ہمارے لئے ضروري ہے کہ ہم امام زمانہ(عج) کا ذکر کريں، اور ان کے ذکر کو اس طرح کريں کہ اس سے ہماري تربيت ہو، مرحوم علامہ مجلسي (ره) ؛ نے امام مہدي (عج) کے بارے ميں ايک حديث نقل کي ہے
متن حديث :
اذا قام القائم حکم بالعد ل و ارتفع في ايامہ ا لجور و امنت بہ السبل و اخرجت الارض برکاتہا و ردکل حق الي اہلہ و لم يبق اہل دين حتي يظہر الاسلام و يعترفوا بالايمان
ترجمہ :
جب حضرت حجت (عج) ظہور فرمائيں گے تو وہ عدالت کے ساتھ اس طرح حکومت کريں گے کہ کوي کسي پرظلم نہي کر سکے گا، ان کے وجود بابرکت کي وجہ سے تمام راستے پر امن ہوں گے ، زمين لوگوں کے فايدہ کے لے اپني برکتوں کو ظاہر کر دے گي، ہر کام کو اس کے اھل کے سپرد کر ديا جائگا ، اسلام کے علاوہ کوي دوسرا دين باقي نہيں رہيگا اور تمام افراد اسلام کي طرف ملتفت ہو جائيں گے-
حديث کي شرح :
اس حديث ميں حضرت کے بارے ميں سات نکتے بيان ہوئے ہيں :
1. عادلانہ حکومت
2. ظلم و جور کا خاتمہ: ” اذا قام القائم حکم بالعدل ارتفع في ايامہ الجور “ لفظ ” عدل “کے مقابلہ ميں لفظ ”ظلم“ آتا ہے جور نہيں، اور لفظ ”جور“ لفظ ”قسط“ کے مقابلہ ميں استعمال ہوتا ہے - عدل اور قسط کے درميان يہ فرق پايا جاتا ہے ”عدالت“ يعني کسي دوسرے کا حق نہ چھينا جائے اور ”قسط “يعني لوگوں کے بيچ ميں کسي قسم کي تبعيض (بھيد بھاۆ) نہ رکھي جائے - بس اپنے نفع کے لئے کسي کے حق کو چھيننا ”ظلم“ ہے اور کسي کا حق دوسرے کو دے دينا ”جور“ ہے - مثال کے طور پر اگر ميں زيد سے اس کا مکان اپنے استعمال کے لئے چھين لوں تو يہ” ظلم“ ہے اور اگر زيد کاگھر اس سے چھين کر کسي دوسرے کو دے دوں تو يہ”جور“ ہے اس سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ يہ ہے کہ اگر ميں زيد کا مکان اس سے اپنے استعمال کے لئے نہ چھينوں تويہ ”عدل “ ہوگا اور اس سے چھين کر کسي دوسرے کو نہ دوں تو يہ” قسط“ کہلائے گا - بس اس طرح قسط عدم تبعيض و عدل عدم ظلم ہے -
3. راستوں کا پر امن ہونا : ”و امنت بہ السبل “ ان کے ذريعہ تمام راستے پر امن بن جائيں گے -
4. شکوفائي طبيعت: ” و اخرجت الارض برکاتہا“ زمين اپني برکتوں کو ظاہر کردے گي چاہے وہ برکتيں کھيتي باڑي سے متعلق ہوں يا معدنيات سے يا پھر دوسري طاقتوں سے جو اب تک ہم سے چھپي ہوئي ہيں-
5. ہر کام اس کے اہل کے سپرد کرديا جائے گا : ”ورد کل حق اليٰ اہلہ “ تمام کاموں کو ان کے اہل افراد کے سپرد کرديا جائےگا ہمارے زمانہ کے برخلاف ، کہ آج بہت سے کام نا اہلوں کے ہاتھوں ميں ہيںکيونکہ تعلقات قانون پر غالب آگئے ہيں -
6. حاکميت دين اسلام: ”ولم بيق اہل دين حتيٰ يظہر الاسلام “ اسلام کے علاوہ کوئي دين باقي نہيں رہے گا اور تمام اديان ايک دين ميں بدل جائيں گے اور وہ دين دين اسلام ہوگا -
7. اسلام سے قلبي لگاۆ بڑھ جائيگا: ”و يعترفوابالايمان“اس کے دو معني ہو سکتے ہيں يا تو اس طرف اشارہ ہے کہ تمام افراد مکتب اہل بيت کے تابع ہو جائيں گے يا پھر يہ کہ جس طرح ظاہر ميں ايماندار ہوں گے اسي طرح باطن ميں بھي مومن ہوں گے -
اسلام اور ايمان کافرق روايات ميں بيان ہوا ہے کچھ روايات کہتي ہيں اسلام يہ ہے کہ اگر ايک شخص اس کا اظہار کرے تو اس کي جان محفوظ ہے اور اس کا ذبيحہ حلال ہے -اور ايمان وہ چيز ہے جو روز قيامت نجات کا ذريعہ ہے- کچھ روايتوں ميں ملتا ہے کہ اسلام مسجدالحرام کي مثل اور ايمان کعبہ کي مانند ہے يہ بھي احتمال پايا جاتا ہے کہ يہ عبارت اس آيت کي طرف اشارہ کررہي ہو جس ميں فرمايا گيا ہے کہ قالت الاعراب آمنا
حضرت جن اہم کاموں کو انجام دين گے روايت کي رو سے ان کا خلاصہ ان چار نکتوں ميں ہوسکتا ہے :
1. اصلاح عقائد: ”ما عليٰ ظہر الارض بيت حجر و مدر الا ادخل اللہ کلمة الاسلام “ يعني زمين پر غريبوں اور اميروں کے تمام کچے پکے مکانوں ميں ”لا الٰہ الا اللہ “ کي آواز گونجے گي اور شرک کا خاتمہ ہو جائے گا-
2. تکامل عقل: يعني علمي و عقلي بيداري پيدا ہو جائے گي اس بارے ميں مرحوم علامہ مجلسي؛ اس طرح کہتے ہيں ”اذاقام قائمنا و ضع يدہ عليٰ رۆس العباد فجمع بہا عقولہم وکملت بہا احلامہم“ شايد ان کا نظريہ يہ ہو کہ لوگ ان کي تربيت کے تحت آجائيں گے اور اس طرح ان کي عقل و فکر کامل ہو جائے گي -
3. عدل و انصاف: بہت سي روايات ميں بيان ہوا ہے کہ” يملا الارض عدلا و قسطا کما ملئت ظلما و جورا“يعني زمين عدل و انصاف سے اسي طرح بھر جائے گي جس طرح ظلم و جور سے بھري ہوگي -
4. اصلاح اخلاق : يعني اسلامي اقدار کو زندہ اور فسادکو ختم کرنا ،جيسا کہ آخري زمانہ کي علامات کے بارے ميں روايات ميں ملتا ہے- کچھ روايات ميں ہے کہ قائم کے قيام سے پہلے بداخلاقياںجيسے زنا،چوري،رشوت خوري،کم تولنا، شرابخوري، لوگوں کو بے گناہ قتل کرنا و غيرہ زيادہ ہو جائےں گي-اور اس کے معني يہ ہيں کہ حضرت مہدي (ع) اس لئے قيام کريں گے تاکہ ان برائيوں کا خاتمہ کريں - يعني آپ کے ظہور سے پہلے اقدار کے نظام کا خاتمہ ہو جائے گا اور حضرت اقدار کے اس نظام کو پھر سے زندہ کريں گے -
حضرت مہدي (عج) کے پاس پوري فوج ،ناصر اور مددگار ہيں جيسا کہ زيارت آل يٰسن ميں ہے ”وجعلني من شعيتہ و اتباعہ و انصارہ “ يعني ہم کو ان کا شيعہ ، تابع اور ناصر قرارد ے - کچھ روايات ميں يہ بھي آيا ہے کہ ”والمجاہدين بين يديہ “ جو يہ چاہتے ہيں کہ حضرت کے مددگار بنيں ان کو چاہئے کہ ان چار نکات پر کام کريں اور اگر کوئي ان ميں سے ايک بھي کام انجام نہيں ديتا اور دعا کرتا ہے کہ ميں ان کے ناصروں ميں ہو جاۆں تو ياد رکھو يہ دعا قبول ہونے والي نہيں ہے-
اگر روحاني لوگ اس پروگرام کو لے کر آگے بڑھيں تو تربيت کي ايک بڑي کلاس وجود ميں آجائے گي-توسل اپني جگہ پر ايک اچھا کام ہے ليکن صرف توسل کے ذريعہ ان کا شيعہ اور تابع نہيں بنا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ضروري ہے کہ توحيد خالص ہو اور شرک دل و جان و سماج سے دور ہو - ہميں چاہئے کہ اپنے گھروں ميں ،پڑوسيوں ميں اور عام لوگوں کے درميان عدل وا نصاف قائم کريں اوراخلاقي اقدار کو زندہ رکھيں- اگر حضرت کے قيام کے مقصد کو اچھي طرح بيان کيا جائے تو يہ کام سماج کے رخ کو ہي بدل دے گا - ان بنيادي کاموں کے بغير حضرت کے ناصروں کي صفوں ميں جگہ نہيں مل سکتي کتنا اچھا ہو، اگر حضرت کي ولادت کے ايام ميں کوئي ايسا کام کيا جائے جس سے عوام حضرت کے اہداف و مقاصد کي طرف متوجہ ہو اور ان کي راہ کو اختيار کرے - اور يہ بھي جان لو کہ کچھ لوگ اس فکر ميں ہيں کہ حضرت کے جشن کوگانے بجانے کے ذريعہ بے راہروي کي نذرکرکے خاک ميں ملاديں - کبھي کبھي دشمن اپنے مقصد تک پہونچنے کے لئے انھيں مذہبي تقاريب کا سہارا ليتا ہے جيسے دشمن، مسجد ضرار کا سہارا لے کر مسجد کي اصل کو ہي ختم کردينا چاہتے تھے- کيونکہ دشمن ان مذہبي اقدار کو ختم کردينا چاہتے ہيں اسلئے ضروري ہے کہ ان مذہبي تقاريب کو صحيح طور پر انجام ديا جائے تاکہ انکي تمنا پوري نہ ہوسکے - اميد ہے کہ خدا ہماري اس دعا کو ہمارے حق ميں قبول فرمائے گا -
اللہم اجلعني من اعوانہ و انصارہ و اتباعہ و شيعتہ و مجاہدين بين يديہ
حوالہ جات:
[1] بحار الانوار ج/ 52 ،ص/ 338
[2] سورہ حجرات / 14
[3] تفسير قرطبي ج/ 12 ،ص/ 300
[4] بحارالانوار ج/ 52 ،ص/ 338
[5] بحار الانوار ج/ 14 ،ص/
source : tebyan