: ربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے ۔باپ ، بھائی ، شوہر اور کلیجے کے ٹکروں کو اسلام و قرآن کی بقا کے لئے راہ خدا میں مرنے کی اجازت دے دینا اور زخم و خون سے رنگین جنازوں پر سجدۂ شکر ادا کرنا آسان بات نہیں ہے اسی چیز نے ضمیر فروش قاتلوں کو انسانیت کی نظروں میں ذلیل و خوار کردیا ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ضبط اشک نے مردہ دلوں کو بھی جھنجوڑ کے رکھ دیا مگر وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کاایک لفظ بھی زبان پر نہ آيا نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرادئے حضرت زينب (س) اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم (ع) ، رقیہ ( ع) ، رباب (ع) ، لیلا (ع) ، ام فروہ (ع) سکینہ (ع) ، فاطمہ (ع) اور عاتکہ (ع) نیز امام (ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کئے ہیں جن کو کسی بھی صورت مٹایا نہیں جا سکتا چنانچہ عصر عاشورا کو امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ، جب اہل حرم کے خیموں میں آگ لگا دی گئی بیبیوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئیں تو جلتے خیموں سے نکل کر مصیبت زدہ عورتیں اور بچے کربلا کی جلتی ریت پر بیٹھ گئے ۔
امام وقت سید سجاد (ع) غشی کے عالم میں تھے جناب زینب (ع) نے اپنی بہن ام کلثوم (ع) کے ساتھ آگ کے شعلوں سے خود کو بچا بچا کر بھاگتے بچوں کو ایک جگہ جمع کیا کسی بچے کے دامن میں آگ لگی تھی تو کسی کے رخسار پر طمانچوں کے نشان تھے کوئی ظالموں کی یلغار کے دوران پاؤں تلے دب کرجان دے چکا تھا تو کوئی پیاس کی شدت سے جاں بلب تھا ۔
اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین (ع) کی بہنوں نے عباس (ع) کی طرح پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزاردی گيارہ محرم کی صبح اسیری کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئی لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آگیا ۔عورتیں رسیوں میں جکڑدی گئیں اور سید سجاد (ع) کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں بے کجاوہ اونٹوں پر سوار ، عورتوں اور بچوں کو قتل گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں لیکن اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں نہ گھبراہٹ ، نہ بے چینی ، نہ پچھتاوا نہ شکوہ ۔
اعتماد و اطمینان سے سرشار نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے ۔مظلومیت کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لے کر کیوں نکلے تھے ؟ اور جناب زینب (ع) کو کیوں بھائی کی ہمراہی پر اس قدر اصرار تھا ؟ اور ابن عباس کے منع کرنے پر کیوں امام حسین (ع) نے کہاتھا کہ " خدا ان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے ۔" صرف ماؤں کی گودیوں سے شیرخوار بچوں کی قربانیاں ، اصل مقصود نہیں ہوسکتیں ۔جوان بیٹوں اور بھائیوں اور نوخیزوں اور نونہالوں کے لاشوں پر صبر و شکر کے سجدے بھی خواتین کی ہمراہی کا اصل سبب نہیں کہے جا سکتے ۔
بلکہ اہل حرم کی اسیری ، کتاب کربلا کا ایک مستقل باب ہے اگر حسین (ع) عورتوں کو ساتھ نہ لاتے اور انہیں اسیروں کی طرح کوفہ و شام نہ لے جایا جاتا توبنی امیہ کے شاطر نمک خوار صحرائے کربلا میں پیش کی گئی خاندان رسول (ص) کی عظیم قربانیوں کو رایگاں کردیتے یزيدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کےلئے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گيا تھا اگر حسین (ع) کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب (ع) اور امام سجاد (ع) کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اورتقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سرزمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائگاں چلاجاتا اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کردیا گيا ۔
دراصل یزيدی لشکر اہل حرم کو بازاروں اور درباروں میں (معاذاللہ ) ذلیل و رسوا کردینے کے لئے لے گیا تھا مگر عزت و سرافرازی کےمرکز و محور خاندان رسول (ص) نے اپنی حق گوئی و حق نمائی کے ذریعے خود یزید اور یزيدیوں کو قیامت تک کے لئے ذلیل و ناکام کردیا ۔جناب زينب کبریٰ کی اس عظیم خدمت کےتحت شاعر نے بالکل صحیح کہا ہے:زينب کا معجزء ہے کہ کرب و بلا کے بعد تبدیل کرسکا نہ کوئی واقعات کو ظالم کو منہ چھپانے کی مہلت نہ مل سکی اس طرح سے پلٹ دیا کل حادثات کو.
source : www.abna.ir