ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی حکم دے یا نصیحت کرے کہ لوگ نیک اخلاق کے حامل بنیں، راہ خدا میں ایثار و صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں، ظلم نہ کریں اور عدل و انصاف کے قیام میں معاون ہوں۔ یہ حکم دینا، نصیحت کرنا اور تعلیم دینا ہوا۔ یہ بڑا اچھا کام ہے اور خود رسول اکرم (ص)بھی تعلیم فرماتے تھے۔ ""یعلمھم"" سے واضح ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو معرفت و زندگی کا درس دیتے تھے لیکن دوسرا طریقہ اس سے بھی بالاتر ہے یعنی خود معلم اپنے عمل اور کردار کے ذریعہ معاشرہ میں اسلامی فرائض و اخلاق کا رنگ پیدا کردیتا ہے، لوگوں کے غلط عقیدوں کا مقابلہ کرتا ہے، جاہلانہ احساسات اور غیر اسلامی اخلاق و صفات کے خلاف قیام کرتا ہے اور زینہ بزینہ مناسب شیوں کے ذریعہ وہ کارنامہ انجام دیتا ہے کہ معاشرہ کی فضا اور زندگی ان اخلاق و صفات کے ساتھ ممزوج ہوجاتی ہے۔ معاشرہ کی ترقی اور صحیح اسلامی اخلاق کے نفاذ کے لئے یہی شیوہ درکار ہے۔ شاید قرآن کی بعض آیتوں میں ""یزکیہم"" کا جملہ ""یعلمہم"" سے پہلے یا اس کے بعد آنے کا فلسفہ بھی یہی ہے اور ""تزکیہ"" سے مراد لوگوں کو پاک و طاہر بنانا ہے؛ ٹھیک اس طبیب کی طرح جو اپنے مریض کو صرف کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنے کی ہی ہدایت نہیں دیتا بلکہ اس کے علاوہ اسے ایک خاص مقام پر رکھ کر اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور جو چیزیں اس کے لئے مضر ہیں انہیں اس سے دور رکھتا ہے۔
حضور اکرم (ص) نے 23 برس پر مشتمل اپنے زمانہ نبوت میں اور بالخصوص اس دور میں یہی شیوہ اختیار کئے رکھا جو مدینہ کی زندگی، اسلامی حاکمیت اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا دور تھا۔
source : tebyan