سياسي عدم استحکام اور اقتدار کے حصول کے لئے اندروني خانہ جنگي کي وجہ سے مخالف قوتيں اور دشمنان اہل بيت (عج) مقتدر حريف نہ ہونے کي وجہ سے علاقے ميں سرگرم عمل ہونگے- وہ حکمران نظام کي باقيماندہ عسکري قوتوں کي مدد سے متحرک ہونگے اور ان کے اقدامات اور کرتوت امام (عج) اور شيعيان اہل بيت (ع) کے ساتھ ان کي دشمني کو نماياں کرتے ہيں- ان کے مندرجہ ذيل اقدامات خاص طور پر قابل ذکر ہيں:
1- رجب ميں سفياني کے خروج اور رمضان ميں ندائے آسماني کے بعد اور ظہور سے چند ماہ قبل، مۆمنين جوق در جوق مکہ کي طرف روانہ ہونگے تا کہ اپنے امام (عج) کي مدد کريں- دشمنان اہل بيت (ع) مۆمنين اور اصحاب امام (عج) کے پر شک کريں گے اور ان کي نابودي کا فيصلہ کريں گے اور ان کے خلاف سازشوں کا سہارا ليں گے- نيز ابوبصير کي روايت کے مطابق امام صادق (ع) نے فرمايا: "اس زمانے ميں بہت سے مۆمنين گرفتار ہوکر جيلوں ميں بند کئے جائيں گے"- (1)
2- حکمران نظام کے باقيات اور تکفيري جماعتيں، مدينہ منورہ ميں ہولناک جرائم کا ارتکاب کريں گے- وہ ايک ہاشمي نوجوان (محمد) کو اس کي ہمشيرہ (فاطمہ) کے ہمراہ، قتل کريں گے اور انہيں مسجد النبي (ص) کے دروازے پر لٹکائيں گے اور يہ سب يہ ظاہر کرنے کے لئے ہوگا کہ وہ امام مہدي منتظَر (عج) کے پيروکاروں اور اصحاب و انصار کے ساتھ کس قدر عداوت اور دشمني رکھتے ہيں!-
3- پچيس ذوالحجہ کو ظہور سے پندرہ دن قبل، امام (عج) ايک ہاشمي مرد کو ايلچي کے طور پر مکہ مکرمہ روانہ کريں گے تاکہ حالات حاضرہ اور انقلاب کے لئے ماحول کي تياري کا جائزہ ليں- وہ (يعني نفس زکيہ) حرم مکہ ميں داخل ہونگے اور رکن و مقام کے درميان کھڑے ہوکر حاضرين کو زباني طور پر امام زمانہ (عج) کا پيغام پہنچائيں گے- حجاز ميں حکومت کے باقيات ايک عظيم جرم کا ارتکاب کريں گے اور امام (عج) کے ايلچي کو فوري طور پر رکن و مقام کے درميان ـ مسجدالحرام اور حرام مہينے ميں ـ قتل کريں گے-
چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ اہليان حجاز امام زمانہ (عج) کے ظہور کے خواہاں نہيں ہيں اور يہ مسئلہ امام (عج) سے مخفي نہ ہوگا- جيسا کہ امام باقر (ع) نے فرمايا: "يہ لوگ مجھے نہيں چاہتے ليکن ميں ان ہي طرف بھيجا گيا ہوں تا کہ ان پر اتمام حجت کروں---"-