پہلا حصہ- زمانۂ ظہور:
ظہور امام زمانہ (عج) مسلم اور قطعي ہے مگر آپ (عج) کے ظہور کا وقت غير معين اور نامعلوم ہے اور خدا کے سوا کوئي بھي اس سے آگاہ نہيں ہے- اصحاب نے بارہا ائمہ (ع) سے وقت ظہور کے بارے ميں سوالات کئے ہيں ليکن ائمہ (ع) نے انہيں تعيين وقت سے منع کيا ہے
فضيل نے امام باقر (ع) نے پوچھا: کيا ظہور کے لئے وقت کا تعين کيا گيا ہے؟ امام (ع) نے تين بار فرمايا: "كَذِبَ الوَقّاتُونَ؛ ...(1) يعني ظہور کے لئے وقت کا تعين کرنے والے جھوٹے ہيں--- ظہور کے لئے نشانياں بيان ہوئي ہيں اور ان ميں سے ہر نشاني کا ظہور درحقيقت ظہور کے قريب تر ہونے يا ظہور کي طرف ايک قدم نزديک تر ہونے کي علامت ہے-
دوسرا حصہ: انتظارِ فَرَج:
دشمنان دين کي کوشش يہ ہے کہ وہ احکام و اعتقادات اور ديني مسائل کي نسبت ہمارے تعہد اور پابندي کو کمزور کرديں- انھوں نے ہم سب کو نشانہ بنايا ہے اور وہ ہمارے تعليمي و ثقافتي اور اعتقادي مورچوں کو مسخّر کرنے کے درپے ہيں حالانکہ اسلام کا اہم ترين مورچہ حضرت مہدي (عج) کے ظہور اور انتظارِ فَرَج ہے اور ہمارے ہاتھوں کو اسلام اور اس کے افتخارات سے کوتاہ کرديں- [مغربي دانشوروں کے اعتراف کے مطابق اعتقاد مہدويت اور انتظارِ فَرَج نيز مرجعيت اور عاشورا نے شيعہ مذہب کو دنيا کے زندہ ترين مذہب ميں بدل ديا ہے]-
جدوجہد کے ميدان ميں عورت اور مرد کے درميان کوئي فرق نہيں ہے اور سب کو اپنے اعتقادات کے راستے ميں ثابت قدم اور استوار رہنا چاہئے، دين خدا کي مدد کرني چاہئے اور اپني ذمہ داري نبھانے ميں صبر و استقامت سے کام لينا چاہئے-
بعض فرائض ـ جو اسلامي معاشرے کي آگہي اور باليدگي ميں کردار ادا کرسکتے ہيں، درج ذيل ہيں:
1- امام زمانہ (عج) کي شناخت
ہر مسلمان کا اہم ترين فريضہ اپنے زمانے کے امام کي شناخت ہے- يہ موضوع اتنا اہم ہے کہ شيعہ اور سني منابع نے اس سے متعلق متواتر حديث نقل کي ہے جس ميں رسول اللہ (ص) نے فرمايا:
{من مات و لم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهليّة}- (2)
جو مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے وہ شرک و جاہليت کي موت مرا ہے-
ائمہ (ع) کے مطابق "امام کي معرفت کے معني يہ ہيں کہ انسان جان لے کہ اس کي اطاعت واجب ہے اور اس کي کامل و خالص پيروي کرني چاہئے"-
بےشک امام زمانہ (عج) کي معرفت شيعيان آل رسول (ص) کو ملحدين کے شبہات سے محفوظ رکھتي ہے اور مہدويت کے مدعيوں کے گمراہ کن اعمال سے نجات کا سبب بنتي ہے- (جاری ہے)
----------------
1- كتاب الغيبة، طوسي، ص 426 - 425، ح411- كتاب الغيبة نعماني، ص 294، ح 13-
2- مناقب ابن شهر آشوب، ج 3، ص 250؛ بحارالأنوار، ج 8، ص 368-