تربت سيدالشہداء (ع) کے آثار و برکات
خاتون چلي گئي اور بيٹي کي قبر ميں تربت رکھ کر اس کي تدفين کروائي تو زمين نے اس کو قبول کيا-
حضرت حجۃابن الحسن العسکري عليہ السلام کي توقيع شيعيان آل محمد (ص) ميں ايک مۆمن نے غيبت صغري کے زمانے ميں امام زمانہ (عج) کے نائب خاص سے رجوع کرکے امام (عج) سے دريافت کيا: کيا جائژ ہے کہ ہم سيدالشہداء عليہ السلام کي تربت ميت کے ہمراہ قبر ميں رکھيں يا تربت امام حسين عليہ السلام سے اس کے کفن پر تحرير کريں؟
امام زمانہ (عج) نے اپني توقيع شريف ميں تحرير فرمايا: يہ دونوں عمل پسنديدہ ہيں تا ہم تربت کا احترام ملحوظ رکھنا چاہئے- مہر (سجدہ گاہ) يا تربت، ميت کے چہرے کے روبرو يا اس کے چہرے کے نيچے رکھني چاہئے- اس اميد سے کہ قبر امام حسين عليہ السلام کي برکت سے اس (ميت) کي قبر اس کے لئے ہربلا اور ہر آفت سے بچاۆ اور حفاظت کا مقام بن جائے- (9)
6- تربت کي تسبيح حضرت بقيۃاللہ الاعظم امام زمانہ عَجَّلَ اللہُ تَعالي فَرَجَہُ الشَّريف سے روايت ہوئي ہے کہ آپ (غج) نے فرمايا: "ہرگاہ کوئي شخص تربت امام حسين عليہ السلام کي تسبيح ہاتھ ميں رکھے اور ذکر بھول جائے اس کے لئے ذکر کا ثواب لکھا جاتا ہے"- (10)
اور امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: "تربت کي تسبيج کے ساتھ ايک بار استغفار يا ذکر دوسري تسبيحوں کے ساتھ ستر بار ذکر و استفغار کے برابر ہے اور اگر انسان تربت کي تسبيح ہاتھ ميں لے اور ذکر و تسبيح نہ کرے تو تسبيج کے ہر دانے کے عوض اس کو سات مرتبہ ذکر و استغفار کا ثواب عطا کيا جاتا ہے"- (11)
..............
مآخذ:
9. وسائل الشيعه , شيخ حر عاملى , ج 4 ص 1033
10. بحارالانوار , علامه مجلسى , ج 44 ص 280
11. نقل از كتاب <درسى كه حسين (ع ) به ما آموخت > شهيد هاشمى نژاد, ص 451 / وسائل الشيعه , شيخ حر عاملى , ج 4 ص1033-
source : tebyan