پچیس محرم الحرام فرزندرسول حضرت امام سجاد زین العابدین علی بن الحسین علیہماالسلام کا یوم شہادت ہے ۔
تیرہ سوپینتیس سال قبل سن پچانوے ہجری قمری کوامام زین العابدین علیہ السلام شہید ہوئے ۔ آپ سن اڑتیس ہجری قمری کومدینہ منورہ میں اس دنیامیں تشریف لائے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے میدان کربلا میں اپنے پدربزرگوارسیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی اوران کی شہادت کے بعد پیغام کربلاکوعام کرنے اورسیدالشہداء کے مشن کوآگے بڑھانے کی سنگین ذمہ داری سنبھالی اورامام حسین علیہ السلام کی لافانی تحریک کے مقاصدکوبیان کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری بہت ہی جامع طریقے سے اداکی ۔ امام سجادعلیہ السلام نے اسی طرح قرآنی و اسلامی تعلیمات ومعارف اوراسلامی تہذیب وتمدن کی بنیاد ڈالنے میں بہت زیادہ کوشش کی اوراپنی خاص تدبیر ودوراندیشی کے ذریعہ مسلم دانشوروں کی تربیت فرمائی تاکہ اس طرح قرآن وسنت محفوظ رہ جائے عالم اسلام اورپوری انسانیت کے لئے امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک اوراہم کارنامہ دعاکی شکل میں گرانقدراورجاودانی مطالب کا بیان کرنا ہے اورآپ کی دعاؤں کا مجموعہ آج قرآن کریم اورنہج البلاغہ کے بعد اسلامی تعلیم ومعارف کے بعد کتاب کی شکل ميں سب سے گرانبہاخزانہ ہے اس عظیم مجموعہ کانام صحیفہ سجادیہ ہے جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ریڈیوتہران کی اردوسروس کا عملہ اپنے قارئین کی خدمت میں بیمار کربلا امام زین العابدین کے یوم شہادت پر تعزیت پیش کرتا ہے ۔آج کی مناسبت سے پوری دنیامیں اہل بیت اطہار کے شیدائی بیمار کربلا کاغم منارہے ہيں اوراسی سلسلے میں پاکستان وہندوستان میں بھی تمام چھوٹے بڑے شہروں اورقصبوں میں بیمار کربلاکا غم منایا جارہا ہے.
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کےاخلاق و اوصاف
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں : ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین (ع)کے سامنےآپ کی برائی کی آپ نے اس کی بات پر توجہ نہ دی اس نے مخاطب کرکے کہا،میں آپ کوکہہ رہاہوں، حضرت نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ \" جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو\" پرعمل کررہاہوں۔
مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرتامام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزندرسول اکرم (ص) تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونالازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرابھلاکہا، آپ نے فرمایابھائی میں نے توتیراکچھ نہیں بگاڑا،اگرکوئی حاجت رکھتاہے توبتاتاکہ میں پوری کروں ،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا(مطالب السؤل ص ۲۶۷) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نے ایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے (نورالابصار ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۶) ۔
علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہاتھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایاافسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص ۳۰۴) ۔
جب کوئی سائل آپ کے پاس آتاتھا توخوش ومسرورہوجاتے تھے اورفرماتے تھے خداتیرابھلاکرے کہ تومیرازادراہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔
امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ
کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجوہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔
اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت سے تعبیرکہاہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹ ،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں جن میں میرے نزدیک ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت
حضرت امام زین العابدین اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص ۱۲۸ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴ ، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔
ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹ ، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی۔
source : http://abna.ir/