اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ شب قدر کے بارے میں اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی سے پوچھے گئے چند سوالوں کے جوابات ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔
شب قدر سے متعلق چند سوالوں کے جوابات
اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ شب قدر کے بارے میں اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی سے پوچھے گئے چند سوالوں کے جوابات ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔
۱: کیوں شب قدر کو ''شب قدر‘‘ کہا جاتا ہے؟
جواب: شب قدر کو شب قدر کہنے کے سلسلے میں بہت سارے اقوال بیان ہوئے ہیں لیکن ہم یہاں پر تفسیر نمونہ سے چند اقوال نقل کرتے ہیں:
الف: شب قدر کو اس لیے ''قدر‘‘ کہا گیا ہے چونکہ اس رات بندوں کے آئندہ سال تک کے امور مقدر کئے جاتے ہیں۔ اس بات کی دلیل سورہ دخان کی یہ آیت ہے: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ : " ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے ہیں، اس رات میں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔(سورہ دخان، ۲،۳)
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ امر حکیم سے مراد سال بھر کے مقدرات کا فیصلہ ہے کہ انسان کے رزق اور صحت و مرض، راحت و تکلیف سب کا فیصلہ اسی شب قدر میں ہو جاتا ہے اور یہ رب العالمین اپنے علم کی بنا پر کرتا ہے کہ بندہ ایسے اعمال انجام دینے والا ہے۔ ورنہ سب کا وجود انسانی اعمال کے زیر اثر ہوتا ہے اور خدا بلا سبب کسی کو مبتلائے زحمت و تکالیف نہیں کرتا ہے۔
یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ بھی ہم آہنگی رکھتا ہے چنانچہ روایات میں وارد ہوا ہے: شب قدر وہ شب ہے جس میں انسانوں کے ایک سال کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ب: بعض نے کہا ہے کہ شب قدر کو اس لیے شب قدر کہتے ہیں چونکہ یہ قدر و منزلت کی رات ہے۔ جیسا کہ سورہ حج کی ۷۴ ویں آیت میں ہے: ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ " ان لوگوں نے خدا کی واقعی قدر نہیں پہچانی۔
ج: بعض نے کہا ہے کہ چونکہ قرآن کو اس کی قدر و منزلت کے ساتھ رسول گرانقدر پر صاحب قدر فرشتے کے ذریعے اس رات نازل کیا گیا اس لیے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔
د: چونکہ یہ ایسی رات ہےجس میں جو بھی احیاء اور شب بیداری کرے گا صاحب قدر و منزلت ہو گا۔
ھ: چونکہ شب قدر میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ زمین تنگ پڑ جاتی ہے اس لیے کہ تقدیر کے ایک معنی تنگ ہو جانے کے ہیں: جیسا کہ سورہ طلاق کی ساتویں آیت میں ہے:'' وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ‘‘ اور جس کے رزق میں تنگی ہو۔
ان اقوال کو بیان کرنے کے بعد آیت اللہ مکارم شیرازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پہلا قول لیلۃ القدر کے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔( تفسیرنمونہ، ج۲۷، ص ۱۸۷۔۱۸۸)
۲: شب قدر دقیق طور پر کون سی رات ہے؟
جواب: یہ بات یقینی ہے کہ شب قدر ماہ مبارک کی شبوں میں سے ایک شب ہے اور یہ بات قرآن کریم سے قابل اثبات ہے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے: "شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقانِ ... (بقره 185)" اس آیت کی بنا ہر ماہ رمضان، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ دوسری جگہ پر ارشاد ہے: "إِنَّا أَنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ" (قدر 1) شب قدر، شب نزول قرآن ہے۔ ان آیتوں سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ شب قدر ماہ رمضان میں ہے۔ لیکن ماہ رمضان کی کون سے رات شب قدر ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن کریم میں بیان نہیں ہوا ہے۔ اہلبیت علیہم السلام کی روایات میں تین راتوں کو شبہائے قدر کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ ماہ رمضان کی ۱۹، ۲۱ اور ۲۳ ویں رات۔ البتہ ۲۱ ویں اور ۲۳ویں پر زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ علامہ طباطبائی نے بھی ۲۳ ویں شب کو شب قدر ہونے کا قوی احتمال دیا ہے۔ لیکن اس کے مخفی ہونے کا کیا راز ہے اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔( رجوع کریں، المیزان، ج۲۰، ص۳۳۳)
۳: اگر شب قدر کو انسان کی زندگی کے آئندہ ایک سال تک کے امور مقدر ہو جاتے ہیں تو ایسے میں ہم ایک سال تک بے اختیار ہو جائیں گے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے انہی امور کو انجام دینا ہو گا۔
جواب: انسان جب تک اس دنیا میں ہے مکلف ہے اور تکلیف کے معنی یہ ہے کہ وہ اختیار رکھتا ہے اور خیر و شر میں سے کسی ایک کو اپنے اختیار سے انتخاب کر سکتا ہے۔ شب قدر میں ہر انسان کی تقدیر اس کے ارادے اور اختیار سے معین ہوتی ہے اس تقدیر کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے بعد مجبور ہو جائے گا جبکہ ہر انسان اپنے اعمال اور کردار کے مقابلے میں مسئول ہے یعنی ان کے بارے میں اس سے پرس و جو کی جائے گی اسے ثواب و عقاب دیا جائے گا واضح ہے کہ اگر انسان مجبور ہو گا تو ثواب و عقاب بے معنی ہو جاتا ہے۔ اور نتیجۃ جنت و جہنم کا بھی کوئی مفہوم نہیں رہ جاتا۔
شب قدر میں ہر انسان کے گزشتہ اعمال و کردار سے اس کی سرنوشت معین ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ طے ہو جاتا ہے کہ آئندہ سال تک وہ کن امور کے ذریعے مورد امتحان واقع ہو گا۔ اور وہ اہنے ارادے اور اختیار سے کن امور کو انجام دے گا لہذا انسان کی سرنوشت اور تقدیر اس کے اعمال اور کردار سے وابستہ ہے اور یہ انسان ہے کہ جو اپنے ارادے اور اچھے یا برے انتخاب سے اپنی تقدیر کو شب قدر میں معین کرتا ہے۔
۴: کیا وہ سرنوشت اور تقدیر جو شب قدر معین ہوتی ہے قابل تغییر ہے؟
جواب: بالکل، تقدیر قابل تغییر ہے، بطور کلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیک کردار اور نیک اعمال جیسے توبہ، استغفار، دعا، نماز، صدقہ اور صلہ رحم وغیرہ انسان کی تقدیر بدلنے میں مثبت اثر رکھتے ہیں۔ اور اسی طرح برا کردار اور ناشائستہ رفتار جیسے گناہ، جھوٹ، تہمت، بخل، قطع رحم وغیرہ منفی اثر رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تقدیر کے بدلنے کو ''بداء‘‘ کہا جاتا ہے۔
۵: کیا کوئی انسان اگر شب قدر بخشا نہ جائے یا ماہ رمضان میں اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اس کے بعد پورا سال اس کی بخشش نہیں ہو گی؟
جواب: یہ بات بعض روایات میں وارد ہوئی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ إِلَى قَابِلٍ إِلَّا أَنْ يَشْهَدَ عَرَفَةَ." (الکافی، ج ، ص 66.) جو شخص ماہ رمضان میں بخشا نہ جائے وہ آئندہ سال تک بخشا نہیں جائے گا مگر یہ کہ روز عرفہ کو درک کرے اور اس دن توبہ کر لے۔
بظاہر امام علیہ السلام کی مراد درج ذیل نکات پر تاکید ہے:
الف: ماہ رمضان کی فضیلت، اس مہینے میں توبہ کی قبولیت کے لیے شرائط کا فراہم ہونا اور گناہوں کا آسانی سے بخشا جانا۔
ب: ماہ رمضان کے بعد روز عرفہ کی اہمیت کو درک کرنا اور اس دن مغفرت الہی کے حصول کے لیے زمینہ فراہم ہونا۔
ج: دیگر اوقات میں توبہ کا سختی سے قبول ہونا چونکہ دیگر اوقات میں توبہ کے لیے شرائط معمولا مہیا نہیں ہو پاتے۔
در نتیجہ، مذکورہ روایت کے معنی ہر گز یہ نہیں ہیں کہ ماہ رمضان اور روز عرفہ کے علاوہ کبھی بھی انسان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ دیگر اوقات میں واقعی توبہ کا تحقق پانا مشکل ہے اس لیے کہ دیگر اوقات میں معنوی فضا کے شرائط مہیا نہیں ہو پاتے۔ لہذا ہر گز ناامید نہیں ہونا چاہیے، چونکہ خدا مہربان، تواب، غفار الذنوب اور سریع الرضا ہے وہ جب چاہے اپنے بندے کی توبہ قبول کر سکتا ہے اس کے گناہ معاف کر سکتا ہے۔
source : www.abna.ir