللّٰہ و نھیہ، السلام علیٰ الدعاة الیٰ اللّٰہ، السلام علیٰ المستقرّین فی مرضاة اللّٰہ، السلام علیٰ المخلصین فی طاعة اللّٰہ، السلام علیٰ الاٴدلاّء علیٰ اللّٰہ، السلام علیٰ الذین من والاھم فقد والیٰ اللّٰہ، و من عاداھم فقد عادی اللّٰہ، و من عرفھم فقد عرف اللّٰہ، و من جھلھم فقد جھل اللّٰہ، و من اعتصم بھم فقد اعتصم باللّٰہ، و من تخلی عنھم فقد تخلیٰ عن اللّٰہ۔"

سلام ھو خدا کے دوستوں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر، سلام ھو خدا کے امین اور اس کے احباء پر، سلام ھو خدا کے انصار اور اس کے خلفاء پر، سلام ھو معرفتِ خداکے مقام پر سلام ھو، ذکرِ خدا کی منزلوں پر،سلام ھو خدا کے امرو نھی کے ظاھر کرنے والوں پر، سلام ھو خدا کی طرف بلانے والوں پر، سلام ھو خدا کی خوشنودی کے مرکزوں پر، سلام ھو طاعتِ خدا میں خلوص کرنے والوں پر، سلام ھو خدا کی طرف راھنمائی کرنے والوں پر، سلام ھو ان لوگوں پر کہ جو ان سے محبت کرے تو وہ محبت در حقیقت خدا سے ھو اور جو ان سے دشمنی کرے تو اصل میں اس کی دشمنی خدا سے ھو، جس نے انکو پہچان لیا اس نے خد اکو پہچان لیا اور جس نے ان کو نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا، جو ان سے وابستہ ھو گیا وہ خدا سے وابستہ ھو گیا اور جس نے ان کو چھوڑ دیا اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔
نصیحت

نصیحت صاحبانِ امر سے محبت و عقیدت کا دوسرا رخ ھے صاحبانِ امر کا خیر خواہ ھونا مقولہٴ توحید سے ھے یہ بھی خدا و رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخلصانہ محبت کے تحت آتا ھے، یہ ان تین سیاسی قضیوں میں سے ایک ھے جن کا اعلان رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حجة الوداع کے موقعہ پر عام مسلمانوں کے سامنے مسجد خیف میں کیا تھا۔

شیخ صدوقۺ نے اپنی کتاب خصال میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت کی ھے کہ آپ(علیہ السلام) نے فرمایا: حجة الوداع کے موقعہ پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے منی کے میدان میں مسجدِ خیف میں خطبہ دیا پھلے خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: خد ا شاداب و خوش رکھے اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا اور محفوظ رکھا اور پھر اس بات کو اس شخص تک پھنچایا جس نے وہ بات نھیں سنی تھی کیونکہ بہت سے فقہ کے حامل فقیہ نھیں ھوتے اور بہت سے فقہ کے حامل اس شخص تک اسے پھنچاتے ھیں جو ان سے زیادہ فقیہ ھوتا ھے،تین چیزوں سے مسلمان کا دل نھیں تھکتا ھے:

۱۔ خدا کے لئے خلوص عمل سے۔

۲۔ مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواھی سے۔

۳۔ اور اپنی جماعت کے ساتھ رھنے سے۔

اس لئے کہ ان کی دعوت انھیں گھیرے ھوئے ھے ۔

اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ھیں،ان کا خون ایک ھی ھے اور ان کے ذمہ چیزوں کی ان کا چھوٹا بھی پابندی کرتا ھے اور وہ اپنے مخالف کے لئے ایک ھیں۔ [9]اور صاحبانِ امر اور مسلمانوں کے ائمہ(علیہ السلام) کی خیر خواھی یہ ھے کہ مسلمان ان کی مدد کرے، ان کی پشت پناھی کرے،انھیں محکم و مستحکم کرے، ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرے، انھیں خیر خواھانہ مشورہ دے ان کی حفاظت کرے ان کے سامنے مسلمانوں کی مشکلیںاور رنج و غم کو بیان کرے یہ اس کی محبت و لگاؤ کا مثبت پھلو ھے ۔
نمونہٴ عمل اور قیادت

ولاء کے مفردات میں سے اھل بیت(علیہم السلام) کی تاسی کرنا بھی ھے۔

بیشک خد اوند عالم نے پھلے ابراھیم کو اور ان کے بعد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو لوگوں کے لئے بہترین نمونہ عمل قرار دیا تھا اور لوگ ان دونوں کی اقتداء کرتے تھے اور خود کو ان کے لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

< قَد کَانَتْ لَکُمْ اٴسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إبْراہِیمَ وَ الَّذِینَ مَعَہُ>[10]

یقینا ابراھیم میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ھیں ان میں تمھارے لئے اچھا نمونہ ھے۔ نیز فرماتاھے:

<لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اٴُسوَةٌ حَسَنَةٌ>[11]

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعدآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(علیہم السلام) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خلفاء ھمارے لئے نمونہ عمل ھیں، ھم اپنی زندگی میں، اپنی محبت میں،اپنی عائلی زندگی میں، اپنے اھل و عیال سے محبت کرنے میں اور خود سے محبت کرنے میں اور ان سب سے پھلے خدا سے محبت کرنے میں ھم انھیں کی پیروی کرتے ھیں۔

واضح رھے کہ تاسی، تعلم نھیں ھے، اھل بیت(علیہم السلام) ھمارے معلم اور نمونہٴ عمل ھیں، ھم ان کی توجیھات اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ھیں، ھم ان کے نقش قدم پر چلتے ھیں، ان کے راستہ پر گامزن ھوتے ھیں اور زندگی میں انھیں کی رسم و راہ اختیار کرتے ھیں،ایسی زندگی گزارتے ھیں جیسی انھوں نے گزاری ھے، عام لوگوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ایسے ھی رہتے ھیں جیسے وہ رہتے تھے۔

بیشک ائمہ اھل بیت(علیہم السلام) معصوم ھیں۔ اس کے معنی یہ ھیں کہ وہ انسانیت کے لئے کامل

نمونہ ھیں، خدا نے انھیں میزان و معیار قرار دیا ھے، ھم خود کو انھیں کے معیار پر پرکھتے ھیںپس ھماری جو گفتار و کردار، ھماری خاموشی اور ھماری حرکت و سکون اور ھمارا اٹھنا بیٹھا ان کی گفتار و کردار اور ان کے حرکت و سکون کے مطابق ھوتا ھے وہ صحیح ھے اور جو ان سے مختلف ھے وہ غلط ھے، خواہ وہ کم ھو یا زیادہ اس میں کوئی فرق نھیں ھے، اور زیارت جامعہ میں نقل ھونے والے درج ذیل جملے کے یھی معنی ھیں:

"المتخلف عنکم ھالک و المتقدم لکم زاھق واللازم لکم لاحق"

آپ سے روگردانی کرنے والا فانی اور آپ سے آگے بڑھنے والا مٹ جائیگا اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ھوگا ۔

ھمارے لئے ضروری ھے کہ ھم اھل بیت(علیہم السلام) کی سیرت اورسنتوں کا مطالعہ کریں تاکہ ھمارا کرداران کے کردار کے مطابق ھو جائے،حضرت امیر المومنین(علیہ السلام) فرماتے ھیں: تم میں اس کی طاقت نھیں ھے لیکن تم ورع و کوشش سے میری مدد کرو۔

زیارت جامعہ میں ائمہ(علیہ السلام) کی توصیف میں بیان ھوا ھے: وہ بہترین نمونے ھیں اور بہترین نمونے ھی معیار ھیں اور جھاں تک ھو سکے لوگ خود کو ان ھی معیاروں پر پرکھیں۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(علیہم السلام) نے حضرت ابراھیم(علیہ السلام)اور خود آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اقدار و اخلاق، عبودیت و اخلاص اور طاعت و تقویٰ کی میراث پائی ھے ۔

جو شخص انبیاء کی ھدایت پانا اور ان کے راستہ پر چلنا چاہتا ھے تو اسے چاہئے کہ وہ اھل بیت(علیہم السلام) کی اقتدا ء کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔

زیارت جامعہ میں یہ دعا ھے:

"جعلنی اللّٰہ ممن یقتصّ آثارکم و یسلک سبیلکم و یھتدی بھداکم"

خدا مجھے ان لوگوں میں قرار دے کہ جو آپ کے راستہ پر چلتے ھیں اور آپ کی ھدایت سے ھدایت پاتے ھیں۔
رنج و مسرت

رنج و مسرت ولاء کی دو حالتیں ھیں اور یہ دونوں محبت کی نشانیاں ھیں کیونکہ جب انسان کسی سے محبت کرتا ھے تو وہ اس کے غمگین ھونے سے غمگین ھوتا ھے اور اس کے خوش ھونے سے خوش ھوتا ھے ۔ امام صادق(علیہ السلام) سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا: ھمارے شیعہ ھم ھی میں سے ھیں انکو وھی چیز رنجیدہ کرتی ھے جو ھمیں رنجیدہ کرتی ھے اور انھیں وھی چیز خوش کرتی ھے جو ھمیں خوش کرتی ھے ۔[12]

صحیح روایت میں ریان بن شبیب معتصم عباسی کے ماموں سے نقل ھوا کہ امام رضا(علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنتوں کے بلند درجوں میں ھمارے ساتھ رھنا پسند کرتے ھو تو ھمارے غم میں غم اور ھماری خوشی میں خوشی مناؤ اور ھماری ولایت سے متمسک ھو جاؤ کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا قیامت کے دن اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔[13]

مسمع سے مروی ھے کہ انھوں نے کھا: امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: اے مسمع! تم عراقی ھو! کیا تم قبرِ حسین(علیہ السلام)کی زیارت کرتے ھو؟ میںنے عرض کی: نھیں، میں بصری مشھور ھوں، ھمارے یھاں ایک شخص ھے جو خلیفہ کی خواھش کے مطابق عمل کرتا ھے اورناصبی اور غیر ناصبی قبائل میں سے بہت سے لوگ ھمارے دشمن ھیں مجھے اس بات کا خوف رہتا ھے کہ لوگ سلیمان کے بیٹے سے میری شکایت نہ کر دیں او روہ میرے در پے ھو جائیں، آپ(علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: کیا تمھیں یاد ھے کہ اس پر کیا احسان کیا ھے ؟ میں نے کھا: ھاں۔ پھر فرمایا: کیا تم اس پر غم کا اظھار کرتے ھو؟ میںنے عرض کی: جی ھاں۔

میں اس پر اس قدر آنسو بھاتا ھوں کہ میرے اھل و عیال میرے چھرہ پر اس کا اثر دیکھتے ھیں۔ میں کھانا نھیں کھاتاخدا آپ کے آنسوؤں پر رحم کرے۔۔۔

جو ھماری خوشی میں خوشی اور ھمارے غم میں غم مناتے ھیں اور ھمارے خوف میں خوف زدہ ھوتے ھیں اور جب ھم امان میں ھوتے ھیں تو وہ خودکوامان میں محسوس کرتے ھیں۔ تم مرتے دم دیکھوگے کہ تمھارے پاس میرے آباء و اجدادآئے ھیں اور تمھارے بارے میں ملک الموت کو تاکید کر رھے ھیں اور تمھیں ایسی بشارت دے رھے ھیں کہ جس سے مرنے سے پھلے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی ھو جائیں گی۔ نتیجہ میں ملک الموت تمھارے لئے اس سے زیادہ مھربان ھو جائے گا کہ جتنی شفیق ماں بیٹے پر مھربان ھوتی ھے۔[14]

ابان بن تغلب سے مروی ھے انھوں نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے روایت کی ھے کہ آپ(علیہ السلام) نے فرمایا:

ھمارے اوپر ھونے والے ظلم پر رنجیدہ ھونے والے کی سانس تسبیح،ھمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ھمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جھاد ھے ۔[15]

ھم اسی خاندان سے ھیں،ھم عقیدہ، اصول، محبت، بغض، ولاء اور براٴت میں ان کی طرف منسوب ھوتے ھیں۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ھونا ھے ۔لیکن ھم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاھر کرتے ھیں اور اس کو دل و نفس کی گھرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوں لاتے ھیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوں کے در میان کیوں ظاھر کرتے ھیں۔

اور اھل بیت(علیہم السلام) کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین(علیہ السلام) کے اظھار کی کیوں تاکید کی گئی ھے ۔

بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے روایت کی ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ھو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ھاں ھم ایسا ھی کرتے ھیں۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ھوں لہٰذا تم( ان مجلسوں میں) ھمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ھمارے امرکو زندہ کیا۔[16]

یہ اظھارغم اور نعرہ زنی ھماری ایمانی کیفیت کا اعلان ھے( یہ ھماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظھار ھے ) یہ اعلان و اظھار اور نعرہ زنی اھل بیت(علیہم السلام) سے ھماری وابستگی کا اعلان ھے۔یہ وہ چیز ھے جس کی ھم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ھے جس کو ھم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ھے ۔
ھمراھی اور اتباع

شاید لفظ ھمراھی و معیت مکتب اھل بیت(علیہم السلام) سے منسوب ھونے کے لئے بہترین لفظ ھے، خوشحالی و بدحالی،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میںھم انھیں کے ساتھ ھیں،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے گویا ترانہٴ ولاء کا ایک جملہ ھے "معکم معکم لا مع عدوکم۔۔" میں آپ کے ساتھ ھوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نھیں ھوں ۔۔۔زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ھوا ھے: لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم " کی بہ نسبت زیادہ وسیع ھے ۔
ثقافتی اتباع

ولاء میں اتباع کا مفھوم زیادہ وسعت رکھتا ھے ۔

یہ مفھوم جنگ و صلح، محبت و عداوت، فکر و ثقافت اور معرفت و فقہ میں اتباع کو شامل ھے۔

ھم اس سلسلہ میں ازاد ھیں کہ مشرق و مغرب میں جھاں بھی ھمیں علم ملے اسے حاصل کریں لیکن یہ بات جائز ھے اور نہ صحیح ھے کہ ھم سر چشمہ وحی کو چھوڑ کر معرفت و ثقافت دو سرے مرکز سے حاصل کریں اور اھل بیت(علیہم السلام) نے معرفت و ثقافت کو وحی کے چشمے سے حاصل کیا ھے، کیوں نہ ھو وہ نبوت کے اھل بیت(علیہم السلام) اور رسالت کی منزل ھیں، فرشتوں کی آمد و رفت کامرکز ھیں،وحی کے اترنے کی جگہ ھیں اور علم کے خزینہ دار ھیں۔جیسا کہ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے ۔

ثقافت اور علم کے درمیان فرق ھے علم براہ راست انسان کے چال چلن، عقیدہ، طرز فکر، طریقہ ٴ عبادت، محبت، معاشرت، تحرک، اجتماعی و سیاسی سر گرمی و فعالیت وغیرہ پر اثر انداز نھیں ھوتا ھے،لیکن ثقافت انسان کے چال چلن اس کے افکار، طریقہٴ معیشت و معاشرت اور عبادت، خدا، کائنات اور انسان سے متعلق نظریہ و تصور پر براہ راست اثر انداز ھوتی ھے ۔

اورعلوم بے پناہ ھیں، جیسے، دوا سازی و دوا فروشی،تجارت، اقتصادیات، محاسبہ، ریاضیات، انجینئری و معماری، الکٹرون، ایٹم، جراحت، طبابت، میکانک، فزکس وغیرہ، لوگ آزاد ھیں کہ جھاں بھی انھیں علم ملے اسے حاصل کر لیں، یھاں تک کہ کافر سے بھی حاصل کر سکتے ھیں، کیونکہ علم ایک قسم کا اسلحہ اور طاقت ھے اور مومنین کو چاہئے کہ وہ کافروں اور اپنے دشمنوں سے اسلحہ و طاقت لے لیں ۔

ثقافت جیسے اخلاق، عرفان، فلسفہ، فقہ و عقیدہ، دعا، تربیت، تہذیب، طرزمعاشرت اجتماعی معیشت و کردار کے زاوئے اور ادب وغیرہ۔

ثقافت علم کی مانند نھیں ھے اور نہ ھمارے لئے یہ جائز ھے کہ ھم ثقافت(معرفت) وحی کے سرچشمہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ ثقافت انسان کے چال چلن اور کردار، اس کے طرز فکر، اس کی معیشت، خدا اور لوگوں اوراپنے نفس اور دوسری چیزوں سے محبت و لگاؤ کی کیفیت پر براہ راست اثر انداز ھوتی ھے ۔ ثقافت علم کو محدود رکھتی ھے خصوصاً جب علم صالح ثقافت سے متصل نہ ھو۔ ممکن ھے علم تخریب و فساد کا آلہٴ کار بن جائے۔ جبکہ ھدایت کرنے اور راہ دکھانے والی ثقافت علم کو لگام لگاتی ھے اور اس سے انسان کی خدمت کے لئے مفید و نفع بخش کام لیتی ھے۔

قرآن مجید، انسان کی زندگی میں،کتاب( ثقافت و معرفت) ھے، جس کو خدا نے انسان کی فکر و کردار کی ھدایت کے لئے نازل کیا ھے ۔ یہ کتاب علم نھیں ھے، اگر چہ علماء نے قرآن مجید میں فلک، نجوم، نباتات، حیوانات، طب اور فلسفہ سے متعلق بے پناہ علوم پائے ھیں۔ اس کے باوجود قرآن کتابِ ثقافت و ھدایت ھی رھا ۔ یہ بات صحیح نھیں ھے کہ ھم قرآن کے ساتھ کتاب علم کا سا سلوک کریں گو یا وہ علم کی کتاب ھے جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ھے کہ لوگ اس کے ذریعہ فزکس، کیمیا اور نباتات وغیرہ کا علم حاصل کریں۔ بلکہ وہ ثقافت و معرفت کی کتاب ھے، جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ھے کہ وہ ھمیں طرز زندگی، خدا، کائنات اور انسان کی معرفت کا طریقہ، تصور خدا اور تصور کائنات و انسان کی کیفیت بتائے کہ ھم خدا، لوگوں،اپنے نفسوں اور دوسری اشیاء کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اور اشیاء کی بلندیوں اور افکار و افراد کا کیسے اندازہ لگائیں۔

خداوندعالم فرماتاھے:

<شَھرُ رَمَضَانَ، الَّذِی اٴُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ، ھُدًی لِلنَّاسِ، وَ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الھُدیٰ وَ الفُرقَانِ>[17]

رمضان کا مھینہ ھی ھے جس میں قرآن نازل کیا گیا ھے، جو لوگوں کے لئے ھدایت ھے اور اس میں ھدایت کے ساتھ حق و باطل کے امتیاز کی نشانیاں بھی ھیں۔

دوسری جگہ فرماتا ھے:

<وَاذْکرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ،وَمَا اٴنْزِلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَةِ، یَعِظُکُمْ بِہِ> [18]

اور تمھارے اوپر خدا نے جو نعمتیں نازل کی ھیں ان کو یاد کرو اور تمھارے اوپر کتاب و حکمت نازل کی ھے جس کے ذریعہ وہ تمھیں نصیحت کرتاھے۔

نیز فرماتا ھے:

<ھٰذا بَیَانٌ لِلنَّاسِ وَ ھُدیً وَّ مَوعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ>[19]

یہ لوگوں کیلئے ایک بیان ھے اور پرھیزگاروں کے لئے ھدایت و نصیحت ھے ۔

نیزفرماتا ھے:

<یَا اٴیُّھَا النَّاسُ قَدجَاءَکُم بُرھَانٌ مِّن رَّبِّکُم، وَ اٴنزَلنَا إلَیکُم نُورًا مُبِینًا> [20]

اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی ھے اورھم نے تمھاری طرف نور مبین نازل کیا ھے ۔

نیز فرماتا ھے:

<وَ لَقَد جِئْنَاھُم بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاہُ عَلیٰ عِلْمٍ، ھُدیً وَّ رَحْمَةً لِقَومٍ یُوٴمِنُونَ>[21]

ھم تمھارے پاس ایسی کتاب لائے جس کی ھم نے علم کے لحاظ سے تفصیل کی ھے اور یہ ایمان لانے والوں کے لئے ھدایت و رحمت ھے ۔

پھر فرماتا ھے:

<ھٰذا بَصَائِرٌ مِن رَّبِّکُمْ وَ ھُدیً وَّ رَحْمَةٌ لِقَومٍ یُوٴمِنُونَ> [22]

یہ قرآن تمھارے پروردگار کی طرف سے دلائل اور ایمان لانے والوں کے لئے

ھدایت و رحمت ھے۔تو قرآن کتاب ثقافت ھے اور لوگوں کی زندگی میں نور ھے، لوگوں کے لئے دلائل، ھدایت اور نصیحت ھے اور ھمارے لئے یہ صحیح ھے کہ ھم کسی بھی سر چشمہ سے علم حاصل کر سکتے ھیں اور کسی بھی ذریعہ سے علم حاصل کر سکتے ھیں یھاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی علم حاصل کر سکتے ھیں لیکن ھمارے لئے یہ صحیح نھیں ھے کہ ھم معصوم کے سر چشمہ کے علاوہ کسی اور سے ثقافت لیں کہ وہ اس ثقافت کو ھماری طرف وحی کے سر چشمہ سے نقل کرتا ھے کیونکہ ثقافت میں ذرہ برابر بھی خطا مشقت کا باعث ھے جبکہ علم ایسا نھیں ھے ۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) معصوم، سر چشمہ ھیں ان پر وحی نازل ھوتی ھے اور وہ اسے ھم تک پھنچاتے ھیں، رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعدوحی کا سلسلہ منقطع ھو گیا لیکن رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے اھل بیت(علیہم السلام) کے خلفاء کو، جو کہ قرآن کے ھم پلہ ھیں، ھمارے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کیا ھے، اھل بیت(علیہم السلام)نے ثقافت و معرفت کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھی سے لیا ھے اور معرفت و ثقافت، خدا کے حدود و احکام، حلال و حرام، سنن آداب و اخلاق اور اصول و فروع کی میراث آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھی سے پائی ھے اور ان چیزوں میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انھیں اپنے بعد نسلاً بعد نسل مسلمانوں کا مرجع اور قرآن کا ھم پلہ قرر دیا ھے یھاں تک کہ خدا وند عالم انھیں زمین اور روئے زمین کی تمام چیزوں کا وارث بنا ئیگا اور اس کا ثبوت حدیث ثقلین ھے جو فریقین کے نزدیک صحیح ھے۔ اس حدیث میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ھے کہ میرے بعد تم قیامت تک قرآن اور اھل بیت(علیہم السلام) سے رجوع کرنا اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان دونوں سے تمسک کرنے کو گمراھی و ضلالت سے امان قرار دیا ھے ۔[23]

نص حدیث یہ ھے:

"إنی تارک فیکم الثّقلین کتاب اللّٰہ و عترتی اٴھل بیتی، و اٴنّھما لن یفترقا، حتی یردا علیّ الحوض، ما إن تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی"۔

میں تمھارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں ایک کتاب خدا، دوسری میری عترت جو کہ میرے اھل بیت(علیہم السلام) ھیںیہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جد انھیں ھوں گے یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ھوں گے جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رھوگے اس وقت تک میرے بعد ھر گز گمراہ نہ ھوگے۔

کتابوں میں اس حدیث کے الفاظ ملتے جلتے ھیں، جن سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف ھے اس حدیث کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بہت سے موقعوں پر بیان فرمایا ھے انھیں میں سے غدیر خم بھی ھے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں زید بن ارقم سے نقل ھے،رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

"مثل اٴھل بیتي مثل سفینة نوح من رکبھا نجا، و من تخلّف عنھا غرق"۔

میرے اھل بیت(علیہم السلام) کی مثال کشتیِ نوح کی سی ھے جو اس پر سوار ھو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ڈوب گیا۔[24]

نیز فرمایا:"اھل بیتي امان لاٴمتي من الإختلاف"۔

میرے اھل بیت(علیہم السلام) میری امت کے لئے اختلاف سے امان میں رھنے کا باعث ھیں۔[25]

اس کے علاوہ اوربہت سی حدیثیں ھیں جن کی صریح اور واضح دلالت اس بات پر ھے کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مسلمانوں کو یہ وصیت فرماتے تھے کہ میرے بعد تم میرے اھل بیت(علیہم السلام) سے رجوع کرنا اور اپنے دین کے دستور و معارف انھیں سے لینا، اسی طرح خداکے بیان کردہ حدود، اس کے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت اور حلال و حرام انھیں سے معلوم کرنا۔

فیروز آبادی نے اپنی گرانقدر کتاب"فضائل الخمسة من الصحاح الستة" میں ان حدیثوں میں سے کچھ حدیثیں بیان کی ھیں، بحث طویل ھو جانے کے خوف سے ھم ان سے چشم پوشی کرتے ھیں۔

بیشک اھل بیت(علیہم السلام)، مرکز رسالت، ملائکہ کی جائے آمد و رفت، وحی اترنے کی منزل، علم کے خزینہ دار،تاریکی میں چراغ، تقوے کی نشانیاں، ھدایت کے امام، انبیاء کے وارث اور دنیا والوں پر خدا کی حجت ھیں۔ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے: وہ معروف خدا کے مرکز، حکمتِ خداکے معادن، کتاب خدا کے حامل، اس کی حجت، اس کی صراط اور اس کا نور و برھان ھیں جیساکہ زیارت جامعہ میں وار دھواھے ۔

اس صورت میں جو بھی ان سے جدا ھوگا وہ لا محالہ بھٹک جائیگا،خواہ وہ ان سے آگے بڑھ جائے یا ان سے پیچھے رہ جائے کیونکہ خدا کی صراط ایک ھے متعدد نھیں ھے، پھر جو ان کے راستہ پر چلے گا وہ خدا کی طرف ھدایت پائے گا اور جو را ہ میں ان سے اختلاف کرے گا وہ اس منزل تک نھیں پھونچ پائیگا جس کو خدا چاہتا ھے، اس بات کا رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کئی موقعوں پر اعلان فرمایا ھے ان میںسے ھم نے ایک حدیث ثقلین میں بیان کیا ھے۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک و وابستہ رھوگے اس وقت تک گمراہ نہ ھوگے۔

یہ کوئی اجتھادی مسئلہ نھیں ھے کہ جس میں بعض لوگ ھدایت پا جاتے ھیں اور بعض لوگ بھٹک جاتے ھیں،ھدایت یافتہ کو دوھرا ثواب دیتا ھے اورخطا کرنے والے کو ایک ھی دیتا ھے جیسا کہ لوگ کہتے ھیں۔

نص کے ھوتے ھوئے اجتھاد کرنا صحیح نھیں ھے اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سلسلہ میں نص فرمائی ھے کہ میرے بعد جس چیز میں تمھارے درمیان اختلاف ھو اس میں تم میرے اھل بیت(علیہم السلام) سے رجوع کرنا۔ زیارت جامعہ میں آیا ھے ۔

"فالراغب عنکم مارق و اللازم لکم لاحق، و المقصّر في حقّکم زاھق، و الحقّ معکم و فیکم و منکم والیکم و اٴنتم معدنہ و فصل الخطاب عندکم، و آیات اللّٰہ لدیکم، و نورہ و برھانہ عندکم"۔

آپ سے رو گردانی کرنے والا دین سے خارج ھے اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ھے اور آپ کے حق میں کو تاھی کرنے والا مٹ جانے والا ھے، حق آپ کے ساتھ، آپ کے درمیان، آپ سے اور آپ کے لئے ھے، اورآپ حق کے معدن ھیں، فصل خطاب آپ کے پاس ھے، ۔۔خدائی آیتیں آپ کے پاس ھیں، اور اس کا نور و برھان آپ کے پاس ھے ۔

پس جو شخص خدا کی رضا، اس کا طریقہ، اس کی ھدایت اور اس کا راستہ چاہتا ھے وہ لامحالہ انھیں سے لے گا اور انھیں کے راستہ پر چلے گا، کیونکہ اھل بیت(علیہم السلام) خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نھیں بلاتے ھیں اور نہ غیر کی طرف راھنمائی کرتے ھیں اسی زیارت میں وارد ھوا ھے:

"الیٰ اللّٰہ تدعون، و علیہ تدلون و بہ توٴمنون، و لہ تسلمون، و باٴمرہ تعملون، والیٰ سبیلہ ترشدون، و بقولہ تحکمون، سعد من والاکم، و ھلک من عاداکم، و خاب من جحدکم، و ضلّ من فارقکم، و فاز من تمسک بکم، و امن من لجاٴ الیکم، و سلم من صدقکم، و ھدی من اعتصم بکم"۔

آپ خد اکی طرف دعوت دیتے ھیں، اسی کی طرف راھنما ئی کرتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں اور اس کے سامنے سراپا تسلیم ھیں اور اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ھیں اور اس کے راستہ کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور اس کے قول کے موافق حکم دیتے ھیں، جس نے آپ سے محبت کی اس کی قسمت سنور گئی اور جس نے آپ سے دشمنی کی وہ ھلاک ھو گیا، جس نے آپ کا انکار کیا وہ گھاٹے میں رھا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ھو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیاوہ کامیاب ھو گیا اور جس نے آپ کے پاس پناہ لے لی وہ محفوظ رھا، جس نے آپ کی تصدیق کی و ہ صحیح وسالم رھا اور جس نے آپ کا دامن تھام لیا وہ ھدایت پاگیا۔


[1] بحار الانوار: ج ۵ ص ۳۱۷

[2] امالی مفید: ص ۱۱۰۔

[3] بحار الانوار: ج۷۴ ص ۲۶۸

[4] اصول کافی: ج ۲ ص ۱۷۵

[5] سورہ مائدہ: ۵۵/ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ھوئی ھے اس کو فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں سورہ مائدہ کی آیہ انما ولیکم اللہ کے ذیل میں بیان کیا ھے اور شبلخجی نے نور الابصار ص ۱۷۰ پر / زمخشری نے کشاف میں سورہ مائدہ میں مذکورہ آیت کے ذیل میں/ ابو السعود نے مذکورہ آیت کے ذیل میں/ اسی طرح بیضاوی نے اس کو متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے/ سیوطی نے در منثور میں اسی آیت کے سلسلہ میں متعدد طریقوں سے روایت کی ھے ۔ واحدی نے اسباب النزول ص ۱۴۸ پر ،متقی نے کنزل العمال ج۶ ص ۳۱۹ پر اور ج ۷ ص ۳۰۵ پر/ ھیثمی نے مجمع الزوائد: ج۷ ص ۱۷ پر، طبری نے ذخائر العقبیٰ ج۸ ص۱۰۲ پر اور فیروز آبادی نے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج۲ ص ۱۸ و ۲۴ پر اس کی روایت کی ھے۔

[6] صحیح ترمذی: ج ۱۳ ص ۲۶۱/ تاریخ بغداد: ج۴ ص ۱۶۰ / اور اس کو ان دونوں سے علامہ امینی نے اپنی گراں قیمت کتاب سیرتنا و سنتنا میں تحریر کیا ھے

[7] صحیح ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اھل البیت/ مستدرک حاکم: ج۳ ص ۱۴۹/ اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ھے۔

[8] مستدرک الصحیحین ج۳ ص ۱۲۷/ اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ھے خطیب نے تاریخ بغداد: ج ۳ ص ۱۴۰ پر ابن عباس سے سے پانچ طریقوں سے اس کی روایت کی ھے۔ اور لکھتے ھیں:من احبک فقد احبنی و حبی حب اللہ جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور میری محبت خدا کی محبت ھے اور محب نے ریاض النضرة ج۲ ص ۱۶۶ پر/ فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ للفیروز آبادی ج۲ ص ۲۴۴ پر اور اس حدیث کے متعدد طرق نقل کئے ھیں۔

[9] بحار الانوار: ج۲۷ ص ۶۷۔

[10] سورہ ممتحنہ: ۴

[11] سورہ احزاب: ۲۱

[12] امالی طوسی: ج ۱ ص ۳۰۵

[13] امالی صدوق: ص ۷۹ مجلس ۲۷

[14] کامل الزیارات: ص ۱۰۱

[15] امالی مفید: ص ۲۰۰/ بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۷۸

[16] بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۸۲

[17] البقرة : ۱۸۵

[18] البقرة: ۲۳۱

[19] آل عمران : ۱۳۸

[20] سورة النساء: ۱۷۴

[21] سورہ الاعراف: ۵۲

[22] سورہ الاعراف: ۲۰۳

[23] مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل صحابہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ھے اور ترمذی نے اپنی صحیح میںج ۲ ص۳۰۸ / احمد نے اپنی مسند میں متعدد مقامات پر اس حدیث کو نقل کیا ھے / دارمی نے اپنی سنن کی ج۲ ص۴۳۱ پر کئی سندوں سے نقل کیا ھے/ حاکم نے مستدرک میں اسے متعدد سندوں سے نقل کیا ھے اور شیخین کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ھے۔ ج۳ ص ۱۰۹ سنن بیہقی ج۲ ص ۱۴۸ / ج۷ ص۳۰/ صواعق محرقہ ص ۸۹/ اس نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ھے اصحاب اسد الغابہ ج۲ ص ۱۲/ وغیرہ نے بھی اس کو نقل کیا ھے/ اس حدیث کی سند بیان کر کے ھم اپنی بات کو طول نھیں دینا چاہتے کیونکہ امر اس سے کھیں زیادہ اھم ھے۔ اس سلسلہ میں صحیح مسلم و ترمذی ھی کافی ھیں۔

[24] اس کو حاکم نے مستدرک ج۲ ص ۳۴۳ پر نقل کیا ھے اور مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ھے کنز العمال ج۶ ص ۲۱۶ / مجمع الزوائد ھیثمی ج ۹ ص ۱۸/ حلیة الاولیاء ابو نعیم ج۴ ص ۳۰۶ / تاریخ بغداد خطیب : ج ۱۲ ص ۱۹ / درمنثور سیوطی/ سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت: و اذ قلنا ادخلوا ہذہ القریة فکلوا منھا حیث شئتم، کشف الحقائق / مناودی ص ۱۳۲/ صواعق محرقہ/ طبری/ فضائل الخمسہ/ فیروزآبادی ج۲ ص ۶۷ تا ۷۱

[25] مستدرک صحیحین/ ج ۳ ص ۱۴۹/ اور انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ھے ۔ صواعق محرقہ: ص ۱۱۱۱/ مجمع الزوائد / ھیثمی: ج ۹ ص ۱۷۴/ فیض القدیر مناوی ج۶ ص ۲۹۷/ کنز العمال متقی: ج۷ ص ۲۱۷/ فیروز آبادی فضائل الخمسة من الصحاح الستہ / ج۲ ص ۷۱ تا ۷۳ اس کو بہت سے طریقوں سے نقل کیا ھے۔

 


source : www.sadeqeen.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
آداب معاشرت رسول اکرم
حضرت عباس کا عِلم

 
user comment