انسان نے جب سے اس سرزمین پر قدم رکھا اب تک اسے چین وسکون، صلح وآشتی اور سب سے بڑھ کرعزت وشرف، وقار ومنزلت اوراپنے حقیقی مقام کی تلاش ہے، جو اس کی فطرت کا تقاضی بھی ہے ۔ کیونکہ پروردگار نے اسے شرافت وکرامت کے لائق ایک محترم مخلوق بنایا ہے ۔
” ولقد کرمّنا بنی آدم وحَملنٰہم فی البرّ والبحر ورزقنہم من الطیبٰت وفضّلنٰہم علی کثیر ممّن خلقنا تفضیلاً (سورہ اسراء، آیت۰۷۔)
اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اورانہیں خشکی اوردریاوں میں سواریوں پراٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اورنہیں مخلوقات میں بہت سوں پر فضیلت دی ہے ۔
”فاذا سویتُہ ونفختُ فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین“(سورہ حجر آیت۹۲۔)
پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں توسب کے سب سجدہ میں گرپڑنا۔
اسی شرافت کی طرف اشارہ ہیں ” ونفختُ فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین“ مگر آج تک کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ دن اس دنیا نے دیکھا اورانسان کو اس کی دلی مراد نصیب ہوئی، دکھ، سکھ سے بدلا، ظلم وزیادتی ، عدل وانصاف سے اورناامنی صلح وآشتی سے بدل گئی، کسی مکتبہ فکر یانظام حکومت نے اس کا صحیح مقام عنایت کیا اور اسے شرافت وکرامت نصیب ہوگئی بلکہ اس کے برخلاف تاریخ جیسے، جیسے آگے بڑھی ناانصافی، ناقدری، نابرابری، ناامنی، غارتگری، انسانی اقدار کی پائیمالی، جنسی واخلاقی انحرافات اورتہذیب وتمدن کے نام پر بے راہ روی اوربڑھتی گئی اورآج کے ترقی یافتہ متمدن دور میں انسانی حقوق کے نام پر بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے بلکل اسی طرح انسانوں کا استحصال واستثمار کررہے ہیں جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا استحصال ہوتا تھا۔ نہ انسانوں کو کل حقیقی چین وسکون ملا نہ آج اسے اس کا واقعی مقام مل سکا اورعقل بھی اسے تسلیم نہیں کرتی کہ یہ کاروان انسانیت یونہی ہمیشہ ظلم وستم کا نشانہ بنتا رہے اورکچھ لوگ قوت وطاقت مال وزر کے بل بوتے پر اسی طرح انسانوں کا خون چوستے رہیں اورانہیں نجات دینے کے لئے کوئی فریادرس، ہمدرد مسیحا موجود نہ ہو یہاں تک کہ انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں ، بچے یتیم ہوتے رہیں اوربیوائیں راہ تکتی رہیں مگر کوئی نجات دھندہ دور، دور تک دیکھائی بھی نہ پڑے۔
دوسری طرف قرآن نے وعدہ کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کا دین سارے عالم پرغالب ہوکر رہے گا اوراسلام کے فرامین ایک نہ ایک دن سارے انسانوں کی عزت وسربلندی کے ضامن ہوں گے ۔
”ہوالذّی ارسل رسولہ باالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلّہ ولوکرہ المشرکون“ (سورہ توبہ ، آیت۳۳)
وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔
لیکن یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ، اورچونکہ وعدہ خدا نے دیا ہے اس لئے اس کے پورا ہونے میں کسی مسلم ومومن کو کوئی شک وشبہ بھی نہیں اس لئے کوئی دن یہ وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔
اس کے علاوہ پرودگار نے قرآن میں جابجا ، مظلوموں ، درد کے مارے ہوئے دنیا کے دبے کچلے انسانوں اور مستضعفین عالم کو ڈھارس دی ہے کہ ایک دن مظلوموں کا دن پلٹے گا۔ظالمین اپنے کیفر کردار کو پہنچیں گے اور ساری گیتی پر خدا کے نیک وصالح بندے حکمرانی کریںگے۔
”ولقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر انّ الارض یرثہا عبادی الصالحون“ (سورہ انبیاء،آیت۵۰۱)
اورہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوںگے ۔ اور یقینا قرآن کے اس وعدہ کو بھی پورا ہونا ہے جس سے انکار ممکن نہیں اسی بنیاد پر خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہنے اپنی وفات سے پہلے دین کی بقاءوحفاظت کا انتظام کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ غدیر خم میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کی جانشینی کے لئے مسلمانوں سے بیعت لی ، جسے متفقہ طور پر فریقین ( شیعہ وسنی ) نے نقل کیا ہے اور بارہا اپنے بعد آنے والے بارہ (۱۲) افراد کی نیابت و جانشینی کی خبر سنائی ۔ یہاں تک کہ فرداً فرداً ہرایک کا نام لے کر تعارف کرایا اور فرمایا :” من بعدی اثنی عشر خلیفہ“ میرے بعد [ اس امت کے ] بارہ (۱۲) خلیفہ ہوں گے ۔ جس کا اعتراف علماءاہل سنت کو بھی ہے، بلکہ ان کا عقیدہ بھی ہے ۔
بلاشک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کایہ طرز عمل دین اسلام کی جامعیت کے لئے لازم اورفطری تھا جس کی ضرورت کا اندازہ ہر عقلمند لگا سکتا ہے اس لئے کہ خدا کے وعدوں کا بھرم آنحضرت کے ارشاد کے مطابق مہدی موعود (عج) کی آمد پر ہی موقوف ہے ۔ مختصر یہ کہ دنیا کے بگڑتے حالات بڑھتی ہوئی بے سروسامانی ، چین وسکون کا چھین جانا، اشتراکی حکومتوں کا زوال اورنظام سرمایہ داری کا روز بروز بڑھتا ہوا اضمحلال اور اس کی ناتوانی ، اسلام کی افاقیت کا قرآن میں صریحی اعلان اورصالحین کی
حکومت کا الہی وعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا یہ فرمان کہ ” میری نسل (فاطمہ علیہا السلام) سے ایک شخص ظہور کرے گا جو ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو، عدل وانصاب سے بھر دے گا“یہ سب کچھ وہ عقلی، تاریخی، قرآنی اور حدیثی مستحکم شواہد ہیں جو حضرت مہدی (عج) کے وجود وظہور کو ناقابل انکار بنادیتے ہیں ، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مہدی (عج) کا وجود قرآنی ہونے کے ساتھ عقلی اورتاریخی مسلّمات میں سے ہے جس کا انکار حقیقت سے چشم پوشی کے علاوہ کچھ اورنہیں۔
اب ذرا عقلی ومنطقی، تاریخی حقایق اور قرآن وسنت کی فضاءسے باہر آئیں اورایک نظر ان روایات پر ڈالتے ہیں جس میں حضرت مہدی (عج) کی ذات گرامی، ان کی حکومت وعدالت کے امیدافزا تذکر ملتے ہیں ۔
دنیا کو ہے اس مہدی (ع) برحق کی ضرورت ہوجس کی نگہ زلزلہ عالم افکار (اقبال ، ضرب کلیم ، ص۴)
source : tebyan