قال الصادق علیه السلام : امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة کیف محافظتهم علیها و الیٰ اسرارنا کیف حفظهم لها عند عدونا والیٰ اموالهم کیف مواساتهم لاخوانهم فیها
ترجمہ :
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے شیعوں کا نماز کے وقت امتحان کرو کہ وہ نماز کو کس طرح اہمیت دیتے ہیں اور ہمارے مقامات اور رازوں کے بارے میں ان کی آزمایش کرو کہ وہ ان کو ہما رے دشمن سے کس طرح چھپا تے ہیں اور اسی طرح ان کے مال بارے میں ان کو آزماؤ کہ وہ اس سے اپنے دوسرے بھائیوں کی کس طرح مدد کرتے ہیں ۔
وضاحت :
امتحنوا شیعتنا عند مواقیت الصلاة یعنی نماز کے وقت کو اہمیت دیتے ہیں یا نہیں ؟ نمازکے وقت کام کو ٹالتے ہیں یا نمازکو ؟کچھ لوگوں کاماننا ہے کہ نماز خالی وقت کے لئے ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اول وقت رضوان اللہ و آخر وقت غفران اللہ ۔کچھ اہل سنت کہتے ہیں کہ حقیقی مسلمان تو ہم ہیں ،کیوں کہ نماز کو جو اہمیت ہم دیتے ہیں، تم نہیں دیتے ہو ۔
نماز کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :اجعل افضل اوقاتک للصلاة یعنی اپنا بہترین وقت نماز کے لئے قرار دو۔
” کیف محافظتهم علیها“ یہاں پر کلمہ ”محافظۃ“ اس معنی میں ہے کہ نماز کے لئے بہت سی آفتیں ہیں جن سے نماز کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ روحانی حضرات کو چاہئے کہ عوام کے لئے نمونہ بنیں ۔میں اس زمانہ کو نہیں بھول سکتا جس وقت میں طالب علم تھا اور امام خمینی(رہ) حوزہ علمیہ قم میں مدرسی کے فریضہ کو انجام دے رہے تھے ،مرحوم آیۃ اللہ سعیدی نے ہماری دعوت کی تھی ، اس موقع پر امام بھی تشریف فرما تھے اور ہم لوگ علمی بحث و مباحثہ میں مشغول تھے جیسے ہی اذان کی صدا بلند ہوئی امام بغیر کسی تاخیر کے بلافاصلہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ۔قانون یہی ہے کہ ہم کہیں پر بھی ہوں اور کسی کے بھی ساتھ ہوں نماز کو اہمیت دیں ،خاص طور پر صبح کی نماز کو۔آج کل ایک گروہ صبح کی نماز کو استصحاب کے ساتھ پڑھتا ہے یہ طلبہ کے شایان شان نہیں ہے ۔
” والیٰ اسرارنا کیف حفظهم لها عند عدونا “یہاں پر رازوں کی حفاظت سے ، مقام اہل بیت کی حفاظت مراد ہے ۔یعنی ان کے مقام و منزلت کو ،یقین نہ کرنے والے دشمنوں کے سامنے بیان نہ کرنا جیسے (ولایت تکوینی،معجزات ،علم غیب وغیرہ)کیونکہ یہ سب مقام منزلت اسرار کا جزو ہے ہمارے زمانہ میں ایک گروہ نہ صرف یہ کہ اسرار کو بیان کرتا ہے بلکہ غلو بھی کرتا ہے جیسے کچھ نادان مداح زینب اللہی ہو گئے ہیں۔مداح کا مقام بہت بلند ہے اور ائمہ علیہم السلام نے ان کو اہمیت دی ہے جیسے دعبل خزائی بلندمقام پر فائز تھے ۔لیکن کوشش کرو کہ مجالس کی باگڈور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو ۔مداحوں کو چاہئے کہ اپنے اشعار کی علماء سے تصحیح کرائیں اور غلو آمیز اشعار سے پرہیز کریں، خاصطور پر اس وقت جب عوام کی نظر میں مقام بنانے کے لئے مداح حضرات میں بازی لگ جائے ، ایسے موقع پر اگر ایک مداح تھوڑا غلو کرتا ہے تو دوسرا اس سے زیادہ اور یہ کام بہت خطرناک ہے ۔
” والیٰ اموالهم کیف مواساتهم لاخوانهم فیها “مواسات کے لغت کے اعتبار سے دو ریشہ ہو سکتے ہیں ایک ا تو یہ کہ یہ”واسی“ مادہ سے ہے یا پھر اس کامادہ ”آسی “ ہے دونوں سے ہی مواسات ہو تا ہے اور یہ مدد کرنے کے معنی میں ہے ۔شیعہ کا اس کے مال سے امتحان کرنا چاہئے کہ اس کے مال میں دوسرے افراد کتنا حصہ رکھتے ہیں ۔ہمارے زمانہ میں مشکلیں بہت زیادہ ہیں :
1. بیکاری کی مشکل جس کی وجہ سے بہت سے فساد پھیلے ہوئے ہیں جیسے چوری ،منشیات،خودفروشی وغیرہ
2. جوانوں کی شادی کی مشکل
3. مسکن کی مشکل
4. تعلیم کے خرچ کی مشکل ،بہت سے گھر ایسے ہیں جو بچوں کی تعلیم کا خرچ فراہم کرنے میں مشکلات سے دوچار ہیں ۔ہمارا سماج شیعہ سماج ہے ،بیہودہ مسائل میں انگت پیسہ خرچ ہو رہا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی فراہم نہیں ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے صفات شیعہ کی طرف بھی توجہ دیں ،نہ یہ کہ صرف شیعوں کے مقام اور ان کے اجر و ثواب کو بیان کر یں۔امید ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ائمہ کے فرمان پر توجہ دیں گے اور ان پر عمل پیرا ہوں گے ۔