یہ وہ سب تھے جو بنی ہاشم کے علاوہ تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اُن کو بلایا نہ تھا، سوائے ایک حبیب ابن مظاہر کے، باقی لوگ سب ساتھ ہوگئے تھے، یہ سمجھ کر کہ یہ سفر وہی ہے جس کے بعد آپ مدینہ نہ آئیں گے۔ یہ سمجھ کر ساتھ ہوئے تھے کہ حسین مرنے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہم ان سے پہلے مریں گے۔ حبیب ابن مظاہر کو تو جو خط آپ نے لکھا تھا، اس کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو آہی رہے تھے مگر جنابِ زینب کو فرمائش ہوگئی تھی اور حسین اپنی بہن کا دل رکھنا چاہتے تھے بیٹھے تھے بہن بھائی۔ جنابِ زینب نے عرض کیا: بھیا! چاروں طرف سے فوجیں آرہی ہیں۔ آپ بھی تو اپنے دوستوں میں سے کسی کو لکھ دیجئے کہ وہ آپ کی مدد کیلئے آجائیں تو امام حسین نے فرمایا: اچھا بہن!یعنی آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ بہن کا دل ذرا بھی دُکھے۔
بیٹھ کر خط لکھا اور خط میں لکھتے ہیں:
اللہ اکبر۔ آپ لکھتے ہیں، ہم چاروں طرف سے گھرے جا رہے ہیں۔ حبیب! اگر ہو سکے تو آجاؤ۔ جنابِ زینب سے کہا کہ بہن تمہاری خاطر میں نے خط لکھ دیا ہے تو عرض کرتی ہیں: بھیا! ذرا سنا تو دیجئے۔ امام حسین نے سنایا تو عرض کیا: بھیا! ایک فقرہ میری طرف سے بھی لکھ دیجئے۔ فرمایا، کیا؟
کہا: "حبیب! اگر آنا ہے تو جلدی سے آجاؤ"۔
بھیج دیا ایک شخص کو۔ اُدھر حبیب کی حالت یہ ہے کہ ایک دن پہلے مہندی خریدنے گئے ہیں بازار میں۔ مسلم ابن عوسجہ ملے۔ آپس میں دعا و سلام ہوا تو حبیب نے کہا: بھائی مسلم! یہ کوفے میں کیا ہورہا ہے؟ تلواروں پر صیقل کسے جارہے ہیں۔ نیزوں کی انیاں زہروں میں بجھائی جارہی ہیں۔ یہ کس بڑی لڑائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے؟ تو مسلم ابن عوسجہ نے کہا: حبیب! اتنے غافل بیٹھے ہو، تمہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ کس سے لڑنے کا سامان ہے؟یہ میرے اور تمہارے مولا حسین کے قتل کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ حبیب نے کہا: اچھا! وقت آگیا۔ کہا، بالکل قریب آگیا وہ وقت۔
حبیب نے جو مہندی خریدی تھی، وہ پھینک دی کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب میری داڑھی میرے خون سے خضاب کی جائے گی۔گھر چلے آئے۔ متفکر اور پریشان دوسرے دن دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مرتبہ دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا کون ہے؟ اُس نے کہا: امام حسین کا قاصد ہوں، یہ خط دیا ہے۔ خط ہاتھ میں لے کر آنکھوں سے لگایا، بوسے دئیے۔ تھوڑی دیر تک کھڑے ہوئے روتے رہے۔ اس کے بعد وہاں سے خط کو بند کرکے آنسو پوچھ کر گھر میں آئے، بیٹھ گئے بالکل خاموش! بی بی نے کہا کہ کس کا خط ہے؟ حسین فاطمہ زہرا کے فرزند کا۔ زوجہ نے پوچھا کہ کیا لکھا ہے؟ کہا کہ بلایا ہے۔ کہا ، کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ میں سوچ رہا ہوں۔ اُس موٴمنہ نے ناراض ہوکر کہا: حبیب بوڑھے ہوگئے، اب بھی زندگی سے محبت!! فاطمہ کا بیٹابلائے اور تم سوچو۔ اگر تم نہیں جاتے ہو تو یہ میری چادر تم اوڑھ لو۔ میں جاؤں گی۔ یہ سن کر خوش ہوگئے حبیب اور کہنے لگے: مصلحت کی بناء پر میں نے یہ بات کہی تھی۔ میں بڑا خوش ہوں کہ تمہاری عقیدت یہ ہے۔
بہرحال حبیب نکلے، راستوں کو کاٹتے ہوئے کربلا میں پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ جب تھوڑی دُور رہ گئے حبیب تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایاجنابِ علی اکبر سے: اے میرے بیٹے!
جناب علی اکبر ، جنابِ قاسم ، تمام شہزادے استقبال کیلئے آگے بڑھے۔ حبیب نے جب شہزادوں کو دیکھا تو گھوڑے سے کود پڑے۔ اُن کے ہاتھ چومتے ہوئے آگے آئے۔ امام حسین کے قریب بڑھے تو اصحاب نے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔اس نعرئہ تکبیر کی آواز خیموں میں پہنچی۔ جنابِ زینب نے فضہ سے کہا: ذرا دیکھنا کہ نعرئہ تکبیر کیوں بلند ہوا؟ فضہ آئیں، پوچھا، واپس گئیں اور کہا: آقا زادی! حبیب آگئے۔ جنابِ زینب نے کہا:
فضہ حبیب بھائی کو میرا سلام پہنچادو اور کہہ دو کہ حبیب بھائی! آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ فضہ نے آ کہ کہا کہ حبیب! آقازادی سلام کہہ رہی ہیں۔ حبیب نے جب یہ سنا تو اپنے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئیے کہ میں اور اِس قابل کہ فاطمہ زہرا کی بیٹی مجھے سلام کہیں۔
بہرحال یہ ایک واقعہ تھا کہ امام حسین نے اُن کو بلایا تھا۔ ویسے یہ خود تیار بیٹھے تھے۔ باقی لوگوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو یہ سن کر کہ امام حسین مدینہ کی طرف نہیں جارہے، مکہ سے خود گھروں سے نکل پڑے تھے۔ بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ بچوں کو رخصت کرکے چلے تھے، اپنی بیویوں سے یہ کہہ کر چلے کہ اب نہ آئیں گے۔ مولا کی خدمت میں پہنچ رہے ہیں۔ رسول اللہ کی خدمت میں جائیں گے تو سرخروہوکر جائیں گے۔
کبھی آپ نے یہ سنا کہ کسی صحابی نے یہ کہا ہوکہ پیاسا ہوں؟ ایک دوسرے کے ساتھ جب ملتے تھے تو آپس میں یہی باتیں کرتے تھے کہ دیکھو! حسین کے پاس جانا تو ہنستے ہوئے جانا، ان کو ہماری تکلیف کا احساس نہ ہونے پائے۔
عاشور کی رات ایک وقت امام حسین علیہ السلام گئے ہیں جنابِ زینب کے خیمے میں۔ جنابِ زینب اُس وقت رورہی تھیں۔ پوچھتی ہیں: بھیا! یہ جو آپ کے ساتھی ہیں، ان پر آپ کو بھروسہ تو ہے؟ اس رات اصحاب خیموں کے گرد پہرہ دے رہے تھے۔ اس طرف اُس وقت بُریر تھے۔ یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑ گئی۔ ایک مرتبہ گھبراگئے۔ بلند آواز میں آواز دی کہ اے اصحابِ حسین ! ذرا اِدھر آؤ۔ فاطمہ کی بیٹی کو ہم پر اعتبار نہیں، ذرا جاکر اطمینان دلا دو۔ اُس وقت انہوں نے تلواروں کی میانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا اور سب نے یک زبان ہوکر کہا:فاطمہ کی بیٹی!یہ تلواریں جب تک ہمارے ہاتھوں میں ہیں، آپ کے بھائی حسین کو کوئی زخم نہیں آسکے گا۔ جنابِ زینب نے دعائیں دیں(کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہیں زینب دعائیں دیں)۔
صبح کا وقت جو ہوا (اللہ اکبر)۔ نہ کسی کو اپنی اولاد کی فکر ہے نہ ماں باپ یاد ہیں، نہ بہن بھائیوں کا خیال ہے، نہ کسی کو اپنا گھر یاد ہے۔ اگر یاد ہے تو حسین کا نام اور اگر کوئی چیز سامنے ہے تو حسین کی تصویر!
ایک آواز آتی ہے:
مولا ! میرا آخری سلام قبول کریں۔ میں دنیا سے جارہا ہوں۔ حسین آتے ہیں، اصحاب عرض کرتے ہیں کہ آپ ٹھہر جائیں، ہم لے آتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، نہیں! میرے بھائیو! اُس نے مجھے بلایا ہے، خاموش۔ جو حکم امام ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا، ذرا تم ٹھہر جاؤ، مجھے جانے دو، میری لاش پہلے آجائے۔ میں پہلے جان دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ آپ ٹھہریں، مجھے جانے دیں۔ جوان کہتے ہیں کہ لڑنے کا زمانہ ہمارا ہے، آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، آپ ٹھہرئیے۔ بوڑھے کہتے ہیں: تمہارے رہنے کے دن ہیں، ہمارے مرنے کے دن ہیں تو ہمیں پہلے جانے دو۔ مولا اجازت دیجئے،ہم آپ کے دشمنوں سے جہاد کریں گے۔ ہر ایک کو ایک خوشی اور وہ یہ کہ آج دنیا سے جانے والے ہیں۔
جب بھی اصحاب کا ذکر آتا ہے ، مجھے یہ واقعہ ضرور یاد آتا ہے۔ ایک تھے بنی شاکر کے سردار، عابس اُن کا نام تہجد گزار، پیشانی پر سجدوں کا نشان، جب یہ مقابلہ کیلئے آئے تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ عرب کا مشہور بہادر بنی شاکر کا شہسوار عابس ہے۔ کوئی شخص تنہا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس آواز کے بعد تیر آنے شروع ہوئے جو قریب تھے۔ انہوں نے پتھر پھینکے۔ عابس مسکرائے اور مسکرانے کے بعد سر سے لوہے کا خول اُتارا، زرہ اُتاری اور غلام جو ساتھ تھا، اُسے دے کر کہا : لے جاؤ، میں نے تم کو بخشا، لے جاؤ انہیں۔ غلام نے کہا: میرے آقا! یہ کیا کررہے ہیں؟ یہ میدانِ جنگ ہے۔ آپ نے فرمایا: سمجھتا ہوں کہ میدانِ جنگ ہے۔ غلام نے پوچھا کہ پھر یہ کیوں اُتار دیں؟ فرماتے ہیں: اگر یہ رہ جائیں گی تو مرنے میں دیر ہوجائے گی۔
مرنے میں دیر ہوجائے گی اللہ اکبر۔ موت کا اس طرح سے شوق کہیں آپ نے سنا ہے۔ عورتیں اپنے بچوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی ہیں۔ آپ ایک لاش لائے ہیں اور اسے لٹادیاجہاں اور لاشیں لٹائی تھیں۔ آپ کو جو اُن کی وفائیں اور خدمتیں یاد آئیں تو کھڑے ہوکر رونے لگے۔ آنکھوں پر رومال رکھے رو رہے ہیں۔ اُن کی اطاعت گزاریوں اور وفاداریوں کو یاد کرکے کہ ایک خیمے کا پردہ اُٹھا۔دس یا گیارہ برس کا بچہ نکلا، چھوٹا سا عمامہ سر پر بندھا ہوا ہے۔ ایک تلوار کمر میں بندھی ہوئی ہے۔ بچے کا قد چھوٹا، تلوار لمبی، زمین پر خط دیتے ہوئے چلی آرہی ہے۔ بچے نے اِدھر اُدھر کچھ نہ دیکھا، سیدھا امام کے پاس پہنچا اور پاؤں پر گر پڑا۔ امام حسین متوجہ ہوئے، جھک کر بچے کو اُٹھایا، سینے سے لگایا، بیٹا! تم کیسے نکل آئے، دیکھو یہ تیر آ رہے ہیں۔ وہ بچہ کہتا ہے کہ میرے آقا! مجھے مرنے کی اجازت دیجئے۔ میں آپ کے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلا ہوں۔
آپ نے فرمایا: تیری یہ عمر جنگ کی نہیں ہے۔ تو خیمے میں چلا جا۔ اُس نے کہا: مولا ! اب خیمے میں نہیں جاؤں گا۔ اب خیمے میں جائے گی تو میری لاش جائے گی۔ آپ نے فرمایا: تو کس کا بیٹا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تو وہ بچہ کہتا ہے کہ یہی تو میرے باپ کی لاش ہے جس پر آپ کھڑے ہوئے رو رہے ہیں۔ امام حسین نے اس بچے کو پیارکیا اور فرماتے ہیں:
بیٹا! تو اپنی ماں کے پاس چلا جا۔ تیری ماں کیلئے تیرے باپ کی جدائی کا غم کافی ہے۔ تو اُسے اپنی جدائی کا غم نہ دے۔ یہ جو سننا تھا تو وہ کہتا ہے: مولا ! یہ عمامہ میری ماں نے اپنے ہاتھ سے باندھا ہے۔ یہ تلوار بھی میری ماں نے میری کمر سے باندھی ہے ۔ ایک مرتبہ خیمے سے آواز آئی، میرے آقا! میرے بچے کو اجازت دے دیں تاکہ میں زینب کے سامنے سرخرو ہوجاؤں۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
source : tebyan