- غيبت کے زمانے ميں مسلمانوں کا ايک فريضہ يہ ہے کہ امام زمانہ (عج) کے ساتھ معنوي اور روحاني پيوند کو تقويت پہنچائيں اور آپ (عج) کے ساتھ تجديد عہد کرتے رہيں-
حقيقي منتظر کو ہرگز محسوس نہيں کرنا چاہئے کہ معاشرے ميں اس پر کوئي ذمہ داري عائد نہيں ہوتي اور اپنے امام (عج) کے سامنے جوابدہ نہيں ہيں- منتظر مسلمانوں کو ہدايت کي گئي ہے کہ ہر روز کے آغاز پر، امام زمانہ (عج) کے بارے ميں وارد ہونے والي دعاۆں ميں سے کسي ايک دعا کے ذريعے ان سے رابطہ برقرار کريں- منتظر مسلمان اگر ہر دن کے آغاز پر حضور قلب اور توجہ کامل کے ساتھ اپنے امام (عج) سے رابطہ برقرار کرے تو وہ ہرگز ذلت اور خواري اور ظلم ناعدالتي کے سامنے سرتسليم خم نہيں کرے گا؛ نيز ہرگز فکري اور تعليمي و تہذيبي بحران نيز خود بيگانگي اور نا اميدي سے دوچار نہيں ہوتا-
اس سلسلے ميں وارد ہونے والي دعاۆں ميں دعائے عہد ہے جو انتہائي اعلي سطحي مضامين کي حامل ہے- يہ دعا امام زمانہ (عج) کے ساتھ ہمارے رابطے کا بہترين ذريعہ ہے- (3)
3- خودسازي اور اخلاقي فضائل کا حصول
منتظرين کے فرائض ميں ايک تہذيب نفس اور اخلاق فضائل سے آراستگي ہے- امام زمانہ (عج) نے اپني توقيع (مکتوب) ميں شيخ مفيد سے مخاطب ہوکر فرمايا ہے:
"ہماري غيبت کے طويل تر ہونے اور ہماري ملاقات سے شيعوں کي محرومي کي ايک وجہ وہ غيرشائستہ اعمال ہيں جن کا وہ ارتکاب کرتے ہيں اور ہميں ناراض کرتے ہيں"- (4) اس توقيع شريف سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقيقي منتظرين ايسے اعمال سے پرہيز کرتے ہيں جو غيبت کے طويل تر ہونے کا سبب بنتے ہيں؛ چنانچہ امام زمانہ (عج) کي معرفت، گناہوں سے پرہيز اور بالآخر تہذيب نفس اور امام (عج) کے ساتھ معنوي رابطہ برقرار رکھنے کے ذريعے ـ اميد ہے کہ ـ ہم ظہور کے سلسلے اپنے فرائض کا کچھ حصہ انجام ديتے رہيں-
آخري بات:
اگر امام صادق (ع) نے فرمايا:
جو شخص اسي عقيدے ـ يعني انتظار ـ کي حالت ميں دنيا سے رخصت ہوجائے اس شخص کي مانند ہے جو امام مہدي (عج) کے خيمے ميں ہو- (5) (ختم شد)
---------------------------
3- مفاتيح الجنان-
4- الاحتجاج، طبرسي ج 2، ص 602-
5- المحاسن، احمد بن محمد بن خالد برقي، ج 1، ص 277، ح 149-