اس بات ميں کوئي شک نہيں ہے کہ خدا تعالي نے رزق اور روزي کو انسانوں کے درميان تقسيم کيا ہوا ہے خواہ انسانوں ميں سے کوئي خدا کا شکرگزار ہو يا نہ ہو ، ان سب کو خدا روزي دے رہا ہے - يہ خدا کي طرف سے بہت بڑي عنايت ہے جس سے مسلمان اور کافردونوں ہي مستفيد ہو رہے ہيں - ليکن يہ سوال ذہن ميں پيدا ہوتا ہے کہ خدا نے روزي کو تمام انسانوں کے ليۓ يکساں تقسيم کيوں نہيں کيا ہے ؟
شروع ميں ہميں اس نکتہ پر توجہ کرني چاہيۓ کہ خلقت ميں جوکچھ بھي موجود ہے وہ" مختلف " ہے نہ کہ " تبعيض " - تبعيض کا تعلق دينے والے سے ہے جبکہ تفاوت کا تعلق لينے والے سے - تبعيض يہ ہے کہ ايک جيسي شرائط کے ساتھ اشياء اور انسانوں کے درميان فرق رکھا جاۓ جبکہ تفاوت يہ ہے کہ نامساوي شرائط کے ساتھ ايسا فرق موجود ہو - اس بات ميں ذرا بھي شک نہيں ہے کہ مادي يا آمدني کے لحاظ سے انسانوں کے درميان جو فرق موجود ہے اس کے سب سے اہم حصّے کا تعلق قابليت سے ہے - جسماني اور روحاني قابليت بالآخر اقتصادي کميت اور کيفيت کي صورت ميں ظاہر ہوتي ہے -
اس بات سے بھي انکار نہيں کيا جا سکتا ہے کہ معاشرے ميں اتفاقي طور پر بعض افراد کے پاس زيادہ مواقع اور مال آ جاتا ہے ليکن ايسي تعداد کو ہم استثنائي طور پر شمار کر سکتے ہيں ، اس معاملے ميں بنيادي نکتہ اور بنياد اسي کميمت يا کيفيت تلاش ميں ہے -
بعض اوقات ہم بعض افراد کا سطحي طور پر مشاھدہ کرتےہيں اور انہيں معاشرے کے نالائق افراد تصور کرتےہيں اورجب ايسے افراد کے پاس مال و دولت کي کثرت ديکھتے ہيں تو ہم تعجب کرنے لگ جاتے ہيں - اگر ذرا غور سے ان کي جسماني، روحاني اور اخلاقي صلاحيتوں کا بغور جائزہ ليں تب ہميں پتہ چلتا ہے کہ ان افراد کے اندر ايسي خصوصيات موجود تھيں جن کي وجہ سے وہ آج اس مقام پر پہنچے ہيں - ( جاري ہے )
source : www.tebyan.net