اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

امام ِ زمانہ (عجل اللہ فی فرجہ) کے ساتھ ارتباط کی معنویت

امام ِ زمانہ (عجل اللہ فی فرجہ) کے ساتھ ارتباط کی معنویت

ہے ان کے مشن میں ارور مرور اور حرج و مرج کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ثقافتی اوراق//

بقلم: فدا حسین بالہامی
کسی بھی شخصیت کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے لئے چار بنیادی چیزوں کو پیشِ نظر رکھنا نہایت ہی لازمی ہے۔اور وہ بنیادی امور کچھ یوں ہیں۔
١۔اس شخصیت کا قد و قامت اور اسکی حیثیت سے کما حقہ شناسائی۔
٢۔ محبوب و مطلوب شخصیت کا مشن اور ہدفِ زندگی کو ملحوظِ خاطر رکھنا ۔
٣۔شخصیت کے اعتبار سے شایان ِ شان ارتباطی وسائل ۔
٤۔ اپنے آپ کو ارتباط و انسلاک کے قابل بنانا۔
معرفتِ صاحب العصر ۔۔۔ پیش منظر اور پس منظر:
امام ِ زمانہ کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے لئے بھی ان بنیادی اور لازمی شرائط کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے رابطے کے لئے اولین شرط معرفت ِ امام ہے۔معرفت بھی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ہو کیونکہ سطحی معرفت کی بنیاد پر کوئی بھی فرد مطلوبہ شخصیت  کے قرب اور نزدیکی کی جس قدر تگ و دو کرے اسی قدر وہ اسے دور ہوتا چلا جائے گا۔ باالفاظ دیگر اس صورت میں نتیجہ بالکل برعکس برآمد ہو گا۔۔ قاعدہ کلیہ ہے کہ'' کُل'' کو مدنظر رکھ کر ہی ''جُز'' کی تعریف ہو سکتی ہے ۔اس لحاظ سے امام مہدی کی معرفت اس تصورِ امامت سے آشنائی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جس امامت کے وہ رکنِ رکین ہیں۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو تمام اماموں کی حیات، فرمودات اور کارنامے آپس میں مربوط و منضبط ہیں۔ لہٰذا کسی بھی امام کا حقیقی عرفان اسوقت تک غیر ممکن ہے کہ جب تک دیگر اماموں کی حیاتِ طیبہ پیشِ نظر نہ ہو۔ دراصل امامِ زمانہ اسی دین و نظام کو نافذ کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے جس نظام کی ترویج و اشاعت پر تمام انبیاء اور امامانِ برحق نے اپنی پوری زندگی صرف کی ۔بلکہ یوں کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ولی العصر ما قبل اماموں اور نبیوں کی آرزووں اور تمناووں کو پورا کرنے پر مامور ہوں گے۔ وہ انہی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کریں گے۔ نیز ان رکاوٹوں کا مکمل طور پر قلع قمع کریں گے جن رکاوٹوں کا سامنا دیگراماموں کو اپنے اپنے زمانے میں کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر امام مہدی (عج)جو حکومتِ الٰہیہ تشکیل دیں گے وہ ان ہی خطوط پر استوار ہو گی کہ جن کی نشاندہی خود رسولِ اکرم ۖ نے مدینے میں ایک ریاست قائم کر کے کی تھی نیزبعد ازاں جو حکومتِ علوی نے معین و مشخص کئے تھے۔ المختصر امام شناسی کے اس اصول کو ایک مثال کے ذریعے بھی واضع کیا جا سکتا ہے کہ بالفرض کوئی قاری چند ایک منضبط اور مربوط ابواب پر مشتمل کتاب کسی ایک باب کو پڑھ کر کماحقہ سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کتاب کے تمام ابواب کا مطالعہ کرے۔ٹھیک اسی طرح کتاب ِ امامت کے آخری باب کو ذہن نشین کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس کتاب کے مقدم و موخر پر نظرہو۔اور تمام مبادیات کے پیشِ نظر ہی کسی مخصوص باب کے متعلق صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
عرفانِ امام اور مشن امام:
دوسرا اہم نکتہ امام کی معرفت کے حوالے سے یہ ہے کہ صاحب العصرکی رفیع الشان شخصیت کی معرفتِ کاملہ ہر کس و ناکس کے لئے ممکن نہیں ہے تاہم ہر نام لیوا کے لئے ضروری ہے کہ وہ بقدرظرف و بساط اپنے امام سے واقف ہو۔بصورتِ دیگر اس کی زندگی جہل پر مبنی ہو گی اور اس کی موت بھی جہالت کی موت ہو گی۔بلند مرتبت شخصیات کو جاننے کے لئے بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ ان شخصیات کے منصب اور مشن سے متعلق تمام ضروری معلومات حاصل کی جائے۔چنانچہ امام زمانہ کے منصب و مشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان ہی کے وجودِ بابرکت  سے نظام ِ الہی اس کی اصل صورت میں کاملاً نافذ ہوگا۔اور ابلیسی نظا م کا جنازہ نکلے گا۔انسانیت کا بول بالا ہوگا ۔درندگی اور وہشت و بربریت کا خاتمہ ہوگا۔مظلومیت کی ٹوٹتی ہوئی آس و امید میں دوبارہ جان پڑ جائے گی۔عالمی استعماریت کی ناک میں نکیل ڈال دی جائے گی ۔بگھڑی ہوئی کائنات میں پھر سے توازن پیدا ہوگا ۔ امن و امان کو فروغ ،اور فتنہ و فساد برطرف ہو گا۔ایک صالح معاشرہ وجود پذیر ہو گا تمام تر معاشرتی اور معاشی نا ہمواریوں کی جگہ معاشی و معاشرتی انصاف اپنے پورے جوبن پر نظر آئے گا۔ماحولیاتی عدم توازن کا خاتمہ ہوگا۔صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے ایک بہتریں اور متوازن ماحول فراہم ہوگا۔موقع پرستی ،ابن الوقتی ، چاپلوسی،اور شخص پرستی کے رائج الوقت سکہ کی اہمیت ایک کھوٹے سکے سے زیادہ نہ ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ پوری انسانیت بلکہ پوری کائنات کسی نہ کسی صورت میں امام کی منتظر ہے۔ اور ہر چاہنے والا اپنے امام سے ملاقات وارتباط کو خواہاں ہے۔
امامِ زمان سے رابطہ کے اصل وسیلے:
رابطہ اور ارتباط کے حوالے سے وسائل ِ ارتباط کی تلاشب بھی ان لوازمات میں سے ہے ۔جن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے۔اگر چہ موجودہ دور میں رسل و رسائل اور ابلاغ و ترسیل کے و سائل کی بھر مار ہے کہ جسے ایک شخص سینکڑوں میل دور دوسرے شخص کے ساتھ بآسانی اورچٹکیوں میں رابطہ استوار کر سکتا ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان وسائل میں سے کوئی بھی وسیلہ امامِ زمانہ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں گارگر نہیں ہے۔ یہاں پر ایک نہایت ہی اہم اور جواب طلب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام کے ساتھ ارتباط کی نوعیت کیا ہوگی ؟ کیا مسافتی فاصلوں کو کم کر کے امام تک رسائی ہی ارتباط کہلایا جائے گا؟۔چنانچہ اس صورت میں امام کی جائے سکونت کا پتہ لگانا اولین وظیفہ قرار پائے گا۔جو فی الوقت خارج از امکان ہے۔اور پھر ضروری نہیں ہے کہ زمانی یا مکانی قرب معنوی قرب کا پیش خیمہ بن جائے۔اور یہ قرب زمانۂ غیبت میں ایک امرِ محال نہیں تو امرِمشکل ضرور  ہے ٍٍٍٍ۔بلکہ امام کے ظہور کے بعد بھی یہ توقع رکھنا بعید از حقیقت ہے کہ امام کا ہر چاہنے والا مکانی قرب سے فیض یا ب ہوگا۔یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بعدِ ظہور جو لوگ مکانی اعتبار سے امام کے نزدیک نہ ہوں وہ دور ہوں گے اور جنہیں مکانی قرب حاصل ہو وہ امام کے مقرب ہوں گے۔بعض اوقات ساتھ ساتھ چلنے والا دور ہوا کرتا ہے اور آنکھوں سے اوجھل شخص قربِ معنوی سے سرشار ہو۔اس بات کا ثبوت حضرتِ اویس ِ قرنی کے والہانہ عشقِ رسول سے بھی ملتا ہے گو کہ حضرت اویسِ قرنی آنحضرت سے زندگی بھر مکانی اعتبار سے قریب نہ ہوئے لیکن وہ معنوی اعتبار سے نہایت ہی قریب تھے۔اس حقیقت کو حکیم سنائی نے عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے   
     گرفت چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا
یعنی حرمِ پاک سے بہت دور چینیوں نے احرام باندھ لیا ہے اور اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے نکل چکے ہیں لیکن مکہ میں بود وباش رکھنے والے ہنوز خوابِ غفلت میں مست ہیں۔حکیم سنائی کے اس مصرعے کو اگرموجودہ عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سنائی نے یہ مصرعہ دور ِ حاضر کے عالمی علی الخصوص عالمِ اسلام کی موجودہ صورت ِ حال کے تناظر میں کہا ہو۔ اس بات  میں شک و تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ فی زمانہ بذعم خود خادم الحرمین کہلانے والے مکانی اعتبار سے جس قدر قریب ہے ۔اسے ہزار گناہ زیادہ وہ معنوی اعتبار سے دور ہیں۔اس مسئلے کی وضاحت ضمناً اس وجہ سے کرنا پڑی کیونکہ امام کا قرب چاہنے والوں میں سے ایک بڑی تعدادان لوگوں کی ہے جو اسی زمانی اور مکانی ارتباط کے خواہشمند ہیں۔ان کی بس اور بس یہی آرزو ہے کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو وہ ان کے ہمرکابی میں اپنی زندگی کے لمحات گزاریں۔جہاں امام رہیں وہ بھی وہیں پر بوریا بسترہ ڈال دیں۔اور جن راہوں سے ولی العصر گزر وہ بھی ان ہی راہوں سے ان کی معیت میں گزریں۔فرض کریں تمام عاشقان امام اپنے امام کے اردگرد جمع ہوں تو کیا ایک غیر ضروری بھیڑ بھاڑ نہیں ہو گی؟
 مہدوی انقلاب کے متعلق ایک ناقص تصور:            
   جیسا کہ عمومی تاثر یہی ہے کہ امام ِ زمانہ محض اپنے دشمنوں سے جنگ و جدل کے لئے تشریف لائیں گے ۔اس سے انقلاب مہدی کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت مجروح ہوئی ہے۔ دراصل انقلابِ مہدی (عج)عالمگیر اور ہمہ جہت انقلاب ہو گا۔تمام شعبہ ہائے زندگی اور جہاں کے شش جہات منقلب ہوں گے۔انسان کے رفتارو گفتار میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ اقتصادی،معاشرتی اورتعلیمی نظام یکسر متغّیر ہوگا۔ماحولیاتی توازن پھر سے بحال ہوگا۔قدرتی وسائل کے حصول اور استعمال کے بارے میں جتنے بھی اصول اس وقت دنیا میں ہیں ان کی کایا پلٹ ہو گی۔ غرض دنیا میں ہر اعتبار سے انقلاب آئے گا۔ سب سے بڑی اور اہم تبدیلی فکری دنیا بر پا ہو گی۔بلکہ بقولِ علامہ اقبال عالمِ افکار تہہ و بالا ہوگا۔   
                   دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
                  ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
فکری انقلاب بنیادی مقصد:
یقیناانسانی معاشرے کے لئے فکری بحران سب سے بڑا بحران ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پستی پست فکری کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔ اس لئے جن ہمہ جہت بحرانوں سے اس وقت دنیا جوجھ رہی ہے اس کا اصل سبب وہ فکری بحران ہے جس کا شکار عالمِ انسانیت ہوا ہے اور امامِ زمانہ بھی اسی بنیادی سبب کو سب سے پہلے دیکھ لیں گے۔ اور نئی دنیا تعمیر کرنے سے پہلے فکری بنیادوں کو تعمیر کریں گے۔ بقول علامہ اقبال
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا     
    چنانچہ یہی فکر ی انقلاب ہی تمام انقلابات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔اور سوچ و فکر کی تبدیلی کے بغیر جب کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ۔ تو کس قدر بے تکی بات ہے کہ ہمارے قلب و ذہن فرسودہ افکارو خیالات اورگھسے پٹے احساسات سے مملو ہوں اور اس کے باوجود ہم انقلاب ِمہدی کے منتظربھی ہوں ۔ فرسودہ خیالات و توہمات اور انقلابِ مہدی کے مابین ہم آہنگی ممکن ہی نہیں ہے۔پس اس سے پہلے کہ ہم امام کے ساتھ ارتباط اور تعلق پیدا کرنے کی آرزو ظاہر کریںہمیں ہر طرح کی فرسودگی سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔اس لحاظ سے امامِ زمانہ کے ساتھ رابطے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو ہم جا کے ان کے پہلو میں بیٹھ جائیں۔اسے پہلے کہ ہم ایک عظیم انقلاب کے نقیب امام کی دمسازی کا دعویٰ کریں ہمیںاس عظیم تر انقلاب سے متصل ہونے کے لئے امام کے انقلابی مشن کو سمجھنا ہوگا۔اور اس مشن کی آبیاری کے لئے ہمہ وقت کوشان رہنا ہوگا۔کیونکہ حقیقت میں وہی مومن امام کے ساتھ مرتبط اور متوصل ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے مشنِ امام کے ساتھ منسلک ہے ۔پھر ظاہری مسافتیں معنوی قرب میں حائل نہیں ہوںگی۔اور زمان و مکان کی حیثیت ثانوی ہوگی۔بلکہ بسا اوقات فراق آتشِ عشق کو مہمیز دینے میں ایک طاقتور وسیلہ بن جاتا ہے۔ اور عاشق کے تحرّک اور فعالیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ دنیائے عشق میں'' فراقِ محبوب '' وصل ِمحبوب''سے بھی کم تر اثر نہیں رکھتا ہے   
عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کر فراق
وصل میں مرگِ آرزو! ہجر میں لذتِ طلب
گرمیٔ آرزو فراق ، شورشِ ہائے ہو فراق
موج کی جستجو فراق،قطرہ کی آبرو فراق                                                                                                                                    
                              علامہ اقبال
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کا کردار مومنانہ ہے اور جس قسم کی صلاحیت خدا نے آپ کو ودیعت کی ہے اس کو مشنِ امام ِ زمانہ کے لئے وقف کریں۔ جیسا کہ اس سے قبل ہی بتایا جا چکا ہے کہ امام اس نیٹ ورک کی گرفت سے باہر ہیں کہ جس کے ہم خوگر ہیں۔ اس لئے ایک معنوی نیٹ ورک کے توسط سے روحانی دنیا میں داخلہ لینا پڑے گا۔
جب ایک مرد مومن اسلامی اقدار و اصول کے سانچے میں ڈھل جائے تو اس کی باطنی صورت اس قدر جاذبِ نظر ہو گی کہ وہ بھی امام کا مطلوب بن جائے۔اور ہر عاشق ِامام کا مقصدِ حیات ہی یہ ہونا چاہئے کہ اس کا ارتباط یک طرفہ نہ ہو اگر وہ عاشقِ امام ہے تو ایسا عاشق ہو کہ وہ بھی امامِ زمانہ کا مطلوب بن جائے۔کیونکہ امام تو ہر کس و ناکس کا محبوب ہو سکتا ہے۔کمال تو یہ ہے کہ محبِ امام ،محبوب ِ امام بھی ہو۔قائدہ کلیہ ہے کہ یک طرفہ محبت کسی کام کی نہیں ہوتی۔مثلاً اگر ایک بچہ اپنی ماں سے متنفر ہو۔ اس  پر ماں کی مامتا اثرانداز نہیں ہو سکتی ہے اور بسا اوقات اظہارِ مامتا سے اس کی نفرت میں ہی شدت آجاتی  ہے۔اور اگر ایک ماں مامتا سے تہی دامن ہو تو ماں کی جانب تمام تر رغبتوں کے باوجودایک بچے کے لئے وہ ماں نہ ہونے کے برابر ہے۔
دو طرفہ ارتباط:
اسلامی تاریخ میں ہمیں بہت سی ایسی زندہ مثالیں جابجا نظر آتی ہیں۔جہاں ارتباط اور عشق و محبت ہر دو جانب تھا۔امام علی  جیسا عاشقِ رسولۖ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔اور پیغمبر ِ اکرام ۖ کو بھی علی کے ساتھ بے انتہاء محبت تھی۔قرآنِ مجیدنے بھی اس دوطرفہ محبت کے معیار کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے  کہ قْل اِن کْنتْم تْحِبّْونَ اللَّہَ فَاتَّبِعْونِی یْحبِبکْمْ اللَّہَ کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے ۔بادی النظر میںصرف مخلوق پر یہ لازم ہے کہ وہ  اللہ کے ساتھ محبت رکھے۔لیکن قرآن کی رو سے اگر مخلوق کی محبت تمامتر شرائط کی پابند ہو اور الٰہی معیار پر کھری اترتی ہو تو اللہ بھی بدلے میںاپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔سلمان، ابو زد،مقداد ، مالک ِ اشترِ،عمارِ یاسر، قنبر ، بلال جیسے امام علی کے رفقائے خاص میںبھی ایک جانب مودتِ علی بدرجہ اتم موجود تھی تو دوسری جانب امام علی کو ان شخصیات سے بے انتہاء لگاو تھا۔وہ عاشقانِ امام اپنے محبوب کے اس قدر مطلوب تھے کہ امام علی ہمیشہ ان کی وقتی جدائی کو بھی برداشت نہیں کر پاتے انہیں پاس نہ پاتے تو کہتے ''این عمار، این ابا زر، این مالک ،این سلمان ، این مقداد،این قنبر،  یعنی سلمان و ابوزر و مقداد و مالک و قنبر جیسے میرے اصحابِ باوفا کہاں ہے۔کربلا تو اسی دوطرفہ عشق و محبت کی بے نظیر داستا ں ہے۔اس لئے اگر ہم بھی آج کے دور میں محبوبیت اور مطلوبیت کا جوہر اپنے آپ میں پیدا کر لیں الفت اور التفاتِ امام کو مدعو کرنے والی صفات خود میں جاگزیں کر لیں۔ تو کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ امام ِ زمانہ بھی امام علی  اور امام حسین کی طرح کہیں کہ کہاں ہے  این فلا ں ،این فلاں یعنی فلاں ،فلاں کہاں ہیںکیونکہ یہ بات طے ہے کہ امت کی بنسبت امام کو امت کے ساتھ ہزار گناہ زیادہ انس و محبت ہوتی ہے۔بظاہر امام کے چاہنے والے امام کے منتظر نظر آتے ہیں لیکن کس شدت کے ساتھ کے امامِ زماں اپنے انصار و یاوراں کی تلاش میں ہیں اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
 دو ر ِ حاضر میں دو طرفہ الفت کے دو نمونے:  
 المختصر یہ کہ ہم ہر لحاظ سے اس قابل ہوں کہ ہم امام کی نصرت کر سکیں۔ ہم میں کوئی نہ کوئی ایسا خاص گن ہو جسے ہمارے لئے امام کے مشن کی آبیاری ممکن ہو۔کیونکہ ان کے مشن کو ایک معیاری افرادی قوت کی ضرورت ہے ان کے مشن میں ارور مرور اور حرج و مرج کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء اور امامت کے مشن سے جو لوگ حقیقی طور وابستہ ہوئے ۔وہ اگر کمیت کے اعتبار سے اکثریت میں نہیں تھے لیکن کیفیت کے اعتبار سے اکثریت پر بھاری رہے ہیں۔
عاشق و معشوق اور محب و محبوب کے مابین یہ مثالی ارتباط صرف گزشتگان کا ہی کام نہیں تھا بلکہ دورِ حاضر میں بھی اس طرح کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دورِ حاضر میں امام خمینی  اور رہبر معظم کے حقیقی پیرو کاروں میں یہ مطلوبہ خصائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔نمونہ کے طور پر ڈاکٹر مصطفی چمران جیسے بہت سے جیالوں کی حیاتِ عشق پرور کو پیش کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ شہید مصطفی چمران پیدائشی طور پر بہت سی مخصوص صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور انہوں نے ان صلاحیتوں کو ایمان و عشق سے جلابخشی۔انسانی ہمدری اور باطل ستیزی کی راہ میں انہیں استعمال کیا۔خلوص کا یہ عالم تھا کہ امریکا میں پی ،ایچ ،ڈی کرنے کے بعد انہیںغالباً دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی خلائی کمپنی ناسا (NASA)میں بحیثیت سائنسداں کام کرنے کی پیش کش کی گئی لیکن اس نے اس پیش کش کو خاطر میں نہ لایا گویا اس کے نتیجے میںملنے والی عیش و عشرت پر پیشگی ہی لات مار دی۔بر عکس اس کے اپنی قوم کی ناگفتہ بہہ حالت کو سدھارنے کے لئے تمام تر مصیبتوں کو گلے لگالیا۔اور ہمہ تن انقلاب اسلامی کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف و محو ہو نے کے ساتھ ساتھ انقلاب دشمن عناصر کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔اور یوں امام راحل کے کاروانِ عشق میں شامل ہو گئے۔شہید مصطفی چمران کی صلاحیتوں اور خلوص کے پیش نظر انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کا پہلا وزیر دفاع بنایا گیا۔ لیکن معمول کے مطابق ڈاکٹر چمران، جماران میں جاکر امام خمینی کے پہلو میں نہیں بیٹھ گئے ۔ بلکہ ایران عراق جنگ میں سرحد پر جا کر عام عسکری رضا کاروں اور سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔یہ بات غیر معمولی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک عظیم سائنس داں ، بے نظیر مفکر ، اور ملکی وزیر دفاع ہونے کے باوجود وہ سرحدی علاقوں میں بر سر پیکار رہتے اور مختلف مہموں میں اس قدر مصروف رہا کرتے کہ ایک عرصے تک اپنے گھر واپس نہ لوٹتے۔ یہاں تک کہ امام خمینی  کہتے کہ مصطفی کو پیغام بھیج دو کہ وہ تہران آجائے اس کی ملاقات کیلئے دل بے تاب  ہے اور آنکھیں اس کی دیدار کے لئے ترس گئی ہیں۔اسی طرح صیاد شیرازی، عباس بابائی ، جیسے پاکباز شہداء کی زندگی امام کے حقیقی پیروکاروں کو امام کے ساتھ مرتبط رہنے کا ہنر سکھاتی ہے۔اور ان کی شہادت کی داستان بھی اس سلسلے میں سبق آموز ہے۔چنانچہ جب صیاد شیرازی کو شہید کیا گیا تو رہبر معظم ان کی دائمی جدائی سے اس قدر بے چین، مغموم، اور دل برداشتہ ہو گئے کہ رات کے پچھلے پہر چل کر ان کی قبر پر جا کر بیٹھ گئے اور باربار یہ جملہ دہراتے رہے کہ ''دلم برائے صیاد گرفتہ'' کہ صیاد کی جدائی سے میرا دل غمزدہ ہے''

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انتظار احادیث كی روشنی میں
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
کا شتکاری کے نتیجوں میں برکت
منتظرين کے فرائض
حضرت امام مہدی کی معرفت کی ضرورت
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
امام مہدی عج اہل سنت کی نگاہ میں
امام عصر کی معرفت قرآن مجید کی روشنی میں
حضرت امام زمانہ (عج) کي نظر ميں شيخ مفيد کا مرتبہ
انتظار اور فطرت

 
user comment