امام زمانہ
حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھویں اور سلک امامت علویہ کی بارھویں کڑی ہیں۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتون تھِیں۔ آپ اپنے آباء و اجدادکی طرح امام منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات ہیں۔ آپ بچپن ہی میں علم و حکمت کے زیور سے آراستہ تھے۔ آپ کو پانچ سال کی عمر میں ویسی ہی حکمت دے دی گئی تھی، جیسی حضرت یحیی علیہ السلام کو ملی تھی اور آپ بطن مادر میں اسی طرح امام قرار دیئے گئے تھے، جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرار پائے تھے۔ آپ علیہ السلام کا مقام انبیاء سے بالاتر ہے۔ آپ کے بارے میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بے شمار پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اور وضاحت کی ہے کہ آپ حضور کی عترت اور حضرت فاطمة الزہرا کی اولاد سے ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور آخری زمانہ میں ہو گا اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام میرے خلیفہ کی حیثیت سے ظہور کریں گے اور "یختم الدین بہ کما فتح بنا" جس طرح میرے ذریعہ سے دین اسلام کا آغاز ہوا اسی طرح ان کے ذریعہ سے مہر اختتام لگا دی جائے گی۔ آپ نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا اصل نام میرے نام کی طرح اور کنیت میری کنیت کی طرح ہو گی۔ وہ جب ظہور کریں گے تو ساری دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کر دیں گے جس طرح وہ اس وقت ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ ظہور کے بعد سب پر واجب ہے کہ ان کی فورا بیعت کریں کیونکہ وہ خداکے خلیفہ ہوں گے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت با سعادت:
مورخین کا اتفاق رائے ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھجری بروز جمعہ بوقت طلوع فجر ہوئی ہے۔ جیسا کہ (وفیات الاعیان، روضة الاحباب، تاریخ ابن الوردی، ینابع المودة، تاریخ کامل طبری، کشف الغمہ، جلاءالعیون، اصول کافی، نور الا بصار، ارشاد، جامع عباسی، اعلام الوری، اور انوار الحسینیہ وغیرہ میں موجود ہے)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئی تو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہئے کیونکہ خداوند عالم مجھے آج ایک وارث عطا فرمائے گا۔ میں نے کہا کہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ بطن نرجس سے متولد ہوگا۔ میں نے کہا :بیٹے! میں تو نرجس میں حمل کے آثار نہیں پاتی۔ امام نے فرمایا کہ اے پھوپھی، نرجس کی مثال مادر موسی جیسی ہے۔ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کا حمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہر نہیں ہوا تھا، اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بر وقت ظاہر ہو گا۔ غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی۔ جب آدھی رات گذر گئی تو میں اٹھی اور نماز تہجد میں مشغول ہو گئی اور نرجس بھی اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے لگی۔ اس کے بعد میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ صبح قریب ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے جو کہا تھا وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا۔ اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی: اے پھوپھی جلدی نہ کیجئے، حجت خدا کے ظہور کا وقت بالکل قریب ہے۔ یہ سن کر میں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی۔ نرجس مجھے راستے ہی میں ملیں، مگر ان کی حالت اس وقت متغیر تھی۔ وہ لرزہ براندام تھیں اور ان کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیا اور سورہ اخلاص، قدر اور آیة الکرسی کی تلاوت کرنے لگی۔ بطن مادر سے بچے کی آواز آنے لگی، یعنی میں جو کچھ پڑھتی تھی وہ بچہ بھی بطن مادر میں اس کو دہراتا تھا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن و منور ہو گیا۔ اب جو میں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پر سجدہ میں پڑا ہوا ہے۔ میں نے بچہ کو اٹھا لیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی: اے پھوپھی! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے۔ میں لے گئی۔ آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا اور اپنی زبان بچے کے منہ میں دے دی اور کہا: اے فرزند! خدا کے حکم سے کچھ بات کرو۔ بچے نے اس آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم ونرید ان نمن علی اللذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین" کی تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ "ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پر جو زمین پر کمزور کردیئے گئے ہیں اور ان کو امام بنائیں اور انھیں زمین کاوارث قرار دیں"۔
اس کے بعد کچھ سبز طائروں نے آ کر ہمیں گھیر لیا۔ امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائر کو بلایا اور بچے کو دیتے ہوئے کہا کہ اس کو لے جا کر اس کی حفاظت کرو یہاں تک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے، کیونکہ خدا اپنے حکم کو پورا کر کے رہے گا۔ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائر کون تھا اور دوسرے طائر کون تھے؟۔ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے اور دوسرے فرشتگان رحمت تھے۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا گیا۔ کتاب شواہد النبوت اور وفیات الاعیان و روضة الاحباب میں ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو مختون اور ناف بریدہ تھے اور آپ کے داہنے بازو پر یہ آیت منقوش تھی "جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" یعنی حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے قابل تھا"۔
آپ کا نسب نامہ:
آپ کا پدری نسب نامہ یہ ہے: محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی۔ آپ فرزند رسول، دلبند علی اور نور نظر بتول علیھم السلام ہیں۔ آپکا سلسہ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاٴ وصی حضرت عیسی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ علامہ مجلسی اور علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھیں ، جن کاایک نام "ملیکہ" بھی تھا۔ نرجس خاتون یشوعا کی بیٹی تھیں، جو روم کے بادشاہ "قیصر" کے فرزند تھے۔ ان کاسلسلہٴ نسب وصی حضرت عیسی علیہ السلام جناب شمعون تک منتہی ہوتا ہے۔
آپ کا اسم گرامی:
آپ کا نام نامی و اسم گرامی "محمد" اور مشہور لقب "مہدی" ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کا نام زبان پر جاری کرنے کی ممانعت ہے۔ علامہ مجلسی رہ اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "حکمت آن مخفی است" یعنی اس کی وجہ پوشیدہ اور غیر معلوم ہے۔
آپ کی کنیت:
سب علماء متفق ہیں کہ آپ کی کنیت "ابوالقاسم" اور "ابوعبداللہ" تھی اور اس پر بھی علماء متفق ہیں کہ "ابوالقاسم" خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجویز کردہ ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی"۔
آپ کے القاب:
آپ کے القاب مہدی، حجة اللہ، خلف الصالح، صاحب الامر، صاحب العصر و الزمان، القائم، الباقی اور المنتظر ہیں۔ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کا لقب منتظر قرار دیا ہے۔
آپ کا حلیہ مبارک:
کتاب اکمال الدین میں شیخ صدوق رہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مہدی، شکل و شباہت، خلق و خلق، شمائل و خصائل، اقوال و افعال میں میرے مشابہہ ہوں گے۔ آپ کے حلیہ کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ آپ کا رنگ گندم گون، قد میانہ ہے۔ آپ کی پیشانی کھلی ہوئی ہے اور آپ کے ابرو گھنے اور باہم پیوستہ ہیں۔ آپ کی ناک باریک اور بلند ہے۔ آپ کی آنکھیں بڑی اور آپ کا چہر ہ نہآیت نورانی ہے۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے "کانہ کوکب دری" جو ستارہ کی مانند چمکتا ہے۔ آپ کے دانت چمکدار اور کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کی زلفیں کندھوں پر پڑی رہتی ہیں۔ آپ کا سینہ چوڑا اور آپ کے کندھے کھلے ہوئے ہیں۔ آپ کی پشت پر اسی طرح مہر امامت ثبت ہے جس طرح پشت رسالت مآب پر مہر نبوت ثبت تھی۔
تین سال کی عمر میں حجت اللہ ہونے کا دعوی:
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اور سعد الاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا۔ جب سامنا ہوا تو امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ اے احمد! تم جو دل میں لے کر آئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دیئے دیتا ہوں۔ یہ فرما کر آپ اپنے مقام سے اٹھے اور اندر جا کر یوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پر ایک نہآیت خوب صورت بچہ تھا جس کی عمر تین سال تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد! میرے بعد حجت خدا یہ ہو گا۔ اس کا نام محمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ یہ خضر کی طرح زندہ رہے گا اور ذوالقرنین کی طرح ساری دنیا پر حکومت کرے گا۔ احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی ایسی علامت بتا دیجئے کہ جس سے دل کو اطمینان کامل ہو جائے۔ آپ نے امام مہدی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کرفرمایا: بیٹا! اس کو تم جواب دو" ۔ امام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصیح فرمایا: "انا حجة اللہ و انا بقیة اللہ"۔ میں ہی خدا کی حجت اور حکم خدا سے باقی رہنے والا ہوں۔ یہ سن کر احمد خوش و مسرور اور مطمئن ہو گئے۔
پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات:
یعقوب بن منقوش، محمد بن عثمان عمری، ابی ہاشم جعفری اور موسی بن جعفر بن وہب بغدادی کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی مولا! آپ کے بعد امر امامت کس کے سپرد ہو گا؟ اور کون حجت خدا قرار پائے گا؟۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد میرے بعد حجت اللہ فی الارض ہو گا۔ ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروا دیجئے۔ آپ نے فرمایا وہ پردہ جو سامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ۔ ہم نے پردہ کو اٹھایا تو اس سے ایک نہآیت خوب صورت بچہ جس کی عمر پانچ سال تھی برآمد ہوا اور وہ آ کر امام حسن عسکری علیہ السلام کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ امام نے فرمایا کہ یہی میرا فرزند میرے بعد حجت اللہ ہو گا۔ محمد بن عثمان کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اور ہم سب نے ان کی زیارت کی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اندر واپس چلے جائیں اور ہم سے فرمایا: "تم آج کے بعد پھر اسے نہ دیکھ سکو گے"۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور غیبت صغری شروع ہو گئی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت:
امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کو زہر دے دیا جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرما گئے۔ "و خلف من الولد ابنہ محمد" اور آپ نے اولاد میں صرف امام مہدی علیہ السلام کو چھوڑا۔ علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو سارے شہر سامرہ میں ہلچل مچ گئی۔ فریاد و فغاں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ سارے شہر میں ہڑتال کر دی گئی۔ لوگوں نے اپنے کار و بار چھوڑ دیئے۔ تمام بنی ہاشم، حکام، منشی، قاضی، ارکان عدالت، اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑ پڑے۔ حالت یہ تھی کہ شہر سامرہ قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تجہیز اور نماز سے فراغت کے بعد آپ کو اسی مکان میں دفن کر دیا گیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام مدفون تھے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت:
بادشاہ وقت خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی جو اپنے آباء و اجداد کی طرح ظلم و ستم کا خوگر اور آل محمد کا جانی دشمن تھا کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑ چکی تھی۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین و تدفین سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھر پر چھاپہ ڈلوایا اور چاہا کہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتار کر لے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری کو سرداب میں جا کر غائب ہو چکے تھے اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیویوں کو گرفتار کر لیا اور حکم دیا کہ اس امر کی تحقیق کی جائے کہ آیا کوئی ان میں سے حاملہ تو نہیں ہے۔ اگر کوئی حاملہ ہو تو اس کا حمل ضائع کر دیا جائے۔ کیونکہ وہ حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشین گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں میرا ایک فرزند جس کا نام مہدی ہو گا عالمی انقلاب کا ضامن ہو گا۔ اور اسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا۔ لہذا اس نے آپ کی تلاش اور قتل کی پوری کوشش کی۔ سامراء کی آبادی بہت ہی قدیمی ہے اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اسے سام بن نوح نے آباد کیا تھا۔ اس کا اصلی نام "سام راہ" تھا جو بعد میں سامراء ہو گیا۔ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے خلیفہ معتصم نے فوجی کیمپ بنا کر آباد کیا تھا اور اسی کو دارالسلطنت بھی بنا دیا تھا۔ اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی۔ اسے اس نے نہآیت خوبصورت شہر بنا دیا تھا اسی لئے اس کا نام سرمن رائے رکھ دیا تھا۔ یعنی وہ شہر جسے جو بھی دیکھے خوش ہو جائے۔ عسکری اسی کا ایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظر بند تھے۔ بعد میں انھوں نے دلیل بن یعقوب نصرانی سے ایک مکان خرید لیا جس میں اب بھی آپ کا مزار مقدس واقع ہے۔
حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کا سرداب وہیں ایک مسجد کے کنارے واقع ہے جو کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزار اقدس کے قریب واقع ہے۔
آسمانی کتابوں میں امام مہدی علیہ السلام کا ذکر:
حضرت داؤد پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب "زبور" کی آیت ۴ مرموز ۹۷ میں ہے کہ "آخری زمانہ میں جو انصاف کا مجسمہ انسان آئے گا اس کے سر پر بادل سایہ فگن ہو گا"۔ کتاب زبور مرموز ۱۲۰ میں ہے "جو آخرالزمان آئے گا اس پر آفتاب اثرانداز نہ ہو گا"۔ صحیفہ شعیا پیغمبرکے باب ۱۱ میں ہے کہ "جب نور خدا ظہور کرے گا تو عدل و انصاف کا ڈنکا بجے گا۔ شیر اور بکری ایک جگہ رہیں گے۔ چیتا اور بزغالہ ایک ساتھ چریں گے۔ شیر اور گوسالہ ایک ساتھ رہیں گے"۔ پھر اسی کتاب کے باب ۲۷ میں ہے کہ "یہ نور خدا جب ظاہر ہو گا تو تلوار کے ذریعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا"۔ صحیفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ "ظہور کے بعد ساری دنیا کے بت مٹا دئیے جائیں گے۔ ظالم اور منافق ختم کر دئیے جائیں گے۔ یہ ظہور کرنے والا کنیز خدا (نرجس) کا بیٹا ہو گا"۔ توریت کے سفر انبیاء میں ہے کہ "مہدی ظہور کریں گے۔ عیسی آسمان سے اتریں گے۔ دجال کو قتل کریں گے"۔ انجیل میں ہے کہ "مہدی اور عیسی دجال اور شیطان کو قتل کریں گے"۔
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ:
خالق کائنات نے انسان کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور کثیر التعداد اوصیاء بھیجے۔ پیغمبروں میں سے سب سے آخر میں چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تھے لہذا ان کے جملہ صفات و کمالات و معجزات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جمع کر دئیے اور چونکہ آپ کو بھی اس دنیائے فانی سے جانا تھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر قسم کے کمالات سے آراستہ کر دیا تھا۔ سرور کائنات کے بعد دنیا میں صرف ایک علی علیہ السلام کی ہستی تھی جو کمالات انبیاء کی حامل تھی۔ آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیاء میں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی علیہ السلام تک پہنچے۔ خلیفہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ قتل ہو جاتے تو دنیا سے انبیاء و اوصیاء کا نام و نشان مٹ جاتا اور سب کی یادگار ختم ہو جاتی۔ چونکہ انھیں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم متعارف ہوا تھا لہذا اس کا بھی ذکر ختم ہو جاتا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کو محفوظ رکھا جائے جو جملہ انبیاء اور اوصیاء کی یادگار اور سب کے کمالات کی مظہر تھی۔ دوسرا یہ کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے "و جعلھا کلمة باقیة فی عقبہ"۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں کلمہ باقیہ قرار دیا ہے۔ نسل ابراہیم علیہ السلام دو فرزندوں سے چلی ہے۔ ایک اسحاق اور دوسرے اسماعیل۔ اسحاق کی نسل سے خداوند عالم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ و باقی قرار دے کر آسمان پر محفوظ کر لیا تھا۔ نسل اسماعیل سے بھی امام مہدی علیہ السلام کو باقی رکھا۔ تیسرا یہ کہ سنت الہی ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔ چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی علیہ السلام کے سوا کوئی نہ تھا اور انھیں دشمن قتل کر دینے پر تلے ہوئے تھے اس لئے انھیں محفوظ و مستور کر دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اور انھیں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے (بحار الانوار)۔
غیبت صغری اور آپ کے نائبین:
آپ کی غیبت کی دو حیثیتیں تھیں، ایک صغری اور دوسری کبری۔ غیبت صغری کی مدت 69 سال تھی۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہو گئی۔ غیبت صغری کے زمانے میں آپ کا ایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذریعہ ہر قسم کا نظام چلتا تھا۔ سوال و جواب، خمس و زکوة اور دیگر مراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے۔ خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذریعہ اور سفارش سے سفراٴ مقرر کئے جاتے تھے۔
سب سے پہلے نائب خاص حضرت عثمان بن سعید عمری تھے۔ آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اور اصحاب خاص میں سے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد بحکم امام مہدی علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعید اس عظیم منزلت پر فائز ہوئے۔ آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روح اس منصب عظیم پر فائز ہوئے۔ حضرت حسین بن روح کی کنیت ابوقاسم تھی۔ ان کی وفات شعبان ۳۲۶ ھجری میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد بحکم امام مہدی علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ ٴجلیلہ پر فائز ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی۔جب آپ کا وقت وفات قریب آیا تو آپ سے کہا گیا کہ آپ اپنے بعد کا کیا انتظام کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ روز قبل امام مہدی علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا جس میں ان کی وفات کا ذکر اور سلسہٴ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا۔ امام مہدی علیہ السلام کے خط کے الفاظ یہ ہیں:
"بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
اے علی بن محمد! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائیوں اور تمھارے دوستوں کو اجر جزیل عطا کرے، تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ روز میں وفات پانے والے ہو۔ تم اپنے انتظامات کر لو۔ اور آئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجویز نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہو گئی ہے اور اذن خدا کے بغیر ظہور ناممکن ہو گا۔ یہ ظہور بہت طویل عرصہ کے بعد ہو گا"۔
source : alhassanain