ہمارے پاس اتنا وقت نہيں ہے كہ ہم شيعہ اور مسلمانوں كے انحطاط كے اسباب كى تحقيق كريں ليكن اجمالى طور پر يہ بات مسلّم ہے كہ اسلام كے احكام و عقائد مسلمانوں كے انحطاط و پستى كا باعث نہيں بنے ہيں بلكہ خارجى اسباب و علل نے دنيائے اسلام كو پستى ميں ڈھكيلا ہے ، يہ بات يقين كے ساتھ كہى جا سكتى ہے كہ آسمانى مذاہب ميں سے اسلام سے زيادہ كسى نے بھى ملت كى ترقى و عظمت اور اس كے اجتماعى امور كى تاكيد نہيں كى ہے - اسلام نے اپنے ماننے والوں كيلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہى عن المنكر كو لازمى قرار ديا ہے اور اجتماعى و سماجى اصلاحات ، عدل پرستى اور امر بالمعروف كو دين كے واجبات ميں شامل كيا ہے - امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كيلئے اتنا ہى كافى ہے كہ يہ سارے مسلمانوں پر واجب ہيں تا كہ ايك گروہ خود آمادہ كرے -
''تم ميں سے ايك گروہ كو ايسا ہونا چاہئے كہ جو خبركى دعوت دے ، نيكيوں كا حكم دے برائيوں سے منع كرے اور ايسے ہى لوگ نجات يافتہ ہيں ''- (1)
بلكہ ان دو فريضوں كو مسلمانوں كے افتخارات ميں شمار كرتا ہے اور فرماتا ہے :
'' تم دنيا ميں بہترين امت ہو كيونكہ تم امربالمعروف اور نہى عن المنكر كرتے ہو'' (2)
پيغمبر (ص) مسلمانوں كے امور كى اصلاح كى كوشش كو اسلام كا ركن اور مسلمان ہونے كى علامت قرارديتے ہوئے فرماتے ہيں :'' جو بھى دنيائے اسلام كى طرف سے بے پروائي كرے ، كوشش نہ كرے ، اہميت نہ دے ، وہ مسلمان نہيں ہے '' -
قرآن مجيد دشمنوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كو مسلح اور تيار رہنے كا حكم ديتا ہے : ''جہاں تك ہوسكے دشمنوں كے مقابلہ ميں خود كو مسلح و آمادہ كرو اور انھيں دہشت زدہ كرنے كيلئے جنگى توانائي كو مضبوط بناؤ'' (3)
اب ہم آپ ہى سے پوچھتے ہيں : ان آيتوں اور اس سلسلے ميں وارد ہونے والى سيكڑوں احاديث كے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے يہ كب كہا ہے كہ وہ دنيا كى علمى ترقى و صنعت سے آنكھيں بند ركھيں اور اسلام كيلئے جو خطرات ہيں انھيں اہميت نہ ديں اور ہاتھ پر ہاتھ ركھ كر اسلام اور مسلمانوں كى حمايت كيلئے ظہور امام مہدى (ع) كے منتظر رہيں؟ اور دنيائے اسلام پر ہونے والے حملوں كے سلسلے ميں خاموش رہيں اور ايك مختصر جملہ - '' اے اللہ: ظہور مہدى ميں تعجيل فرما'' كہكر ميدان چھوڑديں
ہم نے اپنى كتاب ميں يہ بات تحرير كى ہے كہ انتظار فرج بجائے خود كاميابى كا راز ہے - چنانچہ جب كسى قوم و ملت كے دل ميں چراغ اميد خاموش ہوجاتا ہے اور يأس و نااميدى كا ديواس كے خانہ دل ميں جايگزيں ہوجاتا ہے توہ كبھى كاميابى و سعادت كا منھ نہيں ديكھ سكتى ہے جو لوگ اپنى كاميابى كے انتظار ميں ہيں انھيں اپنے آخرى سانس تك كوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے راستہ ہموار كرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے كيلئے خود كو آمادہ كرنا چاہئے -
امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے كہ :
اس كے بعد آپ نے فرمايا:'' كوشش و جانفشانى سے كام لو اور كاميابى كے منتظر رہو ، اس معاشرہ كو كاميابى مبارك ہو جس پر خدا كى عنايات ہيں ''-(4)
اسلام نے مسلمانوں كى تيارى كو بہت اہميت دى ہے، اس كيلئے اتنا ہى كافى ہے كہ امام صادق نے فرمايا:'' ظہور قائم كے لئے تم خود كو تيار ركھو اگر چہ ايك تير ہى ذخيرہ كرنے كے برابر ہو '' - (5)
خدا نے مقرر كرديا كہ دنيا كے پراگندہ امور كى مسلمانوں كے ذريعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم كا جنازہ نكل جائے اور كفر و الحاد كى جڑيں كٹ جائيں ، پورى دنيا پر اسلام كا پرچم لہرائے كوئي سوجھ بوجھ ركھنے والا اس ميں شك نہيں كرستا كہ ايسا عالمى انقلاب مقدمات اور وسائل كى فراہمى كى بغير ممكن نہيں ہے -
قرآن مجيد نے بھى اس بات كى تصديق كى ہے كہ روئے زمين پرحكومت كيلئے شائستگى ضرورى ہے - خداوند عالم كا ارشاد ہے :'' ہم نے لكھديا ہے كہ زمين كے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے '' مذكورہ مطالب كے پيش نظر كيا يہ كہا جا سكتا ہے كہ جس انقلاب كا علم بردار مسلمانوں كو ہونا چاہئے وہ اس كے مقدمات و اسباب فراہم نہ كريں اور اس سلسلے ميں ان كى كوئي ذمہ دارى نہيں ہے ؟ ميں نہيں سمجھتا ہوں كہ كوئي عقلمند اس بات كو تسليم كرے گا -
حوالہ جات:
1- آل عمران / 104
2- آل عمران /110
3- انفال / 60
4- غيبت نعمانى ص 106-
5- بحار الانوار ج 52 ص 366-
منبع : شيعہ اسلام ڈاٹ کام
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
source : tebyan