شوہر کي ذمے داري يہ ہے کہ وہ بيوي کي ضرورتوں اور حاجتوں کو درک کرے، اس کے احساسات اور جذبات کو سمجھے، اس کے حال سے ايک لمحے کے لئے بھي غافل نہ ہو اور گھر ميں خود کو تمام اختيارات کا مالک اور مطلق العنان حاکم تصور نہ کرے۔ مياں بيوي زندگي کي گاڑي کے دو پہيے،ايک دوسرے کے معاون و مدد گار اور دو دوست ہيں اور (زندگي کے ميدان ميں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرنے کے لئے) ان ميں سے ہر ايک کي اپني خاص فکري اور باطني وسعت اور دائرہ کار ہے۔
شوہر کي ذمے داري ہے کہ وہ اپني بيوي کي زندگي کے تمام امور ميں اس کي مدد کرے تا کہ وہ اپنے متعلق معاشرے ميں موجود تمام پسماندگي، دقيانوسي خيالات اور خاص طرز فکر کا ازالہ کر سکے۔ البتہ اس پسماندگي سے مراد وہ چيزيں نہيں ہيں کہ جو آج مغرب اور بيگانوں کي تقليد کي وجہ سے ہمارے معاشرے ميں آ دھري ہيں۔ بلکہ ان دقيانوسي خيالات سے مراد خواتين کے مفيد وجود کے فوائد کي معرفت، ان کے تعليم حاصل کرنے جيسے اہم امر اور خواتين ميں نئے افکار، ترقي اور غور و فکر جيسي صفات کي پرورش سے متعلق معاشرے کي چھوٹي ذہنيت اور کم ظرفي ہے۔ لہذا مرد ان تمام شعبوں ميں اپني شريک حيات کي جتني بھي مدد کرے کم ہے۔ اگر عورت چاہتي ہے کہ کوئي کام انجام دے اور وہ اپني خانداني زندگي کے دائرہ کار اور اس کي حالت کو پيش نظر رکھتے ہوئے اجتماعي کاموں ميں حصہ لينے کي خواہشمند ہے تو مرد کو چاہيے کہ اس کي راہ ميں مانع نہ ہو۔