حج کا نعرہ
قَالَ رَسُولُ اللّٰه (ص): ا تَٔانِی جَبْرَئِیلُ(ع) فَقَالَ:اِنَّ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ یَا مْٔرُکَ اَنْ تَا مْٔرَ ا صَٔحَابَکَ ا نَٔ یَرْفَعُوا اصَٔوَاتَهمْ بِالتَّلْبِیَةِ فَإِنَّها شِعَارُ الْحَجِّ۔[ 41
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جبرئیل میرے پاس آئے اور کھا کہ خدا وند عالم آپ کو حکم دیتا ھے کہ اپنے ساتھیوں اوراصحاب کو حکم دیں کہ بلند آواز سے لبیک کھیں کیونکہ یہ حج کا نعرہ ھے ”۔
معرفت کے ساتھ واردھونا
قَالَ الْبَاقِرُ(ع:(مَنْ دَخَلَ هذَا الْبَیْتَ عَارِفاً بِجَمیع ما ا ؤَجَبَه اللّٰه عَلَیْه کٰانَ ا مَٔناً فِی الآخِرَةِ مِنَ الْعَذَابِ الدّٰائِمِ۔[ 42
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”جو شخصاس گھر میں اس عرفان کے ساتھ داخلھو کہ جو کچھ خداوند عالم نے اس پر واجب کیا ھے اس سےآگاہ رھے تو قیامت میں دائمی عذاب سے محفوظ رھے گا”۔
خدا کے غضب سے امان
عبد الله بن سنان کھتے ھیں کہ میں نے امام جعفر صادق ں سے پوچھا :“کہ خدا وند عالم کا ارشاد “ومن دخلہ کان آمناً[ 43
”یعنی جو شخصاس میں داخلھو وہ امان میں ھے اس سے مراد گھر ھے یا حرم ؟
[ قَالَ:مَنْ دَخَلَ الْحَرَمَ مِنَ النَّاسِ مُسْتَجِیراً بِه فَهوَ آمِنٌ مِنْ سَخَطِ اللّٰه ۔۔۔ ۔[ 44
”امام (ع)نے فرمایا:جو شخص بھی حرم میں داخلھو اور وھاں پناہ حاصل کرے وہ خدا کے غضب سے امان میں رھے گا ”۔
مکہ خدا و رسول کا حرم
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:مَکَّةُ حَرَمُ اللّٰه وَحَرَمُ رَسُولِہِ وَحَرَمَ ا مَٔیرِ الْمُو مْٔنِینَ (ع)،الصَّلاٰةُ فِیهابِمِائَةِ ا لَٔفِ صَلاٰةٍ، وَالدِّرْهمُ فِیه ابِمِائَةِ ا لَٔفِدِرْهم،وَالْمَدِینَةُ حَرَمُ اللّٰه وَحَرَمُ رَسُولِه وَحَرَمُ ا مَٔیرِ الْمُو مْٔنِینَ۔ صَلَوَاتُ اللّٰه عَلَیْهمَا۔الصَّلاٰةُ فِیها بِعَشَرَةِ آلاٰف صَلاٰةٍ وَالدِّرْهمُ فِیها بِعَشَرَةِ آلاٰفِ دِرْهمٍ۔[ 45
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”مکہ خدا وندعالم ،اس کے رسول(ص)(پیغمبر اکرم (ص)) اور امیر المومنین کا حرم ھے اس میں ایک رکعت نماز ادا کرنا ایک لاکھ رکعت کے برابر ھے۔ ایک درھم انفاق کرنا ایک لاکھ درھم خیرات کرنے کے برابر ھے۔ مدینہ (بھی)الله ،اس کے رسول اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع)کا حرم ھے اس میں پڑھی جانے والی نماز دس ہزار نماز کے برابر اور خیرات کیا جانے والا ایک درھم دس ہزار درھم کے برابر ھے ”۔
مسجد الحرام میں داخل ھونے کے آدا ب
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَادْخُلْه حَافِیاً عَلَی السَّکِینَة وِالوَقَارِ وَالْخُشُوعِ۔۔۔ ۔[ 46
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”جب تم مسجد الحرام میں داخل ھوتو پابرہنہ اور سکون ووقار نیز خوف الٰھی کے ساتھ داخلھو ”۔
جنت کے محل
قَالَ ا مَٔیرِ الْمُو مْٔنِینَ (ع:(ا رَٔبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنّةِ فِی الدُّنْیَا:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،وَمَسْجِدُ الرَّسُولِ (ص)، وَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکُوفَةِ؛[ 47
حضرت علی ابن ابی طالب (ع)فرماتے ھیں:
”چار جگھیں دنیا میں جنت کے محل ھیں:
١۔مسجد الحرام ، ٢۔مسجد النبی(ص) ، ٣۔مسجد الاقصیٰ، ۴۔مسجد کوفہ ،
حرمین میں نماز
عَنْ إِبْرَاهیمَ بْنِ شَیْبَةَقَالَ:کَتَبْتُ إِلَی ا بَٔی جَعْفَرٍ(ع) ا سَٔا لَٔه عَنْ إِتْمَامِ الصَّلاٰةِ فِی الْحَرَمَیْنِ،فَکَتَبَ إِلَیَّ:کَانَ رَسُولُ اللّٰه یُحِبُّ إِکْثَارَالصَّلاٰةِ فِیالْحَرَمَیْنِ فَا کَٔثِرْفِیهمَا وَا تَٔم ۔َّ[ 48
ابراھیم بن شیبہ کھتے ھیں کہ:
میں نے امام محمد باقر(ع) کو خط لکھا اور اس میں مکہ اور مدینہ میں پوری نماز اداکرنے کے سلسلہ میںدریافت کیا امام (ع)نے جواب میں تحریر فرمایا:
”رسول خدا (ص)ھمیشہ مسجد الحرام اور مسجد النبی میں زیادہ نماز پڑھنا پسند کرتے تھے پس ان دو جگہوں پر نماز یں زیادہ پڑھو اور اپنی نماز بھی پوری ادا کرو”۔
مکہ میں نماز جماعت
عَنْ ا حَٔمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ ا بَٔی نَصْرٍ،عَنْ ا بَٔیالْحَسَنِ[ ع)قَالَ:سَا لَٔتُه عَنِ الرَّجُلِ یُصَلِّی فِی جَمَاعَةٍ فِی مَنْزِلِه بِمَکَّةَ ا فَٔضَلُ ا ؤَ وَحْدَه فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ :وَحْدَہُ۔[ 49
احمد ابن محمد ابن ابی نصرکھتے ھیں:
”میں نے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(ع) سے دریافت کیا اگر کوئی شخص مکہ میں نماز جماعت اپنے گھرمیں ادا کرے یہ افضل ھے یا مسجد الحرام میں فرادیٰ نماز اداکرنا افضل ھے فرمایا: فرادیٰ (مسجد الحرام میں)” ۔
اھل سنت کے ساتھ نماز
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ،قَالَ:”قَالَ لِی ا بَٔو عَبْدِ اللّٰه(ع):یَا إِسْحَاقُ ا تَٔصَلَّی مَعَهمْ فِی الْمَسْجِدِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ:صَلِّ مَعَهمْ فَإِنَّ الْمُصَلِّی مَعَهمْ فِیالصَّفِّ الْا ؤََّلِ کاَلشَّاهرِ سَیْفَه فِی سَبِیلِ اللّٰه”۔[ 50
اسحاق ابن عمار کھتے ھیں:
”امام جعفر صادق (ع)نے مجھ سے فرمایاکہ: اے اسحاق!کیا تم ان لوگوں (اھل سنت )کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتےھو؟میں نے عرض کیا ھاں!حضرت ]ع]نے فرمایا:ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو بلاشبہ جو شخصان لوگوں کے ھمراہ پھلی صف میں نماز پڑھے
وہ اس مجاھد کے مانند ھے جو خدا کی راہ میں تلوار چلا رھاھواور دشمنان دین کے ساتھ جنگ کررھاہو’ ’۔
کعبہ چوکور کیوں ھے؟
رُوِیَ ا نَّٔه إِنَّمَا سَمِّیَتْ کَعْبَةً لِا نَّٔها مُرَبَّعَةٌ وَصَارَتْ مُرَبِّعَةً لِا نَّٔها بِحِذَاءِ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ وَهوَ مَرَبِّعٌ وَصَارَ الْبَیْتُ الْمَعْمُورُ مُرَبِّعاً لِا نَّٔه بِحِذَاءِ الْعَرْشِ وَهوَمُرَبَّعٌ، وَصَارَالْعَرْشُ مُرَبَّعاً،لِا نَّٔ الْکَلِمَاتِ الَّتِی بُنِیی عَلَیْها الْإِسْلاٰمُ ا رَٔبَعٌ:وَهیَ :سُبْحَانَ)[51]اللّٰه ، وَالْحَمْدُ لِلّٰه،وَلاٰ إِلٰه إِلاَّ اللّٰه، وَاللّٰه ا کَٔبَرُ۔( ١
شیخ صدوق ۺ فرماتے ھیں:
”ایک روایت میں آیا ھے کہ کعبہ کو کعبہ اس لئے کھا گیا ھے کہ وہ چوکور ھے اور وہ چوکو اس لئے بنایاگیا ھے کہ اسی کے مقابل (آسمان اول پر) بیت المعمور چوکور بنایا گیا ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ عرش خدا کے مقابل ھے جو چوکور ھے اور عرش خدا بھی اس لئے چوکور ھے کہ اس کی بنیاد اسلام کے چارکلموں پر ھے اور وہ یہ ھیں :“سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّه،وَلاٰ إِلٰه إِلاَّ اللّٰه،وَاللّٰه ا کَٔبَرُ”۔
کعبہ کی طرف دیکھنا
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ :مَنْ نَظَرَإِلَی الْکَعْبَةِ لَمْ یَزَلْ تُکْتَبُ لَه حَسَنَةٌ وَتُمْحَی عَنْه سَیِّئَةٌ، حَتَّی یَنْصَرِفَ بِبِصَرِه عَنْها۔[ 52
امام جعفر صادق (ع)فرمایا:
”جو شخص کعبہ کی طرف دیکھے ھمیشہ اس کے لئے حسنات لکھے جاتے ھیں اور اس کے گناہ محو کئےجاتے ھیں جب تک وہ اپنی نگاھیں کعبہ سے ہٹا نھیں لیتا ”۔
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ :النَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْوَالِدَیْنِ عِبَادَةٌ،وَالنَّظَرُ إِلَی الْإِمَامِ عِبَادَةٌ۔[ 53
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ھے ،ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ھے،اور امام کی طرف دیکھنا عبادت ھے”۔
الٰھی لمحہ
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ :إِنَّ لِلْکَعْبَةِ لَلَحْظَةً فِی کُلِّ یَوْمٍ یُغْفَرُ لِمَنْ طَافَ بِها ا ؤَ حَنَّ قَلْبُه إِلَیْها ا ؤَ حَسَبَه عَنْها عُذْرٌ۔[ 54
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ کعبہ کے لئے ھر روز ایک لمحہ (ایک وقت )ھے کہ خدا وند عالم اس میں کعبہ کا طواف کرنے والوں اور ان لوگوں کو جن کا دل کعبہ کے عشق سے لبریز ھے نیز ان لوگوں کو جو کعبہ کی زیارت کے مشتاق ھیں لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں ھیں ،بخش دیتا ھے”۔
برکتوں کا نزول
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ :إِنَّ لِلّٰه تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ حَوْلَ الْکَعْبَةِ عِشْرِینَ وَمِائَةَ رَحْمَةٍ مِنْها سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَا رَٔبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَعِشْرُونَ لِلنَّاظِرِینَ۔[ 55
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”خدا وند عالم اپنی ایک سو بیس رحمتیں کعبہ کے اوپر نازل کرتا ھے جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنےوالوں کے لئے ،چالیس رحمتیں نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس رحمتیں کعبہ کی طرف دیکھنے والوں کے لئےھوتی ھیں”۔
دین اور کعبہ کا ربط
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ :لاٰ یَزَالُ الدِّینُ قَائِماً مَا قَامَتِ الْکَعْبَةُ۔[ 56
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں:
”جب تک کعبہ قائم ھے اس وقت تک دین بھی اپنی جگہ بر قرار رھے گا”۔
یہ عمل منع ھے
محمد ابن مسلم کھتے ھیں کہ: میںنے امام صادق ںسے سنا آپ فرما رھے تھے:
قال الصادق (ع:([ لاٰ یَنْبَغِی لِا حَٔدٍ ا نَٔ یَا خْٔذَ مِنْ تُرْبَةِ مَا حَوْلَ الْکَعْبَةِ وَإِنْ ا خَٔذَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئاً رَدَّه۔[ 57
” کسی شخصکے لئے یہ درست نھیں ھے کہ کعبہ اور اس کے اطراف کی مٹی اٹھائے اور اگر کسی نے اٹھائی ھے تواسے واپس کر دے”۔
کعبہ کا پردہ
عَنْ جَعفر،عَنْ ا بَٔیه علیهما السلام:ا نَّٔ عَلِیّاً کَانَ یَبْعَثُ بِکِسْوَةِ الْبَیْتِ فی کُلِّ سَنَةٍ مِنَ الْعَرٰاقِ۔[ 58
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا:
”بلا شبہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) ھر سال عراق سے کعبہ کا پردہ بھیجتے تھے ”۔
امام زمانہ(ع) کعبہ میں
عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ ا نَّٔه قَالَ :سَا لَٔتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُمْرِیَّ -رَضِیَ اللّٰه عَنْه - فَقُلْتُ لَه:رَا یَٔتَ صَاحِبَ هذَا الْا مَٔرِ؟فَقَالَ:نَعَمْ وَآخِرُ عَهدِی بِه عِنْدَ بَیْتِ اللّٰه الْحَرَامِ وَهوَ یَقُولُ:اللَّهمَّ ا نَٔجِزْ لِی مَاوَعَدْتَنِی۔[ 59
عبد الله ابن جعفر حمیری کھتے ھیں:
”میں نے محمد بن عثمان عمری سے پوچھا کیا تم نے امام زمانہ(ع) کو دیکھا ؟انھوں نے جواب دیا ھاں!میں نےآخری بار انھیں کعبہ کے نزدیک دیکھا کہ حضرت) ع)فرمارھے تھے اے میرے الله !جس چیز کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ھے اسے پورا فر ما ”۔
حجر اسود
قَالَ رَسُولُ اللَّه (ص:(اَلْحَجَرُ یَمینُ اللّٰه فِی الا رَٔضِ،فَمَنْ مَسَحَ یَدَہُ عَلَی الْحَجَرِ فَقَدْ بٰایَعَ اللّٰه اَنْ لاٰ یَعْصِیَه۔[ 60
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حجر اسود زمین میں خدا کے داہنے ھاتھ کے مانند ھے پس جو شخصاپنا ھاتھ حجر اسود پر پھیرے اس نے اس بات پر الله کی بیعت کی ھے کہ اس کی معصیت ونافرمانی نھیں کرے گا”۔
حجر اسود کو دور سے چومنا
عَنْ سَیْفٍ التَّمَّارِ قَالَ:قُلْتُ لِا بَٔی عَبْدِ اللّٰه ا تَٔیْتُ الْحَجَرَ الْا سَٔوَدَ فَوَجَدْتُ عَلَیْه زِحَاماً فَلَمْ ا لَٔقَ إِلاَّ رَجُلاً مِنْ ا صَٔحَابِنَا فَسَا لَٔتُه فَقَالَ:لاٰبُدَّ مِنِاسْتِلاٰمِه فَقَالَ:إِنْ وَجَدْتَه خَالِیاً وَإِلاَّ فَسَلِّمْ مِنْ بَعِیدٍ۔[ 61
سیف ابن تمار کھتے ھیں“میں نے امام جعفرصادقں سے عرض کیا:
”میں حجر اسود کے قریب آیا وھاں جمعیت بھت زیادہ تھی میں نے اپنے ساتھیوں میں سے ھر ایک سے پوچھاکیا کروں ؟ سب نے جواب دیا کہ استلا م حجر کرو (حجر اسود کا بوسہ لو)۔میرا فریضہ کیا ھے؟امام نے اس سے فرمایا :اگر حجر اسود کے پاس مجمع نہھو تو اسے استلام کروورنہ اپنے ھاتھ سے دور سے اشارہ کرو ”۔
عدل کا ظہور
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:ا ؤَّلُ مَا یُظْهرُ الْقَائِمُ مِنَ الْعَدْلِ ا نَٔ یُنَادِیَ مُنَادِیه ا نَٔ یُسَلِّمَ صَاحِبُ النَّافِلَةِ لِصَاحِبِ الْفَرِیضَةِ الْحَجَرَ الْا سَٔوَدَ وَالطَّوَافَ[ ۔[ 62
امام جعفر صاد ق(ع) فرماتے ھیں:
”جو سب سے پھلی چیز امام زمانہ (ع) اپنے عدل سے ظاھر کریں گے یہ ھے کہ ان کا منادی پکار کر کھے گا مستحبی طواف کرنے والے اور حجر اسود کو لمس کرنے والے حجر اسوداور اطواف کی جگہ کو واجبی طواف کرنے والو(ع) کے لئے خالی کردیں ”۔
حرم میں ایثار وفدا کاری
قَالَ رَسُولُ اللّٰه (ص:(اَبْلِغُوا ا هلَ مَکَّةَ وَالمُجاوِرینَ اَنْ یُخَلُّوا بَیْنَ الحُجّاجِ وَبَیْنَ الطَّوَافِ وَالْحَجَرِ الْا سَْٔوَدِ وَمَقامِ اِبراهیمَ وَالصَّفِّ الا ؤَّلِ مِنْ عَشْرٍ تَبْقیٰ مِنْ ذِی القَعْدَةِ اِلی یَوْمِ الصَّدْرِ۔[ 63
رسو ل خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اھل مکہ اور اس میں رہنے والوں تک یہ بات پہنچادو کہ ذی القعدہ کے آخری دس دن سے حاجیوں کی واپسیکے دن تک طواف کی جگہ ،حجر اسود ،مقام ابراھیم (ع) اور نماز کی پھلی صف کو حاجیوں کے لئے خالیکردیں ”۔
جس بات سے روکا گیا ھے
عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ:کَانَ بِمَکَّةَ رَجُلٌ مَوْلًی لِبَنِی اُمَیَّةَ یُقَالُ لَه:ابْنُ ا بَٔی عَوَانَةَ لَه عِنَادَةٌ،وَکَانَ إِذَادَخَلَ إِلَی مَکَّةَ ا بَٔو عَبْدِ اللّٰه(ع)ا ؤَا حَٔدٌ مِنْا شَٔیَاخِ آلِ مُحَمَّدٍ یَعْبَتُ بِه،وَإِنَّه ا تَٔی ا بَٔا عَبْدِ اللّٰه(ع) وَهوَ فِی الطَّوَافِ فَقَالَ:یَا ا بَٔا عَبْدِ اللّٰه مَا تَقُولُ فِی اسْتِلاٰمِ الْحَجَرِ ؟فَقَالَ:اسْتَلَمَه رَسُولُ اللّٰه(ص)فَقَالَ لَه:مَا ا رَٔاکَ اسْتَلَمْتَه قَالَ:ا کَٔرَه ا نَٔ ا ؤَذِیَ ضَعِیفاًا ؤَ ا تَٔا ذَّٔی قَالَ فَقَالَ قَدْ زَعَمْتَ ا نَّٔ رَسُولُ اللّٰه (ص)اسْتَلَمَہُ قَالَ:نَعَمْ وَلَکِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰه إِذَا رَا ؤَْه عَرَفُوا لَه حَقَّه وَا نَٔا فَلاٰ یَعْرِفُونَ لِی حَقِّی۔( ١
حماد بن عثمان کھتے ھیں:
”مکہ میں بنی امیہ کے دوستداروں میں سے ابن ابی عوانہ نام کا ایک شخصرھتا تھا جو اھل بیت علیھم السلامسے کینہ رکھتا تھا اور جب بھی امام جعفر صادق(ع) یا پیغمبر کی اولاد میں سے کوئی [ 64 ] بزرگ مکہ آتا تھاوہ اپنی باتوں سے ان کی تحقیر کرتا تھا اور اذیت پہنچاتا تھا۔ ایک روز وہ طواف کی حالت میں امام جعفرصادق (ع)کی خدمت میں آیا اور آپ) ع) سے پوچھنے لگا کہ حجر اسود پر ھاتھ پھیرنے سے متعلق آپ (ع) کا نظریہ کیا ھے ؟حضرت (ع) نے فرمایا:رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ و سلم مسح واستلام کرتے تھے ، اس شخصنے کھا میں نے آپ (ع) کو استلام حجر کرتےھوئے نھیں دیکھ
،امام(ع) نے جواب دیا:
میں اس بات کو پسند نھیں کرتا کہ کسی کمزور کو اذیت پہنچاو ںٔ یاخود اذیت میں مبتلاھوں اس شخص نے پھرپوچھا: آپ (ع) نے فرمایا ھے کہ: رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم اس کا استلام کرتے تھے ،امام نےفرمایا:ھاں!لیکن جب لوگ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے تھے تو ان کے حق کی رعایت کرتے تھے (یعنی انھیںراستہ دے دیا کرتے تھے)لیکن میرے لئے ایسا نھیں کرتے اور میرا حق نھیں پہچانتے
”۔
ہاتھ سے اشارہ محمد بن عبیدالله کھتے ھیں:
لوگوں نے امام علی رضا (ع) سے پوچھا :اگر حجر اسود کے اطراف جمعیت زیادہھو تو کیا حجر اسودکو ھاتھ سے مسح کرنے کے لئے لوگوں سے زبردستی کرنا یا جھگڑنا چاہئے ؟
قَالَ:“إِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَا ؤَْمِ إِلَیْه إِیمَاءً بِیَدِکَ”۔[ 65
”امام (ع) نے فرمایا :جب بھی ایسی صورتھو ،اپنے ھاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرو (اور گذرجاو )ٔ”۔
خواتین کے لئے
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:إِنَّ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ وَضَعَ عَنِ النِّسَاءِ ا رْٔبَعاً :الْإِجْهارَ بِالتَّلْبِیَةِ ، وَالسَّعْیی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ یَعْنِی الْهرْوَلَةَ وَدُخُولَ الْکَعْبَةِ وَاسْتِلاٰمَ الْحَجَرِ الْا سَٔوَدِ۔[ 66
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
”بلاشبہ خدا وند عالم نے چار چیزوں کو حج میں عورتوں سے معاف رکھا ھے:
١۔بلند آوازسے لبیک کہنا،
٢۔صفاو مروہ کے درمیان سعی میں ھرولہ(آہستہ دوڑنا(
٣۔کعبہ کے اندر داخلھونا ،
۴۔حجر اسود کو لمس کرنا ”۔
خدا کا فخر
قال رسول الله (ص:( ان الله یباهی بالطائفین۔[ 67
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں:
”بلا شبہ خد اوند عالم طواف کرنے والوں پر فخر ومباھات کرتا ھے’ ’ ۔
طواف اور رھائی
عَنْ رَسُولُ اللّٰه (ص)قَالَ:[ ۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ ا سُٔبُوعاً کَانَ لَکَ بِذَلِکَ عِنْدَ اللّٰه عَھْهدٌ وَذِکْرٌ یَسْتَحْیُیمِنْکَ رَبُّکَ ا نَٔ یُعَذِّبَکَ بَعْدَه۔۔۔ ۔[ 68
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم نے الله کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرلیا تو اس کے ذریعہ خدا وند عالم کے نزدیک تمھارا عھد اور ذکر ھے کہ خداوند عالم اس کے بعد تم پر عذاب کرنے سے شرم کرے گا”۔
زیادہ باتیں نہ کرو
قَال رَسُولُ اللّٰه (ص:([ إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلٰوةٌ،فَإِذَا طُفْتُمْ فَا قَٔلُّوا الْکَلاٰمَ۔[ 69
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”الله کے گھر کا طواف نماز کے مانند ھے پس جب تم طواف کرتےھو تو باتیں کم کرو ”۔
طواف کا فلسفہ
قَال رَسُول اللّٰه (ص:( إِنَّمَاجَعَلَ الطَّوٰافُ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ وَرَمْیُ الْجِمٰارِ لإِقٰامَةِ ذِکْرِ اللّٰه ۔[ 70
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”الله کے گھر کا طواف،صفاو مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات خدا کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ھیں ’ ’۔
عمل میں نیت کی تاثیر
عَنْ زیاد القندی،قال:قُلْتُ لا بٔی الحسن (ع):جُعِلْتُ فِداک إنّی ا کَٔونُ فی الْمَسْجِدِ الْحرامِ، وَا نْٔظُرُ اِلی النّاسِ یَطوفونَ بالبَیْتِ وا نٔا قاعِدٌ فاغْتَمُّ لِذلکَ،فقال:یَازِیَاُد لاٰ عَلَیْکَ فَإِنَّ الْمُو مْٔنَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِه یَو مُّٔ الْحَجَّ لاٰیَزَالُ __________فِی طَوَافٍ وَسعْیٍ حَتَّی یَرْجِعَ۔[ 71
زیاد قندی (جو ایک مفلوج آدمی تھا)کھتا ھے کہ:
”میں نے امام موسیٰ کاظم (ع)سے عرض کیا آپ (ع) پر قربانھو جاوںٔ میں کبھی مسجد الحرام میںھوتاھوںاوردیکھتاھوں کہ لوگ کعبہ کا طواف کررھے ھیں اور میں بیٹھاھوں (طواف نھیں کر سکتا )اس پر میں غم زدہ ھو جاتاھوں امام) ع)نے فرمایا:اے زیاد!تم پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے (غمگین نہھو) بلاشبہ مومن جس وقت سے حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلتا ھے اس وقت سے ھمیشہ طواف اور سعی کی حالت میں ھے یھاں تک کہ اپنے گھر واپس چلاجائے ”۔
انسانی تھذیب کی رعایت
عَنْ سَمَاعَة بْنِ مِهرَانَ عَنْ ا بِٔی عَبْدِ اللّٰہِ) ع):سَا لْٔتَہُ عَنْ رَجُلٍ لی عَلَیْه مالٌ فغابَ عَنّی زَماناً فَرَا یَٔتُه یَطوفُ حَولَالْکَعْبَةَ ا فٔا تَٔقاضاه مالِی؟قَالَ:لاٰ،لاٰ تُسَلِّمْ عَلَیْه وَلاٰ تُرَوِّعْه حَتَّی یَخْرُجَ مَنْ الْحَرَمِ۔[ 72
سماعة ابن مھران کھتے ھیں کہ:
”میں نے امام جعفرصادق(ع)سے پوچھا :ایک شخصمیرا مقروضھے اور میں نے ایک مدت سے اسے نھیں دیکھا پس اچانک میں اسے کعبہ کے اطراف میں دیکھتاہوں کیا میں اس سے اپنے مال کا تقاضہ کر سکتاھوں؟فرمایانھیں،حتی اسے سلام بھی نہ کرو اور اسے نہ ڈراو یٔھاں تک کہ وہ حرم سے خارجھو جائے ”۔
نماز ،مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک
عَن رَسُولِ اللّٰه قال:۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ ا سُبُوعاً لِلزِّیَارَةِ وَ صَلِّیْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ضَرَبَ مَلَکٌ کَرِیمٌ عَلَی کَتِفَیْکَ فَقَالَ ا مَّٔا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَکَ فَاسْتَا نْٔفِ الْعَمَلَ فِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِشْرِینَ وَمِائَةِ یَوْمٍ۔[ 73
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم خانہ کعبہ کے گرد زیارت کا طواف کر لیتےھو اور مقام ابراھیم) ع)کے نزدیک نماز طواف ادا کرلیتےھو تو ایک کریم وبزرگوار فرشتہ تمھارے شانوں پر ھاتھ رکھ کر کھتا ھے :جو کچھ گزر گیا اور تم نے جو گناہ پھلے انجام دیئے تھے خدا وند عالم نے وہ سب بخش دیئے پس اس وقت سے ایک سو بیس دن تک (تم پاک وپاکیزہ رہو گے اب )نئے سرے سے اپنے عمل کا آغاز کرو”۔
امام حسین(ع) مقام ابراھیم (ع)کے پاس
رُئِیَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ،ثُمَّ صٰارَ اِلَی الْمَقٰامِ فَصَلّٰی،ثُمَّ وَضَعَ خَدَّه عَلَی الْمَقٰامِ فَجَعَلَ یَبْکی وَیَقُولُ: عُبَیْدُکَ بِبٰابِکَ، سَائِلُکَ بِبٰابِکَ، مِسْکینُکَ بِبٰابِکَ، یُرَدِّدُ ذٰلِکَ مِرٰاراً۔[ 74
”لوگوں نے امام حسین (ع)کو دیکھا کہ وہ الله کے گھر کا طواف کر رھے تھے اس کے بعدانھوں نے مقام ابراھیم کے پاس نماز ادا کی پھر اپنا چھرہ مقام ابراھیم پر رکھا اور روتےھوئے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے ! تیرا حقیر بندہ تیرے دروازہ پر ھے ،تیرا فقیر تیرے دروازہ پر ھے،تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ھے،اور آپ (ع) ان جملوں کو باربار دھرا رھے تھے”۔
ھمراھیوں کی مدد
عن اِبراهیم الخثعَمی قال:قُلْتُ لا بٔی عبد الله (ع):إِنَّاإِذَا قَدِمْنَا مَکَّةَ ذَهبَ اصَٔحَابُنَا یَطُوفُونَ وَیَتْرُکُونِّی ا حَٔفَظُ مَتَاعَ همْقَالَ ا نَٔتَ ا عَٔظَمُهمْ ا جَٔراً۔[ 75
اسماعیل خثعمی کھتے ھیںمیں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرضکیا:
”ھم جب مکہ میں واردھوئے تو ھمارے ساتھی مجھے اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر طواف کے لئے چلےگئے تاکہ میں ان کے سامان کی حفاظت کروں ،امام (ع)نے فرمایا: تمھارا ثواب ان سے زیادہ ھے”۔
آب زمزم ھر درد کی دو ا
قَالَ رَسُولُ اللّٰه (ِص:([ مَاءُ زَمْزَمَ دَوَاءٌ لِمَا شُرِبَ لَه۔[ 76
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”زمزم کا پانی ھر اس درد کی دوا ھے جس کی نیت سے وہ پیا جائے ” ۔
زمین کا بھترین پانی
قَالَ ا مَٔیرُ الْمُو مْٔنِینَ (ع:([ مَاءُ زَمْزَمَ خَیْرُ مَاءٍ عَلَی وَجْه الْا رَٔضِ۔[ 77
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”آب زمزم روئے زمین پر بھترین پانی ھے ”۔
حجر اسماعیل
عَنْ ا بِٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:[ الْحِجْرُ بَیْتُ إِسْمَاعِیلَ وَفِیه قَبْرُ هاجَرَ وَقَبْرُ إِسْمَاعِیلَ۔[ 78
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”حجر ،جناب اسماعیل (ع) کاگھر ھے اور اس میں آپ (ع) کی اور آپ کی والدہ جناب ھاجرہ (ع)کی قبر ھے
”۔
عن ا بٔی عبد الله (ع)قال:[ إن إسماعیل(ع) تُوُفّی وَهوَ اِبنُ مائَةَ وَثَلاثِینَ سَنَة وَدُفِنَ بِالحِجْر مَعَ ا مُّٔه۔[ 79
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جناب اسماعیل (ع)نے ایک سو تیس سال کے بعد وفات پائی اور اپنی والدہ کے ھمراہ حجر میں دفن کئے گئے
حطیم
معاویہ ابن عمار کھتے ھیں:میں نے حطیم کے بارے میں امام جعفرصادق ںسے دریافت کیا:
فَقَالَ هوَ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ الْا سَٔوَدِ وَبَیْنَ الْبَابِ”۔
”آپ (ع) نے فرمایا :یہ حجر اسود اوردر کعبہ کے درمیان ھے” میں نے سوال کیا کہ اسے حطیم کیوں کھتےھیں ؟
[ فَقَالَ لِا نَّٔ النَّاسَ یَحْطِمُ بَعْضُهمْ بِعْضاً هنَاکَ۔[ 80
”فرمایا :اس لئے کہ لوگ اس جگہ ایک دوسرے کو (کثرت جمعیت کی وجہ سے ( دباتے ھیں ”۔
ملتزم
قٰال رَسُول اللّٰہ (ص:() بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقٰامِ مُلْتَزَمٌ مٰایَدْعُوا بِه صٰاحِبُ عٰاهةٍ اِلاّ بَٰرِی ۔َٔ( ٢
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”رکن حجر اسود اور مقام ابراھیم (ع) کے درمیان ملتزم ھے کوئی بھی بیماری اور مشکل میں مبتلا شخص وھاں دعا نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کی حاجت پوریھوتی ھے ”۔
١۔ /۴۶٢/ ٩/۔سنن دارمی : ١٧۵۵ / 41 ]مستدرک الوسائل : ١٧٧ ]
٢۔ /٨۴/ 42 ]عوالی اللّآلی: ٢٢٧ ]
43 ]سورہ أٓل عمران آیت ٩۶ ۔ ]
۴۔ /٢٢۶/ 44 ]کافی: ١ ]
۴۔ /۵٨۶/ 45 ]کافی: ١ ]
۴۔ / 46 ]کافی : ۴٠١ ]
۵۔ / 47 ]امالی طوسی: ٣۶٩ ۔وسائل الشیعہ: ٢٨٢ ]
۴۔ /۵٢۴/ 48 ]کافی : ١ ]
۴۔ / 49 ]کافی: ۵٢٧ ]
٢/ 50 ]وافی: ١٨٢ ]
٢۔علل الشرائع: ٣٩۶ و ٣٩٨ ۔ / 51 ]من لایحضرہ الفقیہ: ١٩٠ ]
۴۔ /٢۴٠/ 52 ]کافی ۴ ]
۴۔ /٢۴٠/ 53 ]کافی: ۵٠ ]
۴۔ /٢۴٠/ 54 ]کافی: ٣ ]
۴۔ /٢۴٠/ 55 ]کافی: ٢ ]
۴۔ /٢٧١/ 56 ]کافی: ۴ ]
57 ]وھی: ٢٢٩ ۔ ]
١٣٩ ۔ / 58 ]قر ب الاسناد: ۴٩۶ ]
٢۔غیبت شیخ طوسی: ٣۶٣ ۔ / 59 ]من لایحضرہ الفقیہ: ۵٢٠ ]
١٠٢ ۔ / 60 ]الحج والعمرة فی القرآن والحدیث: ١٨۵ ]
۵۔ /١٠٣/ 61 ]تھذیب الاحکام : ٣٣ ]
۴۔ /۴٢٧/ 62 ]کافی: ١ ]
۵۔ /۵۴/ 63 ]کنز العمال: ١٢٠٢۴ ]
۴۔ /۴٠٩__________/ 64 ]کافی: ١٧ ]
۴۔ /۴٠۵/ 65 ]کافی: ٧ ]
٢۔ /٣٢۶/ 66 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢۵٨٠ ]
۵۔ / ٩۔تاریخ بغداد: ٣۶٩ / 67 ]مستدرک الوسائل : ٣٧۶ ]
٢۔ /٢٠٢/ 68 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢١٣٨ ]
۵۔ /٢۵۶/ 69 ]مسند ابن حنبل: ١۵۴٢٣ ]
٢۔ /١٧٩/ 70 ]سنن ابی داو دٔ : ١٨٨ ]
۴,۴٢٨ ۔ / 71 ]کافی: ٨ ]
۴۔ /٢۴١/ 72 ]کافی: ١ ]
٢۔ / ۵۔من لایحضرہ الفقیہ: ٢٠٢ /٢٠/ 73 ]تھذیب الاحکام : ۵٧ ]
۴١ ۔ / 74 ]تاریخ دمشق: ٣٨٠ ]
۴۔ /۵۴۵/ 75 ]کافی: ٢۶ ]
۶۔ / ٢،کافی: ٣٨٧ /٣٩٩/ 76 ]محاسن : ٢٣٩۵ ]
77 ]محاسن : ٢٣٩۴ ۔ ]
۴۔ /٢١٠/ 78 ]کافی: ١۴ ]
١٠٧ ۔ / 79 ]الحج العمرة فی القرآن والحدیث: ١٩٩ ]
80 ]علل الشرائع: ۴٠٠ ۔ ]