اردو
Sunday 28th of April 2024
0
نفر 0

عاشورائیوں اور کربلائیوں کی آہنی استقامت؛ بنی آدم کے لئے ابدی درس

عاشورائیوں اور کربلائیوں کی آہنی استقامت؛ بنی آدم کے لئے ابدی درس

عاشورا کا ایک درس اعتقادات اور نظریات پر ثابت قدمی اور اللہ کی راہ مستقیم اور مقدس اہداف پر استقامت کا درس ہے۔ یہ کہ مسائل اور مشکلات کی وجہ سے حوصلہ نہ ہارے۔

ترجمہ: زیدی

عاشورائیوں اور کربلائیوں کی آہنی استقامت؛ بنی آدم کے لئے ابدی درس

عظیم انسانوں نے تاریخ میں سختیوں اور دشمنوں کے دباؤ کے سامنے استقامت کی اور پوری قوت سے اپنی حرکت جاری رکھی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہيں گھبرائے اور سستی کا شکار نہ ہوئے۔ اس روش کو قرآن اور انبیاء الہی و اولیاء الہی کی سنت کی تائید حاصل ہے۔
ثابت قدمی پر دلالت کرنے والی آیات کریمہ
قرآن کی دو آیتوں میں ثابت قدمی پر صراحت کے ساتھ ثابت قدمی کی التجا کی گئی ہے:
الف۔ صبر استقامت کا لازمہ:
"وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ قالُوا رَبَّنا أَفْرِغْ عَلَیْنا صَبْراً وَثَبِّتْ أَقْدامَنا وَانْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْکافِرینَ"۔ (سورہ بقرہ آیت 250)
"اور جب (طالوت کے عساکر) جالوت اور اس کی افواج کے سامنے باہر نکلے تو کہا پروردگار ہم پر صبر کی طاقت انڈیل دے اور ہمارے قدموں کو جما دے اور کافر جماعت کے مقابلے میں ہماری مدد فرما"۔
اس آیت کریمہ میں راہ پر ثابت قدمی اور استقامت صبر کے ساتھ ساتھ ہے۔ پس راہ میں باقی رہنے کے لئے صبر کی ضرورت ہے۔
ب۔ استقامت فتح و نصرت کی علامت:
"وَما کانَ قَوْلَهُمْ إِلاَّ أَنْ قالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَإِسْرافَنا فی أَمْرِنا وَثَبِّتْ أَقْدامَنا وَانْصُرْنا عَلَى الْقَوْمِ الْکافِرینَ"۔ (سورہ آل عمران آیت 147)
"اور ان کا قول صرف یہ تھا کہ: اے ہمارے پروردگار! ہماری خاطر بخش دے ہمارے گناہوں کو اور خود ہمارے معاملے میں ہمارے اسراف کو اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافر گروہ کے مقابلے میں ہماری مدد فرما"۔
ثابت قدمی کے معنی:
صاحب قاموس کہتا ہے: کبھی ثبوتِ قدم سے مراد استقامت اور صبر ہے؛ ارشاد ربانی ہے: "فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا" (سورہ نحل آیت 94)؛ "کہ پیر جمے ہونے کے بعد اکھڑ جائیں"۔ یعنی استقامت تزلزل میں بدل جائے۔ "وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا"۔ (آل عمران: 147)۔ " اور ہمیں ثابت قدم رکھ"، یعنی ہمیں استقامت عطا فرما۔ (1)
زیارت عاشورا میں ثبات قدم کی التجا:
امام حسین علیہ السلام کی زیارت عاشورا میں دو مواقع پر خداوند متعال سے ثبات قدم یا ثابت قدمی کی درخواست کی گئی ہے۔ زیارت کے وسط میں کہا جاتا ہے: "وَأَنْ یُثَبِّتَ لِی عِنْدَکمْ قَدَمَ صِدْقٍ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة"۔ (2) "اور اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں آپ اہل بیت(ع) کے ساتھ رہنے اور آپ کی پیروی کے سلسلے میں میری سچائی کے قدموں کو ثبات عطا فرمائے"۔
اور پھر زیارت عاشورا کے آخری فقرے میں سجدے کی حالت میں کہا جاتا ہے:
"اللَّهُمَّ ارْزُقْنِی شَفَاعَةَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ وَ ثَبِّتْ لِی قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَک مَعَ الْحُسَیْنِ وَ أَصْحَابِ الْحُسَیْنِ الَّذِینَ بَذَلُوا مُهَجَهُمْ- دُونَ الْحُسَیْن "۔ (3)
"خداوندا مجھے قیامت میں ورود کے دن حسین علیہ السلام کی شفاعت عطا فرما اور اپنے پاس اور حسین اور اصحاب حسین کے ساتھ ـ جنہوں نے حسین کا دفاع کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ـ سچائی پر ثابت قدمی عطا فرما۔
زيارت عاشورا کے ان فقرات میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ جس طرح کہ امام حسین(ع) اور اصحاب حسین(ع) ـ جو امام(ع) کے دفاع میں جانیں قربان کرگئے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک استقامت کرتے رہے ـ کی طرح شیعیان امام حسین(ع) کو بھی خدا اور الہی اقدار کی راہ میں استقامت کرنی چاہئے۔
عاشورائی استقامت کا ایک نمونہ:
واقعہ عاشورا میں ثبات قدم ہی موجزن ہے؛ ایک منظر وہ ہے جب امام حسین(ع) نے عاشورا کی رات اپنی بیعت سے اٹھا دی لیکن اصحاب نے کربلا میں رہنے پر اصرار کرکے استقامت کی انتہا کردی۔
حسین علیہ السلام نے رات کے وقت اپنے اصحاب کو جمع کیا؛ علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا:
"گوکہ میں بیمار تھا مگر قریب تر گیا تا کہ سن لوں کہ امام حسین(ع) کیا فرمارہے ہیں اور میں نے سنا کہ میرے والد ماجد نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: ۔۔۔ (4)
"اما بعد، میں اپنے اصحاب سے زيادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا، پس خداوند متعال میری حانب سے آپ کو جزائے خیر عطا کرے؛ بے شک میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وعدے کا دن کل (روز عاشورا) ہی ہو۔ میں نے تم سب کو اجازت دے دی کہ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ، میرا تمہارے اوپر کوئی عہد و پیمان نہیں ہے۔ اس رات نے تمہیں چھپا دیا ہے، پس اس تاریکی سے فائدہ اٹھاؤ، اور تم میں سے ہر ایک میرے اہل بیت کے ایک مرد کا ہاتھ پکڑ لے ـ خدا تم سب کو جزائے خیر عطا کرے ـ اور پھر اپنے علاقوں اور شہروں میں منتشر ہوجاؤ حتی کہ خداوند متعال فراخی لائے کیونکہ یہ قوم کا میرے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں ہے، اور اگر وہ مجھ پر تسلط پائیں تو دوسروں کو چھوڑ دیں گے۔ (5)
اہل خاندان کا رد عمل:
ابھی امام حسین(ع) کا کلام اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ آپ(ع) کے خاندان کے برگزیدہ افراد اٹھے اور اعلان کیا کہ جو راستہ آپ نے چن لیا ہے وہی ہمارا راستہ ہے اور اس راستے میں ہم آپ کی پیروی کریں گے اور آپ کے شیوے کے سوا کوئی شیوہ منتخب نہیں کریں گے۔ وہ سب اشک بار آنکھوں کے ساتھ کہنے لگے: ہم کیوں ایسا کریں؟ اس لئے کہ ہم آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خداوند وہ دن ہمیں ہرگز نہ دکھائے۔
سب سے پہلے امام(ع) کے بھائی ابوالفضل العباس(ع) نے بات کا آغاز کیا اور خاندان نبوت کے فرزندوں میں سے پاک جوانمردوں نے ان کی پیروی کی [اور سب نے جانے سے انکار اور رہنے پر اصرار کیا]۔ (6)
استقامت اصحاب کے کلام میں:
"مسلم بن عوسجہ" کے آنکھوں پر اشک روان تھے اور اٹھ کر امام(ع) کی طرف بڑھے اور عرض کیا: "کیا ہم آپ کو چھوڑ دیں؟ پس آپ کے جق کی ادائیگی کے حوالے سے ہم اللہ کی بارگاہ میں کس چیز کو عذر کے طور پر پیش کریں؟ خدا کی قسم! میں آپ سے جدا نہیں ہونگا حتی کہ اپنا یہ نیزہ ان کے سینوں میں اتار دوں اور جب تک میری تلوار میرے ہاتھ میں ہے، اس سے ضربیں مارتا رہوں گا اور اگر میرے ہاتھ میں اسلحہ نہ ہوتا تو انہیں پتھروں کا نشانہ بناتا، اس وقت تک کہ آپ کے رکاب میں آپ کے ہمراہ مارا جاؤں"۔
"سعید بن عبداللہ حنفی" بول پڑے اور اپنی سچی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے عرض کیا: "خدا کی قسم! ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے ، حتی کہ خداوند جان لے کہ ہم نے آپ کے وجود میں رسول اللہ(ص) کی حرمت کا تحفظ کیا ہے۔۔۔ خدا کی قسم! اگر میں جانتا کہ میں مارا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور اس کے بعد میرا بدن جلا دیا جائے گا اور میری راکھ کو ہوا کے سپرد کیا جائے گا اور یہ کام ستر مرتبہ دہرایا جائے گا تو بھی آپ سے جدا نہ ہوتا حتی کہ آپ کی حمایت میں جان دے دوں۔ اور میں ایسا کیوں نہ کروں کہ صرف ایک ہی دفعہ مارا جانا مقدر ہے اور اس کے بعد وہ عظیم وہ کرامت عطا ہوگی جس کی کوئی انتہا نہیں ہے...
"زہیر بن قین" نے بھی اسی روش سے استفادہ کیا جو ان کے بھائیوں نے اپنائی تھی۔
سارے اصحاب نے ایک سانس اور ایک آواز سے اسی مضمون کے ساتھ جواب دیا اور کہا: خدا کی قسم ہم آپ سے جدا نہیں ہونگے (ہماری جان آپ پر قربان ہو) ہم اپنی گردنوں، اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں سے آپ کی حفاظت کریں گے اور جب ہم سب مارے جائیں تو ہمار فرض تب ہی پورا ہوگا۔ (7)
اور عاشورا کے روز انھوں نے وہی کیا جو وہ خود کہہ چکے تھے سب نے حریم رسول اللہ(ص) کا خون کے آخری قطرے اور زندگی کے آخری لمحے تک دفاع کیا اور اس راستے سے لمحہ بھر بھی پشیمان نہیں ہوئے جو انھوں نے چن لیا تھا۔
امید ہے کہ بھی اپنی زندگی میں اسی رستے پر گامزن رہیں اور دشمن کے دباؤ کی وجہ سے ان اقدار سے دست بردار نہ ہوں جو ہمارے شہیدوں کے خون کا ثمرہ ہیں۔ انشاء اللہ کہ دشمن کا دباؤ اور معاندین کا عناد اور مبغضین کا بغض ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کے ثمرات کے تحفظ سے غافل نہ کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ قرشى بنایى، على اکبر، قاموس قرآن، دار الکتب الاسلامیة - تهران، چاپ: ششم، 1412ق۔ ج 5 ؛ ص258۔
2۔ ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، 1جلد، دار المرتضویة - نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش، ص177
3۔ وہی ماخذ، ص179۔
4۔ آیت الله کمره اى ، در کربلا چه گذشت، ناشر: مسجد جمکران قم، چاپ: چهاردهم 1381 ش ، ص : 280۔
5۔ زندگانى حضرت امام حسین علیه السلام، باقر شریف قرشى رحمہ اللہ/ مترجم سید حسین محفوظى ،ناشر: بنیاد معارف اسلامى قم، سال چاپ: اوّل- 1422 ق ، ج 3 ،ص : 196۔
6۔وہی ماخذ، ص 197و 198۔
7۔ زندگانى حضرت امام حسین علیه السلام ، ج 3 ،ص : 199 و 200۔

 


source : www.sibtayn.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام رضا (ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں رہبر معظم ...
ولادت حضرت ابوالفضل العباس(ع)
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و ...
حرم مطہر قم ( روضۂ حضرت معصومہ علیہا السلام )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
حضرت عباس نمونہ وفا
حضرت عباس علیہ السلام کا شہادت نامہ
عظمت اہلبیت علیہم السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
عفو اہلبيت (ع)

 
user comment