ـ بعض لوگ عدل و انصاف کو محدوديت کا معيار سمجھتے ہيں اور ان کا خيال ہے کہ انسان پيدائشي ـ اور خدادادي طور ـ پر عدل کے حسن و خوبصورتي اور ظلم کے بھونڈے پن سے آگاہ ہے اور اگر کوئي عادلانہ و منصفانہ عمل کرے اور ظلم سے دوري و اجتناب کرے تو وہ زندگي ميں سعادت کے مقام پر فائز ہوگا-
پہلا نظريہ ايک شرک آميز اور الہي و اسلامي تعليمات کے خلاف، پيش کي جانے والي رائے سے اخذ ہوا ہے- نہ تو انسان کي زندگي دنيا تک محدود ہے اور نہ ہي ہر عمل اس کي حقيقي سعادت کا ضامن ہے؛ انسان کي تکويني آزادي کو محدود کرنا، انسان کي دنياوي اور اخروي حيات کي سعادت اور مصلحت کے لئے ہونا چاہئے؛ اور ہر وہ چيز جو انساني حيات کے اصل ہدف ـ يعني کمال و سعادت ـ کے ساتھ سازگار نه ہو، اس سے منع اور نہي کيا جاتا ہے-
دوسرا نظريہ اگرچہ مجموعي طور پر صحيح ہے، ليکن اس کي کوئي افاديت نہيں ہے اور فردي محدوديتوں کو صحيح سمت ميں آگے نہيں بڑھا سکتا اور معاشرے کے صحيح انتظام کو ممکن نہيں بنا سکتا؛ کيونکہ اگرچہ انسان عدل کے حسن اور ظلم کے قبح سے آگاہ ہيں، ليکن فردي زندگي کي وسعتوں اور معاشرتي زندگي کے وسيع قلمرو ميں ظلم و عدل کے تمام مصداقوں کي تشخيص ممکن نہيں ہے- اسي وجہ سے، تاريخ کے تسلسل اور مختلف معاشروں ميں اس بات کي تشخيص ميں ـ کہ کونسي چيز ظلم يا عدل ہے ـ بہت زيادہ اختلافات واقع ہوئے ہيں؛ پس ظلم و عدل کے مصاديق کے تعين، کو معتبر مرجع و منبع کي ضرورت ہے تاکہ اس کي بنياد پر ـ ان اختلافات سے قطع نظر ـ معاشرے کے رويوں کو تشريعي قوانين کے دائرے ميں نظم اور باقاعدگي دي جائے- يہ معتبر مرجع و منبع، صرف دين اور وحيِ الہي ہے اور صرف خدائے عليم و حکيم کي ذات ہے جو تمام انسانوں کے مفادات و مصالح اور ان کے افعال اور رويوں ميں ظلم و عدل سے پوري طرح آگاہ ہے اور اس کے پاس قوت بھي ہے اور اس کو يہ حق بھي حاصل ہے کہ انسان کي آزادي کو ـ اسے کمال اور سعادت تک پہنچانے کي غرض سے ـ شرعي قوانين اور جامع ديني پروگراموں کے ذريعے ـ محدود کردے-
نتيجہ يہ کہ، انسان کي آزادي کا معيار دين نہيں ہے کيونکہ خود عدل کے لئے تفسير و تشريح کي ضرورت ہے اور يہ شريعت اور دين ہي ہے جو عدل و ظلم کو تشخيص ديتا ہے اور انسان کي فردي اور معاشرتي آزادي کو اخلاقي اور حقوقي احکام کے سانچے ميں بيان کرتا ہے-
منبع:www.rasekhoon.net
به نقل از: دين و آزادي، آيت الله محمد تقي مصباح يزدي، نشر مركز مطالعات و پژوهشهاي فرهنگي حوزه علميه (1381)
source : tebyan