سيد عبد الوھاب طالقاني ،علوم قرآن ،ص 83 پر لکھتے ہيں کہ
" قرآن کريم خود پيغمبر اکرم (صل اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے زمانہ ميں اور آنحضرت (صل اللہ عليہ و آلہ وسلم) کي الہي روشني ميں تدوين پايا، ہر چند خود رسول خدا (صل اللہ عليہ و آلہ وسلم) نے خود قرآن تحريرنہيں کيا اورخود آيتوں کي جمع آوري نہيں فرمائي- "
علامہ طباطبائي آيہ شريفہ:" انّا نَحنُ نَزَّلنا الذِکرَ و انّا لہُ لحافظون"[7] کے ذيل ميں فرماتے ہيں : جو خصوصيتيں قرآن کے ليئے ذکر ہوئي ہيں مثلا فصاحت و بلاغت ،اختلاف کا نہ ہونا ،لوگوں کا اس کے مثل لانے سے عاجز ہونا، يہ سب ہي قرآن ميں موجود ہے جو ہمارے ہاتھوں ميں ہے - اس سے انہوں نے يہ نتيجہ نکالا ہے کہ يہ قرآن وہي قرآن ہے جو صدر اسلام ميں خود رسول خدا(صل اللہ عليہ و آلہ وسلم) کے زمانہ ميں پہنچانا جاتا تھا - ( علامہ طباطبائي ، الميزان ، ج12 ، ص104 و ص 106 وص 138 -)
متفق عليہ اور مشہور حديث موسوم بہ ” حديث ثقلين“ ميں جناب ختمي مرتبت (ص) اپني رحلت کے موقع پر فرمايا: ميں تمھارے درميان دو گراں بہا چيز يں چھوڑ کر جا رہا ہوں،ايک کتاب خدا اور دوسري ميري عترت ، بہر حال پيغمبر ختمي مرتبت (ص) کا يہ فرمانا کہ ميں تمھارے درميان قرآن چھوڑ کر جا رہا ہوں کم از کم مسلم ہے -
رحلت پيغمبر اکرم (ص) کے وقت اگر کتاب خد امرتب نہ ہوتي يا پراگندہ ہوتي يا چند لوگوں کے سينوں ميں ہي محدود ہوتي تو خدا کے سچے نبي کا يہ فرمانا کہ ميں تمھارے درميان کتاب خدا چھوڑ کر جارہا ہوں معاذ اللہ غلط اور بے معني ہو جاتا ہے-
اس کے علاوہ روايات کہ جن ميں آنحضرت (ص) کي حيات کے بعد قرآن کے جمع کئے جانے کا ذکر ہے وہ خود متضاد اور ايک دوسرے سے متصادم ہيں اس تضاد کا اندازہ صحيح بخاري کي مندرجہ ذيل روايات سے بخوبي لگا يا جا سکتا ہے-
source : tebyan