گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ھوگئی كہ عظیم مصلح كا انتظار ایك فطری تقاضہ ھے اور انسان دیرینہ آرزو كی تكمیل ھے۔ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ھے بلكہ اسلام كے تمام فرقے اس میں برابر كے شریك ھیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں وہ "تواتر" كی حد تك پہونچی ھوئی ھیں۔ 1
ھاں وہ حضرات جن كی معلومات كا دائرہ محدود ھے اور ھر بات كو مادیت اور اقتصادیات كی عینك لگا كر دیكھنا چاھتے ھیں، یہ حضرات ضرور یہ بات كہہ سكتے ھیں كہ یہ ایك اسلامی عقیدہ نہیں ھے، یا یہ طرز فكر ایك شكست خوردہ ذھنیت كا نتیجہ ھے۔
ایك بات باقی رہ جاتی ھے۔ وہ یہ كہ اگر قبول بھی كرلیا جائے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے اور خالص اسلام كے انداز فكر كا نتیجہ ھے مگر اس عقیدے كا فائدہ كیا ھے، عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی بسر كرنے سے انسان كی زندگی پر كیا اثرات رونما ھوتے ھیں۔۔؟ انسان كے طرز فكر میں كون سی تبدیلی واقع ھوتی ھے۔؟
یہ عقیدہ انسان كو ایك ذمہ دار شخص بناتا ھے یا لا اُبالی؟
یہ عقیدہ انسان میں ایك جوش پیدا كرتا ھے یا اس كے احساسات پر مایوسی كی اوس ڈال دیتا ھے۔؟
انسانی زندگی كو ایك نیا ساز عطا كرتا ھے یا اس كی زندگی كو بے كیف بنا دیتا ھے۔؟
یہ عقیدہ انسان كو ایك ایسی قوت عطا كرتا ھے جس سے وہ مشكلات كا ڈٹ كر مقابلہ كر سكے یا انسان كو ضعیف و كمزور بنا دیتا ھے۔؟
یہ بات بھی توجہ كے قابل ھے كہ ذوق اور سلیقے كے مختلف ھونے كی بنا پر ھوسكتا ھے كہ ایك ھی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ كئے جائیں۔ ایك آدمی ایسے نتائج برآمد كرلے جو واقعاً مفید اور كار آمد ھوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ كرے جو بے كار اور مضر ھوں۔ ایٹمی توانائی كو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال كرسكتا ھے جو حیات انسانی كے لئے مفید اور ضروری ھیں اور اسی ایٹمی توانائی كو انسانیت كی ھلاكت كے لئے بھی استعمال كرسكتا ھے بلكہ كررھا ھے۔
ھی حال ان رواتیوں كا ھے جو انتظار كے سلسلے میں وارد ھوئی ھیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ كئے ھیں جس كی بنا پر اعتراضات كی ایك دیوار قائم ھوگئی۔
انتظار كے اثرات بیان كرنے سے پہلے قارئین كی خدمت میں چند روایتیں پیش كرتے ھیں جن سے انتظار كی اھمیت كا اندازہ ھوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات كو اساس و بنیاد قرار دیتے ھوئے فلسفۂ انتظار كے بارے میں كچھ عرض كریں گے۔ ان روایات كا ذرا غور سے مطالعہ كیجئے تاكہ آئندہ مطالب آسان ھوجائیں۔
1) ایك شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال كیا۔ وہ شخص جو ائمہ كی ولایت كا قائل ھے اور حكومت حق كا انتظار كر رھا ھے ایسے شخص كا مرتبہ اور مقام كیا ھے۔؟
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ھے: "ھو بمنزلۃ من كان مع القائم فی فسطاطہ۔" ( وہ اس شخص كے مانند ھے جو امام كے ساتھ اس ان كے خیمے میں ھو)۔
امام نے تھوڑی دیر سكوت كے بعد پھرمایا:۔ "ھو كمن كان مع رسول اللہ"۔ وہ اس شخص كے مانند ھے جو رسول اللہ كے ھمراہ (جنگ میں) شریك رھا ھو۔ 2
اسی مضمون كی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ھوئی ھیں۔
2) بعض روایات میں ھے: "بمنزلۃ الضارب بسیفہ فی سبیل اللہ۔" اس شخص كے ھم رتبہ ھے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رھا ھو۔ 3
3) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ھے: :كمن قارع معہ بسیفہ۔" 4 اس شخص كے مانند ھے جو رسول خدا (ص) كے ھمراہ دشمن كے سرپر تلوار لگا رھا ھو۔
4) بعض میں یہ جملہ ملتا ھے: "بمنزلۃ من كان قاعداً تحت لوائہ۔" اس شخص كے مانند ھے جو حضرت مھدی علیہ السلام كے پرچم تلے ھو۔ 5
6) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ھے:۔ "بمنزلۃ مجاھدین بین یدی رسول اللہ۔" اس شخص كے مانند ھے جو پیغمبر اسلام (ص) كے سامنے راہ خدا میں جہاد كر رھا ھو۔ 6
7) بعض دوسری روایتوں میں ھے:۔ "بمنزلۃ من استشھد مع رسول اللہ" اس شخص كے مانند ھے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے ھمراہ درجۂ شھادت پر فائز ھوا ھو۔ 7
ان روایتوں میں جو سات قسم كی تشبیہات كی گئی ھیں ان میں غور وفكر كرنے سے انتظار كی اھمیت كا باقاعدہ انداز ھوجاتا ھے اور یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے كہ انتظار اور جہاد میں كس قدر ربط ھے۔ انتظار اور شھادت میں كتنا گہرا تعلق ھے۔
بعض دوسری روایتوں میں ملتا ھے كہ "انتظار كرنا بہت بڑی عبادت ھے۔" اس مضمون كی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ھوئی ھیں۔ جیسا كہ پیغمبر اسلام (ص) كی ایك حدیث كے الفاظ ھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللہ عزوجل"۔ 8
ایك دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ھے: "افضل العبادة انتظار الفرج۔" 9
یہ تمام روایتیں اس بات كی گواہ ھیں كہ انتظار اور جھاد میں كتنا گہرا لگاؤ ھے۔ اس لگاؤ اور تعلق كا فلسفہ كیا ھے،اس كے لئے ذرا صبر سے كام لیں۔
حوالہ جات:
1. تفصیلی بحث كے لئے ملاحظہ ھو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص231۔ 236
2. بحار الانوار ج 52 ص125 طبع جدید
3. بحار الانوار ج 52 ص 126
4. بحار الانوار جلد 52 ص 126
5. بحار الانوار ج 52 ص 142 طبع جدید
6. بحار الانوار ج 52 ص 122
7. بحار الانوار ج 52 ص 142
8. بحار الانوار ج52 ص128
9. بحار الانوار ج52 ص125
source : tebyan