اردو
Sunday 28th of April 2024
0
نفر 0

امام علی(ع) اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل

اس حقیقت سے انکار نھیں کیا جا سکتا ھے کہ ان مسلمانوں کا درخشاں دور ختم ھوگیا۔ کل یورپ کے گھٹتے ھوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی
امام علی(ع) اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل

س حقیقت سے انکار نھیں کیا جا سکتا ھے کہ ان مسلمانوں کا درخشاں دور ختم ھوگیا۔ کل یورپ کے گھٹتے ھوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی کو دور کرنے کے لئے دیئے کے محتاج ھیں۔ کل جنھوں نے اپنے کرشماتی ذھنوں کو بروئے کار لاکر مغربی ممالک کو نور کی لھروں سے نھلا دیا تھا۔ آج وھی اپنے سماج کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لئے انھیں ممالک کے محتاج ھیں۔ایک زمانہ تھا جب اھل یورپ جھل و ظلمت بھرے معاشروں میں حیران و سرگرداں تھے اور مسلمانوں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھتے تھے، وہ مسلمانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے جو ان کی درسگاھوں کی زینت بنتی لیکن آج مسلم معاشرے کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بدحالی اور معاشی استحصال کو فراموش نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اغیار کی طرف سے سیاسی اور فوجی یلغار کو نظر انداز کیا جاسکتا ھے۔ بقول علاّمہ اقبالدیروز مسلم از شرف علم سر بلندامروز پشت مسلم و اسلامیاں خم استاب سوال یہ ھے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ھوا؟ اس کا علاج کیوں کر ممکن ھے؟اس لئے کہ جو ھوا سو ھوا، اس کی وجہ ھماری غفلت رھی ھو یا اسلام سے دوری رھی ھو یا آپسی اختلافات لیکن اب اس کا علاج کیا ھے؟ آج کل کے دور میں جو حالات ھیں وہ بھت ھی سنگین صورت حال اختیار کر چکے ھیں۔ آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای آج کل کے حالات کا تقابل حضرت علی (ع) کی حکومت سے کرتے ھوئے فرماتے ھیں: آج کے دور کے حالات وھی ھیں جو حضرت علی (ع) کے دور میں موجود تھے ھم موجودہ دور میں آپ کی نظر سے دنیا کی حقیقت اور سماج کی واقعیت کو دیکھتے ھوئے بے شمار مسائل کا حل کر سکتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ میں سمجھتا ھوں اس زمانے میں ھم ھر وقت سے زیادہ نھج البلاغہ کے محتاج ھیں۔ (1)حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی اس فرمائش کو مدنظر رکھتے ھوئے کوشش کی گئی ھے کہ مسلمانوں کو درپیش بنیادی مسائل کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے اور پھر نھج البلاغہ اور سیرت امیر الموٴمنین (ع) کی روشنی میں ان مسائل کا قابل قبول حل پیش کیا جاسکے جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ھیں۔مسلمانوں کے موجودہ مسائل(1) تعلیمی پس ماندگی اور جھالتیہ ایک ناقابل انکار حقیقت ھے کہ قوموں کے عروج و زوال میں جو چیز کلیدی حیثیت کی حامل ھے وہ ان کی تعلیم ھے۔ اور ھمارا مشاھدہ یہ بتاتا ھے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھائے ھیں اس نے اپنی تعلیم کی روشنی میں ترقی کی منزلوں کو بھی یکے بعد دیگرے طے کیا ھے اور جو قوم جھالت کا شکار رھی ھے وہ ھمیشہ ماندہ رھی ھے، تعلیم کی کس قدر اھمیت ھے؟ اور تعلیم قوموں کے لئے کون سا سرمایہ حیات ھے؟ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں اس لئے کہ خود قرآن مجید کی بے شمار آیات اس کے والا مقام کا پتہ دے رھی ھیں، تعلیم کی اھمیت اور اس کی افادیت کو جس قدر مکتب اسلام نے بیان کیا ھے شاید ھی کوئی ایسا دین ھو جس نے تعلیم کے سلسلے میں اس قدر تاکید کی ھو(2) لیکن افسوس جس قدر تعلیم کی تاکید اسلام کے اندر ھے اسی قدر مسلمان تعلیم سے بیگانہ ھیں۔(2)فقر و ناداریتعلیمی پسماندگی اور جھالت کے علاوہ دوسرا مسلمانوں کا سب سے اھم مسئلہ فقر و ناداری ھے۔ یہ ایک ایسا مرض ھے جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رھا ھے اور اگر جلد اس کا علاج نھیں کیا گیا تو اس کے نتائج بھت ھی زیادہ سنگین ھونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماھرین کا خیال ھے کہ جس معاشرہ کی اکثریت ھو وہ معاشرہ کبھی ترقی نھیں کرسکتا۔ (3)(3) اختلاف و افتراقکسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ھوسکتا ھے کہ ایک طرف تو وہ جھالت اور غربت و افلاس سے جوجہ رھی ھو اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ھو، وہ چیز جس نے آج مسلمانوں کو بالکل بے بس بنا دیا ھے وہ آپس کا اختلاف ھے، سچ ھے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ھے: ”اگر تمھارے اندر اختلاف رھا تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ھوجائے گی اور تم کسی قابل نہ رھو گے۔“ (4) مگر آج ھمارا حال یہ ھے کہ ھم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ھوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ھے کہ ھمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سیک رھا ھے اور ھمیں دکھا دکھا کر کھا رھا ھے اور ھم فقر و ناداری میں میں تڑپ رھے ھیں اور یہ نھیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ھورھا ھے۔ بقول سید جمال الدین اسدآبادی: ”اسلامی ممالک کو جو مرض لاحق ھے اس کی تشخیص کے لئے میں نے بھت فکر کی اور بھت سوچا آخر انجام میں نے پایا کہ مھلک ترین مرض تفرقہ ھے لیکن گویا مسلمانوں نے تنھا اس سلسلہ میں اتحاد کیا ھے کہ متحد نہ ھوں۔“( 5)امام خمینیۺ اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ھیں: ”تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ھے چاھے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ھو۔ “(6)(4)قرآنی تعلیمات سے دوریقرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ھی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ انھیںخود بھی نھیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ھے چنانچہ امام خمینیۺ مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ھے۔“ (7)(5) بدعتوں کا رواجمسلم معاشرہ آج جن انگنت مسائل سے دوچار ھے ان میں ایک اھم مسئلہ یہ ھے کہ بدعتوں کو ھم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ھے گویا ھمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ھی نھیں ھوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، جو ھمارے لئے مشعل راہ ھو بلکہ جو کچھ ھے وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ھیں جنھیں ھمارا تقلیدی ذھن ھمیں انجام دینے پر اکساتا ھے اور ھم دین سے بے خبر بنا ساچے سمجھے انھیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رھے ھیں چنانچہ شھید مطھری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرھٴ پیمبر (ص) میں تحریف ھے۔ “(8)لیکن ھمارا حال یہ ھے کہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ھوتا ھے جو ھمیں اچھا لگتا ھو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ھیں حتیٰ دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نھیں کرتے اور بے جا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رھتے ھیں کہ یہ چیز تو پھلے سے ھی اسلام میں موجود تھی کوئی نئی چیز نھیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ھے۔( 9)ان تمام مسائل کو دیکھنے کے بعد ھر احساس رکھنے والا انسان جو ایسے سماج اور معاشرہ سے تعلق رکھتا ھے کہ جس کے اندر لاتعداد ایسے مسائل ھیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک رھے ھیں لیکن ان کا کوئی حل کھیں نظر نھیں آرھا، حیران و سرگرداں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ھے کہ کل کیا ھوگا؟ اور ھمارا یہ معاشرہ اور سماج یوں افسردہ و ساکت ھے جیسے فرشتھٴ موت کے گھرے گھرے سانسوں نے اسے کھر آلود بنا دیا ھو، کسی جنگ کے دیوتا نے بڑہ کر اپنی خونخوار انگلیوں سے اس کی نبض تھام لی ھو، دور دور تک سناٹا چھایا ھوا ھے! ظلمت و تاریکی کے امنڈتے ھوئے بادل ماحول کو خوفناک بنانے پر تلے ھیں ساتھ ھی ظلم و استبداد کی آندھیاں گو کہ ھر شیٴ کو متلاشی کر دینے کے در پئے ھیں ایسے میں کھیں کوئی ٹمٹماتا دیا بھی تو نھیں جس کی روشنی میں اپنی منزل کا پتہ لگایا جاسکے لیکن اسی تاریکی و ظلمت کے مھیب سناٹے میں ایک آواز ھے جو بار بار ھمیں اپنی طرف متوجہ کررھی ھے گوکہ کوئی چراغ تاریخ اور زمانے کے دبیز پردوں کے پیچھے سے ھماری حالت دیکھ رھا ھو اور اپنے نور سے ھمیں ھدایت کا راستہ دکھانا چاھتا ھو۔۔۔۔“ میں تمھارے درمیان اس چراغ کی مانند ھوں کہ تاریکی میں بھی اگر کوئی اس سے قریب ھوتا ھے تو اس کے نور سے استفادہ کرتا ھے اے لوگو! میری باتوں کو سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو کھول کر سامنے لاوٴ تاکہ سمجہ سکو۔ )10(“ یہ آواز کسی اور کی نھیں بلکہ اس چراغ ھدایت کی ھے کہ ظلمتوں نے مل کر جس کا گلا گھوٹنا چاھا لیکن ناکام رھیں لیکن افسوس کا مقام اس وقت ھوگا جب اس چراغ ھدایت سے ھم کچھ حاصل نہ کرسکیں تو آئیے چلتے ھیں در باب العلم پر اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ھیں۔ھمارے مسائل کا حل1۔ تحصیل علمیھی وہ راہ ھے جس پر عمل پیرا ھوکر ھم اپنی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرسکتے ھیںاور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتے ھیں حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:العلم اصل کل خیر (11) علم ھر اچھائی کی بنیاد ھےاکتسبوا العلم یکسبکم الحیات (12) تم علم حاصل کرو علم تمھیں زندگی عطا کرے گاایھا الناس اعلموا انّ کمال الدین طلب العلم و العمل بہ (13) اے لوگو! جان لو کہ دین کا کمال یہ ھے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائےالحکمة ضالة الموٴمن فخذ الحکمة و لو من اھل النفاق (14) حکمت مومن کی گمشدہ چیز ھے پس حکمت کو لے لو چاھے اھل نفاق سے ھی کیوں نہ ھو۔اور خود حضرت علی (ع) کی سیرت یہ رھی ھے کہ آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی۔ بقول ابن ابی الحدید: ”علوم کے سارے سرچشمہ آپ ھی کی ذات پر منتھی ھوتے ھیں۔“ (15) آپ تعلیم و تعلم کے اس قدر شیدا تھے کہ تاریخی کتب میں ملتا ھے کہ میدان جنگ میں بھی اگر کوئی سپاھی آپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اسے فوراً جواب دیتے اور اس کے فکری شبھات کا ازالہ کرتے(16) حتی اگر ایک ھی سوال آپ سے کئی بار بھی ھوتا تو بھی آپ جواب دینے میں کوئی تامل نھیں کرتے اور جس حالت میں ھوتے اسی حالت میں جواب دیتے چنانچہ جنگ جمل میں ایک سپاھی نے آپ سے خدا کی وحدانیت کے بارے میں سوال کیا تو لشکریوں نے اسے ٹوکا اور کھا یہ کون سی سوال کرنے کی جگہ ھے؟ تو امام نے جواب دیا: ”دعوہ فانّ الّذی یریدہ الا عرابی ھو الّذی نریدہ من القوم“(17)”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی“ یہ وہ جملہ ھے جسے تاریخ کبھی بھلا نھیں پائے گی، آپ کی نظر میں تعلیم کس قدر اھمیت ھے اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ھے۔(الف) اے لوگو! ایک حق میرا تمھارے اوپر ھے اور ایک حق تمھارا میرے اوپر ھے۔ تمھارا حق جو میرے اوپر ھے وہ یہ کہ میں تمھیں نصیحت کروں اور تمھاری معیشت کو نظم بخشوں اور تمھیں تعلیم دوں تاکہ تم جاھل نہ رہ جاوٴ (19)ان روایات سے بخوبی اس بات کا اندازہ ھوجاتا ھے کہ علی کی زندگی میں تعلیم اولین درجہ کی اھمیت رکھتی ھے نیز یہ بات بھی ثابت ھو جاتی ھے کہ حاکم کا جس طرح اپنی رعیت پر حق ھوتا ھے اسی طرح رعیت کا حاکم پر بھی حق ھوتا ھے، جس میں ایک تعلیم ھے، علم کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ رھی ھو کہ ایک عالم انسان کا علم اسے افراط و تفریط کا شکار ھونے سے روکتا ھے کیونکہ افراط و تفریط دو ایسی آفات ھیں جو دین کو اس کی اصلی راہ سے ھٹاکر دین کی نابودی کا باعث بنتی ھیں اور افراط و تفریط وھیں ھوتی ھے جھاں جھل ھوتا ھے لاتری الجاھل الّا مفرطاً اٴو مفرّطا (20)تعلیم کے لئے سب سے مفید وقتنہ صرف یہ کہ مولائے کائنات (ع) نے تعلیم کی افادیت کے پیش نظر اپنے حکیمانہ اقوال سے بنی نوع بشر کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا ھے بلکہ بتایا ھے کہ تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اچھا وقت کون سا ھوسکتا ھے چنانچہ آپ فرماتے ھیں: ”جوان کا دل ایک خالی زم


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

باغ فدک کے تعجبات
پیغمبراسلام (ص) آخری نبی
امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر تعزیت ...
سیدہ سلام اللہ علیھا کی والدہ افضل النساء ہیں
امام مہدی(عج) کے حضورمیں شرفیابی کا امکان اور ...
دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کا انقلاب آفریں خطبہ
علم, فرمودات باب العلم حضرت علی{ع}
اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...

 
user comment