حضرت رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ) نے فرمايا:
{من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية}-
جو مرے اورمرنے سے قبل ہي اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے وہ جاہليت و شرک کي موت مرا ہے- (1)
اب سوال يہ ہے کہ اس شناخت و معرفت کي نوعيت کيا ہے اور ہمارے يقين و اعتقاد کي تشکيل ميں کيا کردار ادا کرتي ہے؟
جوابا کہا جاسکتا ہے:
1- شناخت و معرفت امام
شناخت سے مراد ظاہري اور معمولي بھي ہوسکتي ہے- چونکہ دين مبين کي استواري اور کمال وجود امام سے وابستہ ہے، ضروري ہے کہ قوم و قبيلے اور دوسري خصوصيات کے حوالے سے امام کو پوري طرح جانا پہچانا ہونا چاہئے-
نيز يہ شناخت و معرفت معنوي بھي ہوسکتي ہے- معنوي شناخت نيز امام کے وجود کي حقيقت کي معرفت، ميں امام کے مقام و رتبے کي عظمت اور الہي ولايت کي پہچان، امام کي راہ و روش و اخلاق کي شناخت اور اللہ کي بندگي اور عبوديت ميں امام کي سيرت کو نمونہ عمل قرار دينے، سے عبارت ہوسکتي ہے-
اس قسم کي شناخت ميں امام (ع) کے ديدار و ملاقات کي ضرورت نہيں ہے بلکہ عقلي اور نقلي دلائل سے امام کے بارے ميں معرفت و شناخت حاصل کي جاسکتي ہے- پس يہ جو کہا جاتا ہے کہ اس امام کي معرفت ممکن نہيں ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہو، بےمعني ہے- کتنے ہيں وہ افراد جنہوں نے امام معصوم کو اپني آنکھوں سے ديکھا اور ان کي کرامات کا ادراک کيا، ليکن پھر بھي کافر و گمراہ رہے اور امام کو تنہا چھوڑ ديا و آخرت کي روسياہي خريد لي- تاريخ کي سب سے بڑي ستم ظريفي ہي يہي تھي کہ ائمہ معصومين (ع) کي دعوت تشنۂ لبيک رہ گئي اور ان کي زيادہ تر عمر قيد و بند يا پھر جلاوطني ميں گذري بلکہ اس سے بھي بڑھ کر ستم يہ کہ تمام ائمہ (عليہم السلام) کو امت کي بے حسي کي بنا پر شہيد کيا گيا اور آخري ذخيرہ الہي کو بھي شہيد کرنے کي بھي بھرپور کوشش کي گئي ليکن يہ کوششيں اللہ تعالي نے امام (عج) کو غائب کرکے ناکام بنادي-
-------------------------
1- الوهم المكنون فى الردّ على ابن خلدون ، ابوالعباس بن عبدالمۆمن، مغربى- بحار الانوار ج 51 ص 160-
source : www.tebyan.net