مرحوم علامہ مجلسی نے امام مہدی (عج) کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے
متن حدیث :
اذا قام القائم حکم بالعد ل و ارتفع فی ایامه ا لجور و امنت به السبل و اخرجت الارض برکاتها و ردکل حق الی اهله و لم یبق اهل دین حتی یظهر الاسلام و یعترفوا بالایمان [1]
ترجمہ : جب حضرت حجت(عج) ظہور فرمائیں گے تو وہ عدالت کے ساتھ اس طرح حکومت کریں گے کہ کویٴ کسی پرظلم نہی کر سکے گا ، ان کے وجود بابرکت کی وجہ سے تمام راستے پر امن ہوں گے ،زمین لوگوں کے فایدہ کے لے اپنی برکتوں کو ظاہر کر دے گی،ہر کام کو اس کے اھل کے سپرد کر دیا جائگا ، اسلام کے علاوہ کوی دوسرا دین باقی نہیں رہیگاا ور تمام افراد اسلام کی طرف ملتفت ہو جائیں گے۔
حدیث کی شرح :
اس حدیث میں حضرت کے بارے میں سات نکتے بیان ہوئے ہیں :
1. عادلانہ حکومت
2. و ظلم و جور کا خاتمہ
” اذاقام القائم حکم بالعدل ارتفع فی ایامه الجور“ لفظ ”عدل “کے مقابلہ میں لفظ ”ظلم“ آتا ہے جور نہیں،اور لفظ” جور“ لفظ ” قسط“ کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔عدل اور قسط کے درمیان یہ فرق پایا جاتاہے ”عدالت“ یعنی کسی دوسرے کا حق نہ چھینا جائے اور ”قسط “یعنی لوگوں کے بیچ میں کسی قسم کی تبعیض (بھید بھاؤ) نہ رکھی جائے ۔بس اپنے نفع کے لئے کسی کے حق کو چھیننا ”ظلم“ ہے اور کسی کا حق دوسرے کو دے دینا ”جور“ ہے ۔ مثال کے طور پر اگر میں زید سے اس کا مکان اپنے استعمال کے لئے چھین لوں تو یہ” ظلم“ ہے اوراگر زید کاگھر اس سے چھین کر کسی دوسرے کو دے دوں تو یہ”جور“ ہے اس سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر میں زید کا مکان اس سے اپنے استعمال کے لئے نہ چھینوں تویہ ”عدل “ ہوگا اوراس سے چھین کر کسی دوسرے کو نہ دوں تو یہ” قسط“ کہلائے گا ۔ بس اس طرح قسط عدم تبعیض و عدل عدم ظلم ہے ۔
3. راستوں کا پر امن ہونا :
”و امنت به السبل “ ان کے ذریعہ تمام راستے پر امن بن جائیں گے ۔
4. شکوفائی طبیعت
” و اخرجت الارض برکاتها“ زمین اپنی برکتوں کو ظاہر کردے گی چاہے وہ برکتیں کھیتی باڑی سے متعلق ہوں یا معدنیات سے یا پھر دوسری طاقتوں سے جو اب تک ہم سے چھپی ہوئی ہیں۔
5. ہر کام اس کے اہل کے سپرد کردیا جائے گا :
”ورد کل حق الیٰ اهله “ تمامکاموں کو ان کے اہل افراد کے سپرد کردیا جائےگا ہمارے زمانہ کے برخلاف ،کہ آج بہت سے کام نا اہلوں کے ہاتھوں میں ہیںکیونکہ تعلقات قانون پر غالب آگئے ہیں ۔
6. حاکمیت دین اسلام:
”ولم بیق اهل دین حتیٰ یظهر الاسلام “ اسلام کے علاوہ کوئی دین باقی نہیں رہے گا اور تمام ادیان ایک دین میں بدل جائیں گے اور وہ دین دین اسلام ہوگا ۔
7. اسلام سے قلبی لگاؤ بڑھ جائیگا:
”و یعترفوابالایمان“اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں یا تو اس طرف اشارہ ہے کہ تمام افراد مکتب اہل بیت کے تابع ہو جائیں گے یا پھر یہ کہ جس طرح ظاہر میں ایماندار ہوں گے اسی طرح باطن میں بھی مومن ہوںگے ۔
اسلام اور ایمان کافرق
روایات میں بیان ہوا ہے کچھ روایات کہتی ہیں اسلام یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس کا اظہار کرے تو اس کی جان محفوظ ہے اور اس کا ذبیحہ حلال ہے ۔اور ایمان وہ چیز ہے جو روز قیامت نجات کا ذریعہ ہے۔کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ اسلام مسجدالحرام کی مثل اور ایمان کعبہ کی مانند ہے یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ یہ عبارت اس آیت کی طرف اشارہ کررہی ہو جس میں فرمایا گیا ہے کہ قالت الاعراب آمنا [2]
حضرت جن اہم کاموں کو انجام دین گے روایت کی رو سے ان کا خلاصہ ان چار نکتوں میں ہوسکتا ہے :
1. اصلاح عقائد:
”ما علیٰ ظهر الارض بیت حجر و مدر الا ادخل الله کلمة الاسلام “ [3] یعنی زمین پر غریبوں اور امیروں کے تمام کچے پکے مکانوں میں ”لا الٰہ الا اللہ “ کی آواز گونجے گی اور شرک کا خاتمہ ہو جائے گا۔
2. تکامل عقل:
یعنی علمی و عقلی بیداری پیدا ہو جائے گی اس بارے میں مرحوم علامہ مجلسیۺ اس طرح کہتے ہیں ”اذاقام قائمنا و ضع یدہ علیٰ رؤس العباد فجمع بہا عقولہم وکملت بہا احلامہم“ [4]شاید ان کا نظریہ یہ ہو کہ لوگ ان کی تربیت کے تحت آجائیں گے اور اس طرح ان کی عقل و فکر کامل ہو جائے گی ۔
3. عدل و انصاف:
بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے کہ” یملا الارض عدلا و قسطا کما ملئت ظلما و جورا“ [5]یعنی زمین عدل و انصاف سے اسی طرح بھر جائے گی جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔
4. اصلاح اخلاق :
یعنی اسلامی اقدار کو زندہ اور فسادکو ختم کرنا ،جیسا کہ آخری زمانہ کی علامات کے بارے میں روایات میں ملتا ہے۔ کچھ روایات میں ہے کہ قائم کے قیام سے پہلے بداخلاقیاںجیسے زنا،چوری،رشوت خوری،کم تولنا،شرابخوری،لوگوں کو بے گناہ قتل کرنا وغیرہ زیادہ ہو جائےں گی۔اور اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت مہدی (ع) اس لئے قیام کریں گے تاکہ ان برائیوں کا خاتمہ کریں ۔یعنی آپ کے ظہور سے پہلے اقدار کے نظام کا خاتمہ ہو جائے گا اور حضرت اقدار کے اس نظام کو پھر سے زندہ کریں گے ۔
حضرت مہدی (عج) کے پاس پوری فوج ،ناصر اور مددگار ہیں جیسا کہ زیارت آل یٰسن میں ہے ”وجعلنی من شعیتہ و اتباعہ و انصارہ “ یعنی ہم کو ان کا شیعہ ،تابع اور ناصر قرارد ے ۔کچھ روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ”والمجاہدین بین یدیہ “ جویہ چاہتے ہیں کہ حضرت کے مددگار بنیں ان کو چاہئے کہ ان چار نکات پر کام کریں اور اگر کوئی ان میں سے ایک بھی کام انجام نہیں دیتا اور دعا کرتا ہے کہ میں ان کے ناصروں میں ہو جاؤںتو یاد رکھو یہ دعا قبول ہونے والی نہیں ہے۔
اگر روحانی لوگ اس پروگرام کو لے کر آگے بڑھیں تو تربیت کی ایک بڑی کلاس وجود میں آجائے گی۔توسل اپنی جگہ پر ایک اچھا کام ہے لیکن صرف توسل کے ذریعہ ان کا شیعہ اور تابع نہیں بنا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ضروری ہے کہ توحید خالص ہو اور شرک دل و جان و سماج سے دور ہو ۔ہمیں چاہئے کہ اپنے گھروں میں ،پڑوسیوں میں اور عام لوگوں کے درمیان عدل وا نصاف قائم کریںاوراخلاقی اقدار کو زندہ رکھیں۔اگر حضرت کے قیام کے مقصد کو اچھی طرح بیان کیا جائے تو یہ کام سماج کے رخ کو ہی بدل دے گا ۔ان بنیادی کاموں کے بغیر حضرت کے ناصروں کی صفوں میں جگہ نہیں مل سکتی کتنا اچھا ہو، اگر حضرت کی ولادت کے ایام میں کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے عوام حضرت کے اہداف و مقاصد کی طرف متوجہ ہو اور ان کی راہ کو اختیار کرے ۔ ا ور یہ بھی جان لو کہ کچھ لوگ اس فکر میں ہیں کہ حضرت کے جشن کوگانے بجانے کے ذریعہ بے راہروی کی نذرکرکے خاک میں ملادیں ۔کبھی کبھی دشمن اپنے مقصد تک پہونچنے کے لئے انھیں مذہبی تقاریب کا سہارا لیتا ہے جیسے دشمن ،مسجد ضرار کا سہارا لے کر مسجد کی اصل کو ہی ختم کردینا چاہتے تھے۔ کیونکہ دشمن ان مذہبی اقدار کو ختم کردینا چاہتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ ان مذہبی تقاریب کو صحیح طور پر انجام دیا جائے تاکہ انکی تمنا پوری نہ ہوسکے ۔امید ہے کہ خدا ہماری اس دعا کو ہمارے حق میں قبول فرمائے گا ۔
اللهم اجلعنی من اعوانه و انصاره و اتباعه و شیعته و مجاهدین بین یدیه
حوالہ جات
[1] بحار الانوار ج/ 52 ،ص/ 338
[2] سورہ حجرات / 14
[3] تفسیر قرطبی ج/ ۱۲ ،ص/ 300
[4] بحارالانوار ج/ ۵۲ ،ص/ 338
[5] بحار الانوار ج/ ۱۴ ،ص/ 33