ام عمارہ وہ خاتن ہیں جو مدینہ سے سپاہ اسلام کے ساتھ آئی تھیں تاکہ محاذ کے پیچھے خواتین کے ساتھ رہ کر لشکر اسلام کی مدد کرنے والوں کے عنوان سے نصرت کریں۔ ان کے زخموں کی مرم پٹی کا انتظام کریں۔ زخمیوں کے زخموں پر پٹی باندھیں اور مجاہدین کو پانی پہنچائیں۔
اگرچہ جہاد عورتوں کے لیے واجب نہ تھا مگر جب ام عمارہ نے دیکھا کہ لوگ رسول خدا کے پاس سے پراگندہ ہوگئے اور آنحضرت کو آگ و خون کے درمیان تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا ان کی جان خطرہ میں ہے۔ وجود اسلام خطرہ میں گھرا ہوا ہے تو ایک بھاگنے والے کی تلوار اچک لی اور مردانہ انداز میں دشمن کے لشکر کی طرف بڑھیں اور ہر طرف اس طرح لڑ رہی تھیں کہ رسول خدا کی جان محفوظ رہے۔ پیغمبر اس شیر دل عورت کی شجاعت سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ: نسیبہ (ام عمارہ) دختر کعب کی منزلت آج کے دن میرے نزدیک فلاں فلاں سے زیادہ بلند ہے۔
(مغازی)
چند ان افراد کی فداکاری کے باوجود جو کہ رسول خدا کے لیے سپر بنے ہوئے تھے۔ آپ شدید زخمی ہوئے۔
عتبہ نے چار پتھر پھینک کر آپ کے چند دانتں کو شکستہ کر دیا۔ ابن قمہ نے آپ کے چہرہ پر شدید زخم لگایا اور وہ زخھ ایسا لگا کہ خود کی زنجیروں کی کڑیاں آپ کے گالوں میں پیوست ہوگئیں۔ پیغمبر زخموں کی بنا پر کافی کمزور ہوگئے اور آپ نے ظہر کی نماز بیٹھ کر ادا کی۔
میدان چھوڑ دینے والوں میں سب سے پہلے شخص جنہوں نے رسول خدا کو پہچانا وہ کعب بن مالک تھے انہوں نے چلا کر کہا کہ: پیغمبر زندہ ہیں۔ لیکن رسول خدا نے ان کو حکم دیا کہ چپ رہو۔ آنحضرت کو درہ کے دہانہ تک لے جایا گیا جب آپ وہاں پہنچے تو جو مسلمان وہاں سے بھاگ گئے تھے۔ بہت شرمندہ ہوئے۔ ابوعبیدہ جراح نے رسول خدا کے چہرہ میں در آنے والی زنجیر کی کڑیوں کو باہر نکالا علی علیہ السلام اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور رسول خدا نے اپنا سر اور چہرہ دھویا۔
source : www.tebyan.net