نسا ن کی ایک ایسی سب سے بڑی اخلاقی کمزوری جو ناقابل علاج ھے وہ اپنے سے بے خبری ھے ۔زیادہ تر گمراھی و تباھی اسی بے خبری و جھالت کی وجہ سے ھوتی ھے اس لئے کہ بھت سے صفات اور نا پسندیدہ ملکات اسی بے خبری کی بنا ء پر مسکن دل میں بیٹھ جاتے ھیں اور انسان کی بد بختی کی بنیاد کو مضبوط کر دیتے ھیں ۔ اور جب انسان اپنے سے بیخبری کی بناء پرخود سے غافل ھو جاتا ھے ۔ تو اس کی روحانی فضیلت مر جاتی ھے ۔ اور وہ اپنے جذبات و خواھشات کا اسیر ھو کر جاودانی سعادت سے محروم ھو جاتا ھے اور جب انسان اس منزل پر پھونچ جاتا ھے تو پھر کسی بھی قسم کی اخلاقی ھدایت و نصیحت اس کے لئے بیکار ھو جاتی ھے ۔
اصلاح نفس کی سب سے بڑی شرط اپنے نفسانی عیوب کا ادراک کرنا ھے کیونکہ آگاہ و مطلع ھونے کے بعد نا پاکی اور رذائل کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا ھے ، اور بری صفتوں کے خطرناک نتائج سے نجات حاصل کی جا سکتی ھے ۔ تربیت نفس کے لئے نفسانی خصوصیات کے بارے میں غور و فکر کرنا بھت اھمیت رکھتا ھے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے کمال معنوی و اخلاقی تک صرف اسی راستہ سے پھونچ سکتا ھے اور یھی مطالعہ نفس انسان کو اس بات پر متمکن کر دیتا ھے کہ وہ نفس کے نقائص و کمالات کا ادراک کر سکے اور مختلف صفات کے انبوہ سے شیطانی صفات کو دور کر سکے اور نفس کے آئینہ کا اساسی تصفیہ کرکے اسے گناھوں کے گرد و غبار سے پاک کر سکے۔
اگر ھم نے اپنے اعمال کے آئینہ میں سھل انگاری کی بنا پر اپنی واقعی صورت کو نھیں دیکھا تو اس عدم توجہ کی بناء پر ھم نے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ھے جو معاف کئے جانے کے لائق نھیں ھے۔ سب سے پھلے ھمارا فریضہ ھوتا ھے کہ اپنے ذاتی خصوصیات کی تحقیق کریں اور نفسانی صفات کی نوعیت کو بر ملا دیکھیں تاکہ اپنے سے بے خبری کے عالم میں ھمارے اندر جن عیوب نے نشو ونما پائی ھے اور انھوں نے اپنی جڑوں کو مضبوط کر لیا ھے ان کو سعی مسلسل کے ذریعہ بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی زندگی میں ان کو سر نہ اٹھانے دیں،نہ یہ کہ ان کو بے لگام چھوڑ دیں تاکہ وہ ھم کو جس قعر مذلت میں چاھیں ڈھکیل دیں ۔
اس میں شک نھیں ھے کہ نفس کی اصلاح کوئی معمولی چیز نھیں ھے اور نہ آسانی کے ساتھ اس کا م کو انجام دیا جا سکتا ھے ، بلکہ اس کے لئے طویل مشقتوں کو بر داشت کرنے کی اور استقامت و پائداری کی ضرورت ھے ۔ بری عادتوں کو ختم کر کے ان کی جگہ اچھی اور نئی عادتوں کو متمکن کرنے کے لئے عیوب کی معرفت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے مضبوط و غیر متزلزل ارادہ کی بھی ضرورت ھے جو انسان کو مقصد تک پھونچا سکے ۔ ھم اپنے اعمال کو جس قدر منظم کریں گے ۔ھمارے افکار میں بھی اسی قدر نظم و ترتیب پیدا ھوتی جائے گی اور ھر قدم کا نفع بخش اثر انجام کار کے بعد روشن ھوجائے گا ۔
شکوفه
مشھور دانشمند پروفیسر کارل لکھتے ھیں : رفتار زندگی کو عاقلانہ بنانے کے لئے سب سے بھتر طریقہ یہ ھے کہ روزانہ صبح کو اس دن کے اعمال کے بارے میں غور و فکر کر کے ایک مکمل پروگرام بنا لیں ۔ اور ھر شب ان اعمال کے نتائج پر غور کر لیا کریں اور جس طرح ھم پھلے ھی سے سوچ لیتے ھیں کہ ھمارا کام کس وقت شروع ھو گا اور کس وقت ختم ھو گا اور ھم کو کن لوگوں سے ملاقات کرنی ھے ۔ آج کیا کھانا ھے کیا پینا ھے اور آج ھم کو کتنا نفع ملے گا اسی طرح ھم کو پھلے ھی سے یہ بھی طے کر لینا چاھئے کہ دوسروں کی کیا مدد کرنی ھے اور کس طرح سے کاموں میں اعتدال پیدا ھو سکے گا ۔
بری عادتیں بعینہ جسم کے میل کی طرح ھیں ، لھذا جس طرح جسم کے میل کچیل کو دھونا اور صاف کرنا ضروری ھے اسی طرح بری عادتوں کو دور کرنا بھی ضروری ھے ۔ بعض لوگوں کی عادت ھوتی ھے کہ سونے سے پھلے اور بیدار ھونے کے بعد معمولی کسرت کرتے ھیں ۔ تاکہ عضلات میں نرمی پیدا ھوجائے ۔ اسی طرح اس سے کم اھمیت اس بات کی نھیں ھے کہ روزانہ تھوڑی دیر اپنے اخلاق و افکار و ارواح کی بھی تربیت کریں کیونکہ روزانہ یہ سوچنے سے کہ کون سا طریقھٴ کار اختیار کریں اور کیا کریں جس سے رفتار زندگی متوازن رھے ھم میں یہ قدرت پیدا ھو جائے گی کہ اپنی عقلوںاور اپنے ارادوں کو تقویت عطا کر سکیں ۔ اور اس ترتیب سے عمل کرنے پر ھمارے شعور کی گھرائی میں ایک مخفی آئینہ پیدا ھو جائے گا جس میں ھر شخص اپنے چھرے کو بے نقاب دیکہ سکے گا ۔ ھمارے اصول زندگی برتنے کی توفیق مکمل طریقہ سے ھماری باطنی زندگی سے مرتبط ھے ۔ اس لئے جس طرح ھوشیار تاجر آمدنی و خرچ کا رجسٹر رکھتا ھے اور دانشمند اپنے تجربات کی کتاب کے اوراق کو منظم رکھتا ھے اسی طرح ھم میں سے ھر فرد کے لئے ضروری ھے ۔ خواہ وہ فقیر ھو یا مالدار ھو ، جوان ھو یا بوڑھا ، عالم ھو یا جاھل ۔ کہ روزانہ کی اچھائیوں اور برائیوں کو منضبط رکھے ۔ اب اگر کسی نے بڑے صبر و ثبات کے ساتھ اس روش کو اپنا لیا تو اس کی روح میں ھی نھیں بلکہ جسم میں بھی تغیر پیدا ھو جائے گا ۔
ایک متین و معقول شخص اپنی طاقتوں اور کوششوں کو ھمیشہ شائستہ چیزوں میں صرف کرتا ھے ۔ جس کی شخصیت جتنی محترم ھوتی ھے وہ دوسروں کی شخصیت کا بھی اسی قدر احترام کرتا ھے اور وہ ان تمام چیزوں سے پرھیز کرتا ھے جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس لگتی ھو ۔ کیونکہ ھر انسان کا تعارف اس کے روزانہ کے ان افعال سے ھوتا ھے جو وہ اپنے معاشرے میں دوسروں کے ساتھ برتتا ھے ایک بزرگ سے پوچھا گیا : سب سے مشکل چیز کیا ھے اور سب سے آسان کام کیا ھے ؟ اس نے جواب دیا سب سے مشکل چیز یہ ھے کہ انسان اپنے کو پھچان لے اور سب سے آسان کا م یہ ھے کہ دوسروں کی عیب جوئی کرے ۔
source : tebyan