جس وقت انسان دن رات اپنى دنيوى زندگى ميں سرگرم ہوتا ہے اسى وقت اس كے باطن ميں بھى ايك سربستہ زندگى موجود ہوتى ہے _ ممكن ہے وہ اس كى طرف بالكل متوجہ نہ ہو اور مكمل طور پر اسے فراموش كرچكا ہو _ اس مجہول زندگى كى بھى سعادت و شقاوت ہوتى ہے _ بر حق عقائد و افكار ، پسنديدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانى ترقى او ركمال كا باعث ہوتے ہيں اور اسے سعادت و كمال كى منزل تك پہنچاتے ہيں جيسا كہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حركتيں بھى نفس كى شقاوت و بدبختى كا سبب قرار پاتى ہيں _ اگر انسان ارتقاء كے سيدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنى ذات كے جوہر اور حقيقت كى پرورش كرتا اور اسے ترقى ديتا ، اپنے اصلى مركز عالم نورانيت كى طرف پرواز كرتا ہے اور اگر روحانى كمالات اور پسنديدہ اخلاق كو اپنى حيوانى قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان كرديتا ہے اور ايك درندہ و ہوس راں ديوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء كے سيدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہى و بدبختى كے بيابان ميں بھٹكتا پھرے گا _ پس معنوى حيات كے لئے بھى انسان ايك مكمل پروگرام اور معصوم راہنما كامحتاج ہے _ كسى كى مدد كے بغير اس خطرناك راستہ كو طے نہيں كرسكتا كيونكہ اس كى نفسانى خواہشيں اس كى عقل كواكثر صحيح فيصلہ كرنے اور حقيقت بينى سے باز ركھتى ہيں اور اسے ہلاكت كى طرف لے جاتى ہيں ، وہ اچھے كہ برا اور برے كو اچھا كركے دكھاتى ہيں _
95
صرف خالق كائنيات انسان كے حقيقى كمالات ، واقعى نيك بختى اور اس كے اچھے برے سے واقف ہے اور وہى اس كى نفس كى سعادت و كاميابى اور بدبختى و ناكامى كے عوامل سے بچانے كامكمل دستور العمل انسان كے اختيا رميں دے سكتا ہے _ پس اخروى سعادت تك پہنچنے كے لئے بھى انسان خالق كائنات كا محتاج ہے _
اس سے يہ نتيجہ برآمد ہوتا ہے كہ خدائے حكيم نے انسان كو ، جو كہ سعادت و بدبختى دونوں كى صلاحيت ركھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حيوانى طاقت كا مطيع نہيں بنايا ہے اور جہالت و نادانى كے بيابان ميں سرگرداں نہيںچھوڑا ہے _ بلكہ اس كے بے شمار الطاف كا اقتضا تھا كہ وہ اپنے برگزيدہ پيغمبروں كے ذريعہ ايسے احكام ، قوانين اور مكمل دستور العمل جو كہ دنيوى و اخروى سعادت و كاميابى كا ضامن ہو ، انسانوں تك پہنچائے اور سعادت و كاميابى اور بدبختى و ناكامى سے انھيں آگاہ كرے تا كہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تك پہنچنے كا راستہ ہموار ہوجائے _
انسان كى ترقى اور خدا تك پہنچنے كا سيدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نيك اخلاق ہيں كہ جنھيں خدا نے انبياء كے پاكيزہ قلوب پرنانزل كيا ہے تاكہ وہ انھيں لوگوں تك پہنچاديں ليكن يادرہے يہ راستہ كوئي وقتى اور تشريفاتى نہيں ہے كہ جس كا مقصد سے كوئي ربط نہ ہو بلكہ يہ حقيقى اور واقعى راستہ ہے كہ جس كا سرچشمہ عالم ربوبيت ہے جو بھى اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہى اپنے باطن ميں سير ارتقاء كرتا ہے اور بہشت رضوان كى طرف پرواز كرتا ہے _
96
بعبارت ديگر : دين حق ايك سيدھا راستہ ہے ، جو بھى اسے اختيار كرتا ہے اسكى انسانيت كامل ہوتى ہے اور وہ انسانيت كے سيدھے راستہ سے سرچشمہ كمالات كى طرف چلا جاتا ہے جو ديانت كے سيدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانيت كے فضائل كى راہ كو گم كركے حيوانيت كے كج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حيوانيت و درندگى كے صفات كى تقويت كرتا اور راہ انسانيت كو طے كرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ايسے شخص كى زندگى دشوار ہوجاتى اور جہنم اس كى تقدير بن جاتاہے