اردو
Friday 3rd of May 2024
0
نفر 0

آل سعود کا حج سے وہابیت کی تبلیغ کا ناجائز فائدہ

جمعے کے دن شام کے وقت مکہ میں شدید طوفان کی وجہ سے ایک کرین مسجد الحرام کے اندر گر گئی جس کی وجہ سے زائرین میں سے ۱۰۷ افراد مارے گئے اور ۲۳۸ زخمی ہوئے ۔
آل سعود کا حج سے وہابیت کی تبلیغ کا ناجائز فائدہ

۔  جمعے کے دن شام کے وقت مکہ میں شدید طوفان کی وجہ سے ایک کرین مسجد الحرام کے اندر گر گئی جس کی وجہ سے زائرین میں سے ۱۰۷ افراد مارے گئے اور ۲۳۸ زخمی ہوئے ۔

گذشتہ دنوں کے دوران اسلامی ملکوں کے ذرائع ابلاغ میں اس حادثے کے بارے میں خبروں اور تحلیلوں کا ایک انبار لگا ہوا ہے ،لیکن قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سب کے سب ذرائع ابلاغ  سعودی حکام کے اس خونی  حادثے میں قصور وار ہونے پر متفق القول  ہیں ۔

بعض ذرائع ابلاغ نے سعودیوں نے جو خانہء خدا کے اطراف میں جنجال بر انگیز تعمیری کام شروع کر رکھا ہے اس پر تنقید کی ہے ،اور سعودیہ نے جو بیت اللہ کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا ہے اس کو شہر مکہ اور خانہء خدا کی سنتی بافت کے لیے تباہ کن بتایا ہے ۔

بعض نے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ تعمیراتی سازو سامان جو خانہء خدا کے اطراف میں ہے وہ سعودی شاہزادوں کی ملکیت ہے کہ جنہوں نے سال ۲۰۰۶ سے اب تک اربوں ڈالر اپنی جیبوں میں بھر لیے ہیں ،چانچہ اس سازو سامان کو وہاں سے ہٹانے میں بے توجہی برتنے کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا ہے ۔

اسی سلسلے میں شرق الاوسط نام کی پانورامہ سایت نے رپورٹ دی ہے کہ مسجد الحرام کے اندر جو کرین گری ہے وہ ولی عہد کے جانشین اور سعودی بادشاہ کے بیٹے محمد بن سلمان کی تعمیراتی کمپنی کی ملکیت ہے کہ جو آجکل یمن کے عوام کے قتل عام میں ملوث ہونے کی وجہ سے اخباروں کی سرخیوں پر چھایا ہوا ہے ۔

اسی دوران بعض نے حج کے انتظامات کے سلسلے میں گذشتہ تین دہائیں میں سعودیوں کی ناقص کاردگی پر تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ سعودی حج کے انتظامات کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ان ذرائع نے اس سلسلے میں کچھ حوادث کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے ۱۹۷۸ میں سعودی سیکیوریٹی دستوں کے ہاتھوں ۲۷۵ افراد کی شہادت اور ۴۰۲ کا زخمی ہو نا ،۱۹۹۰ میں مسجد الحرام کی طرف جانے والی سرنگ میں بھیڑ کی وجہ سے ۱۴۲۶ حاجیوں کا مارا جانا ، ۱۹۹۴ میں بھیڑ کی وجہ سے جمرات کے پل پر ۲۷۰ افراد کی موت ، ۱۹۹۷ میں منی میں خیموں میں آگ لگ جانے کی وجہ ے ۳۴۰ افراد کی موت اور ۱۵۰۰ کا زخمی ہونا ،۱۹۹۸ میں کنکریاں مارتے وقت اژدہام کی وجہ سے ۱۸۰ افراد کا مارا جانا ، ۲۰۰۴ میں رمی جمرات ہی کے موقعے پر ۲۵۱ افراد کی موت اور ۲۴۴ کا زخمی ہونا ،اور مکہ میں ہوٹل کے گرنے سے ۷۶ آدمیوں کا مارا جانا ،اور اسی طرح اسی سال رمی جمرات کے موقعے پر ۳۶۳ افراد کی موت حج کے موسم میں ان خونی حوادث کے بعض نمونے ہیں ۔

سال ۱۹۷۸ سے اب تک مکہ اور مدینے میں ۳۲۸۸ سے زیادہ حاجی مذکورہ بالا حوادث کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ان حادثات میں ۲۳۸۴ افراد زخمی ہوئے ہیں ،کہ دنیا میں کہیں بھی ہر سال منعقد ہونے والے پروگراموں میں اتنی تعداد میں لوگوں کے مارے جانے کی مثال نہیں ملتی  ۔

حج کے زمانے میں حاجیوں کی موت کے یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ایسی حالت میں ہیں کہ جب سعودی حکام کی حکومت کا ایک ستون ان کا خادم حرمین شریفین ہونا ہے ،اور حج کے پروگراموں کے مذہبی ٹورازم سے وہ سالانہ کئی ارب ڈالر کمانے کے علاوہ سر زمین حجاز کی اس جیوکلچرل پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسلامی قوموں کے سربراہوں کے درمیان اپنے لیے اعتبار کسب کرتے ہیں اور یہاں تک کہ خود کو جہان اسلام کا رہبر مانتے ہیں ۔

ایسے حالات میں سعودی عرب حج کے انہی پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان وہابی فرقے کی تبلیغ کرتے ہیں اور حج کے زمانے میں وہابی علماء کو اس علاقے میں بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ مسلمانوں میں سے کچھ افراد کو وہابیت کی طرف مایل کر سکیں ۔

حج کے پروگراموں سے سعودی عرب نے ہر طرح کا فائدہ اٹھانے کے باوجود عملی طور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح ان پروگراموں کو کہ جو امت اسلامی کے اتحاد اور سب سے بڑے انسانی اجتماع کا مظہر ہیں منعقد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،جب کہ دنیا کے اکثر مقامات پر ہر سال اتنے حجم والے پروگرام منعقد ہوتے ہیں لیکن بہت کم دیکھا گیا ہے کہ حکام کی نا اہلی اور لاپرواہی کی وجہ سے ان لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے کہ  جودنیا کے دور دراز کے علاقوں سے بڑی زحمتیں اٹھا کر حج کے اعمال انجام دینے کے لیے جاتے ہیں ۔

سعودیوں نے حج کے اعمال سے صرف اتنا سیکھا ہے کہ اگر کوئی وہابی مسلک کے خلاف کوئی کام انجام دے تو اسے وہاں کے شرطے یعنی عقیدتی پولیس گرفتار کر لے یا حج کا جو امتیاز اس کو حاصل ہے اس سے دوسرے ملکوں کے خلاف فائدہ اٹھائے اور شام اور یمن کے حاجیوں کو حج کرنے کی اجازت نہ دے ۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  حج میں سعودیوں کی مدیریت کے پیش نظر ایک طرف وہ مشرکین سے برائت کا پروگرام منعقد نہیں ہونے دیتے کہ جو حج کی سیاسی اور اجتماعی پہچان ہے اس لیے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے روابط مضبوط ہیں تو دوسری طرف حاجیوں کی جان کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے سے بھی عاجز ہیں ۔

جو کچھ کہا گیا اس کے پیش نظر اسلامی ملکوں کے تمام حکام کو چاہیے کہ سعودی حکام پر دباو ڈالیں کہ وہ حج کے پروگراموں کی مدیریت کو تبدیل کرے اور یہاں تک کہ دوسرے  اسلامی ملکوں کو بھی اس میں شریک ہونے کی اجازت دے  کہ اس مسئلے میں ملک کی ثقافتی ڈیپلومیسی کی رائے جاننے کی ضرورت ہے ،اور دوسری طرف بطور خاص ہمارے ملک کی حج و زیارت کی تنظیم کو اس طرف زیادہ دھیان دینا چاہیے کہ حج ایرانی حاجیوں کی قتلگاہ میں تبدیل نہ ہو ۔ 


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیلیفورنیا میں ایک کلیسا کی مسجد میں تبدیلی
مسلمانوں کوبھائی چارے اوراسلامی اخوت کاپیغام
واشنگٹن میں محنت کشوں کے ٹرمپ مخالف مظاہرے
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی برادری سے روہنگیا ...
اسلام اور انسانی حقوق
19سالہ ملالہ یوسف زئی اقوام متحدہ کی امن کی سفیر ...
رہبر انقلاب اسلامی: ٹرمپ کی سرنوشت امریکہ کے سابق ...
تکریت میں اجتماعی قبر دریافت، 89 لاشیں برآمد
پاكستان ؛ اسلامی خوشنويسی كی نمائش كا انعقاد
تیونس ميں اسلام پسند جماعتوں کي انتخابي برتري

 
user comment