- انسان کے يقين و اعتقاد ميں معرفت امام کا کردار
انسان کے يقين و اعتقاد اور روش و سيرت ميں امام (ع) کي معرفت کے متعدد اثرات ہيں؛ اور اس تاثير و کردار کي کئي دلائل ہيں:
الف- بےشمار احاديث کے مطابق، اللہ کي صحيح و مکمل معرفت امام کي معرفت کے بغير ممکن نہيں ہے: امام حسين (ع) سے پوچھا گيا کہ اللہ کي معرفت کيا ہے؟ تو آپ (ع) نے فرمايا:
{مَعْرِفَةُ أَهْلِ کُلِّ زَمانٍ إمَامَهُمُ الّذي يجِبُ عَلَيْهِمْ طاعتُهُ}- (2)
"يہ کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے اس امام کي معرفت حاصل کريں جس کي اطاعت ان پر واجب ہے"-
علامہ مجلسي (رح) فرماتے ہيں: "شايد "معرفت اللہ" کو "معرفت امام" سے تفسير کرنے سے مراد يہ نکتہ ہو کہ خدا کي معرفت امام کي معرفت کے بغير ممکن نہيں ہے يا يہ کہ خدا کي معرفت سے فائدہ اٹھانا معرفت امام سے مشروط ہے"- (3)
ب- معرفت کے کمال کا ايک سبب خدا کي اطاعت ہے يعني عارف شخص جس قدر ميدان عمل ميں رہے گا اور اس کي عبادت و اطاعت جس قدر بڑھتي رہے گي، اس کي معرفت بھي وسيع تر اور عميق تر ہوگي اور وہ زيادہ سے زيادہ غيبي امداد حاصل کرتا رہے گا- امام کي شناخت بھي ايسي ہي ہے-
جس قدر اس معرفت ميں اضافہ ہوگا عبادت و اطاعت الہيہ کے اشتياق ميں اتنا ہي اضافہ ہوگا، حتي کہ تمام غير الہي رجحانات انسان کے اندر بےاثر ہوجاتے ہيں؛ اسي بنا پر خدا کي اطاعت و عبادت ـ اس کي کيفيت ـ صرف اسي وقت انجام پذير ہوتي ہے کہ اس کا پروگرام اور حکمت عملي امام سے وصول ہو- معرفت کاملہ کا يہ درجہ ـ جو خود بھي مراتب و مدارج کا حامل ہے ـ معرفت امام کے بغير حاصل کرنا ممکن نہيں ہے-
ج) معرفت الہي کا سب سے بڑا فائدہ اور اثر، انسان کے اعمال ميں ظاہر ہوتا ہے اور جس قدر انسان اللہ کي اطاعت کا پابند ہوگا اور اللہ کي تعليمات کي جس قدر پيروي و فرمانبرداري کرے گا؛ اس کي معرفت کي سطح کا تعين اسي حساب سے ممکن ہوگا اور اس معرفت کا کامل ترين مظہر خليفۃاللہ اور امام کي اطاعت ہے جو معرفت الہي کے مرہون منت ہے- البتہ معرفت بذات خود بھي ايک قسم کي اطاعت الہي ہے- (ختم شد)
--------------------------------
2- بحارالانوار، ج 5، ص 312-
3- وہي ماخذ-
source : tebyan