تہران میں لگی مطبوعات کی بیسویں نمائشگاہ کے دوران ابنا کے پویلین میں گزشتہ روز ۱۳ نومبر کو ’’ شام اور عراق کے مستقبل کا افق‘‘ کے عنوان سے ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر حسین شیخ الاسلام نے گفتگو کی۔
ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی مشیر ڈاکٹر حسین شیخ الاسلام نے داعش کی جانب سے کئے گئے اسلامی خلافت کے دعوے کو ولایت فقیہ کا مقابل نقطہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ داعش دین اور شہنشاہیت کو ایک نقطے پر اکٹھا کر کے ایسی حکومت تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو نظام ولایت فقیہ کے مد مقابل ہو۔
شیخ الاسلام کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۔ ابنا: اس عنوان سے کہ آپ شام میں ایران کے سفیر رہے ہیں اور آپ نے نزدیک سے اس علاقے کے حالات کا جائزہ لیا ہے ہم آپ سے عراق و شام میں داعش کے تشدد کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ داعش اس وقت کیا حالت ہے جو کہ اس کے خلاف عالمی اتحاد قائم کیا جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام: داعش کا وجود کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی تاریخ میں جو حق و باطل کی جنگ چلی آرہی تھی اس وقت اس نے شدت اختیار کر لی ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد ایک طرف دنیا کے مستضعف اور بے سہارا لوگوں کو امام خمینی(رہ) جیسی شخصیت پناہگاہ مل گئی اور دوسری طرف اس کے مدمقابل مستکبرین عالم اور طاغوتی طاقتوں نے امریکا اور اسرائیل کی سرپرستی میں مختلف شدت پسند گروہ تیار کئے۔ ایک طرف شیعہ آئیڈیالوجی پائی جاتی تھی اور دوسری شیطانی آئیڈیالوجی جو کہیں بادشاہی نظام کی صورت میں سامنے آ رہی تھی اور کہیں جمہوری نظام میں لیکن مقصد دونوں کا انسانوں کے کمزور طبقے کو مزید کمزور بنانا اور ان پر حکومت کرنا تھا اور ہے۔
وہ آئیڈیالوجی جس کے مخترع انگریز تھے اور جس کو عملی جامہ پہنانے والے سعودی بادشاہ۔ اس آئڈیالوجی کی خاصیت ہی تشدد اور تسلط ہے۔ حق و باطل کے درمیان یہ جنگ ہمیشہ سے تاریخ میں موجود رہی ہے۔
ایران کا شاہ اسی آئیڈیالوجی کا حامل تھا اور اسے یہ آئیڈیالوجی دینے والا امریکہ تھا صدام اسی طرز تفکر کا مالک تھا اور اس کا حامی امریکہ تھا صدام نے ایران پر حملہ کیا حملے کی منصوبہ بندی کرنے والا امریکہ تھا اور اس کا بجٹ سعودی عرب نے دیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن انقلاب اسلامی کے بعد مستضعفین کامیاب ہو گئے اور مستبکرین کو منہ کی کھانا پڑی۔
ہم نے اس نظریے کو اپنے ملک میں تجربہ کیا کہ لوگ میدان میں آئیں اور الہی جذبے کے ساتھ مستکبرین کے مقابلے میں صف آرا ہو جائیں اورہم نے دوران حج مکہ میں برائت از مشرکین کی صورت میں بھی اس نظریے کو عملی جامہ پہنا کر مسلمانوں کو بتا دیا اسی نظرے کا نتیجہ مزاحمت تھی جو فلسطین میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ سامنے آئی اور اسی کا بارز نمونہ سن ۲۰۰۰ میں لبنان میں ظاہر ہوا کہ جس نے اسرائیل کی کمر توڑ دی۔
سن ۲۰۰۰ میں استعماری طاقتیں سمجھ گئیں کہ اس طریقے سے ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتیں اس وجہ سے انہوں نے ۲۰۰۱ میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ وجود میں لایا۔ مجھے اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ اس واقعے کو وجود میں لانے والا بالخصوص کون تھا خود امریکہ یا القاعدہ لیکن اس واقعے کے بعد استعمار نے ۱۱ سمبتر کو ایشو بنا کر مغرب و مشرق کے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف اکٹھا کر لیا جس کے بعد عراق اور افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملے کی فرصت استعمار کو دی تھی، شاہی ریاستوں میں کمیونسٹ کے خلاف قوی محرک موجود تھا اور ان ممالک میں کمیونسٹ کا خطرہ بھی بہت زیادہ تھا۔ امام خمینی(رہ) کی نظر یہ تھی کہ سوویت امریکہ سے بدتر اور امریکہ سوویت سے بدتر اور برطانیہ دونوں سے بدتر ہے۔ لیکن اہل سنت کے درمیان کمیونیسم کا مسئلہ کافی پھیل چکا تھا جس سے امریکہ نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عنوان سے کہ امریکہ کم سے کم خدا کو تو قبول رکھتا ہے سوویت کے خلاف افغانستان میں مسلمانوں کو ابھارا اور طالبان کو وجود دیا۔
بعض عربوں نے افغانستان میں جہاں طالبان حاکم ہو گئے تھے ٹریننگ حاصل کی اور القاعدہ کو جنم دیا۔ اس بات کو سب مانتے ہیں کہ طالبان اور القاعدہ کو جنم دینے میں سی آئی اے کا بھرپور ہاتھ تھا اور سعودی عرب جیسے ممالک ان کی مالی حمایت کے متکفل تھے اور اس سے جو کلچر وجود میں آیا وہ وہابیت ہے۔
القاعدہ جسے افغان عربوں نے تاسیس کیا تھا ہر جگہ اس کی ترویج کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ القاعدہ کے رہبر زرقاوی نے عراق میں ھمہ گیر جنگ کا نقشہ پیش کیا زرقاوی اور بن لادن کی موت کے بعد ایمن الظواہری نے دھشتگردی کی سربراہی اختیار کی۔ عراق میں صدام کی نابودی کے بعد جمہوریت نے جنم لیا تو عربی شاہوں کو یہ حکومت سم قاتل نظر آئی اور اس بات سے خوف کھانے لگے کہ عراق میں جمہوریت کی کامیابی سے ان کے ملکوں کے لوگ بھی اپنے بادشاہوں کی وہی حالت کریں گے جو صدام کی ہوئی اور اس کے بعد جمہوری نظام قائم کریں گے۔
بادشاہی حکومتوں نے اپنی تمام تر توانائیوں کو اس بات پر صرف کرنا شروع کر دیا کہ عراق میں جمہوری نظام کو کامیابی حاصل نہ ہونے پائے اس غرض سے عراق میں افراطی ٹولے وجود میں لائے گئے اور عرب ممالک نے اپنے پیسے سے اسرائیلی اسلحہ خرید کر اس ملک میں وارد کیا یہاں تک کہ روزانہ دسیوں بم دھماکے کروائے اور سینکڑوں مسلمانوں بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ عرب ملک میں جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ایک طرف عراق میں جمہوریت کو ناکام بنانے کی کوشش اور دوسری طرف شام میں شاہی حکومت کی مخالفت اور بشار الاسد کو سرنگوں کرنے کے لیے امریکہ کا اسلحہ اور سعودی عرب اور قطر جیسے ملکوں کے پیسے کی فراہمی یہ ایسا معضل تھا جو اس بات کا باعث بنا کہ شام میں داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے بھیانک قسم کے دھشتگرد گروہ سامنے آئیں۔ شام کو ٹارگٹ بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ شام صہیونی ریاست کے مد مقابل فرنٹ لائن کی حیثیت رکھتا ہے اس وجہ سے شام کو نشانہ بنا کر مزاحمت کو ختم کرنا مقصود تھا لیکن ایران کی کوشش سے شام میں انتخابات کو کامیاب بنا کر دشمن کے منہ پر ایسا طمانچہ مار دیا گیا جو اسے قیامت تک یاد رہے گا۔
سعودی عرب اپنی شہنشاہیت کو بچانے کے لیے علاقے میں جمہوری نظام کو ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے لیکن وہ جس طرح ایران کو شکست دینے میں ناکام ہوا اسی طرح عراق اور شام کو بھی شکست نہیں دے پائے گا انشاء اللہ۔
ابنا: اس وقت جو داعش خود سعودی عرب کو دھمکیاں دے رہا ہے کیا یہ دھمکیاں حقیقی ہیں اور کیا آپ کی نگاہ میں سعودی عرب مزید اس ٹولے کی حمایت جاری رکھے گا۔
شیخ السلام: دیکھیے جب تک داعش نے اپنی قدرت کا حد سے زیادہ غرور نہیں دکھلایا تھا یہ سب اس کے حامی تھے عراق کے بعثی اس کے ساتھ مل گئے اور امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت سے داعش چند گھنٹوں میں موصل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن جب داعش کو اپنی قدرت کا نشہ چڑھ گیا اور موصل جو تیل کا ایک مرکز ہے پر قبضہ کر کے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تو اب یہ گھوڑا بے لگام ہو گیا۔
موصل بہت بڑا شہر ہے اور داعش نے اس پر قبضہ کرتے ہی چھے ارب ڈالر ہتھیا لیے۔ ابوبکر البغدادی نے اس شہر پر تسلط پیدا کرنے کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور خود کو خلیفۃ المسلمین بنا ڈالا ان سب اقدامات سے داعش نے ریڈ لائن کو پار کر دیا جب تک داعش نے امریکی نامہ نگار کی گردن پر تلوار نہیں چلائی تھی تب تک امریکہ کی حمایت اسے حاصل تھی لیکن اس نے اپنے اس اقدام سے ریڈ لائن کراس کر دی البغدادی کی طرف سے خلافت مسلمین کے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان حتی سعودی عرب کا بادشاہ ملک عبد اللہ بھی البغدادی کی بیعت کرے۔ یہ چیز سعودی عرب کسی قیمت پر تحمل نہیں کر سکتا لہذا وہ داعش کی مخالفت پر مجبور ہوا ہے۔
ادھر امریکی نامہ نگار کا سر قلم کرنے سے امریکہ کی عزت خاک میں پامال ہو گئی تھی اس لیے کہ امریکہ کے لوگ اسے یہ کہتے کہ تمہارے اندر اتنی بھی جرائت نہیں کہ تو اپنے ایک بے گناہ نامہ نگار کو داعش سے بچا سکے؟
ابنا: داعش کو وجود میں لانے کا اصلی مقصد صرف بشار الاسد کی حکومت کو سرنگوں کرنا تھا یا اس کا کوئی اور مقصد بھی تھا؟
شیخ الاسلام: داعش کو وجود میں لانے کا اصلی مقصد جہان اسلام میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانا تھا اور مسلمانوں کو کمزور بنانا تھا۔ خلافت کے نام پر حکومت کی فکر، جمہوریت اور لوگوں کے رائے کا مخالف نقطہ ہے بلکہ یوں کہوں کہ حقیقت میں خلافت کا پرچار ولایت فقیہ کے مقابلے میں کیا جا رہا ہے چونکہ ولایت فقیہ میں دینی جمہوریت پائی جاتی ہے، ولایت فقیہ کی بنیاد پر جمہوری نظام جو ایران میں بخوبی کامیاب ہوا اس کے مقابلے میں داعش نے اسلامی خلافت کا نظریہ دیگر مسلمانوں پر حاکم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ البتہ تمام اہل سنت داعش کے نظریے کی حمایت نہیں کرتے اس نظریے کے مخالفین میں سے ایک اخوان المسلمین ہیں جو ابھی بھی مرسی کو مصر کا حاکم سمجھتے ہیں چونکہ مرسی لوگوں کی آراء سے منتخب ہوئے تھے ۔
اہل سنت کے درمیان دو طرح کا طرز تفکر پایا جاتا ہے کہ ایک لوگوں کی آراء اور ان کے ووٹوں پر اعتقاد اور دوسرا بادشاہی اور شہنشاہی نظام پر اعتقاد کہ جس کے زیادہ تر حامی سلفی اور وہابی ہیں۔ اس نظریے کے ماننے والوں کے نزدیک کوئی بھی فاسق و فاجر، خلیفۃ المسلمین ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف خروج حرام ہوتا ہے۔
اور ایک بات یاد رہے کہ امریکہ اور عربی ممالک داعش کا اسی وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک داعش سے انہیں خطرہ محسوس ہو گا وہ داعش کو بالکل ختم کبھی بھی نہیں کریں گے بلکہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ انہوں نے اس پر خرچ کیا ہے محنت کی ہے۔ اسے شیعہ و سنی کے درمیان تفرقے کی غرض سے باقی رکھیں گے۔
اہلسنت کے درمیان سلف صالح سے کئی چیزیں مراد لی جاتی ہیں ایک وہی ہے جسے وہابیت کہا جاتا ہے اور دوسرے سلفی اخوان المسلمین ہیں جو لوگوں کے ووٹوں کا احترام کرتے ہیں لیکن جو پہلے قسم کے افراطی لوگ ہیں وہ صدر اسلام میں بھی موجود تھے اسی قسم کے لوگوں نے واقعہ کربلا کو بھی جنم دیا۔
یزید کے کاموں اور داعش کے کاموں میں کوئی فرق نہیں ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یزید نے سر قلم کر کے انہیں کوفہ و شام کی گلیوں میں پھیرایا اور داعش سر قلم کر کے انہیں انٹرنٹ کی گلیوں میں پھیراتے ہیں۔ دین دونوں کا ایک ہی ہے۔
ابنا: داعش کے تفکر کے بارے میں مزید وضاحت کریں
شیخ الاسلام: داعش وہ گروہ ہے جس نے وہابی طرز تفکر پر رشد پائی ہے وہ تفکر جس میں خلیفہ پر خروج حرام ہے چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو اور داعش کی درندگی اور وحشی گری تو حتی کسی بھی فرقے کے طرز تفکر سے میل نہیں کھاتی وہ صرف شیطانی تفکر کی انتہا ہے۔
اور یہ بے انصافی ہو گی کہ ہم داعش کو اہل سنت کے نظریات پر تولیں اس لیے کہ اس گروہ کے عناصر انسان ہی نہیں ہیں چہ جائے کہ وہ سنی ہوں۔
ابنا: آپ نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب داعش کو کنٹرول کرنے میں کوشاں ہیں۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی ہوائی حملوں کے باوجود داعش پھیل رہا ہے؟
شیخ الاسلام: داعش ایک ایسا موضوع ہے جس میں افراد پیش نظر نہیں ہیں بلکہ فکر مورد نظر ہے داعش ایک مکتب فکر ہے جس کی جڑیں وہابیت کے اندر پائی جاتی ہیں۔ کسی ایک تنظیم کو ختم کرنے سے وہ فکر ختم نہیں ہوتی بمباری کرنے اور ہوائی حملے کرنے سے کسی مکتب کی فکر کو ختم نہیں کیا جا سکتا کسی فکر کے ساتھ فکر کے ذریعے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے ہمیں مغربیوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ کے جمہوری ممالک میں داعش کی تربیت نہیں ہو رہی ہے؟ کیا فرانس میں وہابیوں کے مدرسے نہیں ہیں؟ کیا امریکہ میں وہابیوں کے مدرسے نہیں ہیں؟ کیا برطانیہ میں وہابی مدرسے نہیں ہیں؟ سعودی عرب اسلامی اور غیر اسلامی دنیا میں پیسہ خرچ کر رہا ہے پوری دنیا میں اس نے اپنے مدارس کھول رکھے ہیں۔ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں دنیا سے وہابی مدرسوں کو ختم کرنا ہو گا داعش کی فکر پر بمبارمنٹ کرنا ہو گی۔
ابنا: آپ عراق اور شام کے مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے کیا یہ فتنہ ختم ہو گا یا نہیں؟
شیخ الاسلام: عراق میں شیعہ نشین علاقوں پر داعش بالکل مسلط نہیں ہو پائے گا اس لیے کہ آیت اللہ سیستانی کی دعوت نے عراق کے لوگوں کو اس تکفیری گروہ کے مقابلے کے لیے منظم کر دیا ہے۔ لیکن سنی نشین علاقوں کے سلسلے میں دو نظریے ہیں یا یہ کہ سنی علاقوں میں بھی شیعہ جا کر لڑیں اور انہیں وہاں سے باہر کریں یا یہ کہ دور سے سنیوں کی مدد کریں اور اہل سنت خود داعش کا مقابلہ کریں ہماری نظر میں دوسرا نظریہ زیادہ معقول ہے اس لیے کہ خود اہل سنت بھی جانتے ہیں کہ داعش نے ایک ایک دن سینکڑوں اہل سنت کے جوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ہے عراق کے اہلسنت خود کافی مقدار میں داعش کا مقابلہ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
ترجمہ و تلخیص: جعفری
source : abna