اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

عاشورا کے آداب و اعمال؛ فقہ عاشورا

عاشورا کے آداب و اعمال؛ فقہ عاشورا

شیعہ نے دوسرے معاشروں سے کہیں زیادہ افکار اور جذبات کو اکٹھا کرلیا ہے/ یہ قوم جانفشانی کے وقت اپنے پورے احساس پوری آگہی اور ہوشیار عقل کے ساتھ جام شہادت میں نوش کرتی ہے/ ہماری فکر ہمارے جذبے کی خدمت میں اور ہمارا جذبہ ہماری فکر کی خدمت میں ہے اور یہی ہے عاشورا کا روشن پیغام۔

ترتیب و ترجمہ: زیدی

عاشورا کے آداب و اعمال؛ فقہ عاشورا

فکر اور احساس انسانی حیات کے دو دو بنیادی عناصر ہیں۔ فکر کے پھئے حرکت کا سبب بنتے ہیں اور جذبات و احساسات کی کی نسیم حرکت سے آنے والی حرارت اور فرسودگی کا ازالہ کرتی ہے۔ اگر افکار کے محکم و متقن اصول اپنی تمام تر استواری اور استحکام کے باوجود، پاک احساسات کی فضا میں سانس نہ لیں تو کبھی بھی کھِلنے اور شکفتہ ہونے کے مرحلہ تک نہ پہنچ سکیں گے؛ فکر کے بغیر جذبہ و احساس گذرنے والی ہوا ہے جو شاید انسان کے چہرے کو تھپکی دے لیکن بہت زود گذرتی ہے اور انسان کو افکار کے خلا میں چھوڑ دیتی ہے۔
بعض لوگ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور فکر ہی کی روشنی میں انسانی کی تعریف کرتے ہیں اور بعض دوسرے اپنا دل احساس اور جذبے کے سپرد کرتے ہیں اور احساس کو ہی انسان کی تعریف و تعارف کی بنیاد سمجھتے ہیں جبکہ بعض لوگ دونوں کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن تجربے کے ترازو پر کبھی بھی تعادل و توازن تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
شیعہ نے دوسرے معاشروں سے کہیں زیادہ افکار اور جذبات کو اکٹھا کرلیا ہے۔
یہ قوم جانفشانی کے وقت اپنے پورے احساس پوری آگہی اور ہوشیار عقل کے ساتھ جام شہادت میں نوش کرتی ہے۔
یقینی امر ہے کہ یہ تعادل اور توازن ہمارے لئے مغرب کا تحفہ نہیں ہے کیونکہ اہل مغرب بےمقصدیت کے بھنور میں غرق ہونے کا اعتراف کررہے ہیں۔ شیعہ کے پاس جو کچھ بھی ہے فکر سے لے کر حماسوں اور کارناموں تک، سب حسین(ع) سے ہے۔ ہم نے عاشورا سے حیات پائی ہے۔ عاشورا ہماری تاریخ کا دھڑکنے والا نبض ہے۔ اگر ہم نے ایساس اور عقل کے رابطے کا بہتر ادراک کیا ہے اور ان کے درمیان معجزانہ پیوند برقرار کیا ہے اس لئے کہ ہم عاشورا کے صریح پیغامات کے ساتھ صدیاں جئے ہیں اور حماسہ حسینی میں صدیاں بالیدگی کی مشق کرتے رہے ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب جذبات کے کالبد میں عقل و فکر کی موجزنی کا دوسرا نام ہی تو ہے۔
لوگ اپنی جان سے موت کی پذیرائی کرتے تھے تا کہ ان کی فکر کا روشن راستہ باقی رہے۔
صرف ایرانی ہی نہ تھے جنہوں نے استکبار اور استعمار کا کڑوا گھونٹ پی لیا تھا۔ اگر ہم نہ کہیں کہ جنوب کی نصف دنیا نے یہ کڑواہٹ اپنے تمام وجود سے محسوس کیا تھا، تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پوری امت مسلمہ نے اپنی تاریخ کا ایک حصہ مغرب کے زیر تسلط گذارا ہے یا حتی اب بھی گذار رہے ہیں اور قومیں ان ایام اور ان صدیوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں لیکن حکام ابھی انہیں یہ کڑواہٹ چکھاتے رہنے پر اصرار کررہے ہیں۔
اسلامی انقلاب ایران سے کیوں اٹھا اور جب کامیاب ہوا تو دوسرے انقلابات کی طرح گلا سڑا کیوں نہیں؛ اور تاریخ اختتام رکھنے والے انقلابات کی طرح ماضی کا حصہ کیوں نہیں بنا؟ اور کیوں یہ انقلاب ہر روز نئے دروازے کھول رہا ہے؟
اس سوال کا جواب ذہن اور دل یا عقلی حماسوں اور حماسی عقلیت کے پیوند اور رابطے میں ڈھونڈنا چاہئے اور یہ وہ رابطہ اور پیوند ہے جو ایرانی قوم کے دل میں عاشورا کی مسیحائی نے بٹھا دیا ہے۔ ہم عاشورا کے بلاواسطہ مخاطَبین ہیں۔ عاشورا کے پیغامات ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
ہماری فکر ہمارے جذبے کی خدمت میں اور ہمارا جذبہ ہماری فکر کی خدمت میں ہے اور یہی ہے عاشورا کا روشن پیغام۔
کہاں جذبے اور عقل کی سازگاری کا اس طرح مشاہدہ کیا جاسکتا ہے؟
کہاں فکر کی نہر رواں میں جذبے کا جوش اس طرح دیکھا جاسکتا ہے؟
عاشورا فقہ کی نگاہ میں
فقہ احکام کا مجموعہ ہے۔ کہے اور ان کہے پیغامات پر مشتمل ہے۔ کبھی ہدف تک پہنچنے کی بات کرتی ہے اور کبھی بغیر کچھ کہے ہدف کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کرتی ہے۔ عاشورا ایک طوفان ہے جو اٹھا اور اپنے عصر کے بحر کو درہم برہم کیا لیکن جو چیز اس طوفان کی صداؤں کو معاشروں کے کان میں آہستگی سے بیان کرتی ہے وہ فقہ ہی ہے۔
فقہ عاشورا کی طرف ہماری نگاہوں کو ابدیت بخشتی ہے اور ہمارے دل کے سوز و گداز کو دائمی بقاء عطا کرتی ہے۔ فقہ عاشورا اس عظیم واقعے کے بہت سے زاویوں کو واضح کردیتی ہے۔ خاندانی تعلقات، ایثار کا عروج، اپنے اندر خدا کی راہ میں فنا ہونے کے لمحات اور رمز و راز بھری نگاہیں۔
آج فقہ دنیا کی طرف ہماری نگاہ کا دریچہ ہے۔ اگر فقہ نہ ہوتی تو عاشورا جذبات کو ابھارتی اور مشتعل کرتی اور افکار کو بھی سیراب کرتی مگر کیا پائیدار بھی رہتی؟ اور کیا تاریخ کی پر نشیب و فراز شاہراہ پر جذبات کی گہرائی اور فکر کے اعماق کو بھی فتح کرسکتی؟
مختصر یہ کہ فقہ نے عاشورا کے نور کی تابش کو تاریخ کی وسعتوں تک پہنچایا اور عاشورائی فقہ وہ سانچہ ہے جو عاشورا کے سلسلے میں ہمارے تصورات کو تاریخ کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔
اور آج،
آج بھی عاشورائی فقہ اس عظیم کارنامے کے دور تر آفاق کو ہمارے سامنے روشن اور واضح کرتی ہے۔ عاشورائیوں نے بہرصورت فقہ عاشورا سے اسباق اور دروس سیکھ لئے ہیں۔
اس کے باوجود بہت سے لوگ عاشورا کی فقہ سے نا آشنا ہیں۔ کیونکہ فقہ زمانے کے ساتھ بالیدگی اور شگفتگی پاتی ہے اور عاشورائی فقہ ہماری آج کی ضروریات کو عاشورا کے دل سے برآمد کرکے پوری کرتی ہے۔
جو کچھ یہاں پیش خدمت ہے عمومی تصورات سے مطابقت رکھتا ہے ورنہ اس کا تخصصی اور ماہرانہ مباحث سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ فقہ عاشورا کی بحث ایک بڑی بحث ہے جس کے لئے زيادہ تحقیق کی ضرورت ہے اور یقیناً ان نظریات پر بحث بہت زیادہ مفید اور کار آمد ہوگی۔
1۔ زيارات حسینی
امام حسین(ع) کے نام پر بہت سی زیارتیں وارد ہوئی ہیں۔ یہ زیارات خاص وقت کے لئے ہیں اور ان کے تنوع نے خالص عرفانی فرصتوں اور مواقع کو ان افکار کی توسیع کے لئے مقرر کیا ہے جو دینداری اور حق طلبی کا محور ہیں۔
شب ہائے قدر سے ـ جو کہ عالم وجود کے لئے عرفان الہی تک پہنچنے کے بے مثل مواقع ہیں ـ سے لے کر کمترین زمانی اور وقتی بہانوں تک، کو سردار کربلا کی زیارتوں سے مزین کیا گیا ہے۔ دین ہر طرف اور ہر روش سے ایسے لمحوں کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ زمان کی اتہاہ سے دینداروں کی روح میں رسوخ کرے اور ان کے خون میں حسینی افکار کو جاری و ساری کرے۔
یہاں ہم جو فہرست پیش کررہے ہیں یہ ان مواقع اور اوقات کی فہرست ہے جن میں سے ہر ایک نے ایک خاص زیارت کو اپنے لئے مختصر کر رکھا ہے۔ ان کی تفصیل کو آپ مفاتیح الجنان یا دعاؤں کی دوسری کتابوں میں پاسکتے ہیں:
۔ یکم رجب۔
۔ پندرہ رجب۔
۔ پندرہ شعبان۔
۔ یکم رمضان۔
۔ تئیس رمضان کی شب (ليلۃ القدر)
۔ عید سعید فطر۔
۔ عید سعید ضحی۔
۔ عرفہ کی شب۔
۔ روز عرفہ۔
۔ روز عاشورا۔
۔ روز اربعين۔
اور یہ زیارت ان متعدد اور متنوع زیارت کے علاوہ ہیں جو حرم حسینی(ع) کے زائر کے لئے وارد ہوئی ہیں۔
2۔ قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت
جب تاریخ کے پروں پر بیٹھ کر گذرِ زمانہ کا نظارہ دیکھو تم تمہیں دو واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں بہت سے پیوند اور شباہتیں پائی جاتی ہیں۔ جن کا جائزہ لینے کے لئے مستقل تحقیق کی ضرورت ہے؛ ان دو واقعات کا تعلق کعبہ اور فرزندان کربلا سے ہے۔ ان دو واقعات کو غائرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو گویا دونوں کا منصوبہ ایک ہے ہے۔ دونوں فکر کو احساس کی زبان سے تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔
مسجد الحرام کا احاطہ بہت سی علامتی جلوہ گاہوں اور بہت سے یادوں سے بھرا ہوا ہے۔ مروہ اور صفا سے صبر و استقامت کا ایک روحانی منظر انسان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتا ہے۔ زمزم اپنی بات کرتا ہے اور حجرالاسود کا اپنا پیغام ہے۔
حرم حسینی کا گوشہ گوشہ بھی زائرین کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، خیام کا مقام، تل زینبیہ سے خیام تک کا فاصلہ، علقمہ، قتلگاہ وغیرہ سب کے سب استقامت اور مظلومیت کے مناظر کی تصویر کشی کرتے ہیں۔
کعبہ اور کربلا اور ابراہیم(ع) اور حسین(ع) کے واقعات کی وسعت اور بقاء کو دونوں واقعات کے علامتی مناسک اور اعمال میں ڈھونڈنا پڑے گا۔ حج کے اعمال ابراہیم کے توحیدی ماجرا کو اپنے خاص ڈھنگ سے از سر نو تخلیق کرتے ہیں اور حرم حسینی کے مناسک و اعمال بھی اپنی حسینی خصوصیات و پیغامات کو اپنے زائرین کے لئے مکرر در مکرر تخلیق کرتے ہیں۔
ائمہ معصومین(ع) اپنے وصایا اور نصائح میں امام حسین(ع) کی زیارت پر کم مثل اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثل اصرار کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض کو تو وجوب تک کا شبہہ ہوا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ امام حسین(ع) کی زیارت سال میں ایک مرتبہ واجب ہے۔ بعض احادیث میں اس زیارت کو ایک ہزار قبول حجوں اور ایک ہزار قبول عمروں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ (1) یہاں ہم حرم حسینی کے بعض مناسک و اعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛ جن میں سے بعض زیارت بیت اللہ کے مناسک سے شباہت رکھتے ہیں۔
1۔ مرقد حسینی کی طرف پائے پیادہ سفر کرنا
مکہ کی طرف پیدل چلنا فقہ حج کی عظیم تعلیمات میں سے ہے۔ مناسک حسینی میں بھی کربلا کے مرقد انور کی طرف زائرین کے پائے پیادہ سفر کا تذکرہ ہے (2) کیونکہ خداوند متعال نے چاہا ہے کہ یہ دونوں شہر (مکہ اور کربلا) مؤمنین کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ فرماتا رہے۔ (3) قلبوں کا پرندہ کانٹوں اور راستے کی تھکاوٹ کو جان کی قیمت ادا کرکے خریدتا ہے۔
2۔ سرمہ نہ لگانا۔
3۔ فرات کی طرف تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) کے ذکر کے ساتھ اور غسل اور وضو کرنا۔
4۔ پاکیزہ لباس زیب تن کرنا۔
5۔ جدال اور نزاع سے اجتناب کرنا۔
6۔ قسم نہ اٹھانا۔
7۔ حرم کی طرف ننگے پاؤں چلنا۔
8۔ انکسار اور تواضع کے اور شکستہ دل کے ساتھ راہ چلنا۔
9۔ کم بولنا۔
10۔ حرم کے زائرین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا۔
11۔ لبوں پر ذکر درود و صلوات کا ہونا۔
12۔ حرم کے مشرقی دروازے سے داخل ہونا۔
13۔ عاشورا کے دن سقائی کرنا اور لوگوں کو پانی پلانا۔
14۔ سادہ سی غذا تناول کرنا۔
15۔ احادیث میں وارد ہونے والے سلام، زیارتیں اور نمازیں پڑھنا۔
کربلا کے لئے وارد ہونے والی زیارات انقلابی اور عرفانی افکار اور مفاہیم سے بار ور ہیں۔ ائمہ(ع) نے زائرین کو ہدایت کی ہے کہ امام کی معرفت کاملہ کے ساتھ زيارت پڑھیں تا کہ احساسات اور افکار ساتھ ساتھ بالیدگی کی منزل طے کریں۔
16۔ حاجتیں مانگنا۔
17۔ مظلوم کا ظالم پر نفرین کرنا جس کے سلسلے میں ایک دعائے مخصوصہ بھی وارد ہوئی ہے۔ (4)
3۔ تربت حسینی
پتھر اور مٹی کی اپنی حیثیت مقدس نہيں ہے۔ مگر عنایت الہی کی کیمیا خاک و سنگ کو ایک اعلی تشخص تک پہنچا دیتی ہے اور انہیں اعلی ترین شعائر الہی میں جگہ دیتی ہے۔ حجر الاسود ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے جس کی روحانی و معنوی عظمت نے عالم اور آدم کو اپنا شیدائی بنا لیا ہے۔ تربتی حسینی نے بھی تاریخ کو اپنے نظارے پر بٹھا دیا ہے۔ وہ پتھر لبوں کا بوسہ لینے کے لئے بلاتا ہے اور یہ مٹی جبینوں کو سجدے کے لئے۔ (5) شیعہ نماز کے سجدے میں تربت حسینی پر جبین رکھ کر اپنا دل ایسے مرد کے خالق کے سپرد کرتا ہے جس نے ایک توحیدی حماسہ اور کارنامہ سرانجام دیا۔ ہاں! اللہ کا راستہ حسین(ع) کے محلے سے گذرتا ہے اور عرفان الہی مدرسۂ حسین(ع) سے درس لے کر حاصل ہوتا ہے۔
تربت حسینی کے ـ سجدے کے علاوہ ـ دوسرے احکام بھی ہیں؛ منجملہ:
1۔ اولاد کی پیدائش کے بعد تربت حسینی کی تھوڑی سی مقدار بچے کے منہ میں رکھنا۔ (6)
2۔ مریض، شفاء کے لئے تھوڑی سی مقدار تناول کرے۔ (7) چنانچہ رسول اللہ(ص) نے اس کو خاک شفاء قرار دیا ہے۔ (8)
3۔ تربت کی بنی ہوئی تسبیح کے ساتھ ذکر کرنا۔ (9)
4۔ اس سے برکت حاصل کرنا (تبرک جوئی) (10)
5۔ اس کی تھوڑی سی مقدار قبر میں میت کے ساتھ رکھنا۔ (11)
٭٭٭٭٭
4۔ گریہ و بکاء
محبت حسینی کے آسمان نے سے گریہ و بکاء کی بارش شیعہ کے دشت پر ہی برستی ہے اور اس کی تعلیمات کی ہری بھری کھیتی کو ہر دم نئی حیات و طراوت عطا کرتی ہے۔
کربلا کے واقعات کا استماع اگرچہ بے اختیار اشکوں کو آنکھوں سے جاری کرتا ہے لیکن جس چیز نے گریہ کے تفکر کو تاریخ میں جاری و ساری رکھا ہے وہ فقہ عاشورا ہے۔
ائمۂ آل البیت علیہم السلام نے حسین(ع) پر گریہ و بکاء کو فقہی منزلت عطا کی ہے اور اس کو مستحبات مؤکدہ میں شمار کیا ہے۔ دلدوز اور سانس روکنے والے مصائب بھی عاشورا کے سامنے اپنا رنگ کھو دیتے ہیں اور وادی نسیان میں دفن ہوجاتے ہیں۔
عاشورا کا سایہ بان تمام غموں کی وسعتوں کے برابر ہے۔ جو بھی غم انسان پر وارد ہوتا ہے در حقیقت عاشورا کے مصائب کو دہرانے کے لئے ایک نئی دستاویز فراہم کرتا ہے۔ ائمہ طاہرین(ع) ہر غم و ماتم میں غم حسین(ع) کو یاد کرتے تھے اور ہر مصیبت کو حسین(ع) پر گریہ و بکاء کا لباس پہناتے تھے۔
امام رضا(ع) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اگر کسی چیزپر رونا چاہتے ہو تو حسین(ع) پر گریہ کرو۔ (12) نیز فرمایا: "فعلى مثل الحسين(ع) فليبك الباكون" (13) پس حسین(ع) جیسوں پر رونے والوں کو رونا چاہئے۔
5۔ نماز
دین ہر موضوع کو نماز کا موضوع آگے بڑھانے اور نماز کو خدا کے تقرب کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
حسین(ع) نماز کے بطن سے اٹھے اور ہم مسلمانوں کی نماز حسین(ع) کی تحریک کے بطن سے اٹھی ہے۔ (14) محرم اور کربلا وہ زمان و مکان ہیں جن کے چہرے پر حسین(ع) کا دلنشین رنگ دکھائی دیتا ہے۔ دین نے ان دو میں نماز کا بیج بویا ہے۔ اس داستان کی شرح کے لئے طویل مدت کی ضرورت ہے۔ یہاں صرف اس کی طرف ایک ہی زاويئے سے نظر ڈالتے ہیں:
1۔ واجب نمازوں کے بارے میں
الف۔ حرم امام حسین(ع) میں نماز واجب کا مرتبہ بہت بلند اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ روایت میں اس کا ثواب حج کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ (15)
ب۔ مسافر کو اختیار ہے کہ حرم حسینی میں نماز پوری ادا کرے یا پھر نماز قصر کرے (یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز عشاء کو چار رکعت کے بجائے دو رکعت کرکے پڑھے)۔ (16)
2۔ نوافل نمازوں کے بارے میں
الف۔ مستحب نمازیں یا نوافل کا اجر و ثواب حرم حسینی میں زیادہ ہی اجر و اعتبار کا سبب ہیں۔ روایت میں حرم حسینی میں نافلہ عمرہ کے برابر قرار دی گئی ہے۔ (17)
ب۔ محرم اور کربلا کے سلسلے میں خاص مستحب نمازیں بھی وارد ہوئی ہیں:
1۔ شب عاشورا کی نمازیں:
یکم۔ سو رکعتی نماز۔
دوئم: آخر شب چار رکعتی نماز۔
سوئم۔ ایک چار رکعتی نماز اور۔
2۔ روز عاشورا کی چار رکعتی نماز۔
3۔ حرم امام حسین(ع) کی نمازیں۔
اس سلسلے میں بکثرت نمازیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر صرف دو نمازوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
یکم۔ بالائے سر مقدس دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے۔
دوئم۔ ایک چار رکعتی نماز جو حاجت برآری کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ (18)
6۔ مقتل خوانی:
مقتل خوانی اور عاشورا کے واقعات کا ذکر روز عاشورا کے آداب اور مستحبات میں سے ہے۔ جان لینا چاہئے کہ مقتل کو اسی طرح پڑھنا چاہئے جس طرح کہ یہ ہے۔ کیونکہ زيادت گوئی اور واقعہ سازی انسان کے خطاکار ہاتھ کو معصوم علیہ السلام کے شفاف فعل میں داخل کردیتی ہے اور تشنہ دلوں اور ذہنوں کو عاشورا کے خالص مفاہیم سے محروم کرکے انہیں ایسا گدلا پانی نوش کروا دیتی ہے جس میں عاشورائی تہذیب کے شفاف چشمے کا پانی بھی ملا ہوتا ہے۔ وہ جو سوز دل یا دلوں کو جلانے کے بہانے لوگوں کو جعلی واقعات کے میدان میں اتار دیتے ہیں، انہیں اپنے عمل اور اپنے محرکات پر نظر ثانی کرلینی چاہئے۔ کیا وہ اپنے جعل کردہ واقعات کو ان واقعات سے زيادہ مفید اور مؤثر و کارآمد سمجھتے ہیں جو امام معصوم(ع) نے تخلیق کئے ہیں؟! عاشورا کے واقعات بیان کرنے میں کام چوری کی برائی، زيادہ گوئی کی برائی سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ ہمیں عاشورا کی تاریخ کے بعض قطعات کو چھوڑ کر بعض قطعات پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ بعض اوقات اس بےمثل تحریک کے بعض مسائل کو نظر انداز کرکے ہم نہ صرف اس کے عظیم اہداف کو برباد کر دیتے ہیں بلکہ ان کے بجائے ناقص اور نادرست اہداف کو اس تحریک کے لئے متعین کر دیتے ہیں۔ مقتل خوانی عاشورا کے واقعات کو ایک بار دیکھنے اور پڑھنے اور سننے اور سنانے کا نام ہے جس طرح کہ وہ عاشورا کے دن رونما ہوئے ہیں۔
7۔ اشعار پڑھنا
شیعہ شاعری حماسی خوشبو پھیلاتی ہے، اس سے شہیدوں کے خون کی بو آتی ہے اور سننے والے کی روح کو جوش دلاتی ہے۔
شیعہ شاعری کے پس منظر کو کرید ڈالو ت چلتے چلتے عاشورا تک پہنچوگے۔ شیعہ کا غم عاشورا کو پھٹ پڑتا ہے اور اشک و خون مصرع بہ مصرع تاریخ کے صفحات پر ٹپکتا ہے۔ عاشورائی شاعری شعار، جوش و جذبے اور ظلم کے خلاف قیام پر استوار ہے، اور شیعہ فکر و احساس کا سنگم ہے۔ عاشورا کی شاعری جانبازی اور جانگدازی کے عینی تجسم کا اظہار ہے۔ عاشورائی قلم اور زبانیں وقت کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔
یہ قلم اور یہ قلم کار اور وہ شعر خواں عاشورا کو ماضی میں نہیں دیکھتے، وہ ہر دن کو عاشورا میں پاتے ہیں اور عاشورا کو ہر دن میں۔ عاشورا کی شاعری شیعہ کو انتقام کے لئے مورچہ بند کرتی ہے۔ ائمۂ آل رسول(ص) عاشورا کے لئے شعر کہنے کو بہت عظیم سمجھتے ہیں اور اس کی قدردانی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ائمۂ آل نبی(ص) کے مہربان ہاتھوں نے اپنے مکتب میں بہت سے عاشورائی شاعروں کو پروان چرھایا ہے۔
ائمہ(ع) نے شعر سرائی کو فقہی منزلت عطا کیا اور اس کو استحباب کا لباس پہنایا۔ (19) عاشورائی شاعری سوز کے ساتھ ہونی چاہئے اور اس کو سوز کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔
امام جعفر صادق(ع) نے شاعر ابو ہارون سے فرمایا: حسین(ع) کے بارے میں کچھ اشعار پڑھو۔ انھوں نے اشعار پڑھ لیئے تو امام(ع) نے فرمایا: اشعار اس طرح سے پڑھو جس طرح کے اپنے اجتماعات میں پڑھتے ہو۔ ابو ہارون نے اس بار ایک قصیدہ سوز و گداز کے ساتھ پڑھا؛ امام( ع) بلند آواز سے روئے اور پردہ نشینوں کے رونے کی آواز بھی سنائی دی۔ (20)
8۔ دنیاوی امور کا اہتمام نہ کرنا
یوم عاشور کو قلب و ذہن حسینی واقعے سے دور کرکے کسی اور چيز کی طرف متوجہ نہیں کرنا چاہئے۔ دنیاوی امور کا اہتمام اس توجہ کو کم کردیتا ہے اور تحریک حسینی کو فراموشی سے دوچـار کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیاوی امور اور معاملات کو ترک کرنا، روز عاشور کے آداب کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ (21)
9۔ مجالس ماتم کی برپائی
سوگواری کی مجالس کا اہتمام و انعقاد ـ بطور خاص عاشورا کے دن ـ فقہ عاشورا کا ایک نمایاں اقتباس ہے۔ ائمۂ آل رسول(ص) نے اس موضوع کی طرف خاص توجہ مبذول فرمائی ہے۔ کبھی وہ خود مردوں اور خواتین کی شاندار مجالس عزاء بپا کرتے تھے اور امام حسین(ع) کے لئے بوفور آنسو بہاتے تھے۔ (22)
ایک دن امام صادق(ع) نے مجلس عزاء کا اہتمام کیا تھا، ایک شیرخوار بچہ مجلس میں لایا گیا اور امام(ع) کی گود میں دیا گیا۔ امام(ع) نے یہ حالت دیکھی تو آپ(ع) کی بکاء شدیدتر ہوگئی اور مجلس زيادہ پر ولولہ اور پرجوش ہوئی۔ (23)
10۔ تعزیت کہنا
مستحب ہے کہ عاشورا کے دن مؤمنین ایک دوسرے کو تعزیت کہیں اور یہ جملہ زبان پر لائیں:
"أعظَمَ اللهُ اجورَنا بمُصابِنا بِالحُسَینِ، وَ جَعَلَنا و ایّاکُم مِنَ الطّالِبینَ بِثارِهِ مَع وَلیّهِ الامامِ المَهدیِّ مِن آلِ مُحَمَّدٍ(ع)"۔ (24)
11۔ طعام سے پرہیز (فاقہ کرنا):
امام صادق(ع) نے ابن سنان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
عاشورا کے دن کھانا کھانے سے اجتناب کرو لیکن روزہ مت رکھو۔ (25) مستحب ہے کہ عاشورا کی شام کو توڑ دیا جائے۔ (26) اور اس کے بعد سادہ غذا تناول کی جائے۔ (27)
12۔ پاکیزہ لباس پہننا:
روز عاشورا کے آداب میں سے ایک پاکیزہ لباس زیب تن کرنا ہے۔ (28)
13۔ قاتلوں پر لعن کرنا:
عاشورا کے آداب میں سے ایک امام حسین(ع) کے قاتلین پر لعن کرنا ہے۔ اس روز یہ جملہ ایک ہزار بار پڑھنا مستحب ہے:
"اللهم العن قتلة الحسین علیه السلام"۔ (29)
14۔ ہنسی خوشی ترک کرنا:
ہنسی اور خوشی ترک کرنا، روز عاشورا کے آداب میں گردانا گیا ہے۔ (30)
15۔ لہو و لعب ترک کرنا:
لہور و لعب ایک ناپسندید امر ہے اور عاشورا کے دن یہ زیادہ ہی ناپسندیہ ہے۔ لہو و لعب کو ترک کرنا روز عاشورا کے آداب میں شمار کیا گیا ہے۔ (31)
16۔ قمہ زنی:
تحریک حسینی شفاف اور تابناک ہے۔ ہر شخص اور ہر مذہب کا پیروکار اس کے متبرک قطروں کو نوش کرسکتا ہے۔ چنانچہ مناسب ہے کہ عزاداران حسین(ع) ابہام آمیز اور متشددانہ اعمال سے پرہیز کریں کیونکہ دنیا والے ان اعمال کو ہضم کرنے سے قاصر ہیں اور پھر یہ اعمال تشیع کو ہی مبہم بنا دیتے ہیں حالانکہ عزاداری کا مقصد ہی امام حسین(ع) کے انقلاب کی پیغام رسانی ہے اور ان اعمال سے یہ پیغام ہی دہندلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور حتی بات بات پر گلے کاٹنے والے بھی تشیع پر توحش کا الزام لگاتے ہیں۔
قمہ زنی اور چھریوں والی زنجیر تحریک عاشورا کو نقصان پہنچاتی ہے اور عاشورا کا نادرست چہرہ دنیا والوں کے ذہنوں میں مجسم کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ قمہ زنوں اور زنجیر زنوں کی نیت بالکل خالص اور پاک ہے لیکن اس عمل کے اثرات وہ نہیں ہیں جن کی وہ توقع رکھتے ہیں۔
شیعہ نماز و روزہ و حج و زکواۃ و خمس و امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ جیسے اعمال پر بھی مامور ہیں اور اصول دین یعنی توحید و عدل و نبوت و امامت و معاد کے بھی معتقد ہیں لیکن جب بھی ہم انٹرنیٹ پر شیعہ کا نام سرچ کرتے ہیں یا شیعہ عبادات یا (shia ceremony or ceremonies) کو سرچ کرتے ہيں تو ہمیں اپنے عزاداروں کي خون آلود تصویریں ہی ملتی ہیں یا ان والدین اور ماؤں کو دکھایا جاتا ہے جو اپنے بچوں کے سروں پر قمہ پھیر رہے ہوتے ہیں اور ہمارے وہ تمام اعمال و عبادات اور اعتقادات ہرگز نہیں دکھائے جاتے جو ایک سازش کی علامت بھی ہے اور ایک لمحہ فکریہ بھی! کہ کیا ہم یہی ہیں؟ یا پھر "کیا ہم صرف یہی ہیں؟" بہر صورت ہمیں انٹرنیٹ پر "صرف یہی" دکھایا جاتا ہے تا کہ ہمارا پیغام کسی تک نہ پہنچ سکے۔
بہر صورت قمہ زنی اور زنجیر زنی کے لئے صرف خالص نیت ہی کافی نہيں ہے اس کے آثار و نتائج بھی مد نظر ہونے چاہئے۔ دور حاضر میں اسلام اور تشیع کے مجدد اور احیا کنندہ حضرت امام خمینی ـ رحمۃاللہ علیہ ـ فرماتے ہیں: موجودہ زمانے میں قمہ زنی مت کیا کرو" نیز رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای ـ دام ظلہ العالی ـ نے عالمی صورت حال اور شیعہ مخالف تشہیری مہم کے تناظر میں مؤمنین کو قمہ زنی اور چھریوں والی زنجیر کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔
17۔ شبیہ سازی:
امام خمينى ـ رحمۃ اللہ علیہ ـ نے فرمایا:
"شبیہ سازی اگر حرام افعال پر مشتمل نہ ہو اور مذہب کو نقصان نہ پہنچاتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"۔
امام خمینی ـ رحمۃ اللہ علیہ ـ نے فرمایا:
"یہاں ہیں عزاداری اور امام حسین بن علی علیہ السلام کے نام پر منعقدہ مجالس کے بارے میں بھی ایک نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں: ہم اور اور دینداروں سے کوئی بھی، یہ نہیں کہتے کہ اس نام مقدس سے جو کچھ بھی انجام پاتا ہے وہ درست اور اچھا ہے۔ بہت سے علماء اور بزرگ اہل دانش نے ان میں بہت سے اعمال کو ناجائز قرار دیا ہے اور اپنی حد تک ان سے مؤمنین کو منع کیا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں آج سے 20 25 سال قبل عالم بزرگوار شیخ عبدالکریم حائزی مرحوم نے قم میں شبیہ خوانی کو منع کیا اور ایک بہت بڑی مجلس کو مصائب خوانی کی مجلس میں بدل دیا۔ (32)
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ـ مد ظلہ العالی ـ نے فرمایا:
اگر شبیہ خوانی کے مراسمات جھوٹ اور باطل امور پر مشتمل نہ ہو اور اس سے کوئی برائی لازم نہ آتی ہو اور عصری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر مذہب حق کی توہین کا سبب نہ بنتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہيں ہے لیکن اس کے باوجود بہتر یہی ے کہ ان کے بجائے وعظ و ارشاد اور ذکر مصائب اور مرثیہ خوانی کو بپا کیا جائے۔ (33)
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی فرماتے ہیں:
شبیہ خوانی اگر شرعی احکام سے متصادم اعمال پر مشتمل نہ ہو اور مقدسات کی توہین کا سبب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (34)
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی ـ رحمہ اللہ ـ فرماتے ہیں:
تعزیہ اور شبیہ خوانی اگر حرام امور پر مشتمل نہ ہو اور معصومین علیہم السلام کی توہین کا سبب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہيں ہے۔ (35)
پس: فقہاء اور دینی مراجع کے فتاوی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب تعزیہ اور شبیہ خوانی کے سلسلے میں چند نکتوں پر تاکید کررہے ہیں:
1۔ شرع مبین اور احکام دین کے خلاف نہ ہو؛
2۔ مذہب حقہ کی توہین اور بےحرمتی کا سبب نہ ہو؛
3۔ عاشورائی تہذیب و تعلیمات میں تحریف یا انہیں نظر انداز ہونے کا سبب نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔ سفينة البحار، ج 2، ص 564 ۔
2۔ جس روایت نے اس عمل کو مستحب کردیا ہے وہ امام صادق (ع) سے منقول ہے۔ (مفاتيح، ص 754)۔
3۔ امام صادق(ع) نے بارگاہ ربانی میں التجا کی: "يا من ۔۔۔ جعل افئدة الناس تهوي الينا اغفر لي و لاخواني وزوار قبر ابي الحسين بن علي صلوات الله عليهما۔۔۔(سفينه، ج 2، ص 564)
4۔ بہتر ہے کہ زیادہ تفصیلات کے لئے مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار، اقبال الاعمال سید بن طاؤس وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
5۔ سفينۃ البحار، ج 1، ص 121۔
6۔ وسائل الشيعه۔
7۔ سفينه، ج 1، ص 121۔ (امام كاظم(ع) فرمود: «ان الله عزوجل جعلها شفاء لشيعتنا و اوليائنا»
8۔ مستدرک الوسائل، ج 10، ص ۔335۔
9۔ وہی مأخذ۔
10۔ وہی مأخذ۔
11۔ وہی مأخذ۔
12۔ بحار، ج، 44، ص 283۔
13۔ وسائل، ج 14، ص 504۔
14۔ «اشهد انك قد اقمت الصلاه »
15۔ مفاتيح، ص 760۔
16۔ رساله ہائے عمليه۔
17۔ مفاتيح، ص 760۔
18۔ مفاتيح۔
19۔ وسائل الشيعه، ج 14، ص 593۔
20۔ وہی مأخذ۔
21۔ سفينه البحار، ج 2، ص 196۔
22۔ بحار، ج 45، ص 257; الغدير، ج 2، ص 192۔
23۔ ماساه الحسين، الخطيب الكاشى، ص 151، چاپ منشورات رضى۔
24۔ مفاتيح، ص 524 و 830۔
25۔ بحار، ج 45، ص 257۔
26۔ سفينه البحار، ج 2، ص 196۔
27۔ مفاتيح، ص 525۔
28۔ وہی مأخذ، ص 526۔
28۔ مفاتيح الجنان، ص 527۔
29۔ وہی مأخذ۔
30۔ وہی مأخذ۔
31۔ وہی ماخذ۔
32 ۔ قیام عاشورا در کلام و پیام امام خمینی، ص 92۔
33 ۔اجوبه الاستفتاآت، تهران، الهدی، 1381، ص 322۔
34۔ استفتاآت جدید، آیت الله مکارم شیرازی، 1381، ج 1، ص 158، ش 573۔
35۔ استفتاآت جدید، آیت الله میرزا جواد تبریزی، انتشارات سرور، 1378، چاپ اول، ص 458، ش 2019۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
آداب معاشرت رسول اکرم

 
user comment