اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام حسین (ع) کا استغاثہ پانی مانگنے کے لئے نہیں لبیک یا حسین سننے کے لئے تھا

مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین جعفری: امام حسین (ع) کو پانی کی پیاس نہیں تھی، حسین (ع) کو اس کی پیاس تھی کہ کوئی لبیک یا حسین (ع) کہے ۔

امام حسین (ع) کا استغاثہ پانی مانگنے کے لئے نہیں لبیک یا حسین سننے کے لئے تھا

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق سرگودھا میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام لبیک یا حسین (ع) کانفرنس منعقد ہوئی جس سے مجلس وحدت مسلمین کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین جعفری کے خطاب کیا.

خطاب کا پورا متن:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ارباب مجلس چھٹے امام کے ارشاد کو جو معروف ہے اور علماء اسے اکثر اپنی گفتگو کا سرنامہ کلام قرار دیتے ہیں؛ اسے عنوان سخن قرار دیا ہے۔
معصوم ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص اپنے زمانے کی معرفت حاصل کرلے وہ اتنا با بصیرت ہو جاتا ہے کہ پھر فتنوں کا گرد و غبار اور فتنوں کی تاریکیاں اسے اشتباہ اور غلطی کا شکار نہیں کر سکتیں؛ پھر فتنہ اسے راہ راست سے نہیں ہٹا سکتا؛ پھر یہ فتنے اس پر ہجوم نہیں لے کر آتے؛ یہ فتنوں کی تاریکیاں اس پر حملہ ور نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ عارف زمان بن گیا ہے۔
مولا امیرالمؤمنین علی(ع) فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے زمانے کی معرفت حاصل کر لی وہ سکیور ہوگیا اس نے امن کو پا لیا وہ محفوظ ہو گیا۔ اگر کوئی محفوظ ہونا چاہتا ہے، اگر کوئی امن پانا چاہتا ہے، اگر کوئی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اگر کوئی ظالموں کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اگر کوئی مظلوموں کی نصرت کرنا چاہتا ہے، اگر حق کا ساتھ دینا چاہتا ہے، اگر کوئی سچ کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانے کو سمجھے؛ اپنے زمانے کی معرفت حاصل کرے۔ جو اپنے زمانے کو نہ سمجھ سکا تو وہ وقت سے بہت پیچھے رہ جائے گا وقت بہت آگے نکل جائے گا یہ بہت پیچھے رہ جائے گا، یہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، پیشرفت نہیں کر سکتا۔ یہ کبھی عزت کی زندگی نہیں گزار سکتا اگر اپنے زمانے کو نہ پہچانا اور پیچھے رہ گیا وقت سے تو۔
وقت آتا ہے گزر جاتا ہے وہ لوگ کامیاب ہوتے جو وقت سے پیچھے نہیں رہتے، وقت کے ساتھ بھی نہیں ہوتے بلکہ وقت سے آگے ہوتے ہیں۔
ہم وہ ہیں جن کا امام، امام زمان (عج) ہے۔ وہ زمانے سے پیچھے نہیں ہے وہ زمانے سے آگے ہوتا ہے۔ امام زمان (ع) کو ماننے والی امت اور ملت بھی وقت سے آگے ہونی چاہیے وہ وقت سے پیچھے نہیں ہونی چاہیے چونکہ اس نے ملتوں کی امامت کرنی ہے اس نے ملت کی رہبری کرنی ہے اس نے ملتوں کو نجات دینی ہے۔ اس نے فتنوں کی تاریکیوں میں بصیرت کا نور بکھیرنا ہے اس لیے اسے بیدار ہونا ہو گا، وقت سے آگے ہونا ہو گا وقت سے پیچھے نہیں ہونا ہو گا۔
تو دوستوں کہا یہ جاتا ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جو ہر حوالے سے امام ہوتا ہے، اس کے عقائد عقائد کے امام، اس کی خدا کی معرفت، خدا کی معرفتوں کی امام، وہ معرفت کی وادی میں بھی امام۔ اس کے افکار و نظریات بھی تمام افکار و نظریات کے امام ہوتے ہیں، اس کی صفات، صفات کی امام، اس کی شجاعت شجاعتوں کی امام، اس کا صبر، صبروں کا امام، اس کا علم علموں کا امام اور اس کی سیرت کرداروں کی امام ہوا کرتی ہے اور جب امام ایسا ہو تو اس کے ماننے والی ملت اور امت بھی ایسی ہونی چاہیے، وہ دوسری تمام ملتوں سے آگے ہونی چاہیے، صبر میں آگے، علم میں آگے، حلم میں آگے، شجاعت میں آگے، ایثار و فداکاری میں آگے اور حق کے ساتھ وفاﺅں میں آگے۔ ( لبیک یا حسین (ع) نعرہ)۔
تو دوستو! اس سرزمین پر بصیرت کے چراغ جلانے والا، بصیرت کا نور بکھیرنے والا، بصیر ت کے دیئے جلانا والا شہید عارف حسین الحسینی (رح) تھا، وہ عارف حسین تھا، وہ امام حسین (ع) کا سچا بیٹا تھا جو اپنے جد علی (ع) کی طرح محراب عبادت سے اپنے لہو میں ڈوب کر اپنے جد حسین (ع) کی بارگاہ میں گیا۔ ہمارے دشمن نے یہ سمجھا تھا کہ اسے مار دینے سے یہ چراغ بصیرت بجھ جائے گا، امید نا امیدی میں بدل جائے گی، ہمتیں جواب دے جائیں گی۔ قوم بکھر جائے گی اور یہ ملت یتیموں کی طرح سرگرداں رہے گی پھر اس کے پیکر پر جو وار کیا جائے گا جیسے میت کے بدن پر وار کیا جائے اسے کاٹا جائے تو اسے احساس نہیں ہوتا یہ بے حس ہو جائے گی، اس لیے اسے مارا گیا تھا، وہ پاکستان کی سرزمین پر اس زمانے کے حسین (ع) کا مالک اشتر تھا، وہ عام شخصیت نہیں تھا، میں نے پہلے کہا کہ وہ عارف حسین تھا، وہ نجف سے کربلا 80 کلو میٹر کا راستہ ہے، شب جمعہ کو پیدل نجف سے کربلا جاتا تھا اور عام راستوں سے نہیں، بیابانوں اور جنگلوں سے گزر کر جاتا تھا، غیر معروف راستوں سے جاتا تھا، اپنے جد، اپنے آقا اور مولا حسین (ع) کے حرم کی زیارت کو۔
دوستو! دشمنوں نے اسے ہم سے چھینا یعنی ہم سے ملت کے پیکر سے روح کو نکالنے کی کوشش کی۔ دشمن منظم ہے، دشمن بیدار ہے، دشمن آگاہ ہے، وہ اس سے پہلے کہ ہم اپنے اصلی افراد کو پہچانیں وہ پہلے پہچان لیتا ہے اور انہیں ہم سے چھین لیتا ہے۔ پوری طاقت سے۔
نعرہ: زندہ ہے حسینی (رح)، زندہ ہے حسینی (رح)۔
42 سال چند مہینوں کی عمر میں شہید ہو گیا وہ۔ 4 سال اور چند مہینے رہبری کی اس نے۔ اس زمانے میں امکانات اور وسائل نہیں تھے۔ آپ پاکستان کے جس شہر میں جائیں گے، جس علاقے میں جائیں گے اس کے نقشہ پا آپ کو ملیں گے، وہاں پتہ چلے گا کہ گوہر گیا ہے وہ۔ یہاں آیا تھا وہ۔ وہ مسیحا آیا تھا یہاں۔ وہ فرزند سیدۃ‍‍ الزہرا سلام اللہ علیہا آیا تھا یہاں۔ وہ ہمیں بیدار کرنے آیا تھا۔ وہ ہمیں شجاعت کا رزق دینے آیا تھا۔ وہ ہمیں رزق شعور دینے آیا تھا۔ وہ آیا تھا کہ ہم جاگ جائیں۔ ہم بیدار ہو جائیں، اس سے پہلے کہ یزیدی پھر وار کر دیں لیکن دوستو ! ہوا کیا، اڑھائی سال تک وہ یہ ثابت کرتا رہا کہ"میں شیعہ ہوں وہابی نہیں ہوں"، عجیب نہیں ہے یہ!؟
اڑھائی سال بعد اس سے پوچھا گیا آپ نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے یہ ثابت کیا ہے، میں یا علی(ع) مدد کا منکر نہیں ہوں، میں شیعہ ہوں، میں عزادار ہوں، میں عاشق حسین (ع) ہوں، میرا مولا (ع) کی ولایت پر ایمان ہے۔
دیکھا دشمن نے اسے اندر ہی میں الجھا کر رکھ دیا تھا، اندر ہی الجھا دیا تھا، پہلی کوشش یہ تھی کہ اسے اندر ہی الجھا کر رکھ دیا جائے اور یہ رکاوٹ عبور نہ کر سکے لیکن جب اس نے یہ رکاوٹ عبور کر لی پھر یزیدوں کی طرح، اس زمانے کے یزیدوں نے اسے ہنگام سحر وقت نماز ہم سے چھین لیا، وہ ہم سے جدا ہو گیا۔
دوستو! لیکن اس کی روح، اس کا راستہ، اس کا مقصد اور آرزوئیں اللہ نے پاکیزہ مؤمنوں کے وجود کی زمین میں اس طرح سے کاشت کی جیسے کوئی کسان زمیندار اپنی زمین میں بیج کاشت کرتا ہے۔ وہ آرزوئیں اللہ نے مؤمنوں کے وجود کی زمین میں بو ڈالیں، وہ ارمان کاشت کر دیئے جو آج پھر پروان چڑھے ہیں۔ آج پھر لہلہاتی فصل کی طرح موجود ہیں یہاں۔ پورے پاکستان میں موجود ہیں اور لبیک یا حسین (ع) کہتے ہوئے پھر میدان میں آگئے ہیں۔
نعرہ: لبیک یا حسین (ع)، لبیک یا حسین (ع)۔
ہم شہید کے راستے کے راہی ہیں، اس کی میراث اور اس کی امانت کے امین ہیں۔ وہ پرچم جو دشمنوں اور یزیدوں نے اس کے ہاتھ سے گرانے کی کوشش کی تھی آج اس کے ماننے والے فرزندوں نے اٹھا لیا ہے اور پھر لبیک یا حسین (ع) کہتے ہوئے عصر کے یزیدوں کے مقابلے میں آگئے ہیں۔
نعرہ: لبیک یا حسین (ع)، لبیک یا حسین (ع)۔
یہ سفر عزت کا سفر ہے، ذلت سے نجات اور رہائی کا سفر ہے، یہ سفر آگاہی اور بصیرت کا سفر ہے، یہ سفر امید کا سفر ہے، یہ سفر کربلا کی طرف سفر ہے۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ پرچم نہیں گرنے دیں گے۔ دنیا کے یزیدی حسرت دل میں لے کر مر جائیں گے کہ یہ غیرت، شرف، آزادی، انسانی کرامت اور حریت کا پرچم جو حسینیوں کو ملا ہے ان کے ہاتھ سے گر جائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت نہیں گرا سکتی۔
یہ زمانہ ! یزیدوں کی شکست کا زمانہ ہے، عالمی استکبار کی شکست کا زمانہ ہے۔ ایران میں حسینیوں نے عالمی استکبار اور یزیدوں کو شکست دے ڈالی ہے، لبنان میں حسینیوں نے اس عصر کی یزیدیت کو شکست دے ڈالی ہے، عراق میں ان کو شکست ہونے والی ہے اور پاکستان کی سرزمین پر حسین (ع) کے ماننے والے اس عصر کے یزیدوں کے سینے میں خنجر گھونپیں گے۔
لہٰذا بیداری کا وقت ہے۔ غفلتوں سے نکلنے کا وقت ہے، دشمنوں کو شکست دینے کا وقت ہے، دشمنوں کو نا امید کرنے کا وقت ہے، انسانی اپنے سروں پر تاج کرامت پہننے کا وقت ہے۔ دشمن کی کوشش ہے ہمیں اندرونی معاملات میں الجھا دے، ہم داخلی جھگڑوں میں الجھ جائیں، نہیں یہ ہم نے نہیں کرنا، ہم شیعہ ہیں سارے، ہم علی ولی اللہ کہنے والے ہیں، ہم بارہ اماموں کے عصمت کے قائل ہیں، قائل ہیں کہ امام منصوص من اللہ ہے، گیارہ امام شہید ہیں، بارہویں پردے غیبت میں ہیں اور ہم سب ان کے منتظر ہیں، درجات معرفت مختلف ہیں، کوئی پہلے درجے کا مومن ہے، کوئی دوسرے کا ہے، کوئی تیسرے کا ہے، کوئی چوتھے کا ہے اور کوئی دسویں کا ہے۔
روایت میں ہے کہ اگر ابو ذر کو پتہ چل جاتا کہ سلمان کے دل میں کیا ہے توسلمان کو قتل کر ڈالتا، سلمان دسیوں درجے ایمان پر، ابو ذر نویں درجے ایمان پر، معرفت کے درجے مختلف ہیں۔ ایک وہ چیز ہے کہ جس کو ایک درجے معرفت پر پہنچا ہوا شخص دو اور دو چار کی طرح سمجھتا اور پہچانتا ہے اور ایک وہ ہے جو اس کو نہیں سمجھتا، البتہ ہم جو شہید کے ساتھی اور پیروکار ہیں، ہم آئمہ کی ولایت تکوینی پر ایمان رکھتے ہیں، قائل ہیں کہ امام واسطہ فیض ہے، خدا سے براہ راست فیض امام لیتا ہے اور پھر ساری کائنات میں اس کی عادلانہ تقسیم کرتا ہے، امام واسطہ فیض ہے، امام حجت خدا ہے، "امام عالمِ ما کانَ و ما یَکُونُ سے باخبر ہے"، وہاں جہالت کا کوئی گزر نہیں، وہ مظہر اسم علی بھی ہے اور وہ مظہر اسم قدیر بھی ہے، خدا کے علم کا کامل ظہور اس کے وجود میں ہے،خدا کی قدرت کا کامل ظہور اس کے پنجہ قدرت میں ہے کہ اس کا ہاتھ یداللہ ہے۔
ہم امام خمینی (رح) کو اس زمانے کا مجدد سمجھتے ہیں، جو عقیدہ ان کا ہے وہی ہمارا ہے، ہم اسی عقیدے کے ہیں، وہی عقیدہ ہمارا ہے، امام عالمِ ما کانَ و ما یَکُونُ سے باخبر ہے، جب وہ مظہر اسم علی ہے تو ہر جگہ حاضر و ناظر بھی ہے، بہرحال یہ موضوع نہیں ہے۔ امام کے واسطہ ہونے کے ہم قائل ہیں، شہید حسینی(رح) قائل تھے اس کے، ہم اس کے قائل ہیں۔ ائمہ جب اس دنیا سے جاتے ہیں تو ہمارے عقیدے کے مطابق وہ مر نہیں جاتے، ختم نہیں ہو جاتے، ہم جب زیارت کے لیے جاتے ہیں تو کیا پڑھتے ہیں، امام میں گواہی دیتا ہوں کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے سن رہا ہے اور میرے سلام کا جواب دے رہا ہے۔ یہ عرفان آل محمد (ص) ہے، یہ معرفت آل محمد (ص) ہے، وہ ہماری طرح کے انسان نہیں ہیں، وہ ہمارے بڑے بھائی نہیں ہیں نعوذبااللہ من ذالک، ہم کہاں اور وہ کہاں، تصور درست نہیں ہے، سوچنا درست نہیں ہے، یہ شہید کا عقیدہ تھا، یہ خمینی کا عقیدہ ہے، ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے، ایک بات۔
دوسری بات، یہ عرفان ہے اور دوسری بات کیا ہے کہ اجتماعیت سے نہیں کٹنا، میدان یزیدوں کے لیے خالی نہیں چھوڑنا، کہیں عقیدے کی جنگ کے اندر الجھ کر، کبھی طالبان کی شکل میں یزید، کبھی القاعدہ کی شکل میں یزید، کبھی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی شکل میں یزید۔ ہم داخلی طور پر الجھے رہیں، وہ ہم پر حملے کرتے رہیں، ہمیں نقصان پہنچاتے رہیں، ایمان کے مختلف درجے ہیں، ہمارے اندر پہلے درجے والے ایمان والے بھی ہیں ممکن ہیں پہلے والے اگلوں والوں کو صحیح نہ سمجھیں، اگلے والے پچھلے والوں کو صحیح نہ سمجھیں، جیسے سلمان کے بارے میں ابو ذر کو پتہ چل جاتا تو ابو ذر سلمان کو قتل کر دیتا، درود پڑھیے محمد و آل محمد (ع) پر۔
تو دوستو! ہمیں نہیں لڑنا آپس میں، ہمیں مان لینا ہے کہ کوئی پہلے درجے کا ہے کوئی دوسرے کا ہے، کوئی تیسرے کا اور کوئی چوتھے کا، کوئی پانچویں کا، کوئی چھٹے ساتویں کا، آٹھویں نویں، دسویں کا۔ اندرونی لڑائی نہیں لڑنی ہے۔ جب دشمن گھروں کو آگ لگا رہا ہو، یزیدی قوتیں ہمارے دروازے تک آپہنچی ہوں، ہمیں اندر نہیں لڑنا، دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اکٹھا ہونا ہے، وحدت، یونیٹی کی ضرورت ہے شیعوں کے درمیان۔ پھر ہمارا دشمن چاہتا ہے کہ سنی کو لڑایا جائے۔ پاکستان ایک گھر ہے، شیعہ بھی اس کے باسی ہیں اور سنی بھی ہیں، ہم نے سنیوں سے بھی نہیں لڑنا، ہم اکٹھے رہیں گے۔
حسین (ع) فقط ہمارا نہیں ہے، حسین (ع) پوری انسانیت کا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے، شعر شاید صحیح یاد نہ ہو،
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکاری گی ہمارے ہیں حسین (ع)
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع)، دوستو ! آپس میں نہیں لڑنا، ہمیں بیدار ہونا ہے، خطرناک حالات ہیں، میں نے پہلے کہا کہ دشمن بڑا طاقتور ہے، پوری دنیا کی یزیدی قوتیں ہمارے خلاف ہیں، وہ یمن میں ہمارے خلاف بر سر پیکار ہیں، لبنان میں، عراق میں، ایران میں، پاکستان میں دنیا کے ہر کونے میں ہمارے خلاف سرپیکار ہیں۔ ہمیں پاکستان میں تکفیری ٹولے کا، اس ناصبی ٹولے کا مقابلہ کرنا ہے، شیعہ بھی اکٹھے ہوں اور شیعہ و سنی بھی اکٹھے ہوں،۔
سنی ہمارے بھائی ہیں، دشمن یہ چاہتا ہے کہ شیعہ بھی آپس میں الجھے رہیں، سنیوں کو بھی آپس میں لڑایا جائے اور اس ملک سے امن کی نعمت کو چھین لیا جائے تاکہ یہ ملک نفرتوں کی آگ میں جلتا رہے، دہشت گردوں کی لپیٹ کا شکار رہے، یہاں نہ ترقی ہو، نہ سکھ ہو، نہ چین ہو، نہ آشتی ہو، یہ ملک جنگل بن جائے، ویرانہ بن جائے، یہ ہماری مادر وطن ہے، اسے ہمارے آباﺅ اجداد نے خون دے کر بنایا تھا اور اس کے امین و وارث ہم ہیں، ہم نے ہی بنایا تھا اور ہم ہی اسے بچائیں گے۔
محرم آرہا ہے، ملک کے اندر نا امنی ہے، ہمارے کئی ہزار شہید ہیں، ایک کے قاتل کو بھی سزا نہیں ملی، کیوں ایسے ہوا، جمہوری اسلامی ایران کے بعد سب زیادہ دنیا میں شیعہ آبادی پاکستان میں ہے۔ چار کڑور سے زیادہ شیعہ ہیں پاکستان میں، اگر یہ اکٹھے ہو جائیں، یہ منظم ہو جائیں، بہت بڑی طاقت ہے۔ میرے دوست عزیز لبنان کے بارے میں بات کر رہے تھے، لبنان میں سولہ یا سترہ لاکھ شیعہ ہیں، کتنے، سرگودھا ڈویژن میں شیعوں کی تعداد شاید لبنان کے شیعوں سے زیادہ ہو۔ سرگودھا ڈویژن میں شیعوں کی تعداد یقیناً لبنان کے شیعوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ لبنان میں ٹوٹل شیعوں کی تعداد سولہ یا سترہ لاکھ ہے۔ میں پچھلے سال لبنان گیا تھا، جنوبی لبنان کو دیکھا، سید سے میں ملا، ان سے پوچھاکہ اس 33 روزہ جنگ میں آپ کے کتنے مجاہد شہید ہوئے انہوں نے کہا کہ کل 270 شہید ہوئے ہیں۔ 270 شہید دے کر دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت اور اس خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو شکست دی انھوں نے۔
وہ منظم ہو گئے، وہ اسرائیل جو ناقابل شکست تھا، اسے شکست سے فاش دوچار ہونا پڑا۔ جب منظم ہوئے اور یا علی (ع) کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر مولا علی (ع) نے بھی مدد کی، جناب سیدہ نے بھی مدد کی، امام زمان (ع) نے بھی مدد کی۔ کرامۃالصادق میں ہے، ایک مجاہد نقل کرتا ہے، بھائی یہ ثابت قدم تھے نا، دیکھو دوستو! مرحب کا سر کاٹنے کے لیے خالی ذوالفقار کافی نہیں ہے حیدر کرار (ع) کا ہاتھ بھی چاہیے۔
دوستو ! جب زبان ایسی ہو جو سچی اور صادق زبان ہو اور وہ زبان، ہر زبان یا علی (ع) کہے تو علی (ع) نہیں آتے، زبان بھی پھر مجاہد کی چاہیے، زبان بھی پھر حسینی(رح) کی چاہیے۔
خود مجاہد ایک بیان کرتے ہیں کہ: میں کھڑا تھا، میں نے میزائل اٹھایا ہوا تھا، میں فائر کرنے لگا کہ ایک جہاز میں نے دیکھا اس نے میرے اوپر میزائل فائر کیا، بے اختیار میرے منہ سے نکلا یا علی (ع) ادرکنی، یاعلی (ع) ادرکنی، میں نے کیا دیکھا کہ ایک شخصیت آگے بڑھی اس نے میزائل میرے ہاتھ سے لیا، ہاتھ میں لے کر دو ٹکڑے لے کر پرے پھینک ڈالا، میں نے پوچھا آپ کون ہیں، آپ نے میری مدد کی، کہنے لگے کہ تو نے مجھے پکارا نہیں تھا، اہل بیت(ع) نے مدد کی ہے، آئمہ (ع) آئے ہیں وہاں پر ان کی نصرت کرنے کے لیے، اگر ہم اکٹھے ہو جائیں، ہم منظم ہو جائیں، ہم بھی ویسے ہی ہو جائیں، سرگودھا ڈویژن کے شیعہ پورے پاکستان کی حفاظت کر سکتے ہیں، دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں، امن لا سکتے ہیں، وحدت لا سکتے ہیں اور مظلوموں کی پناہگاہ بن سکتے ہیں اپنے مولا علی (ع) کی طرح، شرط منظم ہونا اور بیدار ہونا ہے۔
مجلس وحدت اسی لیے بنائی گئی ہے، یہ حسینیوں کا کارواں ہے، یہ عارف حسینی کے فرزندوں کا کارواں ہے جو چاہتے ہیں کہ ہم اس زمانے میں گھروں میں نہ بیٹھے رہیں، یہ مشکل وقت ہے۔
پاراچنار کے مظلومین ہل من ناصر کی صدا دے رہے ہیں، کوئٹہ کے ڈیرہ کے ہرجگہ کے مظلومین، ہم خاموش بیٹھے رہیں، نہیں، یزیدوں کے لیے میدان خالی چھوڑ دیں، نہیں،
حسین(ع) نے جو کربلا میں کہا تھا نا ہل من ناصر ینصرنا، وہ پانی مانگنے کے لیے نہیں کہا تھا۔
ایک ایرانی اسکالر کے الفاظ ہیں حسین (ع) کو پانی کی پیاس نہیں تھی، حسین (ع) کو اس کی پیاس تھی کہ کوئی لبیک یا حسین (ع) کہے ۔

بشکریہ از مولانا عابد حسین و جناب عاطف حسین

 


source : www.alimamali.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
آداب معاشرت رسول اکرم

 
user comment