اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حضرت امام حسین کی امتیازی خصوصیات

حضرت امام حسین کی امتیازی خصوصیات

نقیب حیدر

امام حسین کی ذات اقدس کوالفاظ اور اشاروں کے آئینہ میں پہچاننا یاپہچنوانا نہایت ہی دشوار مرحلہ ہے۔ خاص کر اہل دل کیلئے جبکہ کوزہ میں دریاکاسمانا محال ہے مگر آب دریا رااگر نتوان کشید ۔ہم بقدر تشنگی باید چشید مندرجہ بالا شعر کے مدنظر موجودہ مقالہ میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ یہ کوشش کی گئی ہے کہ ذہن میں ابھرتے ہوئے چند سوالوں کا جواب دیا جائے۔ مثلاًرسول اکرمۖ کے نزدیک امام حسین کی عظمت ومنزلت کیاہے؟مناجات امام کیا ہے ؟آپ نے حساس اور نازک مواقع پر اپنے حلم کا مظاہرہ کیسے کیا ہے ؟آپکے علم کی حدوانتہا کیا تھی ؟ آپ کے تواضع کاکیا عالم تھا ؟آپ کے معاف کرنے کاکیا طریقہ تھا ؟اسکے علاوہ او ربھی کچھ سوالات ہیں جو انسانی ذہن میں آتے رہتے ہیں۔

١۔ رسول اسلامۖ کے نزدیک امام حسین کامرتبہ

خداوند عالم نے امام حسین کو چند ایسی خصوصیات سے نوازا تھا کہ اُن میں سے بعض تو رسول اکرم کے بیانات سے واضح ہوجاتی ہیں۔بطور اختصار ہم آپ کے بعض ارشادات کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

رسول اکرمۖ کو امام حسین سے ایک خاص محبت تھی،جب کبھی آپ اصحاب کے درمیان تشریف فرماہوتے تھے اور اسی اثنا میں امام حسین وارد مجلس ہوجاتے تھے توآپ اپنے کلام کو روک دیتے تھے اپنی جگہ سے اٹھ کر آ پ کا استقبال فرماتے،اپنے دوش پربٹھاتے، نیز اپنی آغوش مبارک میں لیتے اور فرماتے تھے 'انہ مہجة قلبی (١)ایک دن رسول اسلامۖ نے امام حسین کودیکھاکہ گلی میں بچوں کیساتھ کھیل میں مصروف ہیں آپ نے اپنے ہاتھوں کو انکی طرف بڑھایا لیکن حسین ایک طرف سے دوسر ی طرف چلے گئے یہاں تک کہ رسول نے آ پ تک رسائی حاصل کر لی اس مقام پر رسول اکرمۖ نے اپنا ایک ہاتھ حسین کی ٹھڈی کے نیچے اوردوسرا ہاتھ حسین کے سر پر رکھا اسکے بعداپنے لبوں کوجنبش دی اور فرمایا:''انا من حسین وحسین منی'' (2)

جب کبھی حسین حال سجدہ میں دوش رسول پر آجاتے تھے تو آپ سجدہ کواتنا طولا نی کردیتے تھے کہ جب تک حسین اپنے اختیار سے اتر نہیں جاتے ، اصحاب کرام آپ سے سجدہ کے طولا نی ہونے کے بارے میں سوال کرتے تھے کہ یا رسول اللہ !کیا کوئی وحی نازل ہورہی تھی ؟تو آپ فرماتے تھے :نہیں بلکہ میرا فرزند حسین میری پشت پر سوار تھا ۔(3)

ایک روز رسول اسلام نے ایک بچہ کو گلی میں دیکھا تو آپ اسکے ساتھ عطوفت ومہربانی کے ساتھ پیش آنے لگے ایک شخص نے آپ سے عطوفت ومہربانی کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:یہ بچہ میرے حسین سے محبت کرتاہے کیونکہ میں نے دیکھا کہ یہ حسین کی خاک پاکواپنے ہاتھ میں لیتا تھا اور اپنے چہرہ پرملتا تھا اور جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ یہ کربلا میں حسین کے مدد گاروںمیں سے ہوگا۔(4)

٢۔ مناجات امام حسین علیہ السلام

قال الحسین علیہ السلام :

اللہم انک تجیب دعوة المضطر اذا دعا ک وتکشف السوء وتغیث المکروب

خدایا !پریشان حال شخص جب تجھے پکارتا ہے، تو اسکی آواز پر لبیک کہتاہے اور اسکی پریشانی دور فرماتا ہے اور مصیبت زدہ شخص کی فریاد کو پہنچتا ہے۔(5)

پروردگا رعالم سے آپ کے را زونیاز اور خلوت وتنہائی کا یہ عالم تھا کہ انس بن مالک نے آپ کی مناجات کے جواب کوایک روایت میںاسطرح سے بیا ن کیا ہے ۔میں ایک مرتبہ آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہۖ کی قبر پر گیا تو آپ نے گریہ کرنا شروع کیا اور فرمایا:''انس تم یہاں سے چلے جاؤانس کہتے ہیں :کہ میں تھوڑی دور جاکر مخفی ہوگیا۔''

اس کے بعد میں نے سنا کہ اما م فرمارہے ہیں:

یا رب یا رب انت مولایی

فارحم عبیدا الیک ملجائ

یا ذالمعالی علیک معتمدی

طوبی لمن کنت مولاہ

طوبی لمن کان نادما ارقا

لیشکوا الی ذی الجلال بلواہ

وما بہ علة ولا سقم

اکثر من حبہ لمولاہ

اذا اشتکی بثہ وغصتہ

اجابہ اللہ ثم لباہ

اذا ابتلی بالظلام مبتہلا

اکرمہ اللہ ثم اوماہ

* پروردگار ا پروردگارا توہی میرا مولا ہے لہذا اپنے اس بندہ پر رحم کر جس کی پناہ توہی ہے۔

* اے بلند مرتبہ پرودرگار میرا بھروسہ تجھ پر ہے کیا کہنا اس شخص کا کہ جسکا تو مولا ہے ۔

* کیا کہنا اس شخص کا کہ جواپنے گذشتہ گناہوں پر نادم ہو راتوں کو بیدار ہو اور صاحب جلا ل خدا سے اپنی پریشانی کی شکایت کررہا ہے ۔

* ایسا بندہ اپنے مولا کی محبت سے زیادہ کوئی غم اندوہ نہیں رکھتا ہے

* ایسا بندہ جب خدا سے اپنی پریشانی بیان کرتاہے تو خدا اسکے رنج وغم کو دور کردیتا ہے ۔

* اگر ایسابندہ شب کی تاریکی میں گریہ وزاری کرے تو خدااس کا اکرام کرتا ہے او راس کو مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے۔

انس بیان کرتے ہیں کہ امام نے جب اس طرح مناجات کی توآپ کا جواب اس طرح آیا :

لبیک عبدی وانت فی کنفی

وکلما قلت قد علمناہ

صتک تشتاقہ ملائکتی

فحسبک الصوت قد سمعناہ

دعاک عندی یول فی حجب

فحسبک الستر قد سفرنا ہ

لوہبت الریح من جوانبہ

خر صریعا لمن تغشاہ

سلنی بلا رغبة ولا رہب

ولا تخف اننی انا اللہ

''اے میرے بندے میں حاضرہوں او رتم کو میری حمایت حاصل ہے او رجوکچھ تم نے کہا ہم کواسکا علم ہے میرے فرشتے تمہاری آواز کے مشتاق رہتے ہیں او رتمہارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم نے تمہاری آوازکو سن لیا تمہاری دعائیں حجابوں میں گردش کررہی ہیں اورتمہارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم نے پردہ کواٹھا لیا ہے۔ اگر اسکے اطراف میں ہوا بھی چل جائے تو وہ دعا کی ہیبت سے زمین پرگرجائے گی۔تم مجھ سے بغیر کسی رغبت وخوف وحساب کے طلب کروکہ میں ہی تمہارا پرودرگار ہوں۔''(6)

٣۔ حلم امام حسین

قال الحسین :اَلْحِلْمُ زِیْنَة (بردباری زینت ہے) (7)

حلم امام حسین کے مشاہدہ کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ سخت ترین وبحرانی ترین ماحول میں زندگی بسر کررہے تھے پھر بھی آپکی رفتار وکردار میں کوئی لغزش وخامی دیکھنے کونہیں ملتی ہے، حر اور اسکے لشکر کو سیراب کرنا آپکے حسن خلق او ر حلم وکرم کا ایک نمونہ ہے۔جب حر کا لشکر شدید گرمی میں منزلوں کو طے کرتاہوا امام کے پاس پہنچا تو آپکے حکم سے سارے سپاہیوں او رجانوروں کو سیراب کیا گیا نیز جانواروں کے بدن پر پانی چھڑکا گیا۔علی بن طحان محاربی بیان کرتے ہیں میں سب سے پیچھے رہ گیا تھا جسکی وجہ سے سب سے بعد میں امام کے پاس پہنچا جیسے ہی امام نے میری حالت کودیکھا نہایت ہی لطف وکرم کے ساتھ فرمایا:یابن اخی انخ الراویة اے میرے بھتیجے!اونٹ کو لٹادو میں اسوقت امام کے کلام کو نہ سمجھ سکا امام سمجھ گئے کہ میں متوجہ نہیں ہوا ہوں دوبارہ آپ نے فرمایا:انخ الجمل میں نے اونٹ کو لٹا دیا امام نے فرمایا :مشک کو کھولو او رپانی پیو لیکن میں پانی نہ پی سکا تو اسوقت امام میرے سامنے آئے اور مشک سے پانی کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر مجھے اپنے ہی ہاتھوں سے پانی پلایا ۔(8)

٤۔ علم امام حسین علیہ السلام

قال الحسین :دراسة العلم لقاح المعرفة حصول علم، معرفت کا ذریعہ ہے ۔(9)

آ پ کاعلم وحکمت آپکے احتجاجات ،وخطبات ومکتوبات ودیگر ادعیہ بالخصوص دعائے عرفہ سے ظاہر ہوجاتا ہے آپ کے حکمت آمیزجملات کی نشاندہی اس واقعہ سے بھی ہوجاتی ہے کہ جب جناب ابوذر ربذہ کی طرف جلاوطن کئے جارہے تھے اور امام حسین کی عمر مبارک ٣٠سال بھی نہیں تھی توآپ نے اس طرح ارشاد فرمایاتھا: خداوند عالم اس بات پرقادر ہے کہ جن حالات کا تم مشاہدہ کررہے ہو ان کوبدل دے (کُلُّ یَومٍ ہُوَفِیْ شَاْنٍ)اس قوم نے تم کواپنی دنیا سے محروم کردیا ہے تم نے بھی اپنے دین کو ان سے محفوظ کرلیا ہے تمہیں جن چیزوں سے محروم رکھا گیا ہے تم ان سے بے نیاز ہو لیکن وہ افراد تمہارے دین کے کتنے زیادہ محتاج ہیں ؟خدا سے صبر ومدد طلب کرو اورحرص وبے تابی سے پناہ مانگواو ر یہ مسلم ہے کہ صبرارکان دین میں سے ہے اورحرص سے نہ رزق میں اضافہ ہوتاہے اور نہ موت کو ٹالا جاسکتا ہے۔(10)

٥۔ آپ کا تواضع اورانکساری

قال الحسین : مَنْ نَفَّسَ کُرْبَةَ مُومِنٍ فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کَرْبَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ(11)

''جوشخص کسی مومن کے رنج وغم کودورکرتا ہے خدا اس سے دنیا واخرت کے رنج وغم کوبرطرف کردیتا ہے۔''

امام حسین قوموں کی نگاہوں میں نہایت ہی محترم تھے جس وقت آپ اما م حسن مجتبیٰ کے ساتھ پیدل حج کرنے جارہے تھے تمام ضعیف مردوعورت آپکے احترام میں اپنی اپنی جگہ سواریوںسے اترگئے تھے اورپیدل چلنے لگے یہ آپ کا احترام لوگوں کے دلوں میں اس لئے نہیں تھا کہ آپ کے پاس حکومت یا کوئی قیمتی وبہترین سواری تھی یاآپ کے پاس غلام زیادہ تھے بلکہ اسکی علت صرف اور صرف یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک روز امام حسین چند ایسے فقراکے سامنے سے گزر ہوا جوکھاناکھانے میں مصروف تھے امام نے سلام کیا انہوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ جوا ب دیا اوراسکے بعد آپ کو دسترخوان پرآنے کی دعوت دی امام دسترخوان کے کنارے بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ طعام تناول فرمایا اسکے بعد آیت کی تلاوت فرمائی انہ لایحب المستکبرین پھر آپ نے ان تمام لوگوں کواپنے گھر بلایاان کے لئے کھانے کا انتظام کیا اور ہر ایک کولباس عنایت کیا۔(12)

٦۔ آپ کی رقت قلبی اورحیا

اما م حسین اوراسامہ بن زید کی گفتگو سے آپ کی رقت قلبی اچھی طرح آشکار ہوجاتی ہے آپ کے یہ دو نمایاں صفات کتابوں میں بطور تفصیل بیان کئے گئے ہیں۔

اسامہ بن زید د ور رسول اکرمۖ میں لشکر اسلام کے آخری سپہ سالارتھے آپ ٥٨ تک باحیات تھے اورآخر عمر میں بہت زیادہ مقروض ہوگئے تھے جسکا اداکرنا آپ کے لئے نہایت دشوار مرحلہ تھا۔ امام حسین کو جب معلوم ہواکہ اسامہ بیمارہیں توآپ انکی عیادت کے لئے تشریف لے گئے کیا دیکھا کہ اسامہ غمگین ہیںآپ نے رنجیدہ ہونے کی علت دریافت کی تو اسامہ نے کہا کہ میں بہت زیادہ مقروض ہوں تقریبا ساٹھ ہزاردرہم سے زیادہ میں نے کسی سے قرض لیا ہے۔

امام : اب تمہارے قرض کی آدائیگی میرے ذمہ ہے۔

اسامہ : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں میں قرض اداکرنے سے پہلے نہ مرجاوں

امام : تم ابھی زندہ رہوگے یہاںتک کہ میں تمہارے قرض کو ادا کردونگا

اسکے بعد امام نے حکم دیا کہ انکے قرض کو اداکیاجائے ۔(13)

٧۔ آپ کا قیام اور اس کی وجہ

قال الحسین :انماخرجت لطلب الاصلاح فی امةجدی (14)

علم امام حسین علم الہی ہے آپ اپنے فرائض اور ذمہ داریوںکوصحیفوں اوردیگرکتابوں میں کہ جوخداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرمۖ کے وسیلہ آپ تک پہونچی تھیں، مشاہدہ فرماتے تھے اور انہیں بخوبی انجام دیتے تھے آپ صلح اور جنگ دونوں ہی میں خدا کے حکم اور اس کی مرضی کے پابند تھے۔ (15)

پیغمبر اسلامۖ حسنین (ع)کی بارے میں فرماتے ہیں: الحسن والحسین اما مان قامااوقعدا(16)

الفاظ حدیث سے دومعنی بطور واضح سامنے آتے ہیں:

١۔ آپ علم کے ذریعے صلح وجنگ کیلئے اقدام کرتے تھے

٢۔ آپ نے صلح یاجنگ مصلحت اسلام کے پیش نظر اختیار فرمائی تھی

اسی بنا بر ائمہ اطہار کے چاہنے والے آپ کی بغیر چون وچراپیروی کرتے ہیں چاہے فریاد کا حکم ہویاسکوت کا ۔دستورات آئمہ کے بعد اس کے فلسفہ میں نہیں پڑتے ہیں کہ آخر اس حکم کی علت کیا ہے کیونکہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ حضرات بغیر حکم خدا کے اپنے علم کا اظہار نہیں کرتے ہیں ۔

درج ذیل واقعہ سے ہمیںآپ کے حقیقی شیعوں سے آشنائی ہوتی ہے۔

ایک مرتبہ سہل خراسانی نے امام صادق سے عرض کیا کہ کیوںآپ حضرات ان لوگوں کے مقابلہ میںقیام نہیں فرماتے ہیں جنہوں نے آپ کے حق کو غصب کیا ہے جبکہ خراسان میںآپکے چاہنے والے ہزاروں کی تعداد میں موجودہیں اگر آپ انہیں حکم دیدیں تووہ اپنی اپنی تلواروں کے ساتھ آپ کی مدد کرنے کے لئے آجائیںگے۔

امام صادق نے حکم دیا کہ تنور کو روشن کیاجائے تھوڑی دیر کے بعدآپ نے فرمایا کہ اے خراسانی کھڑے ہو جاؤاور جاکر تنور میں میں بیٹھ جاؤخراسانی نے عرض کیا اے فرزندرسول !مجھے آگ کی سزانہ دیں اوراس خطا سے درگذر فرمائیں.اسی اثنا میں ہارون مکی جوکہ امام کے شیعوںمیںسے تھے وارد مجلس ہوئے اس عالم میں کہ نعلین آپکے ہاتھوں میں تھیں امام نے فرمایا :اپنی نعلین کو رکھو اور تنور میں چلے جاؤ.

ہارون مکی نے بغیر کسی سوال کے اپنی نعلین کورکھا اورتنور میں داخل ہوگئے ۔

امام سہل خراسانی کے ساتھ گفتگو کرنے میںمصروف ہوگئے اورخراسانی کے حالات کو اس طرح بیان فرمارہے تھے کہ جیسے کئی سال آپ نے خراسان میں گذارے ہوں۔

اسکے بعد سہل خراسانی سے فرمایا : اے سہل اٹھو اور تنور میںدیکھو.

سہل خراسانی اٹھے کیادیکھا کہ ہارون مکی بغیر کسی تکلیف وپریشانی کے آگ میں بیٹھے ہوئے ہیںامام نے سہل خراسانی سے سوال کیا اہل خراسان میںکتنے افراد اس ہارون مکی جیسے ہیں؟

ِِِِِسہل خراسانی نے کہا : خدا کی قسم ایک آدمی بھی نہیں ہے۔

امام نے فرمایا : ہم سب اپنے قیام کے وقت سے آگاہ ہیں ۔(17)

ہارون اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ امام ہرطرح کی خطا واشتبا ہ سے محفوظ ہیں اورہم سب کا وظیفہ وہی ہے جوآپ فرماتے ہیں اسی بنا پر سر تسلیم خم کرلیا ۔

٨۔ آپ کا درگذر فرمانا

قال الحسین :اَلْوَفَائُ مَرُوَّة ''وفا کرنا جوانمردی ہے'' (18)

جس وقت جناب حرنے لشکر عمربن سعد سے جداہونا چاہا تو ابتدامیں لشکر سے کنارہ کشی اختیار کی اس کے بعد اچانک جدا ہوکر لشکر امام سے ملحق ہو گئے سب سے پہلے روبرو ہونے والوں میںامام حسین کانام سر فہرست آتاہے کیونکہ حضرت خیمہ کے باہر کھڑے تھے حر نے آپ کودیکھ کر کہا : السلام علیک یا ابا عبداللہ اے میرے مولاوآقامیںگناہگار ہوںمیں وہی گناہگار ہوں کہ جس نے سب سے پہلے آپ کا راستہ بند کیا تھا ہم خدا سے عرض کرتے ہیں میرے گناہوں کو بخش دے اَللّٰہمَّ اِنِّی اَرْعَبْتُ قَلُوْلَ اَوْلِیَائِکَ .......اے میرے مولا میںنے توبہ کی اورمیر ی خواہش ہے اپنے گناہوں کی تلافی کروںوہ سیاہ دھبہ کہ جسکے سبب میں خود خواہ بنا ہوںمیرے خون کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوگا میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ کی اجازت سے توبہ کروں پہلے آپ یہ فرمائیں کہ میری توبہ قبول ہے یا نہیں ؟

امام نے فر مایا:بیشک تیری توبہ قبول ہے اورکیوں قبول نہیں ہوگی ؟کیا رحمت الہی کادروازہ، توبہ کرنے والوں کے لئے بند ہوتاہے ؟ہرگز نہیں جب حر کی توبہ قبول ہوگئی تو بہت زیاد ہ خوش ہوئے الحمد للہ بس میری توبہ قبول ہوگئی ،ہاں مولا اب مجھے اجازت دیں میں میدان میں جاکرآپ پر قربان ہوجاؤں اور ان رگوں میںدوڑتے ہوئے خون کوآپ کی راہ میں بہا دوں ۔امام نے فرمایا :اے حر! تم میرے مہمان ہو سواری سے اتروتھوڑی دیرآرام کروتاکہ میںتمہاری مہمان نوازی کرسکوں لیکن حرنے امام سے اجازت مانگی کہ وہ سواری سے نہ اتریں، حر آخرکار سواری سے نہیں اترے بعض مورخین نے سواری سے نہ اترنے کی علت یہ بیان کیا ہے کہ جناب حر چاہتے تھے کہ خدمت امام میںجائیں لیکن ایک بات ان کے لئے باعث تکلیف تھی ،وہ یہ کہ حر اس بات سے خوف زدہ تھے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ کوئی اطفال حسینی میں سے مجھے دیکھے اور یہ کہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے روز اول ہمارا راستہ روکا تھااس طرح میںشرمندہ ہوجاؤں گا وہ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے جلد ازجلد اپنادامن کو دھلنا چاہتے تھے جب حرنے بہت اصرار کیا توامام نے اجازت دی اورفرمایا:جب تم اصرار کررہے ہو تو جاؤمیںمنع نہیں کروںگا۔ حسین بن علی نے اسی حر اور انکے سپاہیوں کو درمیان راہ سیراب کیا تھا۔ (19)

حر کے ذہن میںیہ بات دستک دے رہی تھی کہ ہم پانی کو اس انسان کے اوپر بند کررہے ہیں کہ جس نے ہم کو اس دن سیراب کیا تھا جب ہم سبھی پیاسے تھے اور ہم نے پانی کامطالبہ بھی نہیں کیاتھا لیکن آپ نے ہم سب کو سیرا ب کیا تھا ،کتنی بزرگ وباعظمت ہے یہ ذات اور ہم سب کس قدر پست ۔جناب حر نے کہا اے کوفہ کے لوگو!تمہیں شرم نہیں آرہی ہے؟یہ فرات مچھلی کے شکم کی مانند چمک رہی ہے جسکا پانی تمام موجودات کیلئے حلال ہے انسان اور حیوانات جس سے سیرا ب ہوتے ہیں لیکن فرزند رسول کے لئے بند ہے۔

جناب حر دشمنوں سے جنگ کرتے رہے یہاںتک کہ درجہ شہادت پرفائز ہوگئے ۔امام حسین (ع)نے حرکوبغیر انعام کے نہیں چھوڑا فورا اپنے آپ کو حر کے سرہانے پہنچا یا اور مرثیہ پڑھنا شروع کردیا ونعم الحر حر بنی ریاح کیا کہنا حر کتنا آزاد مرد ہے، اس کی ما ں نے کتنا اچھا نام انتخاب کیا ہے کہ بروز اول ہی کہہ دیا حرآزاد مرد واقعاآزاد مردتھے۔

*******

١۔ بحار الانوار، ج٤٤،ص ٢٣٨

2۔ بحار، ج٤٤،ص٢٦٠

3۔ بحار، ج٤٣،ص٢٩٦

4۔ بحار ،ج٤٣،ص٢٤٢

5۔ بحار، ج٩٨،ص ٢١٣

6۔ بحار ج٤٤ص١٩٣

7۔ کشف الغمہ ج٢ص٣٠بحاج٧٨ص ١٢٤

8۔ قمقام زخار فرہاد میرزاص ٣٥٠

9۔ بحارج٧٨ص ١٢٨

10۔ ابوالشہدا عقاد مصری ص ٦٤

11۔ بحارج٧٨ص١٢٣وکشف الغمہ ص٢٩

12۔ تفسیرنورالثقلین ج٢ص٤٧

13۔ مناقب ابن شہرآاشوب ج٤ص٦٥

14۔ بحار ج٤٤ص٣٢٩

15۔ اصول کافی ج١ص٧٩

16۔ علل الشرایع ،ص،٣٠٠،وبحار، ج٤٤،ص٢

17-مناقب ابن شہرآشوب ج3ص364۔بحارج47ص123

18-بحارج78ص124،کشف الشغمہ ج3ص130

19۔ ارشاد مفید ج٢ص٨٩وبحار ج٤٤ص٣٧٦

 


source : shiasearch.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
آداب معاشرت رسول اکرم
حضرت عباس کا عِلم

 
user comment