کتب تاریخ میں مذکورہ بالا عنوان کے مصادیق بہت کم ہیں کیونکہ گوہر کا خلوص (Purity) جس قدر زیادہ ہو وہ کمیاب تر ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے بہترین امام ہیں اور امیرالمؤمنین(ع) بہترین ماموم تھے یا امام حسن مجتبی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے لئے بہترین امام اور امام حسین(ع) بہترین ماموم ہیں، تو ان کے بعد ہمیں امام حسین (ع) اور حضرت عباس علیہ السلام کی امامت و مامومیت سے بہترین کوئی مصداق نہيں ہے۔
بقلم: حمیدحاج علی ترجمہ وترتیب: زیدی
بہترین امام کا بہترین ماموم عباس علمدار علیہ السلام
یہ ایک نعرہ یا ایک جذباتی کلام یا کسی شاعر کی شاعری نہیں ہے بلکہ امام حسین اور دوسرے ائمہ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام نیز حضرت عباس(ع) کے اپنے کلام سے ثابت ہے:
"اَمّا فًإِنّی لا أَعْلَمُ أَصْحاباً أَوْلی وَلا خَیْراً مِنْ أَصْحابی وَلا أَهْلَ بَیْت أَبَرُّ وَلا أَوْصَلَ مِنْ أَهْلِ بَیْتی فَجزاکُمُ اللّهُ جمیعًا خَیْراً۔۔۔ فَانطَلِقُوا جَمِیعاً فِي حِلٍّ۔۔۔ فَقامَ العَبّاسُ فَقالَ لَم نَفعَل ذلِكَ لِنَبقی بَعدَكَ، لا أَرانا اللهُ ذلك أبداً"۔ (1)
امام حسین(ع) نے فرمایا: بے شک میں اپنے اصحاب سے زیادہ بہتر اور زیادہ باوفا، اصحاب کو نہیں جانتا (یعنی ان سے زيادہ بہتر اور زیادہ باوفا کوئی نہيں ہے) اور کسی خاندان کو اپنے خاندان سے بہتر اور زيادہ نیک اور صلہ رحمی کی رعایت کرنے والا، نہیں جانتا۔ پس خداوند متعال آپ سب کو میری اس مدد کے صلے میں جزائے خیر دے۔۔۔ میں تم سب کو معاف کرتا ہوں، رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاؤ اور چلے جاؤ؛ [بعض روایات کے مطابق جس نے سب سے پہلے رد عمل ظاہر یا وہ حضرت عباس تھے]، عباس اٹھے اور عرض کیا: کبھی بھی ہم ایسا نہیں کریں گے؛ ہم جائیں تاکہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدوند متعال ایسا دن ہمیں کبھی بھی نہ دکھائے۔
اور شاید عاشورا کے دن علمدار کربلا نے اپنے بھائیوں کو اسی لئے خود میدان میں اترنے سے پہلے، میدان کارزار میں روانہ کیا کہ آپ اپنے امام(ع) کی اطاعت و حمایت کے عروج کو منزل اثبات تک پہنچانا چاہتے تھے۔
شیخ مفید ـ رحمہ اللہ ـ لکھتے ہیں: جب عباس بن علی علیہما السلام نے سپاہ امام حسین علیہ السلام میں شہداء کی کثرت کا مشاہدہ کیا تو آپ(ع) نے اپنے سگے بھائیوں عبداللہ، جعفر اور عثمان (٭) سے فرمایا: اے میری ماں کے بیٹو! آگے بڑھو تاکہ میں دیکھ لوں کہ تم خدا اور رسول(ص) کے خیرخواہ ہو۔ (3)
اور اسی بنا پر ہی جب شمر ملعون حضرت عباس(ع) کے لئے امان نامہ لایا تو آپ(ع) نے فرمایا: خدا تجھ پر اور تیرے امان نامے پر لعنت کرے۔ اے شمر! کیا تم ہمیں امان نامہ دے رہے ہو جبکہ رسول اللہ(ص) کے لئے امان نہیں ہے؟؟۔ (4)
اور کارزار کے دوران رجز خوانی کرتے ہوئے فرمایا:
والله ان قطعتموا یمینی
إنی أحامی أبدا عن دینی
و عن امام صادق الیقین
نجل النبی الطاهر الأمین (5)
خدا کی قسم اگر تم میرا دایاں ہاتھ کاٹو پھر بھی
میں یقینا اپنے دین کی حمایت ابد تک جاری رکھوں گا
اور صادق الیقین امام (ع) کی حمایت
جو پاک و طاہر و امین نبی (ص) کے فرزند ہیں؛ جاری رکھوں گا
اور پھر اسی بنا ہر حضرت عباس(ع) کی زیارت مأثورہ میں پڑھتے ہیں:
"السلام علیك أیها العبد الصالح المطیع لله ولرسوله ولأمیر المۆمنین والحسن والحسین"۔ نیز پڑھتے ہیں: "أشهد أنك قد بالغت فی النصیحة وأعطیت غایة المجهود"۔ (7)
سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح بندے! اور اللہ اور اس کے رسول(ص) اور امیرالمؤمنین اور حسن و حسین کے فرمانبردار"۔۔۔ "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے امام کی اطاعت کی انتہا کردی اور آپ نے اپنی سعی اور کوشش کو نہایت تک پہنچایا"۔
نیز پڑھتے ہیں: "فنعم الأخ المواسي"۔ (8) یعنی آپ بہت اچھے بھائی تھے اور آپ نے بھائی کی نسبت مواسات و جان نثاری کو ملحوظ رکھا۔
یعنی عباس علیہ السلام نے جو بھی اپنے لئے پسند کیا اپنے بھائی اور امام کے لئے بھی پسند کیا۔
نیز "فنعم الأخ الصابر المجاهد والمحامي الناصر والأخ الدافع عن أخيه"۔ (9)
یعنی آپ [امامت کی مدد و حمایت کی راہ میں] صبر و استقامت اور مجاہدت کرنے والے بہترین بھائی تھے اور آپ اپنے بھائی کے دفاع کرنے والے بہترین بھائی تھے۔
یہاں جس نکتے کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عباس(ع) کی طرف سے امام حسین(ع) کی حمایت ہرگز اس لئے نہ تھی کہ آپ(ع) امام حسین علیہ السلام کے بھائی تھے بلکہ سبب صرف یہ تھا کہ امام حسین علیہ السلام بھائی تھے اور حضرت عباس ماموم اور پیروکار تھے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس نے کبھی بھی امام حسین(ع) کو بھائی کہہ کر نہيں پکارا سوائے لمحۂ شہادت کے۔ (10)
اور ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کو "یا سیدی اور یا مولای" کہہ کر پکارتے تھے۔ تاہم امام حسین(ع) اور امام حسن(ع) اور سیدہ زینب(س) آپ کو بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔ گویا شہنشاہ ملک وفا اس قدر منکسر المزاج اور مطیع تھے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو سبط اصغر اور امام وقت اور سیدۃ العالمین کے فرزند کو بھائی کہنے کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن یہ جو عباس علمدار نے لمحۂ شہادت میں امام حسین علیہ السلام کو بھائی کہہ کر پکارا شاید اس لئے تھا کہ آپ کی بالین پر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حاضر تھیں جو آپ کو بیٹا کہہ کر جنت کی بشارت دے رہی تھیں!!
شاید اسی بنات پر امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ شہداء روز قیامت حضرت عباس(ع) کا مقام دیکھ کر غبطہ کریں گے۔
ابوحمزہ ثمالی نے روایت کی کہ ایک دن حضرت امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام ـ جو خود بیماری کی حالت میں کربلا میں حاضر تھے ـ نے ابوالفضل العباس کے فرزند عبیداللہ کی طرف دیکھا تو آپ(ع) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور فرمایا: کوئی بھی دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی رسالت پر اس قدر بھاری نہ تھا احد کے دن سے جب شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیہ السلام شہید ہوئے۔ اور اس کے بعد جنگ موتہ کا دن جب آپ(ص) کے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب نے جام شہادت نوش کیا۔ پھر امام سجاد(ع) نے فرمایا: کوئی بھی دن حضرت امام حسین(ع) کے یوم شہادت کے پائے تک نہيں پہنچتا جب 30000 نامردوں نے ـ جو دعوی کررہے تھے کہ اس امت سے ہیں ـ اس امام مظلوم کا محاصرہ کرلیا اور ان میں سے ہر کوئی امام حسین(ع) کے خون سے اللہ کا تقرب تلاش کررہا تھا! اور امام حسین علیہ السلام ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے اور انہیں خدا کی یاد دلا رہے تھے۔ لیکن وہ نصیحت پذیر نہں ہوئے اور امام حسین(ع) سے دست بردار نہ ہوئے حتی کہ آپ(ع) کو جور و ستم اور تعدی اور جارحیت سے شہید کیا۔
اور پھر فرمایا: خدا رحمت کرے میرے چچا عباس علیہ السلام کو جنہوں نے جانفشانی کی اور اپنے بھائی کے حق میں ایثار ور جوانمردی کے جوہر دکھائے اور اپنی جان شریف کو اپنے بھائی پر قربان کیا حتی کہ دشمنوں نے آپ(ع) کے ہاتھ منقطع کئے؛ پس خداوند متعال نے ان دو ہاتھوں کے بدلے آپ کو دو شہپر عطا کئے جن کے ذریعے آپ(ع) فرشتوں کے ساتھ جنت میں پرواز کرتے ہیں؛ جس طرح کہ خدا نے جعفر بن ابی طالب(ع) کو دو شہپر عطا کئے ہیں۔ بے شک عباس کو خداوند عالمین کے نزدیک وہ منزلت ملی ہے کہ تمام شہدا روز قیامت آپ(ع) کی منزلت دیکھ کر اس کے حصول کی آرزو اور آپ(ع) کے مقام پر غبطہ کرتے ہیں۔ (11)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی نوشت ها :
1۔مقتل الحسین علیه السلام، أبو مخنف الزدی ، ص107 و177 و تاریخ طبری ، ج4 ، ص318 وارشاد مفید، ج2 ، ص91۔
٭۔ پوچھا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا نام عثمان کیوں رکھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امیرالمؤمنین جلیل القدر صحابی عثمان بن مظعون سے بہت محبت کرتے تھے اور انہیں اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپ(ع) نے اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا۔ عثمان بن مظعون بن حبیب بن وهب بن حذافة بن خمح الجمحی چودھویں انسان ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ انھوں نے دور جاہلیت میں بھی شراب نوشی اپنے اوپر حرام کردی تھی اور جب ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ان کے گھر پہنچے اور جھک کر ان کی جبین کا بوسہ لیا اور جب کھڑے ہوئے تو ان کے چہرے سے بکاء کے آثار نمایاں تھے۔ رسول اللہ(ص) نے ان کی میت پر نماز ادا کی اور انہیں بقیع میں سپرد خاک کیا۔ آج بھی بقیع کے آخری حصے میں ڈھلان کے اوپر ان کی قبر موجود ہے جو دوسری قبروں کے برعکس پختہ بھی ہے۔ ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں لکھا ہے کہ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: " إنما سميته باسم أخي عثمان ابن مظعون" میں نے اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے نام کے بموجب اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھا۔ مقاتل الطالبیین ص 55۔ الطبعة الثانية الناشر مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر قم ۔ ايران منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها في النجف ت (368) 1385 ه ۔ 1965 م۔
2۔ بہت سی روایات میں لفظ "أولی" کے بجائے لفظ "أوفی" آیا ہے جس کی ایک مثال ارشاد شیخ مفید کی روایت ہے۔ ج2 ص92۔
3۔ ارشاد مفید ، ج2 ، ص113۔
4۔ وہی ماخذ، ج2 ، ص94۔
5۔ لواعج الأشجان ، ص179 و معالم المدرستین ج3ص130۔
6۔ مأثور زیارتنامہ وہ زیارت نامہ ہے جو امام معصوم سے منقول ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ 14 معصومین کے علاوہ صرف دو شخصیات کےلئے مأثور زیارتنامہ آیا ہے: حضرت عباس اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہما۔
7۔ كامل الزیارات، ص441۔
8۔ بحار الأنوار، ج98 ، ص219و366۔
9۔ وہی ماخذ۔
10۔ موسوعة كلمات الإمام الحسین علیه السلام،۔ وسیلة الدارین ص274۔
11۔ جلاء العيون (تاريخ چهارده معصوم «عليهم السلام»)، علامه مجلسي (ره)، ص 572 و 573۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
source : www.abna.ir