اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

شیخ صدوق ؛ حدیث صداقت



شیخ کی جائے ولادت

محمدبن علی بن بابویہ 1 جو شیخ صدوق کے نام سے مشھور ھیں تقریباً ۳۰۶ ھ ق میں شھر قم میں پیدا ھوئے ۔ شھر قم قلب ایران میں طھران کے جنوب میں ۱۳۵ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ھے یہ جانا پھچانا شھر ھے اور قدیم الایام سے ھی شھر علم و اجتھاد کے عنوان سے مشھور ھے ۔
قم کا نام ھمیشہ سے شیعہ تاریخ و ثقافت سے جڑا رھا ھے اور یھاں کے قدیم زمانے کے لوگ اسلام کی طرف رغبت اور ھادیان دین سے عشق کے سلسلے میں پیش قدم رھے ھیں ۔ یہ ایسا شھر ھے جس نے اپنی آغوش میں عدیم المثال اور عظیم علماء، محدثین و فقھائے اسلام کی پرورش کی ھے، یہ ایسا مقام ھے جو حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ جیسے اسلامی علوم کا مرکز تھا اور دور حاضر میں مکتب تشیع اور اسلامی علوم کی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر چکا ھے ۔
نشر علوم اھل بیت علیھم السلام کے سلسلے میں یھاں کے علماء کی جان فشانیاں اس قدر تھیں کہ اموی و عباسی خلفاء کے پر آشوب دور میں اس شھر کے برجستہ افراد نے خدمت ائمہ علیھم السلام میں حاضری دی تعلیم حاصل کی اور ان کے افکار کو مختلف شھروں میں پھیلایا ۔
ھم یھاں کے علم و ثقافت کے درخشاں ماضی کو یھاں پر موجود مقبروں سے سمجھ سکتے ھیں، مورخین کے مطابق تقریباً سات سو بزرگ راوی اور محدث اس علاقہ میں مدفون ھیں، کتنی ایسی عظیم ھستیاں ھیں جن کی ولادت اور تعلیم کا مقام یھی شھر رھا ھے ۔ ان میں ایک عظیم شخصیت " شیخ صدوق " کے نام سے ھے ھم اس تحریر میں ان کی پرعظمت زندگی پر روشنی ڈالیں گے ۔

شیخ کا حسب و نسب

خاندان بابویہ ایران کے ان مشھور ترین خاندانوں میں سے ھے جس سے قلب ایران میں تقریباً تین سو سال تک نامور علماء پیدا ھوتے رھے ھیں، صدوق کو اس خاندان کی بھت عظیم شخصیت کے طور پر جانا جاتا ھے ۔
”بابویہ“ شیخ صدوق کے پر دادا ھیں، آپ کے والد محترم یعنی علی بن حسین بن موسی ابن بابویہ اس خاندان کے پھلے وہ شخص ھیں جو ابن بابویہ کے لقب سے ملقب ھوئے ۔ ابن بابویہ خود بھی شیعہ علماء میں سے تھے اور مختلف موضوعات پر سو سے زیادہ کتابیں ضبط تحریر کی تھیں، وہ اپنے زمانے میں قم اور اس کے گرد و نواح کے شیعوں کے رھبر کی حیثیت سے تھے، انھوں نے غیبت امام آخر عجل اللہ فرجہ الشریف اور حسین بن روح کی خاص نیابت کے زمانے کو درک کیا تھا ۔
یہ عظیم زاھد اور متقی عالم دین قم ھی میں ایک دکان رکھتے تھے وہ علمی مشغولیات کے ساتھ کچھ وقت تجارت میں بھی صرف کرتے تھے اور اس سے ھونے والی آمدنی سے امرار معاش کیا کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ اس قدر عظیم عالم دین تھے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کے درمیان عظیم علمی منزلت کے حامل تھے بلکہ آج بھی علوم دینیہ کے طلاب اور اساتید کے درمیان احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ھیں ۔

شیخ کی ولادت

جس چیز نے آپ کے والد کو سالھا سال محزون رکھا وہ ایک فرزند کا نہ ھونا تھا، اگرچہ وہ عمر کے پچاس سال گزار چکے تھے اور ضعیفی کی طرف بڑھ رھے تھے مگر رحمت الھی سے مایوس نھیں تھے، انھوں نے بارھا خدا سے دعا کی تھی کہ خدا انھیں فرزند عطا کرے لیکن وہ اصل مشکل سے بےخبر تھے یھاں تک کہ انھوں نے ایک دن اپنے ھادی اور امام حضرت حجت (عج) کو نامہ لکھنے کا ارادہ کر لیا وہ ایک اچھے موقع اور قابل اطمینان شخص کی تلاش میں تھے تا کہ اس کے ذریعہ نامہ ارسال کر سکیں، یھاں تک کہ ایک دن قم سے ایک قافلہ عراق کی طرف عازم سفر ھوا، اس قافلہ میں ایک ابو جعفر 2 نامی دوست کو پایا جو خط کو اس کے مقصد تک پھونچا سکتے تھے ۔ آپ نے نامہ تحریر کر کے ان کے حوالے کر دیا تاکہ وہ عراق میں حسین بن روح 3 کو دے سکیں اور ان کو حضرت تک پھونچانے کے لئے کھہ دیں ۔ ابو جعفر کھتے ھیں کہ میں نے آپ کے خط کو نائب امام آخر الزمان (عج) کی خدمت میں پھونچا دیا انھوں نے تین دن کے بعد خبر دی کہ حضرت نے ابن بابویہ کے لئے دعا کردی ھے اور جلد ھی خداوند انھیں ایک ایسا فرزند دے گا جو بھت سی برکات کا سبب ھوگا 4 ۔ شیخ طوسی اپنی کتاب " غیبت " میں آپ کی ولادت کے بارے میں اس طرح رقم طراز ھیں : قم کے بھت سے معزّزین نے نقل کیا ھے کہ علی بن حسین بن بابویہ نے اپنی چچا زاد بھن سے شادی کی لیکن صاحب اولاد نہ ھوئے، ابو القاسم حسین بن روح کو خط لکھا کہ حضرت امام عج سے دعا کرنے کو کھیں تاکہ خدا انھیں فرزند عنایت فرمائے ۔ حضرت کی طرف سے جواب آیا کہ اس ھمسر سے صاحب اولاد نھیں ھونگے لیکن جلد ھی ایک دیلمی5 کنیز سے شادی کرو گے اور خداوند اس کے ذریعہ تمھیں دو فقیہ فرزند سے نوازے گا ۔ 6 شیخ صدوق نے بھی حضرت ولی عصر عج کی دعا اور اپنی ولادت کا ماجرا کتاب کمال الدین میں ذکر کرتے ھوئے لکھا ھے کہ جب بھی ابو جعفر محمد بن علی اسود مجھے دیکھتے تھے کہ حدیث و علوم اھل بیت علیھم السلام کے حصول میں بھت ھی اشتیاق و رغبت کے ساتھ اساتید کی مجلسوں میں جاتا ھوں تو فرماتے تھے : تمھارے اس تعلیم کے شوق اور رغبت میں کوئی تعجب نھیں ھے اس لئے کہ تم امام زمانہ (عج) کی دعا سے متولد ھوئے ھو ۔
بھرحال ابن بابویہ تک یہ بشارت پھونچی اور کچھ ھی زمانے میں خدا نے انھیں ایک دیلمی کنیز کے ذریعہ " محمد " سے نوازا کہ اس وقت باپ کے لئے نور چشم اور امید کا باعث قرار پائے، اس کے بعد خدا نے انھیں ایک اور فرزند عطا کیا جس کا نام " حسین " رکھا ۔ حسین بن علی بن بابویہ کا شمار بھی بزرگ علماء میں ھوتا تھا اور وہ اپنے والد بزرگوار اور اپنے بھائی محمد کے بعد بابویہ خاندان کی سب سے عظیم اور مشھور شخصیت کے حامل تھے ۔

شیخ کے بچپن اور نوجوانی کا دور

جس زمانے میں خدا نے علی کو محمد عطا کیا آپ کے والد جوانی کے ایام ماضی کے حوالے کر چکے تھے اور دینی مسائل اور اسلامی آداب محدثین اور علماء کے مکتب سے حاصل کر چکے تھے، اس زمانے میں ان کا شمار عالم اسلام کی بزرگ شخصیت اور قم کی شیعہ قوم کے رئیس کی حیثیت سے ھوتا تھا ۔ شاید خدا کی حکمت تھی کہ محمد کا اس خاندان میں ورود اس وقت ھو جب تجربہ اور انتظار صحیح پرورش کا بستر لگا چکے ھوں اور یہ تازہ وارد نھال (پودا) علم و ادب کے کشت زار میں پھولے پھلے، اسی بنا پر ماں نے آپ کو بھت اچھے انداز میں پالا پوسا اور باپ نے بھترین طریقے سے سنوارا ۔

شیخ کا تعلیمی دور

”محمد“ نے بچپنے کے سالوں میں حصول علم دین کا آغاز اپنے والد ماجد سے کیا اور آپ کی ابتدائی تعلیم اور علوم کی پھلی منزلیں شھر قم میں ھی طے ھوئیں جو کہ اس وقت علماء اور محدثین کا شھر تھا ۔
وہ بےانتھا لگن اور سعی بلیغ کے ساتھ تحصیل علوم میں لگ گئے، کوئی دن ایسا نھیں گزرتا تھا جب ان کے علم میں اضافہ نہ ھو، انھوں نے اکثر چیزیں اپنے والد علی بن بابویہ سے سیکھیں اس کے علاوہ علماء کے علمی جلسوں میں بھی حاضری دی جب وہ علم کے بڑے مدارج تک پھونچ گئے تو انھوں نے بزرگ اساتیذ اور محدثین سے کسب فیض کے سلسلے میں سفر کرنا شروع کیا ۔ شاید یہ کھنا بیجا نہ ھوگا کہ ان کی کامیابی کا ایک راز زیادہ اساتیذ کی خدمت میں حاضری اور ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی تھا ۔ اسی بنا پر آپ کے اساتیذ کا شمار کرنا قدرے مشکل ھے ۔
محقق عالم دین شیخ عبد الرحیم ربانی شیرازی شیخ صدوق کی کتاب " معانی الاخبار " کے مقدمہ میں جو آپ کی سوانح حیات کے سلسلے میں تحریر کیا ھے اس میں صدوق کے ۲۵۲ اساتیذ کا نام ذکر کرتے ھیں ۔ 7 شیخ صدوق نے قم میں جن اساتیذ سے کسب فیض کیا ان میں محمد بن حسن بن ولید، احمد بن علی بن ابراھیم قمی، محمد بن یحیی بن عطار اشعری قمی، حسن بن ادریس قمی اور حمزہ بن محمد علوی جیسے بزرگان کا نام لیا جا سکتا ھے ۔
ھم اس محنتی اور جفا کش عالم دین کے سفر کے باب میں ان میں سے بعض حضرات کا ذکر کریں گے جن سے آپ نے ان سالوں میں مختلف بلاد اور علاقوں میں کسب فیض کیا ھے اور احادیث اخذ کی ھیں ۔

شیخ کا " شھر رے" میں قیام

شیخ صدوق کے زمانے کے اھم واقعات میں سے ایک ایرانی اور شیعہ مذھب آل بویہ کا اقتدار میں آنا ھے کہ جنھوں نے ۳۲۲ سے لیکر ۴۴۸ تک ایران، عراق، جزیرہ سے شام کی شمالی سرحدوں تک کے اکثر علاقوں پر حکومت کی ۔ شیخ صدوق کی ”قم“ سے” رے“ کی طرف ھجرت بھی انھیں حاکموں میں سے ایک حاکم "رکن الدولہ دیلمی " کی درخواست پر ھوئی تھی ۔
علامہ شوشتری نے شیخ صدوق کی قم سے رے کی طرف ھجرت کے واقعہ کو اس طرح ذکر کیا ھے : رکن الدولہ 8 نے مذھب حق کی تبلیغ کے لئے شیخ کو دار الخلیفہ میں تشریف لانے کی دعوت دی حاکم نے پھلی نشست میں مذھب حق کی تحقیق کے سلسلہ میں جو سوال ذھن نشیں کیے ھوئے تھے شیخ کی خدمت میں پیش کیے جیسا کہ وہ پھلے ھی سے شیخ کے بارے میں باخبر تھے اور اپنے سوالات کے صحیح جوابات بھی پاگئے تو شیخ کو عزت و احترام کی جگہ دی اور انعام و اکرام سے نوازا ۔ 9 شاید اس دعوت اور سفر کا اصل سبب شیخ کلینی کی رے سے بغداد کی طرف ھجرت اور پھر ان کی وفات سے پیدا ھونے والا خلا تھا ۔ درحقیقت شیخ کا رے میں قیام بھت سی برکات کا سبب بن سکتا تھا ۔ آپ نے بھی اس موضوع کی اھمیت کو سمجھتے ھوئے رکن الدولہ کی دعوت کو قبول کرلیا اور اپنے وطن کو ترک کرکے رے کی طرف عازم سفر ھوگئے ۔ اس مدعا کی بھترین دلیلیں خود آپ کی وہ بحثیں ھیں جو آپ نے رے میں مختلف اسلامی موضوعات خصوصاً امامت اور غیبت امام زماں عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جیسے موضوعات پر انجام دی ھیں ۔ آپ کی ان گفتگؤوں کا نتیجہ کہ جس میں سے بعض بحثیں خود رکن الدولہ کے حضور ھویئں تھیں آپ کی وہ گرانبھا کتابیں ھیں جو باقی رہ گئیں ھیں ۔

عصر حدیث

عصر صدوق کو عصر حدیث کھا جانا چاھیے جس علمی دور کا آغاز کلینی کے ذریعہ ھوا تھا اس نے صدوق کی سعی پیھم سے دوام حاصل کیا ۔ شیخ کلینی نے بھی کلین سے رے کی طرف ھجرت کی تھی اور وھاں پر شیعوں کی کتب اربعہ کی پھلی کتاب کو تحریر کیا انھوں نے اس نئی علمی تحریک کے ذریعہ مکتب حدیث نویسی کی بنیاد رکھی کہ جس پر شیخ صدوق جیسے افراد نے ضبط و نشر حدیث کی مستحکم عمارت تعمیر کی ۔ جس راستے کو کلینی نے انتخاب کیا تھا صدوق نے اس کو جاری رکھنے کے لئے علمی سفروں کا آغاز کیا، آپ کی زندگی کے اس گوشہ کو ایک نئے باب کے طور پر دیکھا جا سکتا ھے ۔

شیخ کاعلمی سفر

اگر شیخ صدوق کی زندگی کے اس گوشہ کا مطالعہ اور اس میں غور و خوض کیا جائے تو معلوم ھوگا کہ آپ کا وجود احادیث کی جمع آوری کے عشق سے سرشار تھا اور آپ نے ھادیان دین کے اقوال کی حفاظت اور ان کی نشر و اشاعت اپنا پھلا مشغلہ بنا رکھا تھا اور اسی مقصد تک پھونچنے کے لئے بلخ و بخارا سے لے کر کوفہ و بغداد اور وھاں سے مکہ اور مدینہ تک کا سفر کرکے تمام سنی و شیعہ اسلامی مراکز تک اپنے کو پھونچایا اس سفر میں آپ کو بھت سی مشکلات کا سامنا ھوا لیکن آپ نے ان کو اپنا لیا غربت کا غم برداشت کیا اور پیغمبر و آل پیغمر علیھم السلام کی احادیث کے بھت بڑے ذخیرہ کے ساتھ واپس پلٹے ۔ آپ جس شھر میں وارد ھوتے تھے وھاں کے جیّد علماء کی تلاش میں لگ جاتے اور ان کے علم سے استفادہ کرتے تھے اور طلاب علوم دین کو اپنے علمی ذخیرہ سے سیراب کرتے تھے ۔ آپ ماہ رجب ۳۵۲ میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشھد تشریف لے گئے اور اس کے بعد رے واپس آگئے ۔ اسی سال آپ نے ماہ شعبان میں نیشاپور کا سفر کیا جو اس زمانے میں خراسان کے اھم ترین شھروں میں سے تھا وھاں کے لوگ آپ کے چاروں طرف جمع ھو گئے اور آپ نے وھاں پر اپنی واضح اور مدلل گفتگو سے غیبت امام مھدی (عج) کے متعلق لوگوں کی فکری گتھیوں کو سلجھا دیا ۔ آپ نے خود ھی اس واقعہ کا ذکر اپنی کتاب اکمال الدین میں کیا ھے، اس کے علاوہ آپ نے وھاں کے بعض علماء سے حدیث سنیں اور انھیں نقل کیا ھے ان میں سے بعض حسین بن احمد بیھقی، ابو الطیب حسین بن احمد اور عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب ھیں ۔ مرو میں بھی آپ نے کچھ افراد سے احادیث سنیں اور انھیں نقل کیا ھے جن میں سے بعض افراد محمد بن علی شاہ فقیہ، ابو یوسف رافع بن عبد اللہ بن عبد الملک ھیں، آپ نے اس کے بعد بغداد کی طرف سفر کیا وھاں کے چند علماء سے احادیث حاصل کی ان میں سے بعض یہ ھیں : حسین بن یحیی علوی، ابراھیم بن ھارون، علی بن ثابت (والیبی) ۔ آپ ۳۵۴ میں وارد کوفہ ھوئے اور وھاں کے بزرگوں سے اخذ حدیث کیا جن میں سے محمد بن بکران نقاش، احمد بن ابراھیم بن ھارون، حسن بن محمد بن سعید ھاشمی، علی بن عیسیٰ، حسن بن محمد مسکونی اور یحییٰ بن زید بن عباس بن ولید جیسے مشائخ کے نام لیے جا سکتے ھیں ۔
اسی سال آپ زیارت اور حج بیت اللہ کے لیے حجاز روانہ ھوئے اور ھمدان کے راستے میں قاسم بن محمد بن احمد بن عبدویہ، فضل بن فضل بن عباس کندی اور محمد بن فضل بن زیدویہ جلاب سے احادیث سنیں اور نقل کیا ھے ۔ حج کے انجام دینے کے بعد سفر سے واپسی پر مکہ اور فید کے درمیان احمد بن ابی جعفر بیھقی سے روایت حاصل کی ۔ آپ دوبارہ ۳۵۵ میں بغداد تشریف لائے شاید آپ کی یہ تشریف آوری حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد کی ھے ۔ کتاب المجالس سے معلوم ھوتا ھے کہ آپ اس کے علاوہ دوبار اور بھی مشھد کی زیارت سے مشرف ھوئے ھیں ایک بار ۳۶۷ میں تشریف لے گئے اور وھاں سید ابو برکات علی بن حسین حسینی اور ابوبکر محمد بن علی کے سامنے حدیثیں پیش کیں اور محرم سے پھلے ۳۶۸ میں رے واپس آگئے، دوسری مرتبہ اس وقت جب کہ ما وراء النھر کی طرف سفر کا ارادہ تھا راستے میں مشھد اور بلخ کی طرف بھی تشریف لے گئے اور وھاں کے علماء منجملہ حسین بن محمد انشانی رازی، حسین بن احمد استرآبادی، حسن بن علی بن محمد بن علی بن عمرو العطار، حاکم ابو حامد احمد بن حسین اور عبید اللہ بن احمد فقیہ سے کسب فیض کیا ۔ ایلاق میں بھی محمد بن عمرو بن علی بن عبد اللہ بصری اور محمد بن حسن بن ابراھیم کرخی وغیرہ سے اخذ حدیث کیا، یھی وہ دیھات تھا جھاں شریف الدین ابو عبد اللہ محمد بن حسن 10 المعروف بہ نعمت نے آپ سے درخواست کی تھی کہ کتاب من لا یحضرہ الفقیہ تحریر کریں جس کی تفصیل ھم تالیفات کی فصل میں بیان کریں گے ۔ آپ اس کے بعد سرخس کی طرف عازم سفر ھوئے اور وھاں سے سمرقند اور فرغانہ تشریف لے گئے ۔ 11 گرگان کی طرف سفر میں بھی آپ نے ابو الحسن محمد بن قاسم استرآبادی سی حدیثیں لیں ھیں ۔ 12

شیخ کا علمی مقام

آھستہ آھستہ حضرت امام عصر ارواحنا لہ الفداء کی دعا کے طفیل شیخ صدوق کے وجود کی برکتیں بڑھتی گئیں اور شھرت عالم گیر ھوتی گئی، تمام دانشوروں نے اپنی زبان سے آپ کی مدح و ثناء کی اور آپ کی عظمت اور وسعت علم کو سلام کیا ۔ بغداد کے سفر کے بعد آپ کی علمی شھرت نے اس علاقہ کے دانشمندوں، علماء کے دلوں پر اس قدر اثر کیا کہ سب کو اپنی طرف کھینچ لیا اور انھیں اپنے شمع وجود کی کرنوں سے مستفیض فرمایا ۔
شیخ صدوق کو صرف ایک محدث، فقیہ یا اصولی کا نام نھیں دیا جا سکتا بلکہ آپ کی مختلف قسم کی تصنیفات اور آپ کے حق میں علمائے دین کے اقوال کو مدنظر رکھتے ھوئے آپ کے وسیع علم کے ساحل تک رسائی حاصل کریں گے ۔
عالم اھل سنت عمر رضا کحالہ آپ کے بارے میں لکھتے ھیں : محمد بن علی بن حسین (ابوجعفر) شیعہ مفسر، فقیہ، اصولی، محدث، حافظ، رجال سے آشنا .... تھے ۔ 13 آپ نے بیشتر وقت اور زحمتوں کو احادیث کی جمع آوری، تدوین، ان کی باب بندی، احادیث کی نشر و اشاعت اور مختلف موضوعات پر کتب کی تصنیف میں لگایا اور یہ چیزیں ان علوم پر کامل تسلط کے بغیر ناممکن ھیں ۔ صدوق کے زمانے میں تحقیق و تحریر کے وسائل کے کم ھونے یا نہ ھونے کے برابر ھونے میں بھی آپ کی طاقت فرسا کوشش و زحمت کی دلیل ھیں، اگرچہ آج تحقیق و تصنیف کے وسائل کی بھر مار ھے پھر بھی ایسا کام ایک علمی گروہ بھی انجام نھیں دے سکتا ۔ صدوق نے آثار معصومین علیھم السلام کی ترتیب و تنظیم میں اپنے ماھرانہ عمل سے ایسا چشمہ جاری کر دیا کہ آئندہ نسلیں اس سے نکلی ھوئی پاکیزہ اور رواں نھروں سے بشریت کے علمی اور دینی تقاضوں کو پورا کر سکیں ۔

امامی فقیہ

فقھاء کی سوانح حیات لکھنے والوں میں بعض ایسے ھیں جنھوں نے شیخ صدوق سے اپنا قلم روک لیا اور انھیں فقھاء کی فھرست میں نھیں لائے ھیں جب کہ صدوق نے کتب اربعہ کی معروف کتاب من لایحضرہ الفقیہ اور دوسری بھت سی کتابوں میں روایات کو فقھی موضوع کے تحت درج کیا ھے اور اس کے مقدمہ میں فرماتے ھیں : جن کو میں نے اپنی کتاب میں درج کیا ھے اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ھوں 14 یعنی کتاب میں مندرجہ روایات، احکام میں ان کے نظریات کے مطابق ھیں ۔ اسی طرح آپ کی مشھور کتاب المقنع کا شمار عالم تشیع کی بنیادی فقھی کتب میں ھوتا ھے جو کہ کاملا ً فتوائی لحاظ سے ھے اور آپ کے بعد کے تمام فقھاء نے آپ کی اس کتاب سے آپ کے فقھی نظریات کے مطابق استناد کیا ھے ۔ اس کے علاوہ بھت سے رجال نویسوں نے آپ کو فقھاء کے زمرے میں جگہ دی ھے ۔ 15 عالم تشیع کے عظیم عالم دین شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الفھرست میں صدوق کو اس طرح یاد فرماتے ھیں : ھمارے بزرگ اور ھمارے فقیہ اور شیعیان خراسان کی آبرو ۔ 16

شیخ صدوق دوسروں کی نظر میں

شیخ صدوق کی عظمت کا یہ عالم ھے کہ شیعہ اور سنی دونوں فرقہ کے علماء جب بھی آپ کے نام تک پھونچے تو آپ کی مدح و ثناء کرنے لگے اور آپ کی عظمت کا کلمہ پڑھا اور بلند و طویل القاب اور پرمعنیٰ عبارتوں کے ساتھ آپ کا نام لیا ھے ۔ ان بزرگوں کے کلام کی بعض تعبیریں تو انسان کو تعجب کے کٹگھرے میں لا کھڑا کرتی ھیں اور آپ کی والا شخصیت کے سامنے انسان کے تعظیمی جذبہ میں اور زیادہ اضافہ کر دیتی ھیں ۔ شیخ طوسی الفھرست میں لکھتے ھیں : صدوق، عظیم حافظ احادیث، ناقد اخبار اور عالم رجال تھے ۔ ذھنی پختگی اور علمی اعتبار سے قم کے دانشوروں میں آپ کے مانند کوئی نھیں تھا ۔ 17
محمد بن ادریس نے بھی کتاب سرائر میں لکھا ھے : آپ ایک عظیم دانشور، قابل اطمینان، عالم اخبار، ناقد آثار، عالم رجال اور حدیث کے عظیم حافظ تھے، آپ ھمارے پیشوا شیخ مفید محمد بن محمد بن نعمان کے استاد ھیں ۔ 18
مشھور عالم رجال نجاشی لکھتے ھیں : ھمارے فقیہ اور بزرگ صدوق خراسان کے شیعوں کی مشھور و معروف شخصیت تھی ۔ وہ اپنی جوانی کے ایام میں ۳۵۵ میں بغداد تشریف لائے اور وھاں کے بزرگوں نے آپ کی خدمت میں آکر فیض حاصل کیا ۔ 19
سید ابن طاؤوس نے بھی آپ کی اس طرح توصیف کی ھے : شیخ ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ کی یہ شخصیت تھی کی آپ علم و عمل میں مورد اتفاق اور گفتار میں کامل اطمینان کے قابل ھیں ۔ 20 اور شیخ اسد اللہ شوشتری کتاب مقابس الانوار میں آپ کے بارے میں رقم طراز ھیں : صدوق رئیس المحدثین، اساس دین کو حیات دینے والے، صاحب فضایل و مکارم تھے وہ اور ان کے بھائی حضرت امام حسن عسکری اور حضرت ولی عصر علیھما السلام کی دعا کے ذریعہ پیدا ھوئے تھے ۔ 21
علامہ مامقانی اپنی کتاب تنقیح المقال میں تحریر فرماتے ھیں : محمد بن علی بن بابویہ کی وہ شخصیت ھے جس کی فقاھت سے تمام لوگوں نے اور جس کی احادیث سے تمام فقھاء نے استفادہ کیا ھے اور نامور علماء اور دانشورں نے آپ کی تعریف و تمجید کی ھے اور آپ کی عظمتوں کو سلام کیا ھے ۔ 22
مرحوم سید حسن صدر آپ کے بارے میں لکھتے ھیں : محمد بن علی بن حسین نے تین سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ھیں اور اسلامی دانشوروں مین آپ کی کوئی مثال نھیں ملتی ۔ 23
یہ تمام توصیفات و تعریفات فقط شیعہ علماء اور دانشورں سے ھی مختص نھیں ھیں، اھل سنت بھی آپ کے مدح سرا رھے ھیں، ھم اس مختصر مقالے میں فقط بطور نمونہ ایک کی طرف اشارہ کر رھے ھیں ۔ خیر الدین زرکلی اپنی معروف کتاب الاعلام میں لکھتے ھیں : محمد بن علی بن حسین المعروف بہ شیخ صدوق کی مثال قم کے علماء میں نھیں تھی وہ رے میں مقیم تھے اور خراسان و شرقی علاقوں میں عظیم مقام رکھتے تھے، شھر رے میں رحلت فرمائی اور وھیں پر سپر خاک ھوئے اور آپ نے تقریبا تین سو کتابوں کو تالیف کیا ۔ 24

روایت اور گفتار میں صداقت

علم رجال کے باب میں ایک مسئلہ جو مورد توجہ قرار دیا جاتا ھے اور جس کے ذریعہ محدثین حدیث کو قبول کرتے ھیں وہ مسئلہ علمائے رجال کا راوی کی وثاقت، اطمینان اور صداقت کی تصریح کرنا ھے جب کہ علمائے رجال کے کلام میں صدوق کی وثاقت کا بیان ندرت سے ملتا ھے ۔ عالم تشیع کے عظیم محدث اور وسائل الشیعہ جیسی کتاب کے مولف شیخ حر عاملی اسی سلسلہ میں تحریر فرماتے ھیں : بزرگ رجال نویس علماء نے اس قدر آپ کی تعریف و تمجید کی ھے جو کہ توثیق سے کم نھیں ھے ۔ جس وقت کوئی شخص اس قدر شھرت کا حامل ھو کہ اس کی حالت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہ ھو تب اس کی توثیق کی ضرورت نھیں ھوتی ۔ شیخ صدوق پر علمائے دین کا اعتماد اس درجہ پر تھا کہ اگر ان کو " آپ مورد وثوق اور قابل اطمینان ھیں " جیسی عبارتوں سے تعبیر کیا جائے تو یہ ان کی شان میں گستاخی ھی ھو گی ۔ 25
محقق بحرانی فرماتے ھیں : بعض اصحاب کو دیکھا ھے جو صدوق کی نقل کی ھوئی مرسلہ روایات 26 کو صحیح جانتے ھیں اور کھتے ھیں کہ صدوق کے مراسیل ابن ابی عمیر کی مراسیل سے کمتر نھیں ھیں کتاب ” مختلف “ میں علامہ ”شرح ارشاد“ میں شھید اور ”حواشی فقیہ“ میں سید داماد ان لوگوں میں سے ھیں جنھوں نے آپ کی مر اسیل کو صحیح جانا ھے ۔ 27
مشھور رجالی علامہ مامقانی تنقیح المقال میں تحریر فرماتے ھیں : اس مرد کی وثاقت، عدالت اور عظمت کو خدشہ اور تامل کی نگاہ سے دیکھنا فروزاں خورشید کے نور میں تامل کرنے کی طرح ھے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف نے آپ کے بارے میں فرمایا ھے : ان اللہ سبحانہ ینفع بہ ۔ خداوند عالم اس کے ذریعہ لوگوں کو نوازے گا ۔ یہ خود ھی آپ کی وثاقت اور عدالت کی دلیل ھے ۔ 28
نیز بعض لوگوں نے آپ کی وثاقت کو سلمان و ابوذر کی وثاقت کے مثل جانا ھے ۔ 29

شیخ صدوق کے آثار

صدوق کی کتابوں کے بیان کرنے کے لئے خود ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے ۔ بجا ھوگا اگر کتابنامہٴ صدوق تحریر کردی جائے اور اس عظیم عالم دین کی تحریروں سے علمی اور اسلامی معاشرہ کو آشنا بنایا جائے ۔ شیخ طوسی کتاب فھرست میں لکھتے ھیں : انھوں (صدوق) نے تقریبا تین سو کتابیں تالیف کی ھیں ۔ 30
نجاشی نے اپنی کتاب رجال میں صدوق کی ۱۹۸ کتابوں کا ذکر کیا ھے ۔ 31 یہ کتاب شیخ کی کتاب کے بعد لکھی گئی ھے ۔
صدوق کو کتاب کے سلسلے میں اتنا عالی مرتبہ ملا یہ عظمت اپنی جگہ لیکن اصل میں آپ کی اھمیت آپ کی تالیفات کی کثرت نھیں بلکہ آپ کے کاموں کا افادہ اور استفادہ ھے ۔ احادیث معصومین علیھم السلام کی تنظیم و ترتیب میں جو خلاقیت آپ نے بخشی ماضی سے لے کر عصر صدوق تک دکھائی نھیں پڑتی، یہ بھی احادیث پر آپ کی خاص مھارت کی دلیل ھے ۔
ھم اس مختصر مقالہ میں جناب صدوق علیہ الرحمہ کے آثار کو اجمالی تبصرہ کے ساتھ پیش کر رھے ھیں ۔

کتاب من لا یحضرہ الفقیہ مدینة العلم کے بعد آپ کی یہ کتاب سب سے بڑی اور شھرت خاص کی حا مل کتاب ھے اس کا شمار تشیع کی کتب اربعہ میں ھوتا ھے ۔ یہ کتاب تقریبا چھ ھزار احادیث پر مشتمل ھے کہ جو فقہ کے مختلف موضوعات کے لحاظ سے تالیف کی گئی ھے ۔ اس کتاب کی تالیف کا سبب ایک خوبصورت اور قابل سماع حکایت ھے جس کو آپ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کیا ھے ۔ آپ وھاں اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ھوئے اس طرح لکھتے ھیں : میں نے یہ نہ چاھا کہ دوسرے مصنفین کی طرح جس موضوع پر جو حدیث مل جائے اس کو ضبط تحریر کر دوں بلکہ میں نے اس کتاب میں فقط ان روایات کو نقل کیا ھے جس کے مطابق فتوا دیتا ھوں اور ان کو صحیح جانتا ھوں اور ان کی صحت کا معتقد ھوں اور وہ میرے اور پروردگار کے درمیان حجت ھیں ۔
مرحوم مامقانی علامہ طباطبائی (بحرالعلوم) سے نقل کرتے ھوئے لکھتے ھیں : بعض اصحاب کتاب الفقیہ کی روایات کو کتب اربعہ کی دوسری کتابوں پر چند دلیلوں کے ذریعہ فوقیت دیا کرتے تھے :
مولف کے قوی حافظہ کا مالک ھونا کہ جو بھتر طریقہ سے روایات کی حفاظت کا سبب ھوتا ھے ۔

من لا یحضرہ الفقیہ کا کتاب کافی سے موخر ھونا ۔

صدوق نے اپنی کتاب میں جو بھی ذکر کیا اس کی صحت کی خود ضامت دی ھے ۔
ان کا مقصد فقط احادیث کا نقل کرنا نھیں تھا بلکہ خود آپ کے بقول جس حدیث کو آپ نے نقل کیا ھے اس کے مطابق فتوا بھی دیا ھے ۔32

کمال الدین و تمام النعمہ

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اس کتاب کو اواخر عمر میں تالیف کیا ھے، اس زمانے میں ایک طرف اسماعیلیہ فرقہ اپنا نفوذ بڑھا رھا تھا تو دوسری طرف زیدیہ فرقہ، جعفر کذاب کے حمایتی اور بھت سے اھل سنت حضرات فرقہ امامیہ پر اعتراضات اور شبھات وارد کرنے میں لگے تھے اور اس طرح لوگوں کے اذھان کو آلودہ کر رھے تھے ۔ اسی بنا پر شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ نے کتاب کمال الدین تالیف کی ۔ آپ اس کتاب کے شروع میں پھلے مخالفین کے اشکالات کو ذکر کرتے ھیں اس کے بعد ان کا جواب لکھتے ھیں اور خوبصورت طریقہ سے امامیہ عقیدہ کا دفاع کرتے ھوئے قائم آل محمد (عج) کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ھیں ۔ 33 اگرچہ یہ کتاب تقریباً حضرت ولی عصر (عج) کی غیبت کبریٰ کے نوے سال بعد لکھی گئی ھے اس کتاب کی گفتگو سے معلوم ھوتا ھے کہ اس زمانے میں جب کہ ابھی اس مسئلہ کے پیش آئے ھوئے زیادہ دن نھیں گزرے تھے بعض اھل کفر و نفاق نے واقعہ غیبت کو تردید کی نگاہ سے دیکھتے ھوئے شیعوں پر نکتہ چینی شروع کر دی تھی ۔ شیخ نے بھی اس نکتہ کی طرف بارھا اشارہ کیا ھے ۔

معانی الاخبار

صدوق کی اھم کتابوں میں سے ایک معانی الاخبار ھے یہ کتاب ان روایات پر مشتمل ھے جو مبھم اور مشکل آیات و روایات کی توضیح بیان کرتی ھیں ۔

عیون اخبار الرضا (ع)

آپ نے یہ کتاب آل بویہ کے دانشور و دیندار وزیر کے لئے تحریر فرمائی اور ان کو ھدیہ کیا ھے ۔ اس کتاب میں آپ نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی روایات کو جمع کیا ھے ۔

خصال

آپ کی یہ کتاب اخلاقی، علمی، تاریخی، فقھی اور درس آموز پند و نصیحت پر مشتمل ھے اور اعداد کے لحاظ سے مرتب کی گئی ھے اس تنظیم و ترتیب نے آپ کے اس کام کی اھمیت اور اس کے حسن کو دوبالا کر دیا ھے ۔ آپ نے ھر فصل میں انھیں روایات کو درج کیا ھے جس میں اس عدد کے مطابق کوئی نکتہ یا مفھوم پایا جاتا ھو ۔

امالی (مجالس)

اس کتاب میں شیخ صدوق کی تقریروں اور دروس کو ضبط تحریر کیا گیا ھے ۔ اس کتاب کے مطالب کو آپ کے شاگردوں نے تحریر کیا ھے ۔

علل الشرائع

جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ھی معلوم ھو جاتا ھے کہ یہ کتاب احکام کے فلسفہ اور ان کی علتوں اور اسباب کے بارے میں ھے، موٴلف نے ان تمام احادیث کو جو احکام کی علتوں اور ان کے فلسفہ کو بیان کرتی ھیں ایک مجموعہ کی شکل میں اسی نام کے ساتھ پیش کیا ھے اور شاید اس موضوع کی یہ پھلی کتاب ھوگی۔
آپ کی بعض دوسری کتابیں مندرجہ ذیل ھیں :
1۔ ثواب الاعمال
2۔ عقاب الاعمال
3۔ المقنع
4۔ الاٴوایل
5۔ الاٴواخر
6۔ المناھی
7۔ التوحید
8۔ دعائم الاسلام
9۔ اثبات الوصیہ
10 ۔ المصابیح
11 ۔ التاریخ
12 ۔ المواعظ
13 ۔ التقیہ
14 ۔ الناسخ و المنسوخ
15 ۔ ابطال العلو و التقصیر
16 ۔ السر المکتوم الی الوقت المعلوم
17 ۔ مصباح المصلی
18 ۔ مصادقہ الاخوان
19 ۔ الھدایہ فی الاصول و الفقہ
20 ۔ المواعظ و الحکم
21 ۔ بھت سی کتابیں بعض مھینوں اور اعمال کی فضیلت کے سلسلہ ھیں
22 ۔ فقہ وغیرہ کے مختلف موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں
23۔ کئی کتابیں پیغمبر اکرم و ائمہ علیھم السلام اور بعض اصحاب کے فضائل میں
24۔ پیغمبر اکرم و ائمہ علیھم السلام کے زھد کے متعلق متعدد کتابیں
25 ۔ اور لوگوں کے سوالات پر مشتمل کثیر تعداد میں کتابیں ۔

گمشدہ گوھر یا مدینةالعلم

شیخ صدوق کی اھم ترین کتاب جس کا خود آپ نے ذکر کیا ھے اور شیخ بھائی کے والد محترم کے زمانے تک علماء دین کے استفادہ میں تھی اس کا نام مدینة العلم ھے جو مفقود ھو گئی اور افسوس کہ ھم تک نہ پھونچ سکی ۔
”معالم العلماء“ میں ابن شھر آشوب لکھتے ھیں کہ کتاب مدینة العلم دس جلدوں پر مشتمل ھے اور من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں میں ھے اور اس تحریر سے معلوم ھوتا ھے کہ مدینة العلم، من لایحضرہ الفقیہ کے دو برابر تھی ۔ 34
شیخ طوسی، شیخ منتخب الدین اور دوسرے حضرات نے اس کتاب کو شیخ صدوق کی اھم ترین کتاب کے عنوان سے ذکر کیا ھے اور بھت سے بزرگان دین نے کتاب مدینة العلم سے احادیث نقل کی ھیں ۔ 35
صاحب روضات الجنات تحریر فرماتے ھیں : علامہ اور شھیدین کے زمانے کے بعد کتاب مدیة العلم کھیں دکھائی نھیں پڑی اور نہ ھی اس کے بارے سنا گیا لیکن بعض لوگ معتقد ھیں کہ یہ کتاب شیخ بھائی کے والد کے زمانے تک موجود تھی اور ان کے پاس ایک نسخہ موجود تھا ۔ 36 شیخ حسین بن عبد الصمد حارثی (شیخ بھاء الدین عاملی کے والد) اپنی درایت کی کتاب میں لکھتے ھیں : ھماری احادیث کے معتبر اصول اور بنیاد پانچ کتابیں ھیں : کافی، مدینة العلم، من لا یحضرہ الفقیہ، تھذیب اور استبصار ۔
علامہ مجلسی اور اس کے بعد سید محمد باقر جیلانی (سید شفتی) نے اس کتاب کی تلاش میں بھت زیادہ وقت و مال صرف کیا لیکن اس کتاب کو نہ پا سکے ۔

صدوق کے شاگرد

شیخ صدوق نے یہ بات اچھی طرح درک کرلی تھی کہ اقوال معصومین علیھم السلام کہ جو کسی بھی زمانے میں خائنوں کی تحریف و خراب کاری کی زد میں آسکتے ھیں ان کی حفاظت کا بھترین راستہ ان کی تدوین، تحریر اور حفظ کے علاوہ عاشقان مکتب اھل بیت علیھم السلام کے سینوں میں منتقل کرنا ھے اسی بنا پر جھاں کھیں کسی حدیث کو سنتے تھے فورا ھی اسے ذھن نشین کرلیا کرتے، لکھتے اور دوسروں کو بھی سناتے تھے، اس طرح اس زمانے کے بھت کم ھی ایسے علماء تھے جن سے آپ نے استفادہ نہ کیا ھو اور بھت کم ھی ایسے طلاب تھے جن کو آپ نے علوم وحی و عصمت سے کچھ نہ بخشا ھو ۔ آپ جس شھر میں بھی تشریف لے گئے وھاں کے اکثر دانشوروں نے آپ کے خرمن دانش سے خوشہ چینی کی اور فیضیاب ھوئے ھیں اس طرح آپ کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں میں لکھی گئی ھے ۔ آپ کے شاگروں میں سے ممتاز شاگرد کے طور پر عالم تشیع کے صاحب نام عالم دین محمد بن محمد بن نعمان المعروف بہ شیخ مفید کا نام لیا جا سکتا ھے کہ جو واقعاً اس لقب کے لائق تھے اور دین و دیانت کے سلسلہ میں بھت زیادہ خدمات کی ھیں ۔ آپ کے آثار آپ کی وسعت علم کی واضح دلیل ھیں ۔
شیخ مفید کے علاوہ آپ کے شاگردوں میں سے ان معزز علمائے کرام کے نام لئے جا سکتے ھیں : آپ کے بھائی حسین بن علی بن بابویہ قمی، ھارون بن موسی تلعکبری، حسین بن عبید اللہ غضائری، حسن بن محمد قمی (تاریخ قم کے موٴلف )، علی بن احمد بن عباس نجاشی، علم الھدیٰ سید مرتضیٰ، سید ابو البرکات علی بن حسین جوزی حسینی حلی ۔

غروب خورشید

آخر کار شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ نے اسلامی علوم اور ثقافت کے سلسلہ میں انتھک محنت اور تحقیق و تفحص پر اپنی عمر نثار کرکے ۷۵ برس کی زندگی کے ساتھ 381 میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کھتے ھوئے اس کی لامحدود رحمت کے سائے میں آرام فرما ھوگئے ۔
آپ کی وفات شھر رے میں ھوئی اس عظیم اور غم انگیز حادثہ پر پورے عالم تشیع میں غم کے بادل چھا گئے اور عاشقین مکتب اھل بیت علیھم السلام نے غم و اندوہ اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ کے پیکر مطھر کو کاندھا دیا اور شھر رے میں مرقد حضرت عبد العظیم کے نزدیک سپرد خاک کردیا ۔ یہ مقام آج بھی ابن بابویہ کے نام سے مسلمانوں کی زیارتگاہ بنی ھوئی ھے ۔ آپ کی آرامگاہ اگرچہ ھمیشہ سے شیعوں کے درمیان محترم تھی لیکن تقریبا ایک سو پچاسی سال پھلے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے صدوق کے حرم کے زائرین پر آپ کی عظمت و اعتبار کو مزید عیاں کردیا اور وہ کچھ زیادہ ھی آپ کے مرید ھو گئے ۔ روضات الجنہ اور دوسری تاریخی کتب کے مطابق اس واقعہ کی تفصیل اس طرح سے ھے : ۱۳۳۸ میں شدید بارش ھوئی جس کی بنا پر شیخ صدوق کے مزار کے نزدیک کی زمین بیٹھ گئی اور قبر میں شگاف پیدا ھو گیا مومنین نے اس کی تعمیر کا ارادہ کیا ۔ مٹی ھٹاتے ھوئے وہ اس سرداب تک پھونچے جھاں آپ مدفون تھے ۔ جب وہ اس میں وارد ھوئے تو آپ کے جسم کو صحیح و سالم پایا جن کے ناخنوں پر ابھی بھی رنگ حنا کے آثار باقی تھے ۔ یہ خبر پورے طھران میں پھیل گئی یھاں تک کہ بادشاہ وقت فتح علی شاہ قاجار کو بھی اطلاع ملی ۔ حکم دیا کہ قبر کو بند نہ کیا جائے وہ بھی دیکھنا چاھتے ھیں ۔ بادشاہ اپنے ھمراھیوں کے ساتھ وھاں پر آئے اور علماء و عمائد قوم سرداب میں داخل ھوئے اور سب نے آپ کے صحیح و سالم جسد کا مشاھدہ کیا اس کے بعد سرداب کو بند کرنے کا حکم ھوا اور قبر پر بنی ھوئی عمارت کی تعمیر نو کی گئی ۔ 37
صاحب روضات الجنات نے اس واقعہ کو ان لوگوں سے نقل کیا ھے جو اس ماجرا کے شاھد تھے اور انھوں نے خود صدوق کے سالم جسد کو دیکھا تھا ۔ خدا آپ پر رحمت نازل کرے اور بھشت میں بھترین مقام عطا کرے ۔

___________

1. محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ کو اختصار کے ساتھ ”محمد بن علی بن بابویہ “کھا جاتا ھے۔
2. ابو جعفر بن علی الاسود۔
3. حضرت ولی عصر عج کے تیسرے نائب خاص ھیں جو آپ عج کے ارشادات کو لوگوں تک پھونچاتے نیز امت کی ضروریات کو آپ عج کی خدمت میں پیش کیاکرتے تھے ۔
4. تنقیح المقال ،ج۳ ،ص۱۵۴۔
5. دیلم ایک قبیلہ کا نام تھا جو ایران کے شمالی علاقہ میں رہتا تھا اور عرصہ تک ایران کے اکثر علاقوں پر حکمرانی بھی کی تھی ان کو دیلمیان کھا جاتاھے۔
6. الغیبت،ص۱۸۸۔
7. معانی الاخبار،ص۳۷۔
8. رکن الدولہ۔ابو شجاع کے فرزند حسن کا لقب ھے۔
9. مجالس المومنین ،قاضی نور اللہ شوشتری،ج۲،ص۳۲۵۔
10. حضرت امام مو سی بن جعفر علیہ السلام کے نواسوں میں سے ھیں ۔
11. مقدمہ بحار الانوار،چاپ بیروت ،ص۶۹۔
12. حاشیہ شرح لمعہ دس جلدی. ج۹،ص۲۶۷۔
13. معجم الموٴلفین،عمر رضا کحالہ،ج۱۱،ص۳۔
14. من لا یحضرہ الفقیہ،ج۱،ص۳۔
15. رک:صدوق در نگاہ دیگران۔
16. الفھرست،ص۳۰۴۔
17. الفھرست،شیخ طوسی ،منشور الشریف الرضی،قم،ص۱۵۷۔
18. مفاخر اسلام، ج۳،ص۱۷۷،مقدمہٴ معانی الاخبار، ص۹ بحوالہٴ سفینة البحار، ج۲، ص۲۲۔
19. شرح لمعہ،کلانتر،ج۹،ص۲۶۵ ،دس جلدی چاپ بیروت۔
20. ایضاً۔
21. ایضاً۔
22. تنقیح المقال،ج۳،ص۱۵۴،چاپ نجف۔
23. تاٴسیس الشیعہ لعلوم الاسلام،ص۲۶۲،منشورات اعلمی۔
24. الاعمال،خیر الدین زرکلی،ج۶،ص۲۷۴،بیروت۔
25. الفوائدالطوسیہ،ص۷۔
26. وہ روایات جن کے راویوں کا نام ذکر نہ ھو یا ان میں سے بعض راوی کے حذف کے ساتھ اس روایت کو معصوم علیہ السلام سے منسوب کیا جائے۔
27. مقدمہ معانی الاخبار،ص۱۴،روضات الجنات ،ج۶،ص۱۳۳۔
28. تنقیح المقال،ج۳،ص۱۵۴۔
29. شرح لمعہ ،کلانتر،ج۹،ص۲۶۵۔
30. الفھرست،ص۲۰۴۔
31. رجال النجاشی،ص۳۸۹۔۳۹۲۔
32. تنقیح المقال،ج۳،ص۱۵۵۔
33. ہزارہٴ شیخ طوسی ،ص۵۲۲۔
34. معالم العلماء،ص۱۱۲۔
35. الذریعةالی تصانیف الشیعہ ،ج۲،ص۲۵۲۔
36. روضات الجنات،ج۶ ،ص۱۳۶۔
37. روضات الجنات،ج۶،ص۱۴۰۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عاشورا کے آداب و اعمال؛ فقہ عاشورا
جناب سکینہ علیھا السلام
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ

 
user comment